موجودہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیں‘ توکسی بھی شعبے میں کوئی منصوبہ بندی یا ایجنڈا نظر نہیں آتا۔ عوامی مسائل پر توجہ نہیں دی گئی۔ حکومتی پراپیگنڈے کا زیادہ زور‘ بجلی کے ان منصوبوں پر دیا جا رہا ہے‘ جو زیادہ تر تیل اور کوئلے سے چلائے جائیں گے۔ بنیادی طور پر یہ منصوبے عالمی انرجی کمپنیوں کی نفع خوری اور کاروبار میں اضافہ کریں گے۔ بجلی اتنی مہنگی ہو جائے گی کہ عام آدمی کے لئے بل ادا کرنا دشوار ہو جائے گا۔ پانی سے جو بجلی‘ ہزاروں آبشاروں کے نیچے چھوٹے چھوٹے ٹربائن رکھ کر‘ انتہائی سستی پیدا ہو سکتی ہے اور ایک سال کے اندر اندر عوام کو سپلائی کی جا سکتی ہے اور اس کی مقدار‘ ابتدا میں 10ہزار میگاواٹ اور صرف 2 سال میں‘ بیس پچیس ہزار میگاواٹ ہو سکتی ہے‘ اس کی طرف کوئی دیکھنا بھی گوارا نہیں کر رہا۔ کیونکہ اس میں تہہ در تہہ حکومتی اختیارات رکھنے والوں کے لئے‘ لوٹ مار کی گنجائش نہیں اور جہاں تک بڑے ڈیم بنا کر‘ پن بجلی حاصل کرنے کے منصوبوں کا تعلق ہے‘ وہ موجودہ حکومت کے دوراقتدار کے بعد مکمل ہوں گے اور کسی بھی حکومت کو جو کام‘ اس کے عرصہ اقتدار میں مکمل ہوتا دکھائی نہ دے‘ اس پر کون توجہ دیتا ہے؟ بڑے منصوبے اسی لئے نہیں بنتے کہ حکمرانوں کے پاس انتظار کی مہلت نہیں ہوتی۔ انہیں یہی ڈر رہتا ہے کہ نہ معلوم‘ وہ کب اقتدار سے محروم کر دیئے جائیں؟ یہی وجہ ہے کہ وہ آتے ہی اندھادھند دولت سمیٹنے میں جت جاتے ہیں۔ جتنے بھی بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے بنائے جا رہے ہیں‘ ان کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان میں حکمرانوں کی لوٹ مار کا حصہ فوری وصول کیا جا سکتا ہے۔ اسی جلد بازی کا نتیجہ ہے کہ حکومت ایک سال کے اندر‘ عوام کے اعتماد سے بڑی حد تک محروم ہو گئی ہے۔ حالانکہ اس نے اپنی سب سے بڑی اپوزیشن‘ پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ مکمل سمجھوتہ کر رکھا ہے۔''ہم تمہاری جیب پر ہاتھ نہیں ماریں گے۔ تم ہماری جیب پر ہاتھ نہ مارنا۔‘‘
پیپلزپارٹی ''اپوزیشن کا کردار‘‘ گروی رکھ کے‘ عوامی جذبات و احساسات کی ترجمانی اور نمائندگی سے کنارہ کش ہو گئی‘ تو ایک سال کے قلیل عرصے میں‘ دوطاقتور اپوزیشن لیڈر سامنے آ گئے۔ اب وہ حکومت کو للکار رہے ہیں۔ دونوں لیڈروں کی واحد خوبی یہ ہے کہ وہ مایوس عوام کے غم و غصے کے اخراج کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اس سے زیادہ ان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ میں اپنے معصوم عوام کی امیدوں کی یقینی پامالی کا تصور کر کے‘ دکھ میں ڈوب جاتا ہوںکہ 67برسوں سے مسلسل دھوکہ کھانے اور غربت و بیچارگی کی زندگی گزارنے والے‘ ہمارے مظلوم اور معصوم عوام کے لئے آج بھی‘ مستقبل میں
دور تک امید کی روشنی دکھائی نہیں دے رہی۔ مجھے نہیں پتہ کہ حکومت نے اس ایک سال کے عرصے میں گڈگورننس کی بنیادیں رکھنے کے لئے قدم بڑھایا بھی ہے یا نہیں؟ اس بات کا خیال مجھے بھارتی وزیراعظم‘ نریندر مودی کی 30 روزہ کارکردگی کاگوشوارہ دیکھ کر ‘ آیا۔ اچھا کام دوست کریں‘ تو خوشی ہوتی ہے اور جب دشمن کرے‘ تومقابلے کا جذبہ‘ اس اندیشے کے تحت بیدار ہوتا ہے کہ اگر یہ ہم سے آگے نکل گیا‘ تو ہمارا ہاتھ مروڑ سکتا ہے۔ ہم ایسے بے حس ہیں کہ نہ دوست کی ترقی‘ ہمیں محنت کی طرف مائل کرتی ہے اور نہ دشمن کی ترقی‘ ہمارے جذبہ مسابقت کو بیدار کرتی ہے۔حکمرانوں کے اس طرزعمل نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا؟ اپنی حالت دیکھ کر رونا آتا ہے۔ دنیا نے ہمیں چھوت کے مریض کی طرح‘ بھنگی بنا کر الگ تھلگ کر پھینکا ہے۔ ہمیں شرم آنا چاہیے تھی۔ ہم ہرروز پولیو کے نئے مریض دریافت ہونے کی خبریں پڑھ کر‘ ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔
لیکن بھارت میں طوفانی انتخابی مہم کے بعد‘ کامیاب ہونے والی حکومت نے جب چارج سنبھالا‘ تو اپوزیشن نے کسی بھی سچے یا جھوٹے بہانے کی آڑ میں‘ حکومت پر مخالفانہ حملہ شروع نہیں کیا۔ نئی حکومت نے اطمینان اور ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنا کام شروع کیا۔ وزیراعظم مودی نے کابینہ کی پہلی میٹنگ میں جو فیصلہ کیا۔ آپ کی توجہ کا محتاج ہے۔ انہوں نے سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم کے قیام کا فیصلہ کیا اور تمام متعلقہ وزرا کو حکم دیا کہ وہ اپنے اپنے محکموں میں چند روز کے اندر ایسا لائحہ عمل تیار کر کے بتائیں کہ ہم بیرونی بنکوں میں‘ چھپائی ہوئی دولت کا سراغ لگا کر‘ اسے جلد از جلد واپس کیسے لا سکتے ہیں؟ ایسا کیوں ممکن ہوا؟ وزیراعظم اور ان کے تمام سینئر وزرا میں ایک بھی ایسا نہیں جس کی دولت باہر پڑی ہو۔ ایسے لوگ ہی ‘ایسا کر سکتے ہیں۔ 28 مئی کو وزیروں کو مطلع کر دیا گیا کہ وہ اپنے ذاتی سٹاف میں کوئی رشتہ دار نہیں رکھیں گے اور سرکاری اختیارات کا استعمال کر کے‘ کسی رشتے دار‘ دوست اور اپنے چمچے کو فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ 2جون کو وزیراعظم نے وزیروں کوڈائریکٹو بھیجا کہ وہ اپنے اپنے شعبے سے نامور اور اعلیٰ پائے کے ماہرین کی خدمات حاصل کریں تاکہ کارکردگی کو معیاری ‘ تیزرفتار اور شفاف بنایا جائے۔ 3جون کو دیہی ترقی کی وزارت کے سربراہ گوپی ناتھ
منڈے کو‘ زبردست خراج عقیدت پیش کیا‘ جو ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوئے تھے اور کہا کہ وہ سول سوسائٹی کے انتہائی پسماندہ طبقے میں سے‘ آگے نکل کر عوام کی بھرپور خدمت کرتے رہے۔ 4 جون کو انہوں نے صدر اوباما کا دورہ امریکہ کا دعوت نامہ قبول کر کے‘ فوراً وزارت خارجہ ‘ وزارت دفاع‘ وزارت صنعت و تجارت کو خصوصی احکامات جاری کر دیئے کہ اس دورے کے ایجنڈے کے لئے‘ اپنی اپنی سفارشات تیار کر لیں۔ یاد رہے کہ یہ دورہ 23ستمبر کو ہو گا‘ جب مودی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں‘ اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہوں گے۔ 5جون کو وہ بھوٹان کے دورے پر گئے۔ یہ دورہ کرنے کا فیصلہ بھوٹان اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے پس منظر میں تھا۔ اسے کہتے ہیں پالیسی سازی میں ترجیحات کا تعین۔ پہلے سکیورٹی‘ بعد میں دوسرے کام۔ 6جون کو وزیراعظم نے کیبنٹ سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وہ ٹاپ رینکنگ سرکاری ملازمین کے لئے‘11 پوائنٹ پر مشتمل ترجیحاتی بنیادوں پر کئے جانے والے کاموں کی فہرست مرتب کریں۔ جن کی روشنی میں نئے ورک کلچر اور عام آدمی کے لئے تکلیف دہ قواعد و ضوابط کو ختم کر کے‘ ان کی زندگی میں آسانیاں لائیں۔ اس کے ساتھ ہی تمام سیکرٹریوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ 10 ایسے بنیادی قواعد و ضوابط اور پروسیجرز کی نشاندہی کریں‘ جو عوام کی سہولتوں کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ تمام سیکرٹری حضرات ‘اپنی تجاویز کم از کم الفاظ میں‘ ایک صفحے پر بیان کر دیں۔ 8جون کو انہوں نے عظیم شمالی ہمسائے‘ چین کے بارے میں تین الفاظ کی روشنی میں حکم دیا کہ اپنے اپنے شعبے کے حوالے سے پالیسی تجاویز مرتب کریں۔ یہ تین الفاظ ہیں "Skill, Scale and Speed" ۔ 9جون کو صدر پرناب مکھرجی کا پارلیمنٹ سے خطاب ہوا۔ اس خطاب کا مسودہ‘ وزیراعظم مودی کی نگرانی میں ایک کمیٹی نے تیار کیا تھا اور مودی نے خود صدر سے ملاقات کر کے‘ مطلوبہ وضاحتوںکے ساتھ ان کی خدمت میں پیش کیا۔صدر نے لفظ بہ لفظ وہی خطاب پارلیمنٹ میں کر دیا۔ یاد رہے کہ وہ ‘نریندر مودی کی پارٹی کی بدترین مخالف کانگریس پارٹی کے بنائے ہوئے صدر ہیں۔لیکن قومی فرائض کی ادائی میں دونوں کے جماعتی تعصبات حائل نہ ہوئے۔خطاب کا مرکزی نکتہ مرکز اور صوبوں کے
درمیان تعلقات تھا اور اس کی بنیاد کوآپریٹو فیڈرلزم‘ تجویز کی گئی۔ 10 جون کو وزیراعظم نے 4کیبنٹ کمیٹیاں فوری طور سے برطرف کر دیں۔اس کا مقصد فیصلہ سازی اور فیصلوں کے نفوذ میں تیزرفتاری پیدا کرنا ہے۔ 11جون کو نریندر مودی نے پارلیمنٹ سے‘ اپنے پہلے خطاب میں خواتین کی عزت ووقار پر خصوصی توجہ دی۔ انہوں نے کہا ''میں نہیں چاہتا کہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرکے‘ ان کی عزت و وقار سے کھیلوں۔ اس طرح کے واقعات ہمیں مشاہدہ نفس کی طرف لے جاتے ہیں۔ملک انتظار نہیں کر سکتا اور عوام فراموش نہیں کر سکتے۔‘‘ 12 جون کو مودی صاحب نے تمام وزارتوں کو ہدایت کی کہ ان کے تمام محکمے ‘ جو این جی اوزکی مدد لے رہے ہیں‘ ان کی تفصیل سے وزیراعظم کو آگاہ کیا جائے۔ اس سے پہلے وزیراعظم نے انٹیلی جنس بیورو سے مرکزی وزارتوں کے ساتھ کام کرنے والی تمام‘ این جی اوز کی تفتیش مکمل کرا کے‘ ان کی رپورٹیں اپنے پاس رکھ لی تھیں۔ 16 جون کو مودی نے پارلیمانی امور کی وزارت کو حکم دیا کہ قانون سازی کے لئے ہماری پالیسی 2نکات پر مبنی ہو گی "Care and Caution" ۔پارلیمنٹ میں اضافی بلوں اور ترجیحاتی تجاویز پر‘ جولائی کے دوسرے ہفتے میں غور شروع ہو گا۔ اس سے پہلے تمام وزارتوں سے ترجیحاتی قانون سازی کی لسٹ 12جون تک منگوائی جا چکی تھی۔ 19جون کو دیگر اہم فیصلوں کے علاوہ ایک حکم یہ جاری کیا گیا کہ تمام وزیر اپنے ذاتی سٹاف میں لکیر کے فقیر بابوئوں کو فارغ کر دیں۔ اسی دوران مودی نے قومی زبان اور لسانی تبدیلیوں پر راہنما پالیسی اصول مرتب کر کے‘ ریاستی حکومتوں کو بھیج دیئے تھے۔ ایک ہدایت یہ تھی کہ ماضی کی عظیم قومی شخصیتوں کے علاوہ‘ نصاب میں عظیم قومی خدمات انجام دینے والی شخصیتوں کی سوانح بھی شامل کی جائیں۔ دو ریاستوں مدھیہ پردیش اور راجستھان کے بارے میں پتہ چلا کہ انہوں نے وزیراعظم مودی کا نام نصاب میں ڈال دیا ہے۔ وزیراعظم نے اس تبدیلی کو فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ ان کا نام نصابی کتابوں سے نکال دیا جائے۔ میں نے ایک نئے وزیراعظم کے ابتدائی 30 دنوں میں‘ کئے گئے کاموں میں سے چند ایک کا ذکر کیا ہے۔ پوری تفصیل کی کالم میں گنجائش نہیں۔ مگر آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ حکومتیں کس طرح کام شروع کرتی ہیں؟ہو سکتا ہے یہ کالم پڑھ کر ہمارے بابو اور لیڈر یہ سوچیں کہ ''ان میں کونسی نئی بات ہے؟ ہم نے بھی کئی بار یہی کچھ سوچا ہے۔‘‘ میں نے سوچنے کی بات نہیں کی۔ عملی اقدامات کا حوالہ دیا ہے‘ جو کئے جا چکے ہیں۔ مجھے ایسی صرف ایک کوشش کی مثال دے دیں‘ جو ساری بلیک منی واپس لانے کی خاطر کی گئی ہو؟