نئی صدی میں انقلاب کا تحفہ قدرت کی مہربانیوں کی نشانی ہے۔ گزشتہ پوری صدی میں‘ اتنے انقلابات نہیں آئے‘ جتنے چودہ سال کے اندر پاکستان میں متعارف ہو چکے ہیں۔ ماضی میں دیکھیں تو گزشتہ پوری صدی کے انقلابات انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں‘ انقلاب روس‘ انقلاب چین۔ کچھ ننھے منے انقلاب‘ جیسے انقلاب ویت نام‘ انقلاب کیوبا۔ باقی ملکوں میں انقلاب انقلاب کھیلے ضرور گئے لیکن یہ سیاسی نابالغوں کا شوق تھا۔ جس جنرل نے اقتدار پر قبضہ کیا‘ اس نے اپنے فعل کو انقلاب قرار دے دیا۔ ایک انقلاب کرنل ناصر کا تھا‘ ایک صدام حسین کا‘ ایک کرنل قذافی کا‘ جو مائوزے تنگ کو اپنے سامنے طفل مکتب سمجھا کرتے تھے۔ مائو کی ریڈ بک کے مقابلے میں قذافی صاحب نے اپنی گرین بک شائع کی۔ وہ بڑے فخر سے لوگوں کو بتایا کرتے تھے کہ ''فلسفہ انقلاب پڑھنا ہو تو اس کتاب میں ملے گا‘‘۔ گزشتہ صدی میں پاکستان بھی انقلابات سے محروم نہیں رہا۔ یہاں جنرل ایوب خان نے آئین ختم کر کے‘ ایک انقلاب برپا کر دیا تھا۔ انہی کی زندگی میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے انقلاب کا آغاز کیا اور آخر جیل میں بیٹھ کر لکھی گئی کتاب میں‘ اعتراف کیا کہ وہ اپنے انقلاب کے راستے سے بھٹک گئے تھے‘ جو ان کی ناکامی کی وجہ بنا۔ باقی ننھے منے انقلاب تو گلی گلی ناچتے گاتے نظر آیا کرتے تھے۔ بیشتر کا تعلق‘ ترقی پسند تحریک سے تھا۔ بہت سے نیک دل اور پُرجوش نوجوانوں نے انقلابات کی خدمت کی۔ ان میں ایک حبیب جالب تھے۔ انہیں اُمی انقلابی کہا جا سکتا ہے۔ سارا انقلابی لٹریچر‘ جس کا نوے فیصد حصہ انگریزی میں تھا‘ جالب صاحب نے پڑھنے کی کبھی زحمت نہ کی اور جو اردو میں ترجمہ ہو چکا تھا‘ اسے پڑھنے کا بے کار مشغلہ بھی دوسروں پر چھوڑ دیا۔ سیاسی و ادبی محفلوں اور چائے خانوں میں‘ جتنا انقلاب دستیاب تھا اسی پر اکتفا کرتے ہوئے‘ حضرت نے شاعری فرما دی۔ عام پاکستانیوں کا گزارہ اسی انقلابی شاعری پر ہو رہا ہے۔ مشرقی پاکستان میں انقلاب‘ مولانا بھاشانی کے گائوں پر مہربان ہوا۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ اپنے انقلاب سے پورے ملک کو فیض یاب فرمائیں لیکن بنگالی ٹائپ کی شارٹ سوتی دھوتی‘ مغربی پاکستان والوں کو بالکل ہی نہ بھائی۔ مشرقی پاکستان میں بھی شہریوں نے اس پر خاص توجہ نہ دی۔ یہ ہے گزشتہ صدی کے انقلابات کی ادھوری کہانی۔ جو انقلابات کامیاب ہوئے‘ وہ بھی اپنی صدی کے دوران ہی اپنے اپنے انجام کو پہنچ کر رخصت ہو گئے۔
نئی صدی کے پاکستانی انقلاب کی ادائیں ہی اور ہیں۔ بیشتر حالات میں یہ ایسے افراد اور خاندانوں میں جنم لیتا ہے‘ جنہیں انقلاب کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایک انقلاب ہمارے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا ہے‘ جس کا استعمال وہ صرف تقریروں میں کرتے ہیں۔ تقریروں کے سوا‘ انقلاب کو گھاس تک نہیں ڈالتے۔ نہ اپنی سیاست میں جگہ دیتے ہیں‘ نہ رہن سہن میں‘ نہ سماجی زندگی میں اور نہ ہی انتظامی امور میں۔ تقریروں کے علاوہ شہباز شریف کی زندگی میں انقلاب کا اگر کوئی دخل ہے تو اسے نجی زندگی کا معاملہ تصور کر کے نظر انداز کر دینا چاہیے۔ نئی صدی کے دوسرے عظیم انقلابی نے بھی میاں شریف مرحوم و مغفور کے زیر سایہ جنم لیا اور کینیڈا جا کر آنکھیں کھولیں۔ یہ ہے پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کا انقلاب۔ اس انقلاب نے وعظ اور خطبات کی گھن گرج میں جنم لیا۔ یہ انقلاب کنٹینر کلچر میں پروان چڑھ رہا ہے۔ اس میں انقلابی نہیں ہوتے۔ ملازمین ہوتے ہیں یا مریدین۔ جہاں بھی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہو‘ وہاں قیادت کنٹینر کے اندر ہوتی ہے اور انقلابی عوام‘ کنٹینر کے باہر۔ جس طرح لینن نے انقلابی فلسفے کی تشکیل و تدوین اپنے وطن روس سے باہر‘ بیٹھ کر کی تھی‘ اسی طرح بانی انقلاب حضرت پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری نے‘ کینیڈا میں بیٹھ کر ''دیوان انقلاب‘‘ تخلیق کیا۔ اب لینن ہی کی طرح‘ واپس وطن آ کر ‘انقلاب کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ اس انقلاب نے پچاس لاکھ ڈالر کے محل میں‘ رئیس خاندان کے اندر جنم لیا۔ یہ انقلاب شدید گرمی کے دوران‘ پاکستان کا رخ نہیں کرتا‘ البتہ جب کینیڈا میں موسم یخ بستہ ہو جاتا ہے اور سارے دانت اور کان بجنے لگتے ہیں تو یہ فوراً پاکستان کا رخ کرتا ہے۔ اس کے بانی نے عوام سے عہد کیا ہے کہ اس بار‘ وہ خالی ہاتھ نہیں جائیں گے۔ پاکستان میں انقلاب کا پودا اپنے ہاتھوں سے لگا کر پروان چڑھائیں گے اور جب اس کے ٹہنے مضبوط ہو جائیں گے تو انقلاب کے مخالفین کو انہی پر اپنے دست مبارک سے پھانسیوں پر لٹکائیں گے اور جب تک وطن عزیز‘ کرپٹ سیاست دانوں سے پاک نہیں ہو جاتا‘ کشتوں کے پشتے لگاتے رہیں گے۔ پاکستان میں جو آخری جوڑا بچ رہے گا‘ اسے انقلاب کا پرچم تھما کر واپس پرواز کر جائیں گے۔ یہ جوڑا خالص انقلاب کو پروان چڑھائے گا۔ بے داغ۔ معصوم۔ بھولا بھالا۔ ہنستا کھیلتا۔ معصو م سا خالص انقلاب۔آپ سوچیں گے ایسا ہونا تو ممکن ہی نہیں۔ میں بھی یہی سمجھتا ہوں لیکن جتنے دوسرے انقلاب‘ امیروں اور سرمایہ داروں کے گھروں میں پالے جا رہے ہیں‘ کیا حقیقی زندگی میں ان کا برپا ہونا ممکن ہے؟
بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں‘ بہادر اور سرفروش بلوچوں کے ہاں تو درجنوں انقلاب ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اچھلتے کودتے پھر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی انقلابوں کو تو مخلص نوجوانوں نے اپنا خون دے کر میدان میں اتارا ہے لیکن یہ سارے انقلاب ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر نہیں چلتے۔ وہی قبائلی عادات‘ اکڑ بازی اور خودداری۔ الگ الگ لڑ رہے ہیں۔ الگ الگ قربانیاں دے رہے ہیں اور الگ الگ مشکلیں اٹھاتے ہوئے جی رہے ہیں مگر اکٹھے نہیں ہوتے۔ جو انقلاب علاقے کی زندگی بدلنے کا عزم رکھتے ہیں‘ ابھی تک پہاڑوں میں بھٹک رہے ہیں اور جن انقلابیوں نے اپنی زندگی بدلنے کا فیصلہ کیا‘ وہ اقتدار میں آ کر اکٹھے ہو گئے ہیں۔ یہ انوکھے انقلابی ہیں جو قبائلی رسم و رواج کے مطابق‘ انقلابی حکومت چلاتے ہوئے تاریخ میں سرخرو ہو رہے ہیں۔ ان سے ہمارے الطاف بھائی اچھے‘ جن کا انقلاب منظم بھی ہے‘ جمہوری بھی ہے۔ کولیشن حکومتیں بنانے والوں کو حسب ضرورت خدمات بھی مہیا کرتا ہے۔ نظام بدلنے کے وعدے کرتا ہے لیکن رائج الوقت نظام کا حصہ بن کر‘ ایوان اقتدار کے اندر‘ زمین پر سوئے پرولتاریوں سے رشتہ برقرار رکھتا ہے۔ قائد انقلاب کی نگاہیں‘ ہر وقت اپنے انقلابیوں پر گڑی رہتی ہیں‘ جس نے بھی زمین سے اوپر اٹھ کر سونے کی کوشش کی‘ اسے لندن ہی سے ایسی لات پڑتی ہے کہ وہ دوبارہ انقلاب سے منہ موڑنے کی جرات نہیں کرتا۔ بھٹو صاحب کا ذکر کر کے میں ان کی پارٹی کو بھول گیا۔ وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو جو پارٹی وہ چھوڑ کر گئے تھے‘ اس نے بڑی مشکلوں کے ساتھ انقلاب سے پیچھا چھڑایا۔ اب کسی میں مجال نہیں کہ وہ پارٹی کے اندر رہ کر انقلاب کا نام بھی لے۔ صرف بھٹو صاحب کا نام لیا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کیا تھے؟ اس کا ذکر کرنا بھی کارکن کو منہ کے بل گرا دیتا ہے۔ اب پارٹی کا نعرہ یہ ہے۔
انقلاب کا جو یار ہے
وہ لات کا حق دار ہے
لاہور پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ یہاں جگہ جگہ انقلاب خانے کھلے ہیں۔ کرکٹ کے چیمپئن عمران خان نے انقلاب کے دیسی نام کو مسترد کرتے ہوئے امریکی نام استعمال کرنے کو ترجیح دی۔ امریکی صدر اوباما نے انقلاب کا نام ''تبدیلی‘‘ رکھ کر ایوان صدر میں پہنچنے کا راستہ نکالا۔ عمران خان بھی پاکستان میں انقلاب کا امریکی نام استعمال کر کے اقتدار کی طرف یوں دوڑ رہے ہیں جیسے کرکٹ میں گیند کرنے کے لیے بیٹسمین کی طرف دوڑا کرتے تھے مگر ان کے ساتھ ایک حادثہ ہو گیا۔ وہ اتنا تیز دوڑے کہ بیٹسمین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے کی طرف دوڑتے رہے۔ دوڑتے دوڑتے اٹھارہ سال ہو گئے‘ وکٹوں تک نہیں پہنچ پائے۔ باہمت آدمی ہیں۔ دوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک نہ ایک دن‘ رائیونڈ پہنچ کر وکٹیں اڑا دینے کی امید رکھتے ہیں۔ امید پہ دنیا قائم ہے۔
ہمارے چوہدری برادران نے‘ دیسی قسم کا سادہ لوح سا‘ بھولا بھالا انقلاب‘ متعارف کرانے کا عزم کیا ہے۔ وہ انقلاب تک اس وقت پہنچے جب کئی بار اسمبلیوں میں آ چکے ہیں۔ اعلیٰ ترین حکومتی مناصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ خاندان کے لیے روٹی‘ کپڑے اور مکان کے مسائل آنے والی درجنوں صدیوں کے لیے حل کر چکے ہیں۔ اب انہیں انقلاب کی ضرورت کیوں آ پڑی؟ ظاہر ہے ان کی منزل وہ زندگی تو ہو نہیں سکتی جہاں سے بانی خاندان چوہدری ظہور الٰہی مرحوم نے اپنا سیاسی کیریئر شروع کیا تھا۔ ان کی نظر میں یقیناً شہباز شریف کا انقلاب ہے‘ جسے وہ اپنی تقریروں کے اندر سے سر نکال کر باہر کی طرف جھانکنے تک نہیں دیتے۔ میاں صاحبان اور چوہدری برادران کے خاندانوں میں پردے کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ دونوں کے انقلابی نظریات بھی ایک جیسے ہوں گے۔ انقلاب ضرور لائیں گے مگر لا کر عزت و احترام کے ساتھ گھروں میں رکھ لیں گے۔ اغیار کی نگاہوں سے محفوظ۔