آج میں اپنی فوج کو ایسے ناسازگار اور غیر موافق حالات میں‘ چھلاووں کے خلاف جنگ لڑتے دیکھ کرشدید کرب میں مبتلا ہوں۔ فوج کی سب سے بڑی طاقت اس کا مضبوط عقب ہوتا ہے۔ وہ حمایت ہوتی ہے‘ جو پورے ملک کے عوام جوش و خروش کے ساتھ اسے فراہم کرتے ہیں۔ جنگ کی سب سے بڑی ضرورت‘ وسائل کی فراہمی ہے‘ جو مضبوط اور منظم عقب کے بغیر ممکن نہیں۔ میں اس فوجی کی ذہنی کیفیت محسوس کر کے تڑپ جاتا ہوں‘ جس کا دشمن اس کے سامنے نہیں اور جس کے اپنے عوام شدید گرمی میں‘ بھیڑ بکریوں کی طرح سامان سمیت ٹرکوں اور ٹریکٹروں میں لدے‘ بھوکے پیاسے‘ سینکڑوں میل کا سفر کرنے پر مجبور ہیں اور بے شمار خاندان اپنی عورتوں اور بچوں کے ساتھ پیدل بھی چل رہے ہیں اور یہ سفر وہ‘ اپنے گھروں میں جانے کے لئے نہیں بلکہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر‘ ایک نامعلوم منزل کی طرف کر رہے ہیں‘ جہاںان کی میزبانی کرنے والے کرپٹ ‘ بداخلاق اور بدنظم لوگ موجود ہیں اور اپنے غیرت مند‘ آزادمنش قبائلی بہن بھائیوں کو بچوں سمیت لاٹھیاںاور دھکے کھاتے ہوئے‘ روٹی کے لئے قطار میں کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ یہ لوگ دشمن نہیں‘ اپنی فوج کی بمباری سے بچنے کے لئے‘ گھروں سے نکلے ہیں‘ اس لئے کہ دہشت گرد‘ ان کی آبادیوں میں کمین گاہیں بنا کر بیٹھے تھے۔نہتی آبادیوں کو انہوں نے اسلحہ کے زور پر یرغمالی بنا رکھا تھا اور وہ پورے ملک میں تخریب کاری اور دہشت گردی کر رہے تھے۔ ان پُرامن آبادیوں میں ‘ دہشت گردوں کو لا کر بسانے والا‘ انہی کا حکمران ضیاالحق تھا‘ جس کی اصل ڈیوٹی پاکستان کی آبادیوں اور شہریوں کو بیرونی طاقتوں سے تحفظ دینا تھا۔ اس نے تحفظ یہ دیا کہ ہماری بستیوں میں دہشت گرد لا کر بٹھا دیئے۔ وہ دہشت گرد ‘ تازہ فوجی کارروائی کے خوف سے بھاگ کھڑے ہوئے‘ لیکن ہماری ایجنسیاں اپنے کمانڈروں کو اصل حقائق سے آگاہ نہ کر سکیں‘ ورنہ بیرونی دہشت گردوں کے بھاگ نکلنے کے بعد‘ پاکستانی کمانڈوز‘ شمالی وزیرستان میں داخل ہو کر‘ بچ رہنے والے دہشت گردوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اڑا سکتے تھے اور عوام اس کام میں‘ ان کا پورا ساتھ دیتے۔ میں نہیں جانتا زمینی صورتحال کیا ہے؟ لیکن ہمارے بے گھر بہن اور بھائی جو بیان کر رہے ہیں‘ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ حالات‘ کمانڈو ایکشن کے لئے سازگار ہو چکے تھے۔ جب میں عقب کا جائزہ لیتا ہوں‘ تو میری تشویش اور بڑھ جاتی ہے۔
فوج کی زبانی کلامی حمایت تو سب کر رہے ہیں‘ لیکن جب عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا‘ تو انسان اس زبانی کلامی حمایت کو منافقت سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کیا یہ فوج کے ساتھ یکجہتی ہے؟ کہ ہمارے محلوں میں‘ پولیس نہتے لوگوں پر گولیاں برساکر‘ لاشیں گراتی ہے؟ کیا یہ فوج کے ساتھ یکجہتی ہے؟ کہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر ہزاروں افراد جمع ہو کر سکیورٹی کے نظام کو درہم برہم کر دیتے ہیں؟ اور جو صاحب زبانی کلامی فوج کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں‘ خود ہی اپنے پیروکاروں کے ذریعے‘ بدامنی اور لاقانونیت پھیلا رہے ہیں۔ یہ کیسی یکجہتی ہے؟ کہ مختلف الخیال سیاستدان تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے‘ ابھی تک اکٹھے نہیں بیٹھ سکے اور فوج کی حوصلہ افزائی کے لئے چند لفظوں پر مشتمل ایک مشترکہ بیان بھی جاری نہیں کر پائے؟ یہ عوام سے کیسی یکجہتی ہے؟ کہ ہمارے کسی فلاحی ادارے نے ‘بنوں میں بے گھر بھائی بہنوں کے لئے‘ ایک اقامتی کیمپ تک نہیںبنایا؟ یہ فوج کے ساتھ یکجہتی ہے ؟کہ ساری دنیا‘ جس فوجی کارروائی کی منتظر تھی‘ ہماری فوج نے جان پر کھیلتے ہوئے اس کا آغاز کر دیا اور عملی طور پر اس جہاد میں کوئی حصہ ڈالنے پر تیار نہیں‘ جو پوری انسانیت کی خاطر ہماری فوج کر رہی ہے اور ہماری حکومت ‘ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے‘ اپنے نمائندے بھی کہیں نہیں بھیج رہی ۔ یہ تو میرے جیسا کم فہم بھی سمجھتا ہے کہ ہمیں اقوام متحدہ کے خصوصی اجلاس سے درخواست کرنا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف شروع کی گئی اس جنگ میں یو این او‘ عالمی برادری کو اپنا حصہ ڈالنے پر آمادہ کرے۔کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کو افغانستان پر فوج کشی کی اجازت نہیں دی گئی؟ کیا امریکہ اور برطانیہ کو دہشت گردی کے نام پر فوجی کارروائیوں کی اجازت نہیں دی گئی؟کیا اقوام متحدہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگوں میں بے گھر ہونے والوں کے لئے امدادی کارروائیاں نہیں کیں؟ خود پاکستان میں‘ افغانستان سے آئے ہوئے 50لاکھ مہاجرین کی دیکھ بھال کے لئے اقوام متحدہ نے ہمارا ساتھ نہیں دیا تھا؟ کیا آج وزیرستان سے بھاگ کر افغانستان جانے والے‘ 46 ہزار بے گھروں کی دیکھ بھال کے انتظامات‘ اقوام متحدہ نہیں کر رہی؟ پھرہمارے بے گھر لوگوں نے کیا قصور کیا ہے؟ اس کی اصل ذمہ دار ہماری حکومت ہے‘ جو اپنے مظلوم بھائی بہنوں کا دردناک مقدمہ لے کر دنیا کے سامنے نہیں گئی۔ روئے بغیر تو ماں بھی بچے کو دودھ نہیں پلاتی۔ ہم اپنا کیس بھارت کو کیوں نہیں بتاتے؟ کیا بھارت‘ دہشت گردی کا شکار نہیں؟ ہم دہشت گردوں کے عالمی نیٹ ورک سے نبرد آزما ہیں۔ بھارت خود بھی متاثرین میں شامل ہے۔ ہمیں بھارت کی مدد قبول نہیں‘ تو کم از کم دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت میں‘ چارسطروں کا بیان تو جاری ہو سکتا ہے۔ چین اس جنگ سے براہ راست متاثر ہے۔ ہم دہشت گردوں کے خلاف میدان میں اترے ہیں‘ ہم چین کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ یہ جنگ افغانستان کی بھی ہے‘ کیونکہ متاثرین میں افغانستان سرفہرست ہے۔ یہ جنگ سعودی عرب کی بھی ہے۔ اس کے اپنے دہشت گرد ہمارے علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ یہ جنگ امریکہ اور یورپ کی بھی ہے۔ ان ملکوں میں بھی دہشت گردی کے مرتکب لوگ‘ پاکستان سے تربیت یافتہ تھے۔ ہم اس جنگ کی وسعت کا اندازہ کیوں نہیں کر پا رہے ؟ اور دنیا کو اس کی اہمیت بتانے میں کیوں ناکام ہیں؟
حد یہ ہے کہ ہم پاکستان میں بھی اس جنگ کی اہمیت پوری طرح تو کیا‘ اس کا ایک تہائی بھی عوام کو نہیں بتا سکے۔ ورنہ اس جنگ کا محاذ وزیرستان تک نہیں‘ پورے پاکستان کو محیط ہے۔ دہشت گردوں کے سلیپر بہت بڑی تعداد میں ہمارے شہروں اور دیہات میں چھپے ہوئے ہیں۔ ابھی دہشت گرد مفروری میں مبتلا ہیں۔ وہ اپنے ٹھکانے ضرور قائم کریں گے اور جوابی حملے بھی لازماً کریں گے۔ ان حملوں سے بچائو کے لئے‘ عوامی آگاہی کی مہم چلانے میں کیا امر مانع ہے؟ کیا پی ٹی وی کو اس جنگ کی اہمیت اور دوررس نتائج کا اندازہ نہیں ہوا؟ اگر عوامی آگاہی کی مہم جذبے اور ذہانت سے چلائی گئی ہوتی‘ تو آج شاعروں‘ مغنیوں اور موسیقاروں کے نئے تیار کئے ہوئے نغمے اور ترانے گونج رہے ہوتے۔ایسے فن کار آج بھی موجود ہیں‘ لیکن حکومت اور سیاسی رہنمائوں کی عدم اتفاقی ‘ جذبوں کی راہ میں حائل ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ہمیں یہ جنگ کب تک لڑنا پڑے گی؟ یہ ایک محاذ کی جنگ نہیں۔گلی گلی‘ محلے محلے اور بستی بستی کی جنگ ہے۔
موجودہ دور حکومت میں یہ عجیب رواج نکلا ہے کہ فوج اور حکومت الگ الگ محاذوں پر اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ جنگ کے لئے فوج اپنے طور پر برسرپیکار ہے اور حکومت اس جنگ
سے لاتعلق دکھائی دے رہی ہے۔ مثلاً حکومت نے چند ہفتے پہلے‘ داخلی سکیورٹی کی حکمت عملی تیار کی تھی۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے‘ اس میں فوج کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ وزیرستان کے محاذ پر انشاء اللہ جلد فیصلہ کن کامیابی ملے گی‘ مگر اس کے بعد جس جنگ کا سامنا ہو گا‘ وہ پورے ملک میں پھیلی ہو گی۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے صرف حکومت کا بنایا ہوا کوئی منصوبہ فوج کی کنٹری بیوشن کے بغیر موثر اور نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ پاکستان اپنی تاریخ کی سب سے زیادہ فیصلہ کن اور طویل جنگ میں اترا ہے۔ بدنصیبی ہے کہ اس جنگ کے معاملے میں فوج اور حکومت ایک صفحے پر نہیں ہیں‘ جبکہ اس جنگ کے نتیجے میں خدانخواستہ پاکستان کا اپنا وجود بھی دبائو میں آ سکتا ہے۔ ہماری مسجدوں کے امام کیوں چپ ہیں؟ ہمارے متحرک علمائے کرام‘ جذبہ جہاد بیدار کرنے میں اپنا کردار کیوں ادا نہیں کر رہے؟ یہ جنگ ہم اس طرح لڑ رہے ہیں ‘ جیسے ادھوری نیند کا مارا ہوا کوئی شخص‘ بغیر سوچے سمجھے ہڑبڑاہٹ میں ہاتھ پائوں چلا رہا ہو۔ خدا کے لئے ادھوری نیند کی کیفیت سے باہر آیئے۔آنے والے خطرات کا سامنا کرنے کی تیاری کیجئے۔ اب نہ کی‘ تو دوسرا موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس جنگ کے اختتام پر خدا جانتا ہے ہم کس حالت میں ہوں گے؟