ہم نے پاکستان کو ‘طالع آزماجنرلوںاور ان کے حاشیہ بردار نالائق سیاستدانوں کے سپرد کر کے‘ اس کی جو حالت کر ڈالی ہے‘ شاید پاکستانی عوام اور دردمند شہری‘ ابھی تک ان خطرات کا احساس نہیں کر پائے‘ جن میں ہر نئی حکومت کے ساتھ‘ اضافہ ہوتے ہوتے آج ہم یہاں آ پہنچے ہیں کہ وسطی ایشیا کے چھوٹے سے ملک ازبکستان ‘کے دہشت گرد‘ ہمارے سب سے بڑے ایئرپورٹ پر آ کر ‘ پاکستان کے پورے سکیورٹی سسٹم کو تہس نہس کر دیتے ہیںاور ہمارے حکمرانوں کواس نقصان کا اندازہ تک نہیں ہوتا‘ جو دہشت گردوں کی اس کارروائی سے ہمیں پہنچ چکاہے۔ یہ آج بھی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔ ان کی حالت درخت کے ٹہنے پر بیٹھے ہوئے‘ ان دو احمقوں جیسی ہے‘ جوٹوٹتے ہوئے ٹہنے‘ کو بچانے کی تدبیر کرنے یا مل جل کراپنی جانیں بچانے کی بجائے‘ ایک دوسرے کو طعنے دے رہے ہیں کہ ٹہنا تمہارے بوجھ سے جھک رہا ہے اور دوسرا کہتا ہے‘ تمہارے بوجھ سے۔ دونوں کو ہی احساس نہیں کہ ملک کے سکیورٹی سسٹم کا وقار تو مٹی میں مل گیا۔غیرملکیوں نے آ کر پاکستان کے اندر دہشت گردی کی اہلیت کا مظاہرہ کر دیااور صوبائی اور وفاقی حکومتیں‘ لڑاکی عورتوں کی طرح ایک دوسری پر الزام لگا رہی ہیں ۔ میں نے کل کے کالم میں اس حرکت کا نوٹس لیا تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اپنی بات دہرا رہا ہوں۔ ایسا نہیں ہے۔ آج بھی اسی لڑائی کے طعنے پڑھ کر دکھ ہوا اور مجھے اپنی بات کی تکرار کرنا پڑی۔
حیرت ہے کہ وہ ملک‘ جس میں ہر بااختیار شخص دونوں ہاتھوں سے قومی دولت لوٹ رہا ہے۔ شہروں کو تاریکیوں میں ڈبو کر‘ بجلی کی وصول شدہ قیمتیں کھا رہا ہے۔اندھا دھند قرضے لئے جا رہے ہیں ۔ ہمارے اثاثے اونے پونے بیچ کر‘مزیدلوٹ مار کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ قوم کا ایک قیمتی سال جنرل پرویزمشرف کو تکلیفیں پہنچانے اور ٹھکانے لگانے کی کوششوں میں ضائع کر دیا گیا۔ جس وزیراعظم کے پاس سینٹ کے لئے وقت نہیں۔ پارلیمنٹ کے لئے وقت نہیں۔ ملک کے شدید ترین بحرانوںکے مقابلے کے لئے ہنگامی منصوبہ بندی کی فرصت نہیں اور ملک کا وزیرداخلہ ساری دنیا کے سامنے دونوںہاتھ کھڑے کر کے‘ اعلان کرتا ہے کہ ایران آنے جانے والے‘ سمندری اور فضائی راستہ اختیار کریں‘ کیونکہ سڑکوں پر ہم اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔ فاٹا کے بڑے بڑے علاقوں پر دہشت گردوں نے قبضہ کر رکھا ہے اور ہمارے مولوی حضرات کہتے ہیں کہ وہاں حکومت کا کنٹرول قائم کرنے کے لئے کوئی کارروائی مت کرو۔ وہ اپنی کارروائیاں کرتے رہیں۔ حکومت سہم کر بیٹھی رہے۔ ''ازلی دشمن‘‘ بھارت کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ اس نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا‘ تو اس کو سبق سکھا دیں گے۔اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات کیا ہو سکتی ہے؟ کہ اپنے ہی وطن کی سرزمین‘ بندوق کے زور پر قبضہ جما کر بیٹھے ہوئے چند مسلح دہشت گردوں کے قبضے میں ہے اور ہم اس کا قبضہ واپس نہیں لے پا رہے ۔ ہماری دھمکیوں کو خاطر میں کون لائے گا؟ چند بھیڑیوں پر تو ہم سے قابو نہیں پایا جا رہا اور لاکھوں کی مسلح افواج کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ ''آئو ہمیں چھیڑ کر دیکھو۔ تمہارا کیا حال کرتے ہیں؟ ‘‘
شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے‘ ایک سال سے سوچ بچار ہو رہی ہے۔ اس سوال پر آپس میں لڑائی کی جا رہی ہے کہ ہماری آبادیوں پر قبضہ کر کے بیٹھے اور ہمیں للکارتے ہوئے قاتلوں سے بات چیت کی جائے یا ان کا مقابلہ کیا جائے؟ ایسے حکمرانوں کے منہ سے مقابلے کی بات سن کرکس کو ہنسی نہیں آئے گی؟ مقابلہ کرنے والے ایسے ہوتے ہیں؟ اتحاد و اتفاق کے پھٹے ہوئے کپڑے جو ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش میں‘ گلیوں بازاروں میں پھینکے جا رہے ہیں اور ہر کوئی انہیں دیکھ رہا ہے۔ انہیں مقابلے کی باتیں زیب دیتی ہیں؟ ہر دوسرے دن اعلیٰ سطحی میٹنگیںیوں کی جاتی ہیں‘ جیسے عالمی جنگ میں کودنے کی تیاریاں ہو رہی ہوں اور حالت یہ ہے کہ بیرون ملک سے آئے ہوئے 10 دہشت گردوںکو‘ مار کے فتح کے نعرے بلند کئے جا رہے ہیں۔ اس پر ندامت نہیں کہ ایک ایٹمی ملک کے پورے سکیورٹی سسٹم اور اس کے زمینی ناکوںکی نگرانیوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے دہشت گرد‘ ملک کی حساس ترین تنصیبات تک پہنچ گئے اور ہمارے ایٹمی اثاثوں کو تحفظ دینے والی مشینری‘ چند بندوق بردارغیر ملکی دشمنوں کو نہیں روک پائی۔ہر وقت لوٹ مار اور ملکی وسائل ہتھیانے کی ترکیبیں سوچنے والوں سے اور توقع ہی کیا کی جا سکتی ہے؟
اب بھی کھول لو آنکھیں پاکستان چلا
اسلامی دہشت گردوں کا نیٹ ورک سرحدیں عبور کرتا ہوا وبا کی طرح پھیل رہا ہے۔ عراق میں القاعدہ کی ایک برانچ نے‘ ملک کے بڑے حصے پر قبضہ کر کے‘ اپنے جھنڈے لگا دیئے ہیں۔ موصل پر قبضہ جما کے انہوں نے‘ شہر کی 5لاکھ آبادی کو بے گھر کر ڈالا ہے۔ تیل پیدا کرنے والے علاقے کرکوک پر وہ قبضہ جما چکے ہیں۔ کرد ‘ ان کی مدد کر رہے ہیں۔ صدام حسین کے آبائی شہر تکریت پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ اب وہ بغداد کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔اگر انسانی آبادیوں کی بربادی اور ہلاکو جیسی خونریزی کو روکنا ہو‘ تو عالمی برادری کو فوری طور پر حرکت میں آنا چاہیے۔ لیکن جہاں عالمی برادری کا اپنا مفاد نہ ہو‘ وہاں انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور دہشت گردوں کا کوئی اصول اور ایمان نہیں ہوتا۔ خدانخواستہ اگر وہ بغداد کے کسی حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے‘ تو تاریخ ہلاکو خان کو بھول جائے گی۔ خدا وہ دن نہ دکھائے۔ یہ میں نے دل کی تسلی کے لئے لکھا ہے‘ ورنہ اقبال کا یہ شعر کس نے نہیں پڑھا؟
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
عراق کی مثال میں نے اس لئے دی کہ دہشت گرد ‘بین الاقوامی سرحدوں کو پامال کر کے‘ وہاں اپنا ایک زیرکنٹرول ملک بنانے جا رہے ہیں۔ اس میں شام کے علاقے بھی ہوں گے۔ کردوں کے بھی اور اگر ترکوں نے بندوبست نہ کیا‘ تو ان کے کچھ علاقے بھی۔ یہ افعی دم کی طرف سے ‘لبنان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گا۔ بغداد میں شیعہ آبادی کی اکثریت ہے۔ اگر خونخوار‘ بغداد میں داخل ہو گئے‘ تو ایران کو میدان میں کودنا پڑے گا۔ ایران ‘ عراق کی طرف بڑھا تو پیچھے سے ‘ایرانی بلوچستان کے باغی گروہ حرکت میں آ جائیں گے اور جنگ ہمارے دروازے پر دستک دینے لگے گی۔ اگلی بات لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آ رہا ہے۔
افغانستان اور ہمارے درمیان کی سرحد کو‘ ہم نے خود ہی پامال کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم نے اپنے ملک میں دہشت گردوں کے مراکز قائم کر کے‘ افغانستان کی جنگ میں حصہ لیا۔ یہاں سے ہزاروں مسلح دہشت گرد‘ سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے‘ افغانستان کے اندر ہر اتھارٹی کے خلاف لڑتے رہے اور اب افغانستان‘ پاکستان سے ملحق بعض علاقوں پر‘ اپنا کنٹرول چھوڑ کے‘ دہشت گردوں کو ٹھکانے مہیا کر رہا ہے۔ ملا فضل اللہ پہلے ہی وہاں مورچے بنائے بیٹھا ہے۔ شمالی وزیرستان سے نکلنے والے دہشت گرد‘ سرحد کے دوسری طرف ٹھکانے بنا کر بیٹھ رہے ہیں اور اپنے مزید ساتھیوں کو جمع کر کے‘ پاکستان پر حملے منظم کریں گے۔ ان کا ہدف افغانستان کے جنوبی ‘ پاکستان کے شمالی اور بلوچستان کے بعض علاقوں کو ملا کر ''اسلامی امارت افغانستان‘‘ قائم کرنا ہے۔ ملکوں کے نقشے بدلنا شروع ہو چکے ہیں۔ سرحدیں مٹتی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ ہمارے دروازے تک بھی آ پہنچا ہے اور ہمارا ایوان بالا (سینٹ) اس بات پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ انہوں نے تشریف لانے کی زحمت فرمائی۔ ہم نے کس کو چین سے بیٹھنے دیا؟ چین دوستی کے سارے حق ادا کر کے بھی‘ ہماری طرف سے ہونے والی دہشت گردی سے نہیں بچ پایا۔ جس افغانستان کی ہم نے مدد کی‘ آج وہ ہمی کو اپنا دشمن سمجھ رہا ہے۔ ایران نے دونوں بڑی جنگوں میں‘ ہمارے لئے اصل سٹریٹجک ڈیپتھ فراہم کی مگر اس کے خلاف ہم امریکی سازشوں کی مذمت تک نہیں کر پائے۔ بھارت کے ساتھ تو رشتہ ہی دشمنی کا ہے۔ بنگالی جو کل تک ہمارے ہم وطن بھائی تھے‘ آج ہمارا ساتھ دینے والوں کو پھانسیاں لگا رہے ہیں اور وہاں کی حکومت پاکستان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ سری لنکا نے برصغیر کے معاملات میں بھارت کے مقابل‘ ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا اور ہم نے کرکٹ کھیلنے کے لئے آئے ہوئے ان کے کھلاڑیوں پر گولیاں چلا دیں۔ہم کیا ہیں؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں؟یا ہر کسی کو زخم لگا کر فخر کرنے والے گنوار؟