"NNC" (space) message & send to 7575

بات چل نکلی ہے

عابد شیر علی سے تو گلو بٹ ہی اچھا‘ جس نے پولیس اور مظاہرین کی بھاری تعداد کے عین بیچ میں کھڑی گاڑیوں کو دیکھتے ہی دیکھتے توڑ پھوڑ کے کھٹاروں میں بدل دیا۔ عابد شیر علی نے کل قومی اسمبلی میں گلو بٹ بننے کی کوشش کی ''مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی؟‘‘ عابد نے ایم کیو ایم کے ایک رکن کو للکارتے ہوئے آستینیں چڑھائیں‘ تو ''ون مین گینگ‘‘ جمشید دستی اکھاڑے میں اتر آئے۔ عابد شیر علی دونوں کو پھڑکانے کے موڈ میں تھے کہ دیگر اراکین نے بیچ بچائو کرا دیا۔ خواجہ سعد رفیق کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ گلو بٹ لاہور کا ہو اور اس سے زیادہ دہشت گردی عابد شیر علی کر جائیں؟ خواجہ صاحب کا لاہوری بھڑک کے اٹھا اور قبل اس کے کہ وہ ساجد حسین کے ''شیشے‘‘ توڑتے‘ وزیر مملکت بلیغ الرحمن نے انہیں روک دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں یہ کسی سے برداشت نہیں ہوتا کہ قائدین کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے‘ کوئی اس پر سبقت لے جائے۔ کل دو اراکین قومی اسمبلی نے‘ گلو سے آگے بڑھ کر‘ شائقین کا اعتماد حاصل کرنے کی ناکام کوششیں کیں۔ لیکن ہمت مرداں مدد خدا‘ کوششیں جاری رکھنا چاہئیں۔ ایک نہ ایک دن گلو بٹ کو پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے۔ بہت سے سیاسی مبصرین اور کالم نویس حضرات‘ بلاوجہ گلو بٹ کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ انہوں نے دور کی کوڑی لاتے ہوئے‘ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ گلو بٹ کوئی مخلص کارکن نہیں ہے۔ اسے پنجاب کی انتظامیہ نے جان بوجھ کر شہرت دلائی ہے تاکہ میڈیا کی ساری توجہ‘ گلو بٹ پر مرکوز ہو جائے اور لوگ پولیس کے مظالم کو بھول جائیں۔ 
کچھ لوگ تو اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ فوج شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کر کے‘ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو انجام تک پہنچانے کے لئے‘ جس تیزرفتاری سے پیش قدمی کر رہی ہے‘ وہ کامیابیاں پس منظر میں چلی جائیں گی۔ ٹی وی کے خبرناموں اور ٹاک شوز میں گلو بٹ کی کہانیاں چھائی رہیں گی۔ کالم نویسوں کے لئے تو گلو بٹ علامتوں اور استعاروں کا خزانہ ثابت ہو رہا ہے۔ کوئی لکھ رہا ہے‘ ساری کی ساری‘ ن لیگ ہی گلو بٹ ہے۔ کسی کا خیال ہے‘ ن لیگ کی قیادت سے‘ فوج کی مقبولیت برداشت نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے اس نے گلو بٹ کا کردار سامنے لا کر‘ اسے خبروں اور تبصروں کا موضوع بنا دیا ہے۔ کبھی تو شک پڑتا ہے کہ ہم میڈیا والے واقعی بیوقوف بن گئے ہیں۔ ایک طرف قومی دفاع کی جنگ لڑی جا رہی ہے‘ ہمارے جوان جانوں کے نذرانے پیش کر کے‘ وطن اور عوام کا دفاع کر رہے ہیں‘ برسوں سے شمالی وزیرستان پر قابض ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں کو وہاں سے ختم کر رہے ہیں‘ فضائیہ ماہرانہ کارروائیاں کر کے‘ اصل ملک دشمنوں پر نشانے لگا رہی ہے۔ تادم تحریر کولیٹرل نقصان کی خبر نہیں آئی‘ جسے ہم‘ فضائیہ کے ماہر پائلٹوں کی بے مثال کارکردگی قرار دے سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے تھا کہ محاذوں کی روداد لکھتے۔ مختلف معرکوں کی کہانیاں بتاتے۔ اپنی بری اور فضائی افواج کے کارنامے بیان کرتے‘ لیکن گلو بٹ کا کردار‘ ایسی کامیابی سے لانچ کیا گیا کہ آج کا پسندیدہ موضوع بن کر رہ گیا ہے۔ میں بھی محسوس کر رہا ہوں کہ اس وبائے عام کا شکار ہو کر‘ اصل ذمہ داری سے پہلو تہی کر گیا۔ لیکن میں تو ایک معمولی سا پاکستانی صحافی ہوں‘ گلو بٹ کے کردار کو تو عالمی میڈیا بھی نظرانداز نہیں کر سکا۔ اس کے بارے میں بی بی سی پر تبصرے ہوئے۔ وائس آف امریکہ کی نشریات میں تذکرے آئے۔ میری کیا مجال ہے کہ میں اسے نظر انداز کرتا؟ آپ جانتے ہیں کہ جو چیز مغربی میڈیا میں ایک بار آ جائے‘ ہم اسے کئی بار دہراتے ہیں۔ میڈیا کی بات تو چھوڑیئے‘ کیا ہمارے منتخب ادارے گلو بٹ سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکے؟ 
ایک روز پہلے سندھ اسمبلی میں گلو بٹ کے چرچے ہوتے رہے۔ یہاں تک ایک خاتون رکن اسمبلی‘ جو انتہائی سنجیدگی سے ایک اہم موضوع پر تقریر کر رہی تھیں‘ بے خیالی میں وزیر اطلاعات شرجیل میمن کی جگہ گلو بٹ کہہ گئیں‘ جس پر شور برپا ہو گیا ۔ پیپلز پارٹی کے اراکین نے کہا کہ خاتون نے گلو بٹ کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ شرجیل میمن میں اتنی صلاحیتیں کہاں؟ کہ وہ شریف برادران کے دلارے بن سکیں؟ احتجاج اتنا شدید ہوا کہ تقریر کرنے والی خاتون پشیمان ہو گئیں اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو گلو بٹ کا اتنا ہی خیال ہے‘ تو میں اس کا نام نہیں لیتی۔ میں ''پپو بٹ‘‘ کہہ دیتی ہوں۔ قومی اسمبلی کا ذکر میں کر ہی چکا۔ وہاں بھی گلو بٹ کے نام پر فساد ہوتے ہوتے رہ گیا۔ ایک صحافی ساتھی کو تو گلو بٹ پر اتنا طیش آیا کہ شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے‘ انہوں نے گلو بٹ کے خلاف حسب معمول‘ اپنا وہی لفظی ذخیرہ استعمال کر ڈالا‘ جو انہوں نے طالبان کے مخالفین کو نشانہ بنانے کے لئے محفوظ کر رکھا ہے۔ ان کا غصہ بجا ہے۔ وہ خود میدان صحافت میں میاں برادران کے گلو بٹ ہیں۔ شام ہوتے ہی بیچارے چینل چینل بھٹک کر‘ میاں صاحبان اور الیکشن میں ان کی حمایت کرنے والے طالبان کے دفاع میں چومکھی لڑتے رہے ہیں۔ گلو بٹ کی پتنگ راتوں رات چڑھتے دیکھ کر‘ صحافتی گلو بٹ کو اپنی پڑ گئی۔ حالانکہ انہیں ڈرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ گلو بٹ کے کارنامے زیادہ نہیں جبکہ صحافتی گلو بٹ برسوں سے‘ میاں صاحب کے ناقدین کے ساتھ ہر شام زور آزمائی کرتے ہیں۔ ہر شام کھنے سینکواتے ہیں۔ رات کو گرم پانی کی بوتل ماتھے پر رکھ کر سوتے ہیں اور اگلے دن پھر تازہ دم ہو کر ہر چینل کے سٹوڈیو میں داخل ہو کر کہتے ہیں 
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں
میں نے عزت بنانے کے لئے تو بے شمار لوگوں کو ٹی وی پر آتے دیکھا ہے‘ لیکن بے عزت ہونے کے لئے‘ کوئی اتنے شوق سے ٹی وی پر جاتا ہو‘ اس کی دوسری مثال ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئی۔ 
ہمارے وزیر اعظم بھی کمال کی شخصیت ہیں۔ پنجاب میں ان کے بھائی کی حکومت ہے۔ قومی تاریخ کی سب سے بڑی ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ ان کے اپنے شہر لاہور میں کیا گیا۔ ایسی کارروائیاں مشرقی پاکستان میں ہوئی تھیں‘ جو بنگلہ دیش بن چکا ہے۔ موجودہ پاکستان کے اندر پولیس نے پرامن عورتوں اور بچوں پر اتنا وحشیانہ حملہ نہیں کیا ہو گا‘ جتنا لاہور میں کیا گیا۔ بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوئی کہ عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کو براہ راست کمر کے اوپر گولیاں مار کے ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ گزشتہ رات ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے انٹرویو میں حساب لگا کر بتایا کہ اب تک 25 افراد شہید ہو چکے ہیں اور ڈیڑھ سو کے قریب لاپتہ ہیں‘ جن کے بارے میں مختلف اطلاعات آ رہی ہیں۔ مثلاً ایک افواہ یہ بھی ہے کہ لاہور کے قبرستانوں میں اچانک چند نئی قبریں نمودار ہوئی ہیں‘ جن کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ ان میں کون لوگ دفن ہیں؟ جناح ہسپتال میں جو زخمی زیر علاج ہیں‘ ان کی تعداد 81 بتائی جا رہی ہے۔ وہ سب گولیوں سے زخمی ہوئے ہیں۔ یہ گولیاں انہیں ہلاک کرنے کی غرض سے ماری گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو زخمی بچ گئے تھے‘ جانکنی کی حالت میں ہیں۔ روز ایک دو زخمی دم توڑ رہے ہیں۔ اوپر سے گلو بٹ کے چاہنے والے ڈاکٹروں پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ زخمیوں کی دیکھ بھال پر خاص توجہ نہ دیں۔ بعض ڈاکٹروں کو وارڈز کے رائونڈ لگانے سے بھی روک دیا گیا۔ پولیس افسران کو تو میڈیا نے پکڑ لیا تھا‘ جو ہسپتال کی اتھارٹیز سے کہہ رہے تھے کہ زخمیوں کو لگنے والی گولیوں کا ذکر نہ کیا جائے۔ صرف یہ لکھا جائے کہ وہ لاٹھی یا پتھر کی چوٹ سے زخمی ہوئے ہیں۔ ادھر درجنوں پرانی بندوقیں خرید کر‘ انہیں لاہور میں ''ری بلڈ‘‘ کیا جا رہا ہے۔ یہ بندوقیں لاپتہ یا زیر حراست افراد کے ناموں پر ڈال کر کہا جائے گا کہ ''یہ ان سے برآمد ہوئی ہیں‘‘۔ نہتے عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کے بے رحمانہ قتل عام کی ذمہ داری‘ کوئی اپنے سر لینے کو تیار نہیں۔ جس کی طرف نظر اٹھتی ہے‘ وہ ایک ہی جواب دیتا ہے کہ مجھے پتہ نہیں یہ کس نے کیا؟ تحقیقاتی کمیشن‘ فرشتوں کی شہادتیں لے کر قاتلوں کا سراغ لگائے گا؟ ایک دو قتل تو چھپائے جا سکتے ہیں۔ اکٹھے 25 قتل اور 81 گولیوں سے زخم کھانے والوں کے پورے ہجوم کو چھپانا‘ آسان کام نہیں۔ ایک طرف ہماری فوج ‘ بے گناہ پاکستانیوں کو قتل 
کرنے والے دہشت گردوں کا صفایا کر رہی ہے اور ایک طرف ہماری پولیس نہتے پاکستانیوں کو گولیوں سے بھون کر یہ بتا رہی ہے کہ ''پاکستانیوں کی زندگی پھر بھی محفوظ نہیں۔ طالبان ختم ہو گئے‘ تو پولیس حاضر ہے‘‘۔ کاش! اتنے بے گناہوں کا خون دیکھ کر سب کے ضمیر جاگ اٹھیں اور پولیس کے وہ تمام افسر‘ جنہیں خونریزی کا حکم دیا گیا‘ کمیشن میں آ کر سب کچھ سچ سچ بتا دیں۔ یہ ناممکن نہیں۔ ضمیر کسی بھی وقت جاگ سکتا ہے اور ضمیر کے مجرموں پر قسمت مہربان ہو تو سب کے ضمیر بیک وقت بھی بیدار ہو سکتے ہیں۔ اگر خدا کی ذات پر کامل یقین ہو۔ پتہ نہیں وقت بدلتا ہے یا لوگ بدلتے ہیں؟ یہی نواز شریف تھے کہ کینسر کے مریض‘ ایک بچے کی حالت پڑھ کر تڑپ اٹھے تھے۔ یورپ میں اس کے علاج کا خرچ اٹھانے کا فیصلہ کیا‘ تو بیگم کلثوم نے اپنے تمام زیورات لا کر رکھ دیے اور کہا کہ ''اس کار خیر میں میرا بھی حصہ ڈال دیں‘‘ اور کہاں یہ دن......؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں