نہ فریضہ حج کا وقت تھا۔ نہ مکہ مکرمہ کا بازار۔اس کے باوجود حجاموں کی دکانوں پر رش تھا کہ کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ حجاموں کے ہاتھ تو کیا؟ استرے بھی تھک گئے تھے۔ قینچیاں کند ہو گئی تھیں۔ بال کٹوانے والوں کے رش میں کمی نہیں آئی۔ اصل میں یہ سب کچھ پاکستان کے ایک علاقے‘ شمالی وزیرستان میں ہو رہا تھا۔ یہاں دنیا بھر کے دہشت گردوں نے اپنے مراکز قائم کر رکھے تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ ایک دوسرے سے پہلے‘ بال کٹوانے کے لئے بے تاب اور مضطرب یہ لوگ ‘ حجاموں کی دکانیں بند کرایا کرتے تھے۔ حکم تھا کہ سر اور داڑھی کے بال کاٹنا اور کٹوانا غیرشرعی حرکت ہے اور ہم یہاں کسی کو خلاف شرع کچھ نہیں کرنے دیں گے۔ جہاں جہاں یہ مجاہدین اسلام‘ من مانی کر رہے تھے‘ وہاں کے حجاموں پر بہت برا وقت تھا۔ فاقوں سے تنگ آ کر‘حجام اپنے بیوی بچوں سمیت شمالی وزیرستان سے نکلنے لگے اور خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں اپنا کاروبار نئے سرے سے شروع کیا۔ مقامی حجاموں کے کاروبار پر اثر تو ضرور پڑا۔ لیکن اپنے مجبور بھائیوں کی حالت دیکھ کر انہیں بھی رحم آ گیا اور اپنے ہی وطن میں بے وطن ہونے والوں کا لحاظ کرتے ہوئے‘ ان کے کام کاج میں کوئی مداخلت نہ کی۔ پھر شمالی وزیرستان میںیکایک یہ کیا ہو گیا تھا؟ کہ جس کام کو غیرشرعی قرار دے کر انہوں نے حجاموں کے کاروبار بند کرائے۔ ان کی دکانیں توڑیں ۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنایااور جب وہ بیچارے سب کچھ چھوڑچھاڑ کے بھاگ گئے۔ میرانشاہ کے بازاروں اور گلیوں میں ہر طرف لمبے بالوں اور لمبی داڑھیوں والے مجاہدین اسلام کا قبضہ ہو گیا۔
پھر اچانک کچھ ایسا ہوا کہ مجاہدین اسلام گھبراہٹ‘ پریشانی اور بوکھلاہٹ کے عالم میں حجاموں کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ سارے حجاموں نے نقل مکانی نہیں کی تھی۔ بہت سے حجاموں نے اپنے ہیئرکٹنگ سیلون بند کر کے‘ دوسرے کاروبار شروع کر دیئے تھے۔ کئی سال گزر جانے کے بعد‘ بھی حالات جوں کے توں رہے‘ تو حجام بھی پرانی زندگی فراموش کر کے‘ نئی زندگی کے عادی ہو گئے۔ لیکن اب مجاہدین اسلام ‘ انہی حجاموں کو ڈھونڈنے میں لگے تھے اور وہ چھپتے پھر رہے تھے۔ شاید انہیں خوف تھا کہ ''نفاذ اسلام‘‘ کی کوئی نئی لہر اٹھی ہے۔ شاید اب یہ لوگ ہمیں ہلاک کرنے کے لئے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ بڑی مشکل سے ایک حجام قابو آیا‘ تو مجاہدین نے اسے
سزا دینے کی بجائے‘ خوشامدیں شروع کر دیں کہ وہ اپنا کاروبار دوبارہ شروع کریں اور جلدی سے ہماری داڑھیوں اور سروں کے بال کاٹیں۔ انہوں نے پرانے استرے اور قینچیاں نکال کر صفائی کی۔ اپنی دکانوں میں جگہ بنا کر دریاں بچھائیں۔ مجاہدین کو انہی پر بٹھا کے‘ اپنا خلاف شرع کاروبار شروع کر دیا۔جب چند دکانیں کھلیں‘ تو دیگر حجام بھی‘ جو اپنی جانیں بچانے کے لئے روپوش ہو گئے تھے‘ تیزی سے برآمد ہونے لگے اور میرانشاہ کے بعد پورے شمالی وزیرستان میں پھیل گئے۔ ہیئرکٹنگ سیلون پھر سے آباد ہو گئے اور وہی مجاہدین اسلام‘ جو پہلے کلاشنکوفیں دکھا کر ان کے کاروبار بند کراتے تھے۔ ان کی دکانیں توڑتے تھے۔ انہیں زدوکوب کرتے تھے۔ شدید ضرورت مندوں کی طرح التجائیں کرتے ہوئے‘ وقت مانگتے نظر آنے لگے کہ پہلے ان کی حجامت کر دی جائے۔ اچانک یہ انقلابی تبدیلی اس لئے آئی کہ مجاہدین اسلام کو‘ پاک فوج کے آپریشن کی سدھ بدھ لگ گئی تھی اور وہ اپنے حلیے بدل کر‘ چھپ چھپا کے‘ شمالی وزیرستان سے نکل بھاگنے کی تدبیریں کر رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ شمالی وزیرستان میں‘ نہ صرف پرانے ہیئرکٹنگ سیلون دوبارہ کھل گئے بلکہ اردگرد کے حجاموں کے لئے بھی گنجائش پیدا ہو گئی۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق بال کٹوانے والوں کی بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ میرانشاہ کے ایک حجام‘ اعظم خان نے بتایا کہ ان دنوں‘ 5لاکھ کے قریب مجاہدین اسلام ایسے تھے‘ جو جلدازجلد بال کٹوا کے‘ نکل بھاگنا چاہتے تھے۔ میں نے چند روز کے اندر اندر 700 مقامی اور ازبک جہادیوں کے بال کاٹے۔ پہلے یہی مجاہدین‘ حکیم اللہ محسود کی طرح سر اور داڑھیوں کے بال بے تحاشہ بڑھا کر ‘ ان جیسا دکھائی دینے کی کوشش کرتے تھے اور اب وہ ایک دوسرے کو دھکے دے کر‘ جلد از جلد اپنے حلیے بدلنے کے خواہش مند تھے اور کوشش کر رہے تھے کہ انہیں دیکھ کر کوئی یہ نہ سمجھے کہ ان کا تعلق طالبان سے ہے۔ یہ لوگ بتا رہے تھے کہ وہ یہاں سے نکل کرکسی بھی دوسری جگہ جہاد کا فرض انجام دیں گے۔ کچھ نے بتایا کہ وہ خلیج کے ملکوں میں جائیں گے۔ کچھ افغانستان کی طرف جانے کی باتیں کر رہے تھے اور کچھ ایسے تھے‘ جنہیں اپنی منزل معلوم نہیں تھی۔ مگر وہ شمالی وزیرستان سے نکل بھاگنے کو بے تاب تھے۔ بہت سے ایسے تھے‘ جو پاکستان میں ہی روپوش ہونے کی تیاریاں کر چکے تھے۔ مقامی آبادی کئی برسوں سے خوف کی زندگی گزار رہی تھی۔ اب انہیں ڈرانے والے مجاہدین کے خود اپنے چہرے‘ خوف سے زرد ہو رہے تھے۔ بہت سے غیر ملکی ایسے تھے‘ جو کبھی بازاروں اور چوکوں میں نہیں آتے تھے۔ وہ قتل و غارت گری کے مشن انجام دے کر‘ رات کے اندھیرے میں واپس شمالی وزیرستان آتے اور اپنی کمین گاہوں میں چھپے رہتے۔ مقامی لوگوں کے سامنے آنے سے یہ لوگ گریز کیا کرتے تھے۔ یہ حیرت تھی کہ اب وہ بھی گھبراہٹ کے عالم میں بال کٹوانے کے لئے بھٹکتے پھر رہے تھے۔ وہ مقامی زبان سے بھی واقف نہیں تھے۔ مقامی لوگوں کو روک روک کر ‘وہ مختلف طریقوں سے حجاموں کے پتے پوچھتے نظر آئے۔یہ وہی لوگ تھے‘ جنہوں نے برسوں سے مقامی باشندوں کو دہشت میں مبتلا کر رکھا تھا۔ آپریشن شروع ہونے سے پہلے‘ یہی لوگ چوہوں کی طرح بھاگنے کی تیاریاں کرتے ہوئے ‘ مقامی لوگوں سے مدد مانگتے نظر آئے۔ لیکن ان دنوں میں بھی پرامن شہریوں کی دہشت زدگی کا یہ عالم تھا کہ وہ دہشت گردوں کے مظالم کی تفصیل بتانے سے گھبراتے تھے۔ میرانشاہ کے کچھ دکانداروں نے بتایا کہ ہمارے زبردستی کے یہ مہمان‘ بہت شوقین مزاج لوگ تھے۔ وہ درآمدی فیشن ایبل اشیا شوق سے خریدتے۔ حکیم اللہ خان ‘میرانشاہ کا ایک دکاندار ہے۔ اس نے بتایا کہ یہ لوگ مجھ سے جبراً 300 روپیہ ماہانہ بھتہ وصول کیا کرتے اور ہمارے ہی روپے سے درآمدی صابن‘ شیمپو اور خوشبو کے سپرے خریدتے۔ یہ لوگ فرانس اور ترکی کی بنی ہوئی خوشبوئیں اور باڈی سپرے زیادہ پسند کرتے۔ اس نے بتایا کہ پہلے بھی کئی بار فوجی آپریشن کی خبریں اڑیں۔ لیکن یہ لوگ فرار ہونے کی بجائے‘ مورچہ بند ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن اس مرتبہ یہ بہت زیادہ خوفزدہ تھے۔ آپریشن شروع ہونے سے پہلے 80 فیصد سے زیادہ غیرملکی اور پاکستانی دہشت گرد‘ شمالی وزیرستان سے نکل چکے تھے۔ ان میں سے بیشتر نے افغانستان کی سرحد پار کی۔
خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ آپریشن شروع ہونے سے پہلے شمالی وزیرستان میں جمع‘ دہشت گردوں کی تعداد 10ہزار سے زیادہ تھی۔ آپریشن شروع ہونے کے وقت‘ ان میں سے صرف 2000 باقی رہ گئے تھے۔ لیکن بچ رہنے والوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔مقامی لوگوں کواندیشہ ہے ‘ آپریشن مکمل ہونے کے بعد ‘ پاکستانی فوج کہیں حقانی گروپ کو یہاں واپس آ کر آباد ہونے کی اجازت نہ دے دے؟ ورنہ ان کی زندگی دوبارتکلیف دہ اور غیرمحفوظ ہو جائے گی۔ حقانی ‘ افغانستان سے اپنے حامیوں کو یہاں بلا کر رکھنا شروع کر دیں گے۔ یہ لوگ اپنے نئے ساتھیوں کے ہمراہ سرحد پار افغانستان کے اندر جا کر‘کارروائیاں کریں گے اور پناہ لینے یہاں آ جایا کریں گے۔ اگر افغان فوجی ان کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں آنے لگے‘ تو ہماری زندگی پہلے سے بھی بدتر ہو جائے گی۔ پاک فوج کو اچھے اور برے طالبان کا فرق چھوڑ کر‘ سارے دہشت گردوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے‘ دہشت گردی سے نجات حاصل کرنا مشکل ہو گا۔
ادھر شمالی وزیرستان کا آپریشن چل رہا تھا اور لاہور میں ''ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ کا ڈرامہ۔ وزیراعظم نوازشریف خود بھی کبھی جنرل ضیاالحق کے زیرسایہ کام کرتے تھے اور انہیں ایسے تجربات سے گزرنا پڑا ہو گا‘ جن سے ان دنوں چوہدری نثار علی خان گزر رہے ہیں۔ میاں صاحب کے خلاف بھی جوڑتوڑ ہوا کرتے تھے۔ آج چوہدری نثار اسی پوزیشن میں ہیں اور اپنے خلاف جوڑتوڑ سے گھبرا کر‘ وزیراعظم کے پاس شکایتیں کرنے آ جاتے ہیں۔ ڈرامہ وہی ہے۔ ''ساس بھی کبھی بہو تھی۔‘‘ جنگ میں بھی درد بھرا سوشل ڈرامہ۔