"NNC" (space) message & send to 7575

پاکستان سکیورٹی سٹیٹ ہے؟

گزشتہ روز قومی اسمبلی کی کارروائی پڑھ کرمعلوم ہوا کہ دشمن‘ ملک میںاپنی طاقت اور مہارت کا ثبوت دینے کے لئے‘ ہماری قومی سلامتی کے نظام کو درہم برہم کر رہا ہے اور حکومت بانسری بجا رہی ہے۔ یہ بانسری نہیں تو کیا ہے؟ ساری دنیا میں طالبان کے کراچی آپریشن پر حیرت اور فکرمندی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہمارے وزیرداخلہ اور صوبائی حکومت ایک دوسرے کو طعنے دے رہے ہیں۔ وزیرداخلہ صاحب کہتے ہیں صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی اور صوبائی وزرا‘ وزیرداخلہ کے سونے جاگنے کاگوشوارہ بتا رہے ہیں اور یہ سب اس وقت ہو رہا ہے‘ جب ایک دن کے وقفے سے‘ دشمن نے دوسرا حملہ بھی کر دکھایا۔یہ تو ہمارا حال ہے۔ پڑوسی ملک بھارت کی سنیے۔ کراچی ایئرپورٹ کا آپریشن دیکھنے کے لئے‘ وہاں کے دفاعی ماہرین کو رات کے وقت ہی جمع کر لیا گیا کہ وہ دہشت گردوں کے آپریشن اوردفاعی اقدامات کا مشاہدہ کر کے‘اپنے کلیدی ایئرپورٹس کی سکیورٹی کے انتظامات کو دوبارہ دیکھیں اور اس تجربے کی روشنی میں اپنے ایئرپورٹس کے سکیورٹی سسٹم میں ان کمزوریوں کو تلاش کر کے‘ علاج ڈھونڈیں‘ جو کراچی آپریشن کے مشاہدے سے آپ کے علم میں آئیں۔ جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں‘ بھارت کے اہم ہوائی اڈوں کی سکیورٹی پر نظرثانی شروع ہو چکی ہے اور حفاظتی نظام کو مزید بہتر بنانے کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ اپنی حالت دیکھئے کہ دہشت گردوں نے حملہ کر کے‘ جتنے پاکستانیوں کو شہید کیا‘ اس کی آدھی تعداد میں‘ ہمارے اپنوں نے ہم وطنوں کو اذیت ناک موت کے منہ میں دھکیلا۔دہشت گردوں نے‘ پاکستانیوں کو گولیوں کے نشانے پر لے کر فوراً ہی شہید کر دیا اور ہماری سکیورٹی نے دہشت گردوں کوگولیاں مار کے‘ آسان موت دے دی۔ لیکن اپنے پاکستانیوں کو‘ جس طرح روتے بلکتے اہل خاندان کی موجودگی میں تڑپا تڑپا کے مارا‘ اس پر انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ 
دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے فوجی تربیت اور اسلحے کی ضرورت 20فیصد ہوتی ہے۔ 80فیصد جنگی سائنس کی مہارت۔ نفسیاتی حربوں کی سائنس اور دشمن کے مقاصد کو سمجھ کر انہیں ناکام بنانے کے لئے جوابی حکمت عملی۔ اس پہلو سے دیکھا جائے‘ تو ہم نے دہشت گردوں کے مقاصد کوناکام نہیں بنایا بلکہ ان کی مدد کی۔ اس میں کوئی فخر کی بات نہیں کہ ہم نے سارے دہشت گرد مار دیئے۔ وہ آتے کس لئے ہیں؟ اکثر نے تو اپنا پورا جسم بارود میں لپیٹا ہوتا ہے۔ وہ بچنے نہیں آتے۔ نتیجہ حاصل کرنے آتے ہیں۔ کراچی آپریشن سے جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہتے تھے‘ اس سے زیادہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ بڑا مقصد کراچی ایئرپورٹ کی سکیورٹی کا بھرم توڑنا تھا۔ کراچی ایئرپورٹ پاکستان کا سب سے بڑا مواصلاتی مرکز اور شہری ہوا بازی کی مہارت میں معروف ہے۔ اس کی سکیورٹی کراچی شہر اور پاکستان کے باقی حساس مقامات کی نسبت زیادہ محفوظ سمجھی جاتی ہے۔ اس کی وجہ مہران نیول بیس کا آپریشن تھا۔ بیوقوف سے بیوقوف لوگ بھی‘ ایسے بھیانک تجربے کے بعد اپنی دفاعی صلاحیتوں کو فول پروف بنا لیتے ہیں۔ یہ تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دہشت گردوں کے اتنے تباہ کن حملے کے بعد‘ ہم نے اپنے سکیورٹی سسٹم کا معیار بہتر نہیں بنایا ہو گا۔ عمومی طور پر یہ باور کر لیا گیا تھا کہ کراچی ایئرپورٹ کی سکیورٹی کا معیار‘ دنیا کے محفوظ ترین حساس مراکز سے بہتر نہیں تو ان کے برابر ضرور کر لیا ہو گا۔ دہشت گردوں نے دنیا کا یہ بھرم توڑ دیا۔ تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی‘ اگلے دن دوسرا حملہ کر کے انہوں نے وہ بھی نکال دی۔ بدبختوں نے ایسے گولیاں چلائیں‘ جیسے ہمارے سکیورٹی سسٹم کا مذاق اڑا رہے ہوں۔ یہ مذاق نہیں تو کیا ہے کہ ایک دن پہلے جہاں واردات ہوئی‘ اگلے دن پھر وہاں آئے۔ گولیاں چلا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور بچ کر بھی نکل گئے۔جس پہلوان گوٹھ کاذکر کیا جاتا ہے‘ وہ ایئرپورٹ کی چاردیواری کے قریب واقع ہے۔ ساری انتظامیہ اور عام شہریوں کو بھی علم ہے کہ یہاں زیادہ تر لوگ سماج کے ناپسندیدہ ہیں۔ بیشتر کا تعلق جرائم پیشہ گروہوں سے ہے۔ ایک حساس ترین مرکز کے قریب ایسی مشکوک آبادی پر‘ پولیس سے لے کر ایئرفورس سکیورٹی تک ہر ایک کو کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دہشت گردوں نے اسی آبادی کا استعمال کر کے اپنا آپریشن مکمل کیا اور کمال یہ ہے کہ اگلے روز پھر وہیں سے نکل کراپنی طاقت کا ایک اور مظاہرہ کر ڈالا۔ اس کے بعد ہماری سکیورٹی کے سینکڑوں جوان آبادی میں گھس گئے۔ گھر گھر تلاشی لی اور اپنا سا منہ لے کر واپس آ گئے۔ جن سکیورٹی کمانڈرز کو اتنا بھی ہوش نہیں‘ کہ آپریشن شروع ہوتے ہی اپنے جوانوں کو فوراً پہلوان گوٹھ کی آبادی میں پھیلا کے‘ ساتھیوںکی پشت پناہی کرنے والوں کو ڈھونڈ کر دبوچ لیں‘ انہیں تو مزید ترقی دینا چاہیے۔
اب ذرا غور کیجئے کہ کراچی آپریشن سے طالبان نے کیا حاصل کیا؟ ایک مقصد تو ان کے ترجمان نے بتا دیا کہ پاک فوج کے فضائی اور زمینی حملوں کا جواب دینے کے لئے کارروائی کی گئی ہے۔ دوسرے انہوں نے دنیا کو یہ پیغام بھیج دیا کہ پاکستان کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ‘ بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں۔ دہشت گردی کا آسان ترین نشانہ مسافر طیارے ہوتے ہیں۔ دہشت گرد ان کے قریب جا کر چھوٹا سا بم بھی صحیح نشانے پر لگا دے‘ تو جہاز اور مسافر دونوں نشانہ بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کا سب سے زیادہ خوف‘ شہری ہوابازی کے شعبے میں پایا جاتا ہے۔ جس ایئرپورٹ کے قریب پرندے بھی اڑتے ہوں‘ جہاز راستہ بدل دیتے ہیں۔ جہاں اتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہو رہی ہو‘ وہاں کون پاگل اپنے طیارے بھیجے گا؟ میں کل بھی عرض کر چکا ہوں کہ اب نئی تبدیلیوں کا انتظار کیجئے۔ نہ جانے کتنی کمپنیاں پروازوں کے راستے بدلیں گی اور کتنی سروس کی فراہمی ہی بند کر دیں گی؟ 
ان پاکستانیوں کی حالت زار کے مناظر دیکھ کر تو خود طالبان کے ساتھی اور لیڈر بھی اپنی کمین گاہوں میں ٹی وی کوریج دیکھ کر افسوس کر رہے ہوں گے کہ یہ بے گناہ شہری ہماری گولیوں کے سامنے کیوں نہیں آ گئے؟آسان موت تو مل جاتی۔ اپنے نام نہاد محافظوں نے جس بے رحمی سے انہیں مارا‘ ہم تو شاید گوارا کر لیتے لیکن جو لوگ اپنے شہریوں کی حفاظت پر مامور ہیں‘ ان کے ہاتھوں اتنی بے بسی کے عالم میں مرنا‘ تو موت کو دس گنا زیادہ دردناک بنا دیتا ہے۔ کیسا دلدوز منظر تھا؟ شہر کے حساس ترین مرکز کے ایک سٹور میں پناہ لینے کے لئے گھسے ہوئے 7 ملازمین آپریشن ختم ہو جانے کے بعد اس امید میں چلا چلا کر مدد مانگتے رہے کہ اب لڑائی ختم ہو گئی ہے اور ہمارے محافظ ڈھونڈتے ہوئے ہمارے پاس پہنچ جائیں گے۔ محافظ تو کیا پہنچتے؟ ان کے اہل خاندان عورتوں بچوں سمیت روتے بلبلاتے وہاں پہنچ کر مدد طلب کرنے لگے کہ کوئی ان کے پیاروں کو دم گھٹ کر مرنے سے بچا لے۔دہشت گردی کی واردات پر ایمرجنسی کے تمام وسائل حرکت میں آ جاتے ہیں اور ضرورت مندوں کو فوری مدد پہنچاتے ہیں۔ ہمارے مہربانوں نے کیا کیا؟ دہشت گرد مارے گئے‘ تو اپنا اپنا سامان سمیٹ کر لڑائی کی جگہ سے رفوچکر ہو گئے۔ حالانکہ ان کی پیشہ ورانہ مہارت کا تقاضا تھا کہ وہ صبح کا سورج نکلنے تک سرچ لائٹوں کی روشنی میں دہشت گردوں کی تلاش بھی کرتے اور اپنے بے گناہ شہریوں کا پتہ بھی چلاتے کہ کون‘ کس حالت میں‘ کہاں پر چھپا ہوا ہے؟ دونوں باتیں درست نکلیں۔ 5دہشت گرد‘ جو لڑائی میں سے بچ کر نکل گئے تھے‘ قریبی آبادی میں روپوش رہے اور اگلے دن آ کر حملہ کر کے ہمارے محافظوں کا منہ بھی چڑا گئے۔ 7 بے گناہ شہری‘ جو سٹور میں محبوس ہو گئے تھے‘ انہیں نکالنے کے لئے کوئی تالے کھولنے والا بھی نہیں آیا۔ متاثرین نے سڑک پر مظاہرہ کیا۔ ٹی وی نشریات میں رو رو کر دہائیاں دیں اور پکارا کہ کوئی آ کر ہمارے پیاروں کو بچائے۔ کسی بھی حفاظتی ادارے یا ریسکیو کرنے والے سے پہلے‘ بحریہ ٹائون کے ملک ریاض کا ٹیلیفون آیا اور ان کی طرف سے کہا گیا کہ ہمارا سامان دور سے آئے گا۔ لیکن ہم پہنچ ضرور جائیں گے۔ واقعی ایسا ہوا۔ کسی بھی سرکاری ادارے کی مدد آنے سے پہلے‘ بحریہ ٹائون کے بلڈوزر پہنچ گئے۔ مگر تب دیر ہو چکی تھی۔ سٹور میں جانے کا راستہ نکال کر جب لوگ اندر گئے‘ توکہانی ختم ہو چکی تھی۔ مدد کے لئے پکارنے والے بے بسی اور بیچارگی کی حالت میں تیز آنچ کے اندر جل جل کے ٹھنڈے ہو گئے۔ مرتے‘ بلکتے اور سسکتے ہوئے‘ انہیں اپنے دانشوروں کے دعوے ضرور یاد آ رہے ہوں گے کہ پاکستان سکیورٹی سٹیٹ ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں