اگر میں یہ کہوںکہ میرے ایک عزیز نے‘ گزشتہ شب شاندار ضیافت کا اہتمام کیا تھا‘ خصوصاً جوتے بہت ہی لذیذ تھے‘ تو شاید اسے مسخرہ پن یا بے شرمی سمجھا جائے کہ ''کیا آدمی ہے؟ جوتے بھی کھا آیا اور لذیذ بھی کہہ رہا ہے۔‘‘ حقیقت میں یہ بے شرمی کی بات نہیں۔ خوش ذوقی کا مظاہرہ ہے۔ ایک امریکی بیکری کے مالک نے‘ کیک سے جوتے بنانے شروع کئے ہیں۔ اس کے سٹور پر جوتے کھانے کے شوقین جوق در جوق چلے آ رہے ہیں۔ زیادہ مانگ خواتین کے جوتوں کی ہے۔ کوئی سینڈل کھانا چاہتا ہے‘ کوئی سلیپر‘ گرگابی‘ چپل‘ کڑھائی والا جوتا۔ سچی بات ہے‘ مجھے زنانہ جوتوں کا اس سے زیادہ تجربہ نہیں۔ ہمیشہ سے غریبوں کے علاقوں میں رہتا آیا ہوں۔ وہاں زیادہ فیشن ایبل جوتے نہیں ملتے۔ دیسی قسم کے جوتوں پر گزارا ہے۔ ان علاقوں میں اچھے جوتے آ بھی جائیں‘ تو تھوڑی دیر میں گرد سے بھر جاتے ہیں۔ بیشک انہیں کچن کی الماریوں میں رکھیں۔ کھانے کی میز پر رکھیں یا کپڑے سے ڈھانپ دیں۔ گرد کہیں نہ کہیں سے آ کر جوتے پر جم جاتی ہے۔کیک کے جوتے کی خوبی ہے کہ اس پر جمی ہوئی گرد دکھائی نہیں دیتی۔ بھوک زیادہ لگی ہو‘ توجمی ہوئی گرد دکھائی دینے پر‘ بھی جوتا شوق سے کھایا جا سکتاہے۔ آپ نے اقتدار کے ایوانوں میں بھوک کے ستائے ہوئے‘ بے شمار لوگوں کو ادھر ادھر پھرتے دیکھا ہو گا۔ مگر ہمارے بدذوق حکمران‘ ان کی تواضع کریم‘ چاکلیٹ‘ سٹرابری‘ ونیلا‘منٹ‘ پستاشیو‘ ہیزل نٹ‘ کیرٹ‘ کافی‘ مینگو‘ بلیوبیری کے جوتوں سے‘ ان کی خدمت کرنے کی بجائے‘ ملازمین کے جوتوں سے کرتے ہیں۔ ان کے اپنے جوتے اتنے قیمتی ہوتے ہیں کہ انہیں دردمندوں پر استعمال کرنا جوتوں کی توہین سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کو جوتا پیش کرنا ہو‘ تو نوکر کو حکم دیا جاتا ہے کہ تم اپنے جوتے سے اس کی سیوا کر دو۔
بہت سے لوگ فیشن ایبل بازاروں میں محض جوتے دیکھنے جاتے ہیں۔ ان کی نظر کسی شوکیس پر نہیں پڑتی۔ شیشے کے بکسوں میں سجائی گئی رنگ برنگی چیزوں کی طرف بھی وہ نہیں دیکھتے اور اکثر شرمیلے شوقین تو چہرے بھی نہیں دیکھتے۔ نظریں زمین کی طرف ہی رکھتے ہیں اور نئے نئے فیشن کے زنانہ جوتے دیکھ کر مست ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جوتے نہیں‘ پیر دیکھتے ہیں۔ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ دیکھتے وہ جوتے کو ہیں۔ ساتھ خوبصورت پیر بھی نظر آ جائے‘ تو برا کیا ہے؟ امریکہ اور یورپ میں جو فیشن بھی چلتا ہے‘ جلد ہمارے ہاں پہنچ جاتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ہمارے ملک کی بیکریاں جوتے بنانا شروع کر دیں گی۔ ہماری ضیافتوں میں بھی جوتے پیش کرنے کا رواج پڑ جائے گا۔ میزبان کی خوش ذوقی کا اندازہ ہمیشہ دسترخوان سے ہوتا ہے۔ جس کے دسترخوان پر نئے نئے ڈیزائن کے زیادہ جوتے رکھے ہوں گے‘ اسے بہترین میزبان کہا جائے گا۔ اس کی تعریف کرتے ہوئے لوگ کہا کریں گے کہ کھانے کی میزبان پر‘ ایسے ایسے شاندار جوتے سجے تھے کہ دیکھ کر منہ میں پانی آ رہا تھا۔
بعض خاندانوں کے پکوان‘ ایسے شاندار ہوتے ہیںکہ ان کی ضیافت سے فیض یاب ہونے والے باہر کسی محفل میں جا کر ڈکار لیں‘ تو خوشبو سے پتہ چل جاتا ہے کہ جوتاکہاں سے کھایا گیا ہے؟ جوتوں کے کیک شروع ہو گئے‘ تو ظاہر ہے کہ بیشتر خواتین عمدہ اور لذیذ جوتے تیار کرنے میں مہارت اور شہرت حاصل کر لیں گی۔ اس وقت لوگ کہا کریں گے کہ فلاں خاتون کے جوتے کھا کر طبیعت خوش ہو گئی۔ فلاں بیگم صاحبہ کے بنائے ہوئے جوتے بہت خستہ ہوتے ہیں۔ بعض مہمان تو فرمائش کیا کریں گے کہ اپنی بیگم صاحبہ کو میری فرمائش پہنچا دیجئے کہ آج وہ میرے لئے چاکلیٹ کا جوگر تیار کریں۔ کوئی کہے گا مجھے سٹرابری کا سینڈل بہت پسند ہے۔ کوئی کافی کے لانگ شو کا دلدادہ ہو گا۔ کسی کو ڈرائی فروٹ کے چپل کا مزا آئے گا۔ کسی کو ونیلا گرگابی کی لت پڑ جائے گی اور کوئی کریم سلیپر کھا کر ہی خوش ہو جائے گا۔
یورپ اور امریکہ والوں کے ہاں مٹھائیاں نہیں ہوتیں۔وہاں مٹھائی کی جتنی دکانیں ہیں‘ وہ پاکستانی‘ بھارتی یا بنگالیوں کی ہیں۔ گورے ہمارے کھانوں کو بہت پسند کرنے لگے ہیں۔ اکثر پراٹھے کے ساتھ پلائوکھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ ڈبل روٹی کا لقمہ بنا کر شوربے کے ساتھ کھانے کی جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں۔ جب ہمارے حلوائیوں نے مٹھائی کے جوتے بنانا شروع کر دیئے ‘ تو گوروں کو یقینا وہ مٹھائیاں پسند آئیں گی۔ رس گلے کے بنائے ہوئے جوتے‘ بڑے گداز اور چپچپاتے ہوئے ہوں گے۔جس کسی کو کیچڑ میں چلنے کا مزا لینا ہو گا‘ گھر بیٹھے رس گلے کے جوتے منگوا کر کیچڑ میں چلنے کا لطف اٹھا سکے گا۔ جلیبی جوتا‘ خواتین کو بہت پسند آئے گا۔ اسے پہننے سے چال میں جلیبی جیسا گھمائو آیا‘ تومست خرامی کے انداز ہی بدل جائیں گے۔
ہمارے لوگ تحفے تحائف کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کسی کے گھر جا کر اسے جوتے کا تحفہ پیش کریں گے‘ تو وہ اسی جوتے سے آپ کی درگت بنا دے گا۔ اب ایسا نہیں ہو گا۔ آپ جوتے لے کر جس کے گھر بھی جائیں گے‘ وہ آپ کے جوتے بھی کھائے گا اور شکریہ بھی اداکرے گا۔ آپ کا غصہ نکل گیا‘ اس کو مزا آ گیا۔ کچھ لوگ بہت ندیدے ہوتے ہیں۔ ہر چیز دیکھ کرکھانے کو بے تاب ہو جاتے ہیں۔ جب بیکریوں اور مٹھائی کی دکانوں پر جوتے سجنے لگے‘ تو ندیدوں کا برا حال ہو گا۔ وہ شوکیس میں لگے اصلی جوتے دیکھ کربھی للچا سکتے ہیں اور اگر کسی نے دکاندار یا سیلز مین کو چکما دے کر‘ جوتا چرانے میں کامیابی حاصل کر لی اور چھپ چھپا کر بے تابی سے چک (Bite)مار لیا‘ تو دانت ہل جائیں گے۔نقلی ہوئے‘ توٹیڑھے ہو جائیں گے اور تماشا الگ لگے گا۔ بازار میں چلتے ہوئے لوگ رک رک کر دیکھیں گے کہ یہ کیسا شخص
ہے‘ جوتے پر منہ مار رہا ہے؟ حالانکہ منہ پر جوتا مارا جاتا ہے۔ غریب آدمی عام زندگی میں ایک ہی جوتا خرید کر دوتین سال گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس پر روز کئی کئی میل پیدل چلنے سے بھی باز نہیں آتا۔ اس حرکت پر جوتے ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اندر سے دانتوں کی بجائے‘ پائوں کا انگوٹھا اور انگلیاں نکلتی ہیں۔ جوتوں کی ہنسی دیکھنے والوں کو اچھی نہیں لگتی۔ مگر پہننے والا کیا کرے؟ وہ سال میں دو نئے جوتے تو خرید نہیں سکتا۔ بیکری اور مٹھائی کی دکانوں پر جوتے تیار ہونے لگے‘ توغریب بھی اپنی حسرتیں نکال لیا کریں گے۔ کوئی کیک سے بنا ہوا جوتا خرید کر شوق پورا کر لے گا۔ زیادہ غریب ہوا‘ تو بچے کے سائز کے جوتے سے کام چلائے گا اور دل ہی دل میں خوش ہو گا کہ آج اس نے نیا جوتا خرید لیا ہے۔ کھانے والے جوتے مارکیٹ میں آ گئے‘ تو لیڈروں کے بھی مزے ہو جائیں گے۔ اب تو لیڈر کو جوتا مارنے والے کی شامت آ جاتی ہے۔ جس نے صدر بش کو جوتا مارا‘ اسے مار بھی کھانا پڑی اور جیل بھی گیا اور جس نے لندن میں صدر مش (مشرف) کی طرف جوتا پھینکا‘ اسے بھی مکوں پر مکے کھانا پڑے۔ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کو جوتا مارنے والا خوش نصیب تھا۔ اس نے ارباب صاحب کو جوتا مارا‘ تو اسے مٹھائی کھانے کو ملی۔ ایک جوتا شہبازشریف کی طرف بھی پھینکا گیا تھا۔ مگر ان کا دبدبہ اتنا ہے کہ جوتا دو ہی قدم چل کے ہانپا اور گر گیا۔ جوتا مارنے کی کوشش ایک علاقائی چینل کے نمائندے نے کی تھی۔ وہ جوتاپھینک کر چھپنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ جوتا بھی چھپنے میں کامیاب رہا لیکن ایک ننگے پیر نے پکڑوا دیا۔ وزیراعلیٰ نے اسے وہیں پر معاف کر دیا۔ وہ کہیں نہ کہیں پکڑا ضرور جائے گا۔ مار بھی کھائے گا۔ شہبازشریف نے اس بزرگ کی روایت دہرائی‘ جس نے باربار چھیڑنے والے بچے کو‘ ہر بار ایک چونی دے دی۔ اس بچے کا حوصلہ اتنا بڑھا کہ ایک پٹھان کو چھیڑ بیٹھا۔ اس نے چاقو نکال کر پیٹ میں مارا اور بچے کی شرارتیں باہر نکال پھینکیں۔ شہبازشریف نے جوتا پھینکنے والے کو معاف کر کے ‘اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ وہ کہیں نہ کہیں جوتا ضرور پھینکے گا اور آگے کوئی نہ کوئی پٹھان نکل آئے گا۔ اس مہنگائی کے زمانے میں خریدا گیا مہنگا جوتا کون کسی کو مارتا ہے؟ یہ لوگ ضرور کسی مسجد یا درگاہ سے چرا کر لائے ہوں گے۔ جب جوتے کیک اور مٹھائیوں سے بننے لگے‘ تو لیڈروں کے مزے ہو جائیں گے۔ صدر بش نے تو جوتا دبوچ کر میزبانوں کے سپرد کر دیا تھا۔ لیکن کیک اور مٹھائی کے جوتے دبوچنے والے لیڈر ‘آرام سے سٹیج پر کھڑے کھڑے جوتے کیچ کر کے کھانا شروع کر دیں گے اور مارنے والے سے کہیں گے‘ شکریہ۔ جوتے کھانے کا مزا آ گیا۔