اگر کاروں کے شیشے توڑنے والے گلو بٹ کو‘ ڈاکٹر طاہرالقادری کا پیروکار ثابت کر دیا جائے‘ تو ان کی پارٹی کے خلاف مضبوط کیس تیار ہو سکتا ہے۔ حکومت چاہے تو یہ ناممکن بات نہیں۔ پولیس کی ''صحبت‘‘ میں رہ کر ‘وہ دو تین دن کے اندر ہی اقرار کر لے گا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کا مرید ہے اور انہی کے حکم پر ''مزاحمتی جدوجہد‘‘ کر رہا تھا۔پولیس نے اب تک ‘جتنا بھی کیس بنایا ہے‘ مظفر گڑھ کا ایک عام سا وکیل بھی‘ اس کے بخیے ادھیڑنے کے لئے کافی ہو گا۔ اصل کہانی میں بیریئر کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ کہا یہ گیا کہ بیریئر کی وجہ سے لوگوں کو آمدورفت میں مشکلات پیش آتی ہیں اور محلے والوں نے لکھ کے شکایت کی تھی کہ انہیں آمدورفت میں تکلیف ہوتی ہے‘ اس لئے بیریئر کو ہٹا دیا جائے۔ پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ محلے والوں نے اپنا موقف کیوں بدل دیا؟ یہی اہل محلہ تھے‘ جنہوں نے بیریئر بنانے سے پہلے‘ عدم اعتراض پررضامندی دے دی تھی۔ بیریئر اس کے بعد ہی بنائے گئے اور عدالتی احکامات کے تحت خود پولیس نے وہاں آ کر اپنی نگرانی میں بنوائے۔ بظاہر بیریئر گرانے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ پولیس کے مطابق وہ اہل محلہ کی درخواستوں پر یہ بیریئر گرانے آئے تھے۔ کیا درخواستوں میں یہ بھی لکھا تھا کہ بیریئر رات کے 12 بجے گرائے جائیں؟ یہ تو سیاسی گرفتاریوں کا وقت ہوتا ہے۔ جب حکومتیں سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں‘ تو پولیس آدھی رات سے اپنے مشن کا آغاز کر کے‘ طلوع آفتاب سے پہلے پہلے اسے پورا کر لیتی ہے۔ یہ لال مسجد تو تھی نہیں‘ جہاں مسلح مزاحمت کے ڈر سے شب خون مارا جائے۔
پاکستان عوامی تحریک کا ریکارڈ ایسا نہیں ہے۔ یہ امن پسند لوگوں کی شخصی قیادت پر یقین رکھنے والی تنظیم ہے۔ اس نے کبھی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ٹکر نہیں لی۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ڈاکٹر قادری نے‘ اسلام آباد میں مثالی دھرنا دیا۔ اس وقت بھی ڈاکٹر صاحب کے مرید پرامن رہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنے جان ومال بے حد عزیز ہیں۔ خطرات سے وہ کوسوں دور رہتے ہیں۔ اپنے پیروکاروں کو مسلح کیسے کر سکتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب کی بات میں وزن ہے کہ ان کے گھر اور مدرسے میں‘ سوائے گارڈز کے کسی کے پاس اسلحہ نہیں ہوتا۔ پولیس نے اپنے رواج کے مطابق ذخیرے میں پڑا اسلحہ نکالا اور اسے ''برآمد‘‘ کر لیا۔ واقعات‘ اس کہانی کی تصدیق نہیں کرتے۔ پولیس نے لوگوں پر براہ راست گولیاں چلا کر انہیں ہلاک کیا۔ جو 2خواتین اور 6 مرد ہلاک ہوئے ہیں‘ انہیں گولیاں کمر سے اوپر لگی ہیں۔ ایسا نشانہ صرف قتل کے ارادے سے لیا جاتا ہے۔ ہجوم کو منتشر کرنے یا اس پر قابو پانے کے لئے گولی چلانا آخری حربہ ہوتا ہے اور اس میں بھی یہ پابندی ہے کہ اگر گولی چلانے پر مجبور ہونا پڑے‘ تو کمر سے نیچے نشانہ باندھا جائے۔ مقصد لوگوں کو قتل کرنانہیں بلکہ کسی صورتحال کی سنگینی سے نکلنا مطلوب ہوتا ہے۔ لیکن رات کے 2بجے تو سارے لوگ گھراور مدرسے کے اندر سو گئے تھے۔ نہ کوئی جلوس تھا۔ نہ کوئی مظاہرہ اور نہ ہی پولیس کو ایسا کوئی خطرہ درپیش تھا‘ جس میں جان جانے کا اندیشہ ہو۔ پولیس خود حملہ آور ہوئی۔ خوابیدہ لوگ ہڑبڑا کر جاگے تو پولیس بیریئر توڑنے کی تیاری کر رہی تھی۔ اس پر تکرار ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کے پیروکار اور افراد خاندان اپنا موقف بتاتے رہے کہ یہ بیریئر خصوصی اجازت سے لگائے گئے ہیں اور پولیس مصر رہی کہ یہ ناجائز ہیں اور وہ اہل محلہ کی شکایت پر انہیں توڑنے آئی ہے۔ پولیس نے زبردستی کی کوشش کی اور کارکنوں نے مزاحمت شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے پولیس لاٹھیاں برسانے لگی اور کارکنوں کے ہاتھ جو بھی اینٹ پتھر لگا‘ انہوں نے پولیس کو مارنا شروع کر دیا۔ پولیس گولیاں برسانے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو خواتین سمیت 8 افراد ہلاک ہو گئے اور 50 سے زیادہ افراد کو گولیاں لگیں‘ جو ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ یہ پولیس کا بیان ہے۔ عوامی تحریک کے لوگ کہتے ہیں کہ زخمیوں اور ہلاک شدگان کی اصل تعداد بہت زیادہ ہے۔ پولیس نے کئی زخمیوں اور ہلاک شدگان کو غائب کر دیا ہے۔ یہ وہ بحث ہے‘ جو کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی۔ ہر ہنگامے کے بعد ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
اس سانحے نے آپریشن عضب پر اچھا اثر نہیں ڈالا۔دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کی خبریں جو نمایاں طور پہ شائع ہونا چاہئیں تھیں‘ ان کی جگہ خونریز واقعات کی سرخیوں نے لے لی۔ نئی سیاسی بحث شروع ہو گئی۔ کسی بھی جنگ میں رائے عامہ کو بیدار اور منظم کرنے کی جو ضروریات ہوتی ہیں‘ ان کی طرف کسی کی توجہ نہیں گئی۔ جنگ لڑنے کے لئے فوج کو پرجوش عوامی حمایت سے جو تقویت ملتی ہے‘ اس کا ماحول ہی پیدا نہیں ہوا۔ رہی سہی کسر ہمارے ان مذہبی لیڈروں نے نکال دی‘ جنہوں نے جنگ کی حمایت کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ کم ازکم الفاظ میں‘ اس حرکت کو پیٹھ میں خنجر گھونپنا کہہ سکتا ہوں۔ بدنصیبی یہ تھی کہ اس جنگ کی اٹھان بھی صحیح طریقے سے نہ ہوئی۔ یہ معمولی جنگ نہیں۔ جیسا کہ میں لکھتا رہتا ہوں‘ یہ ایک ایسی جنگ ہے‘ جو گھر گھر لڑنا پڑے گی۔ ہمارا ہر گھر دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیںکہ یہ بے رحم لوگ کب کسی کے گھر‘ دکان یا دفتر کو نشانہ بنا دیں؟ میں یہ بھی عرض کر چکا ہوں کہ اس جنگ میں ہر شہری کو محاذ جنگ پر موجود سپاہیوں کی طرح ہوشیار اور چوکنا رہنا پڑے گا اور ساتھ ہی مصروف پیکار فوج کے حوصلے بلند رکھنے کا فرض بھی ادا کرنا ہو گا۔ سپاہی کی سب سے بڑی طاقت یہ ہوتی ہے کہ اسے اپنے گھر اور اپنے شہروں سے بری خبر نہ آئے۔ جس وطن اور جن ہم وطنوں کو وہ محفوظ زندگی دینے کے لئے قربانیاں دے رہے ہوتے ہیں‘ انہی کی طرف سے بری خبریں آئیں‘ تو سپاہی کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ جنگ میں جو یکسوئی درکار ہوتی ہے‘ وہ اس سے محروم ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے دل لاہور میں پولیس نے خون کی جو ہولی کھیلی‘ یہ محاذ جنگ پر دادشجاعت دینے والے‘ ہمارے جوانوں اور افسروں کے لئے کسی طرح بھی اطمینان کی بات نہیںہو گی۔ پولیس میں یہ جرات نہیں ہوتی کہ وہ اس طرح براہ راست ہدف کو قتل کرنے کی غرض سے گولی چلائے۔ ایسا حکم صرف اعلیٰ اتھارٹی ہی دے سکتی ہے۔ وہ کونسی اعلیٰ اتھارٹی ہے؟ جس نے یہ تباہ کن حکم جاری کیا۔
اگر آپ سانحہ لاہور وقوع پذیر ہونے سے پہلے کا ماحول دیکھیں‘ تورائے عامہ فوجی کارروائی کے حق میں منظم ہو رہی تھی۔ باہمی اختلافات پس منظر میں جا رہے تھے اور اتحاد و یکجہتی کی صورتحال پیدا ہونے لگی تھی۔ عمران خان نے اپنا جلسہ ملتوی کر دیا تھا۔ دو تین مذہبی لیڈروں کے سوا‘ تمام سیاسی عناصر ‘ آپریشن کی حمایت میں اکٹھے ہونے لگے تھے۔ خود عوامی تحریک اور اس کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری پہلے ہی فوج کے پرزور حمایتی ہیں۔ لیکن لاہور میں خون کی ہولی نے‘ حکومت کے مخالفین کے لئے امیدوں کے راستے کھول دیئے ہیں۔حکومت کو گرانے کے خواہش مند پھر سے متحرک ہونے لگے ہیں۔ یہ امید پیدا ہو گئی کہ سانحہ لاہور کے بعد‘ عوام حکومت کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرنے کے لئے ضرور باہر نکلیں گے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ فوجی آپریشن پرعزم اور پرجوش قیادت سے محروم رہا۔ وزیراعظم کو جو تقریر‘ عوامی جوش و جذبے کو بیدار کرنے کے لئے کرنا تھی‘ عوام اس سے محروم رہے۔ جو تقریر وزیراعظم نے کی‘ اس میں کسی بھی اعتبار سے طبل جنگ کی کیفیت نہیں تھی۔ جب قیادت میں ہی جوش و جذبہ نہ ہو‘ تو عوام میں کہاں سے آئے گا؟ میں عوام سے ہی استدعا کر سکتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجدہ ہو کر‘ اپنے مجاہدوں کے حق میں دعائیں کریں اور یہ التجاء بھی کہ اللہ تعالیٰ‘ ہماری اس فیصلہ کن جنگ کو جلد از جلد عزم بلند اور مضبوط قیادت عطا فرمائے۔ ایسی قیادت ‘ جو عوام کی نمائندہ ہو۔ چرچل کی طرح ذہین اور باہمت۔