"NNC" (space) message & send to 7575

اپنا اپنا انقلاب

پاکستانی سیاست دانوں نے تمام سماجی فلسفوں اور نظاموں کی جو درگت بنائی ہے‘ دنیا میں کہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جمہوریت‘ اسلامی نظام‘ انتخابات‘ منتخب اسمبلیاں‘ غرض پاکستان میں ان میں سے کسی ایک کی تعریف پر بھی اتفاق رائے نہیں۔ ذہنی انتشار کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی کہ ہم ابھی تک اسی سوال پر بحث کر رہے ہیں کہ پاکستان کیوں بنایا گیا ؟ یہ دنیا کا واحد ملک ہے‘ جس کے رہنے والے‘ اس کے معرض وجود میں آنے کے جواز پر ہی متفق نہیں۔ ہر ایک کے پاس اپنی کہانی ہے۔ یہی حالت زار انقلاب کی ہے۔ شاید ہی پاکستان کی کوئی سیاسی پارٹی ایسی ہو‘ جس نے انقلاب کا نام استعمال نہیں کیا مگر ہمیں کسی کے دور اقتدار میں بھی انقلاب دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ چند روز پہلے‘ میں نے چوہدری شجاعت حسین کے انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ بھی انقلابی ہو گئے۔ اس پر قارئین کی طرف سے خطوط ‘ ٹیلی فون ‘ پیغامات اور ای میلز آئے‘ جن سے پتہ چلا کہ میں تو صرف چند اقسام کے انقلابوں سے واقف ہوں‘ یہاں تو گلی گلی انقلاب برپا ہے۔آج صرف چند ایک کا ذکر کرپائوں گا۔ ہمارے تازہ دم انقلابی ڈاکٹر طاہر القادری ہیں۔ اس بار وہ دھمکی دے کر کینیڈا سے پاکستان تشریف لائے ہیں کہ ملک میں انقلاب برپا کر کے رہیں گے۔ گزشتہ روز ایک تقریب میں‘ انہوں نے اپنے انقلاب کی نوعیت بتاتے ہوئے تین مثالی انقلابوں کا ذکر کیا۔یہ مثالیں دیکھ کر میرے توتے‘ پنجروں سمیت اڑ گئے۔
ان میں سب سے سینئر انقلاب ایران کا ہے۔ جب انقلابی حکومت قائم ہوئی ‘ تو اس زمانے میں ایک کہاوت چلی تھی کہ ایران کے انقلابی علی الصباح‘ ایک جنرل کا ناشتہ کرنے کے بعد‘ کام شروع کرتے ہیں۔اس انقلاب نے نہ کوئی جنرل چھوڑا‘ نہ الیکشن اور نہ کوئی مخالف۔ خدا پاکستان کو ایسے انقلاب سے محفوظ رکھے۔ دوسرا انقلاب لیبیا کا ہے۔ ایرانی انقلاب صرف ایک‘ جنرل کے ناشتے پر اکتفا کیا کرتا تھا‘ لیبیا کے انقلاب نے تو روزہ ہی ملک کے حاکم اعلیٰ کرنل قذافی سے افطار کیا۔ اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی لیبیا کا انقلاب‘سحری میں ایک نہ ایک شخصیت تناول کررہا ہے۔ مصر کا تازہ دم انقلاب تو بہت ہی بسیار خور یعنی پیٹوہے۔ جن جنرل صاحب نے‘ اقتدار پر قبضہ کر کے انقلاب ''نافذ‘‘ کیا‘ ان کا انقلاب ایک ہزار سے کم اخوانیوں کی پھانسیوں پر‘ صرف ایک ڈکار لیتا ہے۔پورے دن کے لئے‘ اس انقلاب کا مینیو یہ ہے۔ ناشتے میںدو سو پھانسیاں۔لنچ میں بارہ سو پھانسیاں اور ڈنر میں ایک ہزار۔
آصف زرداری صاحب کے آئیڈیل انقلابی‘ ٹاٹا‘ برلا‘ بل گیٹس‘ نوازشریف اور میاں منشاء ہیں۔انہوں نے اپنے آئیڈیل انقلابیوں کا انتخاب ‘کم و بیش پوری سسرال کی قربانیوں کے بعد کیا۔
مولانا فضل الرحمان کا انقلاب‘ نجی نوعیت کا ہے۔ یہ انقلابی مولوی ہیں۔ کوئی بھی حکومت جب تک‘ انہیں حلوے کی پلیٹ پیش نہیں کرتی‘ یہ حزب اختلاف میں ہوتے ہیں۔ صدر زرداری نے انہیں اقتدار میں آتے ہی‘ حلوہ پیش کر دیا تھا۔ نوازشریف نے تھوڑی شرارت کی کہ ان کے دوساتھیوںسمیت‘ تین خالی پلیٹیں ان کے ہاتھوں میں دے دیں اور سال بھر ان میں حلوہ نہیں ڈالا۔آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جن مولوی صاحب کے ہاتھ میں‘ حلوے کے لئے خالی پلیٹ رکھ کر ‘ انہیںخالی بٹھا دیا جائے‘ وہ حلوے کے انتظار میں کتنا صبر کر سکتے ہیں؟ نوازشریف پتہ نہیں کب تک مولانا کے صبر کا امتحان لیتے؟ لیکن انہوں نے اپنے ایک سالہ دور اقتدار میں‘ جو طاقتور اپوزیشن لیڈر تخلیق کئے‘ حکومت کے لئے خطرہ بنتے نظر آنے لگے۔ مولانا نے فوراً‘ نوازشریف کو خالی پلیٹیں دکھا کر شرمندہ کیا اور جب کوئی حکمران شرمندگی سے دوچار ہو‘ وہ حلوے کی پلیٹ کیا؟ دیگ پیش کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ اب خیر سے مولانا کی پارٹی کو تین دیگیں مل گئی ہیں۔ اسی وقت سے حلوہ کھا کے‘ تینوں مولانا حضرات بے سدھ پڑے ہیں۔ حکومت کے خلاف بیان تک دینے کا ہوش نہیں۔
مولانا سمیع الحق بھی‘ کم درجے کے انقلابی نہیں۔ ان کا فلسفہ انقلاب تھوڑا سا ندرت پسند ہے۔ وہ ایسی ایسی جگہوں سے انقلاب ڈھونڈ نکالتے ہیں‘ جہاں کسی کی ہمت نہیں پڑتی۔ مثلاً وہ افغانستان میں‘ اپنے مدرسے کے طالبان فراہم کر کے‘ انقلاب کے ثمرات سے ایک عرصے تک لطف اندوز ہوئے۔ سوویت یونین کی واپسی شروع ہوئی تو پاکستانی حکومتوں کو انقلابیوں کی سپلائی شروع کر دی۔ آج کل ان کا مندا چل رہا ہے۔جب کسی کو ضرورت پڑتی ہے‘ اس کے لئے جلسے اور مظاہرے کر کے کام چلاتے ہیں۔ پچھلے دنوںحکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا‘ تو مولانا کا ارادہ تھا کہ وہ اس کاروبار کو برسوں تک طول د ے لیں لیکن دونوں فریق بے صبر ہو گئے۔مذاکرات معطل کر دئیے۔ مولانا ابھی تک یہ کاروبار بحال کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ گزشتہ روز مولانا‘ ایک توبہ شکن خاتون کو انٹرویو دیتے نظر آئے۔دل خوش ہو گیاکہ ان کی عمر بے شک بڑھ گئی ہے لیکن دل ربائی کے انداز وہی ہیں۔
جماعت اسلامی کا انقلاب ‘فراغتی انقلاب تھا۔ انقلابی جوش و خروش کے دنوں میں‘ اس کے لیڈر اور کارکن دن بھر محنت کرتے ۔ اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے‘ شام ہوتے ہی کام کاج ختم کر کے شادیوں اور سال نو کی پارٹیوں کی کھوج شروع کر دیتے ۔ جہاں بھی انہیں کسی شادی گھر‘ کوٹھی یا کلب کی پارکنگ میں‘ کاریں کھڑی نظر آتیں ‘ جوش انقلاب میں‘ نعرہ تکبیر بلند کر کے مہمانوں کی گاڑیوں کے شیشے توڑنا شروع کر دیتے۔ اب یہ کام گلو بٹ کرتا ہے۔ اپنا اپناانقلاب ہے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کا انقلاب‘ ان کے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت میں ہے۔ جب بھی تقریر یا گفتگو کرتے ہوئے‘ ان کا انقلاب جوش مارتا ہے‘ ایک دم انگشت شہادت کھڑی ہو جاتی ہے۔جب تک انقلاب کا جوش باقی رہتا ہے‘ انگلی کھڑی رہتی ہے۔ جیسے ہی جوش اترتا ہے‘ وہ تقریر ختم کر دیتے ہیں۔ مائیک پھینک دیتے ہیں۔ انگلی بیٹھ جاتی ہے اور وہ اطمینان سے گھر یا دفتر چلے جاتے ہیں۔ ان کی تمام تر انقلابی جدو جہد‘ انگلی تک محدود ہے۔
پاکستانیوں کے قافلہ انقلاب میںنیا اضافہ ‘کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان ہیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ وہ اپنے انقلاب کے لئے امریکی ترجمہ استعمال کرتے ہیں۔ موجودہ صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم میں‘ انقلاب کی جگہ تبدیلی کا لفظ استعمال کیا۔درحقیقت وہ انقلا ب کی امریکی قسم ہے۔ صدر اوباما کو تو ایک ہی سال میں اپنے انقلاب کا صلہ مل گیا اور وہ اپنا دوسرا عہد اقتدار پورا کرنے جا رہے ہیں۔ عمران خان اتنے خوش قسمت ثابت نہ ہوئے۔ ان کا انقلاب جدو جہد کے راستے پر چلتے چلتے بالغ ہو گیا ہے۔ اب ماشاء اللہ اٹھارہ سال کا ہے۔ صحت مند جوان ہے۔ منزل مراد ابھی تک نہیں ملی۔2013ء کے انتخابات میں‘ انہوں نے ووٹروں کی توجہ تو حاصل کر لی لیکن پاکستانی انتخابات میں کامیابی کی تکنیک جیت گئی۔ دنیا نے ووٹروں کو بھاری تعداد میں پولنگ اسٹیشنوں تک جاتے تو دیکھا ‘پھر پتہ نہیں چلا کہ ان کے بیلٹ پیپرز زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟ خان صاحب آج تک گم شدہ ووٹوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ایک سال ہو گیا‘ الیکشن ٹربیونل انہیں ووٹ ڈھونڈنے کی سہولت نہیں دے رہا۔ وہ اپنے لوٹے ہوئے ووٹ‘ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اب اسلام آباد کا رخ کرنے والے ہیں۔ تبدیلی کا لفظ انہوں نے بہت دنوں سے استعمال نہیں کیا۔ ویسے بھی مخدوم شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کو ساتھ بٹھا کر‘ تبدیلی کا نعرہ لگائیں گے تو اعتبار کس کو آئے گا؟
چوہدری برادران اپنے انقلاب کا رشتہ لے کر ڈاکٹر طاہرا لقادری کے گھر گئے لیکن ڈاکٹر صاحب پلہ نہیں پکڑا رہے۔ وہ اپنے انقلاب کو شہباز شریف کی انگلی کی طرح ‘دوسری انگلیوں سے الگ تھلگ ایستادہ رکھنے پر مصر ہیں۔ڈاکٹر صاحب دوسروں کو اپنے انقلاب کی جدوجہد میں شریک تو کرنا چاہتے ہیںلیکن اپنے انقلاب کی طاقت میں کسی دوسرے کو حصہ دینے پر تیار نہیں۔ پاکستانیوں نے انقلاب کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے‘ جیسے لوگ سائیکل چور کو پکڑ کر‘ اس کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں۔ہمارے ملک میں انقلاب کی حالت سائیکل چور جیسی ہے۔ ویسے ہم نے حلیہ ٹھیک کس کا رہنے دیا ہے؟ ہزاروں انسانوں کی جانوں کی قربانی دے کر پاکستان حاصل کیا‘ ہم اس کی صورت ایک دوسرے سے بڑھ کر بگاڑنے میں لگے رہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں