"NNC" (space) message & send to 7575

دوراہا

جنگ سے تو اب ہم نہیں بچ سکتے۔ ایک طرف طالبان کے نام سے دہشت گردوں کے منظم ٹولے ہیں‘ جو ہماری ہی سرپرستی میں‘ افغانستان اور دیگر پڑوسی ملکوں کے اندرتباہی پھیلانے کے لئے تیار کئے گئے تھے۔ دو سری طرف ایک ابھرتا ہوا نیا عالمی اتحاد ہے‘جو دہشت گردوں کی طاقت میں اضافہ ہوتے ہوئے دیکھ کر‘ پاکستان میں مداخلت کے امکانات کے جائزے لے رہا ہے۔ اگر پاکستان‘ دہشت گردوں کو غیرموثر نہ کر سکا‘ تو پھر بیرونی طاقتیں‘ ہماری مرضی سے یا مرضی کے خلاف ‘ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے مراکز پر کارروائیاں کریں گی۔ اس بات کے خدشات بہت دنوں سے پائے جا رہے تھے۔ اب وہ حقیقت بنتے نظر آنے لگے ہیں۔ دہشت گردوں کا نیا ہدف چین ہے۔ وہ پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر کے‘ چاہتا ہے کہ یہاں معاشی اور سیاسی استحکام پیدا کرے۔ لیکن بعض طاقتیں‘ چین کی مدد سے قائم ہونے والے منصوبوں کو‘ سبوتاژ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اگر یہ منصوبے مکمل ہو گئے‘ تو پاکستان نہ صرف مضبوط اور مستحکم ہو جائے گا‘ اسے اندرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے وسائل بھی دستیاب ہو جائیں گے۔ ہمارے کچھ روایتی دشمنوں اور ملک کے اندر موجود دہشت گردوںکو ترقی کا یہ عمل گوارا نہیں۔خصوصاً القاعدہ‘ جو پاکستانی ریاست پرقبضے کے منصوبے رکھتی ہے‘ کا دیرینہ منصوبہ ہے کہ یہاں ریاست اور معیشت دونوں کو کمزور کر کے‘ اپنا مرکز بنایا جائے۔ اس مقصد کے لئے محض دہشت گردی ہی نہیں دیگر ذرائع بھی استعمال کئے جا رہے ہیں اور ہمارے ریاستی اداروں کے اندر‘خفیہ حامیوں کی تعداد میں اضافہ کر کے‘ اندر سے سازشیں کی جا رہی ہیں۔ ایسی کئی خفیہ تنظیموں کا سراغ لگا کرانہیں ختم کیا جا چکا ہے۔ لیکن کچھ تنظیمیں جو برسرعام تحریری اور تبلیغی سرگرمیاں شروع کر چکی تھیں‘ انہیں ایک بار پھر زیرزمین جانے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور مراکز کے خلاف‘ دہشت گردی کی بیشتر کاررو ائیاں القاعدہ کے زیراثر یا اس کے حامی دہشت گردوں کے ذریعے انجام دی جا رہی ہیں۔ کامرہ‘ پشاور ایئرپورٹ‘ مہران نیول بیس اور کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والی کارروائیاں‘ دہشت گردوں کے عالمی گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہیں۔ گزشتہ روز کراچی کے ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والے بیشتر دہشت گرد ازبک اور چیچن تھے۔ تحریک طالبان پاکستان یا اس طرح کے دوسرے گروپ ‘ ان کارروائیوں کا کریڈٹ ضرور لیتے ہیں لیکن تخریب کاری کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا کام خفیہ عالمی تنظیموںکے اپنے اراکین کرتے ہیں۔طالبان کو پاکستان کے اقتصادی مراکز سے کوئی خطرہ نہیں۔ یہ عالمی دہشت گرد تنظیموں کا ہدف ہوتے ہیں۔ کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے حملوں کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ شہری ہوابازی کی صنعت کو تباہ کر کے‘ ہمارے عالمی رابطے محدود کئے جائیں۔ اگر آپ تفصیل سے نوٹ کریں تو پاکستان کے شہروں میں ہونے والی تخریب کاری کی بیشتر وارداتوں کا فوری نتیجہ یہ نکلتا رہا ہے کہ کوئی نہ کوئی بیرونی ایئرلائن‘ پاکستان میں اپنی پروازیں بند کر دیتی ہے۔ جب لال مسجد کا واقعہ ہوا‘ تو اس وقت کئی انٹرنیشنل ایئرلائنز نے پاکستان میں جہاز اتارنا بند کر دیئے تھے۔ اس وقت بھی برطانیہ کے سوا‘ دنیا کی بیشتر بڑی ایئرلائنز پاکستان میں اپنی سروس بند کر چکی ہیں اور عین ممکن ہے کہ حالیہ واقعات کے بعد‘ جو دوچار ایئرلائنز خدمات فراہم کر رہی ہیں‘ ان میں سے بھی کوئی پاکستان میں اپنا آپریشن بند کر دے۔ ایسے دوررس نتائج کے حامل منصوبے ‘اعلیٰ مہارتیں رکھنے والی تنظیمیں ہی بنا سکتی ہیں۔طالبان کی دہشت گردی‘ متعصبانہ مذہبی جذبات اور فرقہ ورانہ منافرت پر مبنی ہوتی ہے یا وہ اپنے مالی وسائل میں اضافے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران‘ پاکستانی فوج کی کارروائیوں سے طالبان کو جو نقصانات اٹھانا پڑے‘ ان کے نتیجے میں وہ دبائو میں آنے لگے تھے۔ ہوسکتا ہے کراچی کا یہ آپریشن‘ ان کے بیرونی مددگاروں نے حوصلہ افزائی کے لئے کیا ہو ؟
پاکستان کے بیرونی رشتوں کی راہیں دشوار کر کے‘ اسے دنیا سے الگ تھلگ کرنا‘ ان کے مرکزی منصوبے کا حصہ ہے۔اس کارروائی سے انہیں دہرا فائدہ ہوا۔ ان کے وسیع تر منصوبے کی طرف ایک قدم مزید آگے بڑھ گیا اور طالبان کے پست ہوتے ہوئے حوصلے سنبھل گئے۔ 
پاکستان کے اندر‘ دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے‘ چین بے حد پریشان ہے۔ ان کالموں میں بارہا لکھا جا چکا ہے کہ چین کے اندر دہشت گردوں کے پھیلتے ہوئے اثرات‘ اس کے لئے تشویش ناک ہیں۔ وہاں کارروائیاں کرنے والے بیشتر دہشت گرد‘ پاکستان سے تربیت لے کر وہاں جاتے ہیں۔ چین برسوں سے‘ پاکستان کو مشورے دے رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کا جلدازجلد خاتمہ کرے۔ اس مقصد کی خاطر وہ بھرپور مدد کر رہا ہے۔ حکومت اقتصادی منصوبوں میں چین کی سرمایہ کاری کو مصلحتاً کم بتاتی ہے۔ اصل میں جو سرمایہ کاری ہونے جا رہی ہے‘ وہ اس سے دوگنا ہے‘ جتنی کہ بتائی جا رہی ہے۔ مصلحت کی وجہ امریکہ اور بھارت ہیں۔ 
ہم اپنی تاریخ کے ایک فیصلہ کن موڑ پر آ گئے ہیں۔ ماضی میں جب بھی ہمارے لئے مواقع پیدا ہوئے‘ ہمارے حکمرانوں نے اپنے گھٹیا مفادات حاصل کر کے‘ قوم کو ان بڑے فوائد سے محروم رکھا‘ جو حاصل کر لئے جاتے ‘ تو ہم نقصانات سے بھی محفوظ رہتے اور فوائد بھی حاصل کر لیتے۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم چند ٹکوں کے عوض‘ دوسروں کے آلہ کار بن کے‘ اپنا ہی گھر برباد کرتے رہے‘ جس کی تازہ مثال یہ ہے کہ چند بلین امریکی ڈالروں کے بدلے‘ 100بلین ڈالر کا اپنا نقصان کر بیٹھے اورہزاروں پاکستانیوں کی جانوں کا نقصان اٹھایا۔تاریخ نے جو موقع اس وقت ہمیں دیا ہے‘ اگر ہم اس سے فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی کر لیں‘ تو نہ صرف ماضی کے نقصانات کی تلافی ہو سکتی ہے ‘ بلکہ پسماندگی اور بحرانوں سے نکل کر ہم استحکام اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔ دنیا کی کم و بیش تمام بڑی طاقتیں‘ صرف ایک چیز چاہتی ہیں کہ ہم اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دیں اور انہیں دوسرے ملکوں کے خلاف دہشت گردی کے منصوبے بنانے اور ان پر عمل کرنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیں۔ ایسا کرنے کے لئے ہمیں ہر طرح کی تکنیکی اور مالی مدد بھی فراہم کی جائے گی اوربدلے میں ہم اپنی ہی ریاست کے دشمنوں کا خاتمہ کر کے‘ امن اور سکون کی زندگی بحال کر سکیں گے۔ اس سے اچھاموقع اور کیا ہو سکتا ہے؟ 52بلین ڈالر کی سرمایہ کاری صرف چین 
کرنے والا ہے۔ یورپ‘ امریکہ اور روس بھی اس مقصد کے لئے تعاون کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت بھی مراعات دینے کو تیار ہو جائے گا۔ میں خواب و خیال کی باتیں نہیں کر رہا۔حقیقت میں سارے مذکورہ ممالک‘ اس امکان کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اگر پاکستان‘ دہشت گردوں کو دوسرے ملکوں میں کارروائیوں سے نہیں روکتا‘ تو پھر وہ اپنے دفاع کے لئے مل کرکیا کچھ کر سکتے ہیں؟ پاکستان کو بیرونی فوجوں کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس وافر افرادی قوت موجود ہے۔ ہمارے لوگ جنگجو ہیں اور عسکری تربیت‘ فطری طور پر تیزرفتاری سے مکمل کر سکتے ہیں۔ محض وسائل کی ضرورت ہے‘ جبکہ چین نے ممکنہ اقدامات کے لئے انسداد دہشت گردی کی خصوصی فورس بھرتی کر لی ہے اور 70 ہزار جوان‘ تربیتی مشقیں کرنے میں مصروف ہیں اور پاکستان میں چین کے تعاون سے بننے والے منصوبوں پرکام کرنے کے لئے‘ چین کی جو افرادی قوت آئے گی‘ وہ عسکری تربیت سے لیس ہو گی۔ ہمارے سماج میں دہشت گردی کا جو ناسور پیدا ہو چکا ہے‘ ہم اکیلے اس کا خاتمہ نہیں کر سکیں گے۔ ہماری قوت مزاحمت کم سے کم تر ہوتی جائے گی اور یہ ناسور پھیلتا جائے گا۔ یہی وقت ہے کہ ہم عالمی برادری کی مدد سے اس ناسور سے نجات حاصل کر لیں۔ دوسری صورت میں دہشت گرد قدم بقدم آگے بڑھتے رہیں گے۔ وہ پولیو کے خلاف مہم چلا کر‘ پاکستانیوں کو بیرونی سفر کی سہولت سے محروم کر چکے ہیں۔ فرقہ واریت کی بنیاد پر خانہ جنگی کی فضا ہموار کر رہے ہیں۔ ہماری صنعتوںاور تجارتی اداروں کی حوصلہ شکنی کر کے‘ معیشت کو کمزور کرتے جا رہے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام درہم برہم کر کے‘ ہمارا مستقبل تاریک کر رہے ہیں۔ ہمیں عالمی مالیاتی نظام سے کاٹ کر‘ہمارا حال ‘وسطی ایشیائی ملکوں جیسا کرتے جا رہے ہیں۔ تنگ نظری پر مبنی اسلامی توہمات کے ذریعے ذہنی انتشار پھیلا رہے ہیں۔ ہماری ریاستی مشینری میں تصورات پیدا کر رہے ہیں کہ دہشت گردی کرنے والے قاتل‘ ہمارے اپنے ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے دہشت گردوں کے خلاف حالیہ کارروائیاں ممکنہ بیرونی امداد کا انتظام کئے بغیر کی ہیں۔ اگر ہم عالمی برادری کی مکمل تائید اور حمایت کے ساتھ یہی کارروائیاں کریں‘ توہمیں وہ طاقت اور وسائل دستیاب ہو سکتے ہیں‘ جو ایسی جنگ جیتنے کے لئے ضروری ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں