مبارک ہو! چوہدری شجاعت حسین انقلابی ہو گئے۔پتہ نہیں کتنے دن رہیں گے؟ لیکن جب حواس بحال ہوئے تو ہڑبڑا کر پوچھیں گے ضرور کہ مجھے انقلابی کس بدبخت نے بنایا؟ اچھی بھلی سیاست کرتے آرہے تھے۔ اپنے والد کے مقابلے میں بہت آگے بڑھے۔انہوں نے چار ساڑھے چار عشرے سیاست کر کے‘ صرف ایک وزارت دیکھی۔ چوہدری شجاعت حسین نے سیاست کی آنکھ کرسی وزارت پر بیٹھ کرکھولی ۔ ان کی وزارتوں میںبہت کم وقفہ آیا۔ایک وزارت سے نکلے۔ گجرات کا چکر لگایا۔ واپس آکر پھر وزیر بن گئے۔ پرویز مشرف سمیت‘ دنیا اس وقت بھونچکا رہ گئی جب چوہدری صاحب وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے۔مسئلہ ظفر اللہ جمالی سے جان چھڑانے کا تھا۔ انہیں چوہدری شجاعت حسین کی تجویز پر ہی وزیراعظم بنایا گیا تھا۔ان کی ڈیوٹی صرف یہ تھی کہ فوجی آمرنے اپنی حکمرانی کا دھندہ‘ جمہوریت کا لیبل لگا کر چلانے کا بندوبست کیا تھا۔لیبل پر برانڈ کا نشان چھاپنے کے لئے‘ جمالی صاحب کو ماڈلنگ پر لگا دیا۔ جمالی صاحب کے سوا کسی نے سنجیدگی سے انہیں وزیراعظم نہیں سمجھا۔ انہیں دیکھتے ہی ہر کسی کو ہنسی آجاتی۔خود پرویز مشرف بھی ان کی باتیں سن کر‘ ہنستے ہنستے دہرے ہو جاتے تھے۔چوہدری شجاعت حسین جو اپنے خوبصورت جملوں سے ساری دنیا کو ہنساتے ہیں مگر خود نہیں ہنستے، وہ بھی جمالی صاحب کو بطور وزیراعظم دیکھ کر کھل کر ہنسا کرتے۔ جمالی صاحب کی شہرت اس قدر پھیلی کہ وائٹ ہائوس سے جنرل مشرف کو فرمائش آئی کہ ذرا اپنا وزیراعظم ہماری طرف بھی بھیج دیجئے۔ جمالی صاحب کو امریکہ کے دورے پر بھیجا گیا ۔ امریکی عوام اور میڈیادونوں خوب لطف اندوز ہوئے۔ ہمارے وزیراعظم کو خود دیکھا۔ بچوں کو دکھایا۔ اپنے پالتو جانوروں کو دکھایا۔کئی بلیاں انہیں دیکھ کے ہنستی ہنستی بے ہوش ہو گئیں۔ کچھ کتوں نے کھڑکیوں سے کود کر ان کا پیچھا کرنے کی کوشش کی۔ ان کی آمد پر وائٹ ہائوس کا سکیورٹی سسٹم درہم برہم ہو گیا۔ اس سسٹم کے اندرآنے والی ہر چیز کا خاکہ کمپیوٹر کے اندر پہلے سے موجود ہوتا ہے مثلاً کاریں اندر جا سکتی ہیں لیکن جب ٹرک‘ اندر داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو الارم بجنے لگتے ہیں۔ فوراًپتہ چل جاتا ہے کہ کوئی غیر معمولی چیزسکیورٹی سسٹم کے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔اسی طرح انسانوں کے خاکے بنے ہوئے ہیں‘ جن میں ہر سائز کے انسانوں کے داخل ہونے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ لیکن جب جمالی صاحب وائٹ ہائوس کے مرکزی دروازے کے سامنے آئے‘ تو سائرن بج اٹھے۔امریکی صدر خود ڈرگئے کہ یہ کیسا خطرہ آدھمکا ؟ جس کی وجہ سے سکیورٹی سسٹم کے چھکے چھوٹ رہے ہیں۔فوراً ہی سکیورٹی چیف بھاگتا اور ہانپتا ہوا صدر کے قریب آیا۔ انہیں تسلی دی کہ ڈر کی بات نہیں‘ اصل میں مرکزی دروازے سے نارمل انسانوں کے گزرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ کمپیوٹر میں فیڈ کئے ہوئے سائز کے مطابق انسان کا جو سائز ہے‘ معزز مہمان کا سائز اس سے زیادہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ سکیورٹی سسٹم حرکت میں آگیا۔ہم ابھی گنجائش پیدا کر دیتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جتنی دیر جمالی صاحب وائٹ ہائوس کے اندر رہے ‘ اس کا سکیورٹی سسٹم معطل رہا۔
اوول آفس میں صدر امریکہ اور جمالی صاحب نے تبادلہ خیال کیا۔ بات چیت ختم کر کے جب اٹھے‘ تو جمالی صاحب نے صدر سے بطور خاص درخواست کی کہ وہ ان کی ایک بات سن لیں۔صدر نے بے فکری سے کہا‘ آپ یہیں پر بات کر لیں۔ یہ بڑی محفوظ جگہ ہے۔ لیکن جمالی صاحب سرگوشیوں پر اتر آئے ۔ صدر سراسیمہ ہو کر ان کے ساتھ گرائونڈ میں آگئے۔ وہاں ٹہلتے ٹہلتے جمالی صاحب نے اچانک یہ کہہ کر صدر صاحب کو حیران کر دیا کہ'' آپ ذرا میری پیٹھ تھپتھپا دیں‘‘۔ صدر حیران ہو گئے کہ اتنا بڑا آدمی مجھ سے کیا فرمائش کر رہا ہے؟ ایسی خواہش تو بچے اور نوجوان کرتے ہیں۔ ایک بڑے ملک کے بھاری بھرکم وزیراعظم کو‘ تھپکی کی کیا ضرورت پڑ گئی؟ تفصیل سن کر‘ صدر کو معلوم ہوا کہ وہ امریکہ کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ صدر صرف مہربانی فرما کر انہیں تھپکی دے دیں۔جمالی صاحب بعد میں پاکستان پہنچے‘ تھپکی پہلے پہنچ گئی۔ اسلام آباد میں ہنگامی طور پر فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم بدل دیا جائے۔کمرے کا بلب تو بدلا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم اتنی جلدی کیسے بدلا جائے؟ جتنی مسلم لیگ چوہدری صاحب کے ہاتھ لگی‘ اپنے گھر جمع کر لی۔ مختلف ناموں پر غور ہونے لگا کہ وزیراعظم کسے بنایا جائے؟ جب بھی کوئی نام آتا‘ چوہدری صاحب کوئی نہ کوئی اعتراض کر کے
اسے مسترد کر دیتے۔پتہ نہیں کتنے اراکین قومی اسمبلی کے نام بطور وزیراعظم تجویز اور رد کئے گئے۔ جس کا بھی نام تجویز ہوتا‘ اس کی باچھیں کھل جاتیں۔دل کے سمندر میں امنگوں کے تھپیڑے ٹکریں مارنے لگتے۔ وہ اپنی کابینہ بنانے لگتا اور جیسے ہی اس کا نام مسترد ہوتا ‘ وہ بے دلی کے ساتھ اپنی''وزارت عظمیٰ ‘‘ سے یوں دست بردار ہوتا جیسے واقعی اسے اقتدار سے محروم کر دیا گیا ہو۔کئی وزیراعظم بنے اورنکالے گئے۔ آرام کی زندگی گزارنے والے کتنے اراکین اسمبلی امیدو بیم کے طوفانی لمحات سے گزرے؟ خواہشوں کی بلندیوں میں پرواز کی۔ واپس اپنی کرسی پر آبیٹھے اورپتہ نہیں بیچاروں کے کتنے دن بے زاری‘ اکتاہٹ اور مایوسی میں گزرے؟ درجنوں ممبران اسمبلی کو فٹا فٹ وزیراعظم بنانے اور برطرف کرنے کے بعد‘ آخری نام چوہدری شجاعت حسین کا آگیا۔وہ قومی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہیں‘ جو اپنی مقررہ مدت پوری کر کے‘ فارغ ہوئے۔ وہ روزاول ہی سے جانتے تھے کہ ان کی وزارت عظمیٰ 90 دن کی ہے۔ کسی کو ان کے خلاف سازش نہیں کرنا پڑی۔ کسی نے انہیں برطرف نہیں کیا۔ 90 دن پورے کئے اور عزت و آبرو کے ساتھ گھر واپس آ گئے۔
جستجو کے باوجود مجھے پتہ نہیں چل سکا کہ چوہدری صاحب کو انقلابی کس نے بنا دیا؟ ان کے بزرگ ہمیشہ دائیں بازو کی سیاست کرتے رہے۔ خود چوہدری صاحب بھی دائیں بازو کے ساتھ رہے۔ بائیں بازو سے ہمیشہ انہوں نے‘ بائیں بازو والا کام لیا۔مجھے کوئی ایسا آدمی نہیں ملا‘ جس نے چوہدری صاحب کو کتاب پڑھتے دیکھا ہو۔ جتنا پڑھا‘ بی اے کرنے کے لئے پڑھا۔ ڈگری لے کر پڑھے لکھے ہو گئے۔ بعد میں پڑھنا تضیع اوقات ہے اور ہمارے چوہدری صاحب کے پاس ضائع کرنے کے لئے کبھی وقت نہیں رہا۔ چوہدری پرویزالٰہی عمدہ انتظامی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ بیوروکریسی سے کام لینا جانتے ہیں۔ ضرورت مندوں کے کام آتے ہیں۔ وہ اپنے طبقے اور سیاسی نظریئے کی وجہ سے کبھی انقلابی نہیں بنے۔ انقلابی کام کر کے بھی‘ انقلاب کا نام نہیں لیا۔ چوہدری ظہورالٰہی کا پورا خاندان دائیں بازو کے خیالات رکھتا ہے۔ نماز پڑھتا ہے۔ دولت کماتا ہے۔ فراخ دلی سے خرچ کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو انقلابی بننے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ چواین لائی کا تعلق رئیس خاندان سے تھا۔ ہمارے میاں افتخارالدین بھی رئیس زادے تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور ذوالفقار علی بھٹو بھی دولت مند خاندانوں کے چشم و چراغ تھے۔ دونوں نے بہت پڑھا۔ لیکن پورے انقلابی نہیں بن پائے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ یہ رعایت دی جا سکتی ہے کہ آدھا انقلابی کہہ دیں۔ چواین لائی اور میاں افتخارالدین‘ اپنی اپنی جگہ پورے انقلابی تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ چواین لائی نے خود انقلابی بن کر‘اپنے عوام کی حالت بدلی۔ میاں افتخارالدین نے انقلابیوں کی کفالت کر کے‘ انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ایک بڑا اخباری ادارہ بنایا اور جتنے انقلابی مارکیٹ میں دستیاب تھے‘ سب کو کارکن بنا کر اجازت دے دی کہ اب جتنا انقلاب چاہو‘ لاتے رہو۔ اگر تم لوگ کامیاب ہو گئے‘ تو جو دولت اخبارات سے بچ کر میرے پاس رہ جائے گی‘ وہ بھی چھین لینا اور اگر تم لوگ انقلاب نہ لا سکے‘ تو میرا پیسہ‘ میرے پاس چھوڑ دینا۔ ان کی دوسری بات درست ہو گئی۔ ان کے بھرتی کئے ہوئے بعض انقلابی‘ منزل تک پہنچے بغیر ہی دنیا چھوڑ کے جاتے رہے اور جو دنیا نہ چھوڑ سکے‘ وہ نوکریاں چھوڑ گئے۔ جو پھر بھی باقی رہ گئے‘ نوکریوں نے انہیں چھوڑ دیا۔ پاکستان میں انقلاب کافی عرصے تک لاوارث رہا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شہبازشریف صوبے کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ انقلابی ہو گئے۔ اب وہ جلسوں میں جاتے ہیں۔ حبیب جالب کے شعر سناتے ہیں۔ غریبوں کے حق میں انقلابی تقریریں کرتے ہیں اور سونے کے لئے‘ اپنے محل میں واپس چلے جاتے ہیں۔ میں نے بہت ڈھونڈاکہ مجھے وہ بندہ مل جائے جس نے چوہدری صاحب کو انقلابی بنایا۔ ابھی تک وہ میرے ہاتھ نہیں لگا۔ آخر میاں شہبازشریف نظر آ گئے۔ سیاست میں یہ دونوں خاندان ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ کوئی پیچھے رہنا پسند نہیں کرتا۔ ہو نہ ہو‘ چوہدری صاحب نے‘ شہبازشریف سے سیاسی حساب کتاب برابر کرنے کے لئے انقلابی بننا قبول کیا ہے۔پاکستان کے پاس اب دو انقلابی ہو گئے ہیں۔ جماعت اسلامی کو مبارک ہو کہ پاکستان انقلاب سے بچ گیا۔