"NNC" (space) message & send to 7575

ایک انوکھا خط اور وغیرہ وغیرہ

گزشتہ روز دنیا نیوز کے پروگرام ''خبر یہ ہے‘‘ میں انیق ناجی نے ایک خط پڑھ کر سنایا ۔ مکتوب الیہ کے سوا‘ سب اسے پڑھ سکتے ہیں۔ اس خط کے ذریعے ہمیں ایک تازہ خبر ملی ہے کہ مردہ ضمیروں کے اس قبرستان میں‘ جسے پاکستان کہتے ہیں‘ کہیں کہیں انسانیت کے چراغ ابھی تک جل رہے ہیں۔ یہ خط‘ جو ایک انگریزی اخبار میں وقار احمد نے لکھا ہے‘ اس نامولود بچے کے نام ہے‘ جسے دنیا میں آنے سے پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ کے زیر سایہ قتل کر دیا گیا۔ نامولودوں کا قتل برصغیر میں نئی بات نہیں مگر ایسا‘ بلووں میں ہوتا ہے‘ جب نام نہاد مذہبی دہشت گردی اور درندگی کا غلبہ ہو۔ 2002ء میں بھارتی ریاست گجرات کے اندر‘ جب ہندو وحشیوں نے نہتے اور مظلوم مسلمانوں پر حملے کئے تو زندگی کی بھیک مانگتی مائوں کے پیٹ چاک کر کے‘ بچے نکالے گئے اور انہیں برچھیوں پر ٹانگ کر رقص اجل کے نظارے کئے گئے مگر جس کے نام لکھا گیا خط‘ ہم پڑھ رہے ہیں‘ اسے اپنے نانا‘ ماموں اور دیگر قریبی رشتہ داروں نے مل کر ماں کے بطن میں ہی قتل کر دیا۔ ''بدقسمتی سے‘ میں کبھی تمہاری برتھ ڈے نہیں دیکھ سکوں گا۔ میں ابھی ابھی تمہارے جنازے سے آیا ہوں۔ میں کبھی نہیں جان پائوں گا کہ جب تمہیں اینٹیں اور پتھر مارے جا رہے تھے تو تمہیں کتنی تکلیف ہوئی؟ یہ پتھر تمہارے نانا اور ماموں نے مارے تھے اور تمہارے ساتھ تمہاری ماں کو بھی ہلاک کر دیا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ تمہارے باپ نے تمہیں بچانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اس ہجوم میں سے کوئی آگے بڑھا جو تمہاری ان دیکھی اور ان سنی موت کا نظارہ کر رہا تھا۔ ہر چند میں وہ منظر دیکھنے کے لئے وہاں نہیں تھا‘ پھر بھی میں اپنے آپ کو تمہارے قتل کا گناہگار سمجھتا ہوں۔ میں برسوں سے تمہارے قتل کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے دیکھتا آ رہا ہوں‘ جن میں تمہارے جیسے بہت سے معصوموں اور مائوں کو‘ جانوروں کی طرح ذبح کیا گیا‘ محض اپنی نام نہاد عزت کے نام پر۔ مجھے افسوس ہے کہ میں تمہیں پیدائش سے پہلے‘ مرتے ہوئے دیکھتا رہا۔ زندگی بے رحم ہے لیکن اس میں لطف اندوزی کے لمحات بھی آتے ہیں۔ تم ماں کی گود کی گرمی سے محروم رہے۔ اپنے بزرگوں کے بوسوں کا ریشم‘ اپنے گالوں پر محسوس نہ کر سکے۔ تم اپنی آنکھیں کھول کر‘ دنیا کے حیرت میں ڈالنے والے مناظر کبھی نہیں دیکھ پائو گے۔ نیلا آسمان‘ پرندے‘ پھول‘ دریا اور بارش۔ تم خوبصورت کہانی کے جادو بھرے تجربے سے محروم رہے اور خود کوئی کہانی لکھنے کی مسرت‘ سنسنی اور جوش کا مزہ بھی نہیں لے سکے۔ تم ناقابل علاج بیماروں کے علاج ڈھونڈ سکتے تھے۔ تم دنیا کی خوبصورت ترین تصویر بنا سکتے تھے۔ افسوس ایسا نہ ہو سکا اور تم اپنی ماں کے پیٹ کے اندر سے‘ سیدھے قبر میں جا اترے‘ جہاں تمہیں پہلی سانس کے لئے‘ ہوا نصیب نہ ہوئی۔ لیکن شاید تمہارے لئے یہی کچھ بہتر تھا۔ شاید تم ایک پُرمسرت جگہ پر ہو گے‘ جو تم پیدا ہونے کے بعد نہیں دیکھ سکتے تھے‘‘۔ خط کے اگلے حصے میں مرنے والی خواتین کو مخاطب کیا گیا ہے ''فکر مت کرو‘ یہاں بہت سی بچیاں تمہاری طرح ہیں‘ پیدا ہونے سے پہلے اور بعد‘ جو روزانہ تمہارے ساتھ آ ملتی ہیں۔ جب میں تمہارے نام لکھی گئی یہ سطور ختم کروں گا‘ بہت سی دوسری تمہارے ساتھ آ ملیں گی۔ تمہارے 
ساتھ چھیڑ خانیوں اور کھیل کے مزے لیں گی۔ اس غیر متوازن ٹیم میں‘ لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں شامل ہوں گی۔ دیکھو میری بچی! تمہارا تعلق ایک ایسی نوع سے ہے‘ جسے انسان کہا جاتا ہے۔ جو اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہتا ہے۔ میری نظر میں یہ ارتقائی عمل کی پست ترین سطح پر ہیں۔ ایک بلی یا ایک کتا‘ تمہاری زیادہ دیکھ بھال کر سکتا ہے‘ تمہارا زیادہ خیال رکھ سکتا ہے۔ تمہیں قہر سے بچا سکتا ہے اور تمہیں اتنا طاقتور بنا سکتا ہے کہ زیادہ طاقتور جانور بھی‘ تمہیں نقصان پہنچانے سے پہلے سو مرتبہ سوچیں گے اور آخر کار جب تم طاقتور ہو جائو تو یہ تمہیں دنیا کو از خود دریافت کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیں گے۔ دیکھو‘ اب مت رونا‘ آنسو دنیا میں ہوتے ہیں‘ جنت میں نہیں۔ جو تمہارے ساتھ ہوا‘ اس پر شکر کرو۔ اگر تم واقعی پیدا ہو جاتی تو اس بات کے امکانات دس فیصد سے زیادہ نہیں تھے کہ تم کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہو جاتی۔ تکلیفیں اٹھاتی اور پانچ سال کی عمر ہونے سے پہلے مر جاتی۔ اگر بچ رہتی‘ تمہارے سکول جانے کے صرف تیس فیصد چانس ہوتے اور سولہ سال کی عمر ہونے یا اس سے پہلے‘ تمہاری شادی کسی اجنبی سے ہو جاتی۔ اگر تم اس شادی سے انکار کرتی‘ تم قتل ہو سکتی تھی اور اگر تم اس شادی سے بچ کر بھاگ نکلتی تو تمہارا انجام جسم فروشی کے کسی اڈے پر ہوتا یا بھیک مانگتے ہوئے بچوں کے ہجوم میں۔ اور اگر تمہیں کوئی نوجوان مل جاتا‘ جس کی محبت میں گرفتار ہو کر تم شادی کر لیتی۔ تمہارا باپ یا تمہارے بھائی تمہیں قتل کر دیتے۔ پاکستان کی مظلوم بیٹیو! اگر تم دو چار سال کی زندگی کے بدلے میں‘ عمر بھر کی تکلیفیں چن لیتیں‘ تو یقیناً یہ اچھا سودا نہ ہوتا۔ وہ ایک اینٹ‘ جو تمہیں ایک ہی ضرب میں ہلاک کر دیتی ہے‘ ان ہزاروں تھپڑوں‘ ٹھوکروں‘ پتھروں اور تیزاب کی بوتلوں سے بہتر ہے جو تمہارے جسم کو جھلسا اور چہرہ بگاڑ کے تمہاری باقی زندگی کو جہنم بنا دیتیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنا خط تمہیں کہاں بھیجوں؟ میرے پاس تمہارا ایڈریس نہیں۔ یہ بھی بہتر ہے‘ میں نہیں چاہتا کہ تمہاری خوشیوں کو‘ ان دکھوں سے داغدار کروں‘ جو تمہارے پاس بچ رہی ہیں‘ ان غموں کے پیچھے‘ جن میں تم اور تمہاری ماں رہ رہی ہوتی‘‘۔
باقی جگہیں بھرنے کے لئے چند ٹوٹے پیش خدمت ہیں۔
مریم نواز کی تقریر کا عنوان ''آپ ابو جان کے کس کس کارنامے سے انکار کریں گے؟‘‘
-------------------
جناب صدر کی تقریر کو کچھ وزراء نے‘ زبان دانی کا عمدہ نمونہ قرار دیا لیکن انہوں نے اپنی تقریر کے دوران ''سیسہ پلائی‘‘ دیوار کو‘ شیشہ پلا دیا۔ اپنی تقریر میں وہ یہی لفظ بولے تھے۔ اردو زبان میں یہ دونوں لفظ موجود ہیں۔ سیسہ بھی‘ اور شیشہ بھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شیشہ کانچ یا آئینے کو کہا جاتا ہے اور سیسہ نیلاہٹ مائل ایک دھات کو کہتے ہیں۔ 
-------------------
''سیاست دانوں کی موجودہ کچرا منڈی میں اب کچھ نہیں رہا۔ لیڈر ڈھونڈنا ہے تو کہیں اور جائو‘‘۔
-------------------
کراچی کے ہر شہری نے گھر میں کہہ رکھا ہے ''اگر میں اغوا ہو جائوں تو سمجھ لینا کہ میں کہاں ہوں‘‘؟
'' پتہ پولیس کو بھی ہوتا ہے لیکن وہ اپنا حصہ براہ راست نہیں لیتی‘ اغوا کرنے والوں سے لیتی ہے‘‘۔
-------------------
ایک وزیر کا عمران خان کو پیغام! ''عمران خان پانچ سال تک حکومت نہیں بنا سکتے‘‘۔
خان صاحب کو مبارک ہو! ''انہیں پانچ سال بعد حکومت بنانے کی اجازت مل گئی ہے‘‘۔
-------------------
سینیٹ میں اپوزیشن کی شکایت ''وزیر اعظم سینیٹ میں نہیں آتے‘‘۔
''وہ سینیٹر ہیں ہی نہیں‘ قومی اسمبلی کے رکن ہیں‘‘۔
-------------------
وفاقی وزیر پیر ریاض حسین شاہ کو بتایا گیا کہ ''سپین کے بادشاہ کارلوس نے 39 سال‘ تخت نشینی کے بعد بیٹے کو تاج پہنا دیا‘‘۔
''یہ کون سی بات ہے؟ مجھے موقع ملا تو میں صرف 38 سال بعد وزارت بیٹے کو دے دوں گا‘‘۔
-------------------
سیاسی رہنمائوں میں صرف ایک شخص خدا ترس نکلا۔ یہ تھا جماعت اسلامی کا نصراللہ شجیع۔ اس نے ایک ڈوبتے ہوئے بچے کو بچانے کے لئے دریا میں چھلانگ لگائی اور موت کی آغوش میں چلا گیا۔ کون کہتا ہے کہ ''خدا ہم پر مہربان ہے؟‘‘
-------------------
''وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق ریلوے ہسپتال میں‘ ایکسرے کروانے میں ناکام رہے کیونکہ مشین خراب تھی۔ لیکن خواجہ صاحب کا دن خراب نہیں تھا۔ ایکسرے ہوتا تو اندر انجن دکھائی دیتا‘‘۔
-------------------
اسلام آباد میں ایف آئی اے نے‘ پانچ ازبک لڑکیاں گرفتار کر رکھی ہیں۔ وہ اپنے ساتھ بہت سے وقت گزارنے والوں کے نام بتا رہی ہیں۔ ایف آئی اے کا اصرار ہے ''وہ اپنے بیان میں یہ کہہ دیں کہ ہم انہیں ہلاک کرنے آئی ہیں‘‘۔
''لڑکیاں انکار کر رہی ہیں حالانکہ وہ واقعی ہلاک کرنے کے مشن پر تھیں‘‘۔
-------------------
جناب اسحاق ڈار نے اپنے دوسرے بجٹ میں‘ بھی عوام کو مہنگائی میں اضافے کا ایک اور قابل فخر تحفہ پیش کر دیا۔ میں ان کا شکر گزار ہوں۔ اس بجٹ میں بچے‘ ڈار صاحب کی مہربانی سے محفوظ رہ گئے۔
-------------------
صدر ممنون نے قومی اسمبلی میں سالانہ خطاب میں انتباہ کیا ''ریاستی ادارے سیاسی پسند‘ ناپسند چھوڑ دیں‘ قانون کے مطابق چلیں‘‘۔
صدر مملکت نے تسلیم کر لیا کہ ریاستی ادارے پسند ناپسند کی غیرقانونی حرکات کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے صدر مملکت نے انہیں قانون کے مطابق چلنے کا حکم دیا۔ یہ بھی بتا دیا جاتا تو بہتر ہوتا کہ کون سا ادارہ کس ادارے کو ناپسند کرتا ہے؟ اور کون سا ادارہ کس ادارے کو پسند کرتا ہے؟ خلاف قانون حرکات کرنے والوں کی نشاندہی کر دی جائے تو اچھا رہتا ہے‘ ورنہ سارے ریاستی ادارے مشکوک ہو جاتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں