"NNC" (space) message & send to 7575

مانیں نہ مانیں

آج قریباً 2برس کے بعد‘ وزیراعلیٰ شہبازشریف سے ملاقات ہوئی۔ اتنے عرصے بعد ملیں‘ تو گپ شپ کا ڈیڑھ گھنٹہ تو بنتا ہے۔ داخلی اور عالمی صورتحال کے حوالے سے‘ پاکستان آج کس پوزیشن میں ہے؟ اس پر ہردردمند پاکستانی کی طرح شہبازشریف بھی فکرمند ہیں۔ اتنی پھیلی ہوئی گفتگو ایک کالم میں تو سما نہیں سکتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ‘ موضوع کی مناسبت سے جو کچھ یاد آیا‘ لکھتا رہوں گا۔ آج اس حیرت انگیز ڈرامے کی تفصیل بیان کروں گا‘ جو لاہور ایئرپورٹ پر 5گھنٹے تک جاری رہا۔ یوں سمجھ لیں کہ جہاز اور اس کے مسافر‘ 5گھنٹے تک ڈاکٹر طاہرالقادری کے یرغمالی رہے۔ 180کے قریب یرغمالی‘ انہوں نے اس شرط پر چھوڑے کہ گھر پہنچنے کے لئے‘ انہیں دو یرغمالی بطور ضمانت فراہم کئے جائیں۔ ان یرغمالیوں کے نام بھی ڈاکٹر صاحب نے خود تجویز کئے۔ ایک گورنر چوہدری سرور اور دوسرے سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویزالٰہی۔ گورنر صاحب لاہور میں موجود تھے۔ انہوں نے جلد ہی اپنے آپ کو بطور یرغمالی پیش کر دیا۔ لیکن چوہدری پرویزالٰہی گجرات میں تھے۔ وہ یرغمالی بننے کے لئے‘ وہاں سے لاہور ایئرپورٹ پہنچے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ 300 مسافروں کی گنجائش رکھنے والے جہاز میں‘ کیا 120 نشستیں خالی تھیں؟ جی نہیں۔ یہ سیٹیں بھی بک تھیں۔جن پر ڈاکٹر صاحب کے محافظ گینگسٹر براجمان تھے۔ جہاز کے سمجھ دار مسافر تو پرواز کی ابتدا میں ہی خوفزدہ ہو گئے تھے کہ اتنے زیادہ گینگسٹر ٹائپ کے مسافروں نے اگر جہاز ہائی جیک کر لیا‘ تو کیا بنے گا؟ مگر مثبت سوچ رکھنے والے مسافروں نے یہ بات دوسروں سے کرنے میں احتیاط سے کام لیا۔ انہیں ڈر تھا ‘ کہیں جہاز میں افراتفری نہ پھیل جائے۔
طیارے کو پرواز شروع کرنے میں دبئی سے ہی دیر ہو گئی تھی۔ اسی تناسب سے وہ مقررہ وقت پر اسلام آباد پہنچ گیا۔ اس وقت تک اسلام آباد اور راولپنڈی کی انتظامیہ کو یہ اطلاعات مل چکی تھیں کہ ڈاکٹر صاحب کے جیالوں نے‘ ایئرپورٹ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کیا کریں گے؟ جیسے جیسے جیالوں نے وارداتیں کیں‘ خفیہ اطلاعات کی تصدیق ہوتی گئی۔ ایئرپورٹ کے راستوں کی پہلی رکاوٹیں‘ تین چار میل دور کھڑی کی گئی تھیں۔ جیالوں نے کمال مہارت اور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے‘ کنٹینر ہٹا کر سڑک کھول دی اور گلزار قائد سے آگے نکل کر‘ ایئرپورٹ کارگو والے موڑ پر آ گئے۔ یہاں کھڑی رکاوٹیں بھی توڑ دی گئیں۔ اس کے بعد ایئرپورٹ تک کی تمام سڑک پر غیرمسلح پولیس متعین تھی۔ جس پر بھرپور حملہ کر دیا گیا۔پولیس کے تمام افسروں اور ماتحتوں تک‘ کسی کے پاس اسلحہ نہیں تھا۔یہ فیصلہ ماڈل ٹائون کا سانحہ ہونے کے بعد کیا گیا تھا کہ پولیس کسی بھی ہجوم کا سامنا کرنے سے پہلے‘ اپنے ساتھ اسلحہ لے کر نہیں جائے گی۔چنانچہ سپاہیوں کے ہاتھ میں لاٹھیاں تھیں اور افسر خالی ہاتھ تھے۔ جیالے سنگ بدست آئے اور تاک تاک کر نشانے لگاتے ہوئے‘ پولیس والوں کو زخمی کرکے قدم قدم آگے بڑھتے گئے۔ جیالوں کے دو گروہ طے شدہ حکمت عملی کے تحت‘ ایک ایک پولیس والے کو گھیرے میں لے کر اس کی لاٹھی چھینتے اور دھڑادھڑ پٹائی شروع کر دیتے۔ اس طرح گھیرکے جن سپاہیوں کی پٹائی گئی‘ ان میں کسی کے بازو کی ہڈی ٹوٹی۔ کسی کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور کسی کے کندھے ۔ پولیس والے اتنی بڑی تعداد میں زخمی ہوئے‘ تو دوسرے ناکوں کی نفری ان کی مدد کے لئے بھاگی۔ اس ناکے پر پولیس کی تعداد میں کمی آئی‘ تو جیالے وہاں سے بھی رکاوٹیں توڑ کے نکل آئے اور حکمت عملی کے تحت آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے‘ پارکنگ میں داخل ہونے لگے۔ کچھ ہی دیر کے بعد راول لائونج سے لے کر‘ باہر نکلنے کے راستوں تک‘ جیالے ہی جیالے کھڑے ‘ اشتعال انگیز نعرے لگا رہے تھے۔ کوئی بھی سکیورٹی ایجنسی یہ جاننے کی پوزیشن میںنہیں تھی کہ اس طرح زبردستی آنے والوں کے ہجوم میں کس کے پاس اسلحہ ہے اور کس کے پاس نہیں؟
صورتحال مخدوش ہو گئی تھی۔اگر ڈاکٹر صاحب والا طیارہ اترنے کی اجازت دی جاتی‘ تو اندیشہ تھا کہ بپھرے ہوئے مظاہرین ساری رکاوٹیں توڑ کر آگے تک نہ پہنچ جائیں۔ یہاں پر کئی حساس مقامات ہیں۔ مظاہرین وہاں پہنچ جاتے‘ تو فوج سے براہ راست تصادم ہو سکتا تھا۔ جس کے نتائج انتہائی برے ہوتے۔ اس دوران سوچ بچار ہوتی رہی‘ طیارہ اوپر فضائوں میں چکر لگاتا رہا۔ جب طیارے نے نو دس رائونڈ مکمل کئے‘ تو انتظامیہ نے پائلٹ کو آگاہ کر دیا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر جہاز اتارنا خطرناک ہے‘ اس لئے رخ لاہور کی طرف کر دیا جائے۔ لاہور میں اترنے کے بعد‘ جب طیارہ اپنے لئے مخصوص جگہ پر جا کر کھڑا ہو گیا‘ تو مسافروں میںاس وقت بے چینی پیدا ہونے لگی‘ جب جہاز کے دروازے نہ کھلے۔ فطری طور سے کئی مسافر صورتحال کا جائزہ لینے‘ دروازوں کی طرف لپکے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ہر دروازے پر چار چار گینگسٹر کھڑے ہیں اور کسی کو موقع نہیں دے رہے کہ وہ دروازے کے قریب جا کر صورتحال کا جائزہ لے سکے۔ اصل منزل سے 200میل دور آ کربھی وہ قیدیوں کی طرح پھنس گئے۔ بچے اور عورتیں ظاہر ہے ایسی صورتحال میں گھبرا جاتے ہیں۔ بچوں کی حالت بری ہو گئی۔ جس کمانڈو سے مدد کے لئے کہا جاتا‘ وہ بے رخی سے منہ پھیر لیتا۔ جہاز کے عملے سے پوچھا گیا ‘ تو اس نے بھی بے بسی کا اظہار کر دیا۔ آخر کچھ بزرگ مسافر‘ ڈاکٹر طاہرالقادری کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان سے التجاء کی کہ وہ مردوں کو یرغمالی رکھ لیں‘ لیکن عورتوں اور بچوں کے لئے دروازہ کھلوا دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے سختی سے انکار کر دیا۔ پہلے وہ فوج فوج پکارتے رہے اور ضد لگا کر بیٹھ گئے کہ جب تک فوج کے افسر انہیں اپنے تحفظ میں لے کر گھر تک نہیں پہنچاتے‘ وہ نہ اپنی سیٹ چھوڑیں گے اور نہ جہاز 
چھوڑیں گے۔ عجیب بے بسی کی کیفیت تھی۔ فوج آ نہیں رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب جہاز کا قبضہ نہیں چھوڑ رہے تھے۔ بچے رونے لگے۔ انہیں دیکھ کر خواتین نے بھی رونا شروع کر دیا۔ شدید پریشانی کا ماحول پیدا ہو گیا۔ وہ کسی بھی سرکاری افسر پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے۔ صرف فوج کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مشکل یہ تھی کہ فوج بلانے کا اختیار سویلین حکومت کے پاس ہے اور وہ فوج کی مدد لینے سے گریزاں تھی۔ اس دوران متعدد تجاویز زیرغور آئیں۔ ڈاکٹر صاحب سے کہا گیا کہ'' اگر فوج نہیں آتی‘ تو کوئی دوسرا راستہ بتا دیں‘ جسے آپ محفوظ سمجھتے ہوں۔‘‘ بڑی سوچ بچار کے بعد ڈاکٹر صاحب نے گورنر چوہدری سرور کا نام لیا۔ انہیں فوراً اطلاع دی گئی کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو یرغمالی بنانے کے خواہش مند ہیں اور شرط لگا رہے ہیں کہ اگر آپ ڈاکٹر صاحب کے یرغمالی بن کرانہیں مطمئن نہیں کریں گے‘ تو 180 مسافروں اور جہاز کے عملے کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ چوہدری سرور نے فوراً جواب دیا کہ ''میں پہلی فرصت میں ایئرپورٹ پہنچ رہا ہوں اور ساتھ 2بلٹ پروف کاریں بھی لا رہا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کو اطلاع دی گئی‘ تو فرمایا کہ ''میں اپنی کار میں جائوں گا اور گورنرصاحب کو میرے ساتھ بیٹھنا پڑے گا۔‘‘ چوہدری صاحب نے جہاز کے اندر جا کر مسافروں کی حالت زار دیکھی۔ عورتیں اور بچے سخت گھبرائے ہوئے تھے۔ جہاز کے اندر گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور آکسیجن میں کمی ہو چکی تھی۔ گورنر صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ ''میں حاضر ہو گیا ہوں‘ آپ مجھے یرغمالی بنا کر بے گناہ مسافروں کو چھوڑ دیجئے۔ اس گرمی میں انہیں پانی بھی پینے کو نہیں مل رہا‘ جو کہ جہاز میں ختم ہو چکا ہے۔ ‘‘ مگر ڈاکٹر صاحب مصر رہے کہ ''جب تک دوسرا یرغمالی نہیں آئے گا‘ میں یہاں سے نہیں ہلوں گا۔‘‘ چوہدری پرویزالٰہی کا باربار فون آ رہا تھا کہ میں لاہور کے نزدیک پہنچ گیا ہوں۔ جب چوہدری صاحب نے بتایا کہ وہ ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں‘ تو گورنر صاحب‘ ڈاکٹر صاحب کو لے کر جہاز سے اتر آئے اور جب انہیں چوہدری پرویزالٰہی دکھائی نہ دیئے‘ تو تذبذب میں پڑ گئے۔ گورنر صاحب تسلی دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ چوہدری پرویزالٰہی نمودار ہوئے اور پورے ایئرپورٹ کے عملے اور سکیورٹی کے لوگوں کی جان میں جان آئی کہ بے گناہ مسافروں کو اذیت سے نجات مل جائے گی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی بلٹ پروف گاڑی منگوا چکے تھے۔ دونوں یرغمالیوں کو ساتھ بٹھا کر حکم دیا کہ میں پہلے جناح ہسپتال جائوں گا اور اس کے بعد ماڈل ٹائون اپنے گھر۔ تب تک آپ دونوں میری تحویل میں رہیں گے۔دونوں کو ڈاکٹر صاحب کا حکم ماننا پڑا اور ڈیوٹی پوری کرنے کے بعد انہیں رہائی ملی۔دوسری طرف جب ڈاکٹر صاحب اپنے یرغمالیوں کو لے کر ایئرپورٹ سے باہر نکلے‘ تو جہاز کے دروازے کھول دیئے گئے۔ باقی مسافر جہاز سے اتر کے باہر نکلنے کی بجائے‘ راستے میں کھڑے ہو گئے اور جب کمانڈوز اکٹھے جہاز سے نکل کر ایئرپورٹ سے باہر جا رہے تھے‘ تو مسافروں نے بلند آواز سے ''شیم‘ شیم‘‘ کے نعرے لگائے۔یہ تھا طیارہ اغوا ہونے کا انوکھا واقعہ۔ جس کا اعزاز ہم پاکستانیوں کو حاصل ہوا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں