یہ کیسی جنگ ہے؟ کہ دشمن کا مقابلہ صرف فوج کر رہی ہے۔ باقی ساری قوم اسے یوں دیکھ رہی ہے‘ جیسے یہ اس کی جنگ نہیں۔ ہر کوئی کسی دوسرے کے ساتھ لڑائی کرنے میں لگا ہے۔ حکومت کے اندر لڑائیاں چل رہی ہیں۔ میڈیا کو اپنی لڑائیوں سے فرصت نہیں۔ کئی سیاستدانوں کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ ان کی اپنی فوج ‘ دشمن کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے ۔ لاکھوں نہتے شہری بال بچوں سمیت بے گھر ہو کر‘ بھٹکتے پھررہے ہیں۔ سینکڑوں این جی اوز‘ مختلف انسانی خدمات کے نام پر کروڑوں ڈالر کھا رہی ہیں۔ کسی ایک نے بے گھر ہونے والے ہم وطنوں کے لئے‘ ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ قومی اسمبلی کا یہ حال ہے کہ وزیراعظم نے فیصلہ کن آپریشن کی اطلاع دی اور کچھ اراکین اسمبلی سے واک آئوٹ پر تل گئے۔ خدا بھلا کرے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہ انہوں نے یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دی۔ ورنہ دنیا میں یہ خبریں جاتیں کہ پاکستان کے تو منتخب نمائندے بھی اس جنگ پر متفق نہیں۔ محاذوں پر لڑنے والے فوجیوں کو یہ خبر ملتی‘ تو ان کا کیا حال ہوتا؟ مذہب کا نام لینے والی دو جماعتوں کی دیدہ دلیری کا تو یہ عالم ہے کہ انہوں نے جنگ کی حمایت ہی سے انکار کر دیا۔ عمران خان نے بادل ناخواستہ جنگ کی حمایت کی۔ جیسے ان پر کوئی ناپسندیدہ جنگ مسلط کر دی گئی ہواور انہیں بادل ناخواستہ اس کی حمایت کرنا پڑی ہو۔ ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے اپنا احتجاجی جلسہ منسوخ کر دیا‘ لیکن دہشت گردوں کی مخالفت کے نام پر مغرب سے نازبرداریاں کرانے والے ڈاکٹر طاہر القادری کی اپنی فوج نے‘ جب دہشت گردوں سے کھلی جنگ شروع کی‘ تو انہیں احتجاجی تحریک ملتوی کرنے کا خیال تک نہیں آیا۔ ادھر دشمن کے مراکز میں جنگ ہو رہی ہے اور ادھر ڈاکٹر صاحب کے ''مجاہدین‘‘ پاکستان کے شہروں میں پولیس سے برسرپیکار ہیں۔ عین اس وقت جب دہشت گردوں کی طرف سے پاکستان کے بے گناہ شہریوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا اندیشہ ہے۔
پاک فوج ہمارے ملک میں برسوں سے تباہی پھیلانے اور پرامن اور بے گناہ شہریوں کا بلاامتیاز خون بہانے والے بے رحم درندوں کی فیصلہ کن سرکوبی کرنے نکلی ہے۔ دہشت گرد زخمی ہو کر‘ پاکستان کے نہتے شہریوں سے انتقام لینے کے لئے بے چین ہو رہے ہیں اور ادھر ڈاکٹر قادری کے پیروکار‘ ہمارے شہروں میں پولیس کے ساتھ زورآزمائی کر کے‘ اسے الجھا رہے ہیں تاکہ وہ دہشت گردوں کے امکانی حملوں سے شہریوں کو بچانے کے لئے‘ جتنا کچھ کرنے کے اہل ہیں‘ وہ بھی نہ کر سکے۔ شہریوں کو کون بچائے گا؟ فوج نے اپنی حد تک آبادیوں کے اندر دہشت گردوں کی جوابی کارروائیوں سے‘ شہریوں کو بچانے کے انتظامات کئے ہیں‘ لیکن اصل کام پولیس کا ہے۔ فوج اس کی مدد کر سکتی ہے۔ مگر شہروں کے اندر اجنبی اور ناپسندیدہ عناصر کی نشاندہی کرنا‘ فوج کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ یہ کام آبادیوں کے اندر کام کرنے والی سول سکیورٹی فورسز کا ہوتا ہے۔ اسے ڈاکٹر صاحب کے پیروکاروں نے الجھا دیا اور ہمارے نہتے اہل وطن‘ دہشت گردوں کے رحم و کرم پر رہ گئے۔ جہاں تک فوج کے بس میں ہو گا‘ وہ دہشت گردوں کو روکتی رہے گی‘ لیکن جو احتیاطی تدابیر اور شہریوں کے تحفظ کا بندوبست پولیس کر سکتی ہے‘ وہ فوج کے بس کی بات نہیں۔ بظاہر ڈاکٹر قادری‘ دہشت گردوں کی مخالفت کرتے ہیں‘ لیکن عملاً وہ کیا کر رہے ہیں؟ یہ انہیں خود سوچنا چاہیے۔
جو جنگ ہم گزشتہ آٹھ نو سال سے لڑ رہے ہیں‘ یہ روایتی نہیں۔ روایتی جنگ سرحدوں پر لڑی جاتی ہے۔ یہ جنگ فوجوں کے درمیان ہوتی ہے۔ عوام اپنی اپنی فوج کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کے حوصلے بڑھاتے ہیں۔ فوج کو سہولتیں پہنچانے کے لئے جو خدمات شہری مہیا کر سکتے ہیں‘ دل و جان سے مہیا کرتے ہیں‘ لیکن جنگ فوجوں کے درمیان ہوا کرتی ہے۔ ہمیں جس جنگ میں پھنسایا گیا ہے‘ اس کے محاذ‘ پورے ملک کے اندر گلی گلی ‘گھر گھر کھلے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا بزدل دشمن کب چوہوں کی طرح چھپتے چھپاتے‘ ہسپتالوں میں پڑے مریضوں پر بم چلا دیں۔ نمازیوں کو نشانہ بنا لیں۔ سکولوں میں تباہی مچا دیں۔ یہ مکار اور بزدل دشمن ‘ ہمارے عام شہریوں کے بھیس میں وارداتیں کرتے ہیں۔ ان پر قابو پانا صرف سکیورٹی فورسز کے بس کی بات نہیں۔ کوئی بھی قوم جتنا بڑا اور موثر سکیورٹی سسٹم تیار کر لے‘ اس میں کتنے ہی لوگوں کو بھرتی کیا جائے‘ کروڑوں عوام کوچوہوں کی طرح چھپے ہوئے دشمنوں سے نہیں بچا سکتی۔ ایسی جنگوں میں بچے بچے کو شریک ہونا پڑتا ہے۔ جب کوئی دہشت گرد‘ واردات کے لئے کسی بھی مقام کو اپنا ہدف بناتا ہے‘تو وہ لازمی طور پر پہلے چھان بین کرتا ہے۔دہشت گردوں سے لڑنے کا سب سے موثر اور بہترین طریقہ یہی ہے کہ ملک کا ہر شہری ہر وقت چوکنا رہے اور کسی بھی اجنبی کو مشکوک حالت میں کوئی غیرمعمولی حرکت کرتے ہوئے دیکھے‘ تو دیگر شہریوں کی مدد سے اسے پکڑ کر پوچھ گچھ شروع کر دینی چاہیے۔ اگر وہ اپنی تسلی بخش شناخت کرا سکے‘ تومعذرت کر کے اسے چھوڑا جا سکتا ہے‘ لیکن اگر شہریوں کی تسلی نہ ہو‘ تو اسے کسی بھی اتھارٹی کے حوالے کر دینا چاہیے۔ بیشک اس میں بہت سے بیگناہوں کو تکلیف ہو گی‘ لیکن صرف تکلیف ہی ہوگی‘ بموں سے ان کے پرخچے نہیں اڑیں گے۔ اذیت ناک موت مرنے سے بہتر ہے کہ انسان اپنے خیرخواہ شہریوں کے ہاتھوں تھوڑی تکلیف اٹھا لے۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ یہ جنگ صرف فوجیں نہیں جیت سکتیں۔ پولیس نہیں جیت سکتی۔ حکومتیں نہیں جیت سکتیں۔ یہ جنگ صرف اور صرف بیدار‘ ہوشیار اور ہمہ وقت چوکس عوام کی مدد سے جیتی جا سکتی ہے۔ اس وقت جو کوئی بھی برسرپیکار فوج کی پیٹھ میں خنجر گھونپے گا‘ اسے بغیر کسی شک و شبہ کے اپنا دشمن سمجھ لینا چاہیے۔ پرامن شہری ایسے لوگوں کی خود سرکوبی تو نہیں کر سکتے مگر ان سے اظہارنفرت ضرور کر سکتے ہیں۔ اس جنگ کی مخالفت کرنے والوں سے برملا نفرت کرنا چاہیے۔ انہیں حقارت سے دیکھنا چاہیے۔ ان کے ساتھ بات چیت سے گریز کرنا چاہیے۔ میل جول سے گریز کرنا چاہیے۔ انہیں اتنا اکیلا کر دینا چاہیے کہ وہ اپنے آپ سے ڈرنے لگیں۔ جب محاذوں پر لڑنے والے سرفروشوں کو‘ اہل وطن کی حفاظت کی خاطر لڑتے ہوئے یہ خبر پہنچے گی کہ ان کی قربانیوں کو برا کہنے یا سمجھنے والوں کے ساتھ عوام کیا سلوک کر رہے ہیں؟ تو ان کے حوصلے بلند ہو جائیں گے۔ ان کا یقین پختہ ہو جائے گا کہ عوام متحد اور بیدار ہیں۔ عوام کی حمایت سپاہی کے لئے اسلحہ سے زیادہ ضروری ہوتی ہے۔
ہرچند 1965ء کی جنگ اس وقت کے حکمرانوں نے‘ عوام سے غلط بیانی کر کے شروع کی تھی‘ لیکن عوام اپنی جگہ جارحیت کے خلاف دفاعی جنگ لڑ رہے تھے۔ ہمارے فوجی جب بھی کسی شہر سے گزرتے‘ تو عوام ان کی یوں نازبرداریاں کیا کرتے‘ جیسے حقیقی ہیرو کی ہو سکتی ہیں۔ عوام کا یہ جذبہ دیکھ کر‘ جوانوں کا خون بڑھ جاتا۔ محاذوں پر لڑنے والوں کو عوام کی محبت کیسے پہنچتی ہے؟ سپاہی اسے محسوس کر کے کتنی توانائی محسوس کرتے ہیں؟ اس کا اندازہ 1965ء کی جنگ کے سب سے بڑے ہتھیارکی پہچان سے ہوتا ہے۔ یہ ہتھیار ہمارے قومی اور جنگی نغمے تھے۔ شاعر‘ ادیب‘ گلوکار اور موسیقار‘ عوام کے جذبوں کے ترجمان ہوتے ہیں۔ عوام میں جوش و خروش ہو‘ تو شاعر کے لفظوں ‘ موسیقار کے سروں ‘ مغنیوں کی آوازوں میں وہ جذبے سما جاتے ہیں اور جب عوامی محبت اور احسان مندی کا یہ پیغام محاذوں پر لڑتے ہوئے سپاہی کے کانوں میں پہنچتا ہے‘ تو اسے وہ طاقت اور سربلندی عطا ہوتی ہے کہ دشمن کے خلاف اس کی قوت مزاحمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ 1965ء کی جنگ میں جو کارکردگی ہمارے سرفروشوں نے دکھائی‘ اس میں ہمارے فنکاروں کا بہت بڑا حصہ تھا‘ جو عوام کی محبت اپنے گیتوں اور نغموں کے ذریعے محاذوں تک پہنچاتے رہے۔ وہ نغمے سن کرآج بھی لہو گرم ہو جاتا ہے۔ وہ جنگ فوجوں کے درمیان تھی۔ آج کی جنگ خود ہمارے عوام کے خلاف لڑی جا رہی ہے‘ لیکن ہمارے حکمران‘ ہمارے لیڈر اور گستاخی معاف ہمارا میڈیا‘ عوام کو اس جنگ کی صحیح اہمیت ‘ افادیت اور ضرورت کا احساس دلانے میں ناکام ہیں۔ حالانکہ یہ پہلی جنگ ہے‘ جو براہ راست عوام کے تحفظ اور دفاع کے لئے لڑی جا رہی ہے۔ جس دن ہمارے شاعروں‘ ادیبوں اور مغنیوں نے قومی اور جنگی ترانے تخلیق کرنا شروع کر دیئے‘ اس دن میں سمجھوں گا کہ عوام اپنی جنگ میں خودشامل ہو گئے ہیں۔ پھر ہمیں پرانے نغمے نہیں ڈھونڈنا پڑیں گے۔ آج کا دور اپنے نغمے خود تخلیق کرے گا۔ صرف وہ جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے‘ جس کے تحت نور جہاں بن بلائے ریڈیوسٹیشن پہنچ گئی تھیں کہ ''میں حاضر ہوں۔ جتنے نغمے چاہو ریکارڈ کرا لو۔‘‘ صوفی تبسم اپنی راتیں بھی ریڈیوسٹیشن پر گزارنے لگے تھے اور ایک سے ایک نغمہ لکھ کر نورجہاں کو دیا کرتے تھے۔
ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
توں لبھدی پھریں بازار کڑُے
نورجہاں اور صوفی تبسم ہی نہیں‘ ہر مغنی اور ہرشاعر اپنے اپنے مقام پر بہترین تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ڈاکٹر رشید انور شاعری میں زیادہ مشہور نہیں تھے‘ لیکن ان کا یہ نغمہ آج بھی گونجتا ہے تو خون کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔
مہاراج ایہہ کھیڈ تلوار دی ہے
جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی
یہ نغمہ ایک گمنام فنکار تاج ملتانی نے گایا تھا۔ جب تک پورا ملک جنگ میں شریک نہ ہو‘ جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ سیاستدانوں کی طرف مت دیکھیں۔ اپنے جذبات کا اظہار خود شروع کر دیں۔ بے گھر ہونے والوں کی مدد کر کے‘ دہشت گردی کے متاثرین کا ساتھ دے کے‘ عام شہریوں کے بھیس میں اپنے اردگرد موجود دہشت گردوں کو دبوچ لیں۔ ملکوں کی جنگ میں تو ایک ملک‘ دوسرے کے خلاف ہوتا ہے۔ اس جنگ میں دنیا کا ہر ملک آپ کے ساتھ ہے۔ ساری قومیں آپ کے ساتھ ہیں۔ ساری انسانیت آپ کے ساتھ ہے۔ اس جنگ میں جیت ضروری ہے۔