"NNC" (space) message & send to 7575

لینے کے دینے پڑ جائیں گے

کیا نئے گناہوں اور جرائم کا قحط پڑ گیا ہے؟ جو گڑے مردے اکھاڑنے کی ضرورت آن پڑی؟ اور اس کا م کا آغاز کون کررہا ہے؟ جس نے پہلی مرتبہ عدلیہ کے اعلیٰ ترین منصب کی عظمت پہ ہاتھ ڈال کے‘ کرپشن کا وقار بلند کیا؟ یہ وہی ارسلان صاحب ہیں‘ جنہوں نے باپ کے اچھے بھلے رتبے کو‘ اپنی بدنامیوں کے داغ سے اورایک عظیم ادارے کو اپنی کارستانیوں کے سبب‘سرگوشیو ں کا موضوع بنا دیا۔ ان صاحب کو عمران خان کے عیب دیکھنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ انہوں نے اپنے والد محترم کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی‘ انہیں آرام سے نہیں بیٹھنے دیا۔ ان کا نام یا تعلقات استعمال کر کے‘ ایک ایسے بڑے منصب پر ہاتھ مار لیا‘ جس کے نہ تو یہ اہل تھے نہ لائق۔روانی میں کہیں نا لائق نہ پڑھ لیں۔میں نے نہ‘ لائق لکھا ہے۔ ریکوڈک کے خزانے پر دنیا بھر کے جغادریوں کی نظریں گڑیں۔ جیسا کہ میں نے بھی لکھا تھا یہ کھربوں ڈالر کا کھیل ہے۔ اس میں نجانے کتنے بڑے بڑے عالمی سرمایہ دار‘ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور حکومتی عہدیداردلچسپی رکھتے ہیں۔ موصوف نے اپنے خیال میں چپکے سے خفیہ ہاتھ مار لیا جو چھپا نہیں رہ سکتا تھا۔ جیسے ہی اس کی خبر پھیلی‘ دنیا بھر میں ہاہاکار مچ گئی۔ پاکستان میں بھی شور اٹھا۔موصوف کے والد محترم‘ وزیراعلیٰ بلوچستان حتی کہ وزیراعظم پاکستان کا‘ اس تقرری میں دخل تھا یا نہیں؟ جواب دہی کا بوجھ‘ ان پہ آن پڑا۔ انہوں نے عافیت اسی میں جانی کہ فوری طور پر اس سکینڈل کا فریق بننے سے پہلے پہلے اسے ختم کر دیا جائے‘ ورنہ پورے پورے اعمال نامے کھلنا شروع ہو جائیں گے۔ خدا جانے ارسلان بے بی نے‘ کیسے دل پر پتھر رکھ کر استعفیٰ دیا ہو گا؟ لیکن تکلیف اتنی ہوئی کہ جس کے منہ سے اس کی تقرری پر ‘ایک لفظ بھی نکلا تھا‘ اس کے درپے آزار ہو گئے۔
اعتراض کرنے والوں میں‘ عمران خان بھی شامل تھے۔ موصوف کو اورتو کچھ نہ سوجھی۔ اپنے سیاسی سرپرستوں سے رہنمائی لے کر‘ جوابی حملہ کرنے پر تل گئے۔مشورہ دینے والا‘ میری طرح پچھلی صدی کا کوئی آدمی ہو گا‘ جس نے پرانے زمانے میں‘ عمران خان کے خلاف ایک سیاسی مہم کے دوران‘ شائع ہونے والے الزامات نکال کر‘ ارسلان کے سامنے رکھ دئیے۔ ان میں سے ایک حوالہ سیتا وائٹ کا تھا۔ اس مغربی خاتون سے عمران خان نے شاید خفیہ شادی کر کے ‘ایک بچی پیدا کی تھی یا پیدا کئے بغیر ہی‘ ان پر الزام لگ گیا تھا لیکن یہ مسئلہ انہی دنوں رفع دفع ہو گیا۔ اگر سچائی ہوتی تو بات آگے چلائی جاتی کیونکہ یہ الزام سامنے لے کر آنے والے سیاست دان ہی تھے۔ معاملہ دب جانے کا مطلب یہ تھا کہ الزام لگانے والوں کو‘ بات آگے بڑھانے کا جواز نہیں ملا ہو گا۔ ارسلان افتخار کو شاید علم نہیں کہ اگر اس نے یہ بات آگے بڑھائی‘ تو کیسی کیسی نئی کہانیاں سامنے آئیں گی؟ عتیقہ اوڈھو کا معاملہ تو کل کی بات ہے۔جن کے پرس میں سے ایئر پورٹ پر‘ ایک ایک اونس کی دو شیشیاں برآمد ہو گئی تھیں ۔ اخباروں میں خبر شائع ہوئی کہ شراب برآمد ہو گئی۔ اس کا سوموٹو نوٹس لے لیا گیا۔ اس کی طلبی بھی ہوئی۔ اس کے بعد نہ بوتلوں کا پتہ ہے۔ نہ عتیقہ اوڈھو کا نام دوبارہ پڑھنے میں آیا۔ نہ مقدمے کا۔ یہ سوال آج بھی حل طلب ہے۔ کوئی ستم ظریف ادھیڑنے بیٹھ گیا تو کیسی کیسی کہانیاں برآمد ہوں گی؟ اس کا پتہ‘ تفتیش کرنے پر ہی چلے گا ۔ لوگ اس بات کو بھول چکے ہیں۔ایسی باتوں کا بھلا دیا جانا ہی اچھا ہوتا ہے۔ لیکن ارسلان افتخار نے عمران خان کے ماضی بعید پر پنجہ مار کے‘ جوابی کارروائیوں کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ عمران خان کے حامیوں نے اپنی کارروائی کے لئے ‘پہلے یادوسرے قدم سے کام شروع کرنے کے بجائے‘ براہ راست لمبی چھلانگ لگائی اور وزیراعظم نوازشریف کے کاغذات نامزدگی مانگ لئے۔ ارسلان افتخار کو تائو آیا تو انہوں نے سیاسی مخالفین کی طرف سے‘ عمران خان کے خلاف کئے گئے اعتراضات کی تفصیل مانگ لی۔ جو فاروق ستار اور ڈاکٹر شیر افگن مرحوم کی طرف سے الیکشن کمیشن میں کئے گئے تھے۔
ابھی حالیہ الیکشن کے جھگڑے ختم ہونے میں نہیں آرہے‘ پرانے انتخابات کی فائلیں کھلنا شروع ہو گئی ہیں۔ اب ان میں‘ عمران خان اور نوازشریف کے کاغذات نامزدگی میں سے غلط بیانیاں یا فروگزا شتیں ڈھونڈی جائیں گی۔ ان کی بنیاد پر دونوں کو نا اہل ثابت کرنے کے لئے ‘الیکشن کمیشن سے فیصلے طلب کئے جائیں گے اور اگر غلطی ثابت بھی ہو گئی تو برآمد کیا ہو گا؟ الیکشن کمیشن صرف یہ کر سکتا ہے کہ ان کاغذات نامزدگی کی بنیاد پر امیدوار کو‘ انتخابی عمل سے باہر کر دے یا وہ ابھی تک مذکورہ اسمبلی میں موجود ہے تو اس کی رکنیت کالعدم کر دے۔ وہ الیکشن ختم ہو گیا۔ وہ اسمبلیاں ختم ہو گئیں۔ اب اگر الیکشن کمیشن دونوں کو ‘نا اہل قرار بھی دیدے تو فرق کیا پڑے گا؟ ارسلان افتخار نے یہ باریک قانونی نکتہ استعمال کرنے سے پہلے‘ اپنے والد محترم ہی سے مشورہ لے لیا ہوتا۔ انتخابات کے لئے بھرے گئے فارموں میں ‘کوئی بھی سقم نکلنے پر الیکشن کمیشن ‘صرف اسی الیکشن میں حصہ لینے کی اہلیت پر فیصلہ سنا سکتا ہے۔ اس کے سوا کوئی کارروائی کرنا مطلوب ہو تو اس کے لئے علیحدہ کیس بنانا پڑے گا۔ الیکشن کمیشن میں خواہ مخواہ کے چکر لگانے کے بجائے‘ براہ راست کیس تیار کئے جا سکتے ہیں۔ نیب موجود ہے۔ بینکوں کے ریکارڈ دستیاب ہیں۔ ٹیکس لینے والے مختلف محکموں کے پاس‘ حسابات محفوظ پڑے ہیں۔ کوئی بھی کھاتہ کھول کے کردار کشی کی مہم چلائی جا سکتی ہے۔ یہاں کون سا لیڈر ہے جس کا ریکارڈ صاف ہو؟ کون سا الزام ہے‘ جس کے چرچے نہ ہوئے ہوں؟ کون سی عدالت ہے جس نے کرپشن کے بدنام زمانہ سکینڈلز کی تفتیش کرا کے‘ کسی بڑے لیڈر کو سزا دی ہو؟ ارسلان خوداپنے مقدمے کے بارے میں بتا دیں کہ اس کا کیا بنا؟ یہی الزامات اگر کسی ہیڈ کلرک‘ پولیس افسر یا سیکشن افسر کے بیٹے پر لگتے تو وہ کبھی کا‘ اپنے باپ کی معیت میں اندر ہو چکا ہوتا لیکن ارسلان افتخار کی طاقت ہی تھی‘ جس کی وجہ سے سارے کے سارے الزامات دھرے رہ گئے۔ مقدمہ سپریم کورٹ میں لگ گیا مگر ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔ورنہ ملک ریاض حسین نے کون سی کسر چھوڑی تھی؟ انہوں نے تو دعویٰ کر دیا تھا کہ ان کے پاس اپنے تمام الزامات کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ ارسلان نے بیرونی ملکوں کی سیر و سیاحت کے لئے‘ ملک صاحب سے کس طرح سفری اخراجات وصول کئے؟ کس طرح دنیا کے سب سے بڑے جوا خانوں میں شوق فرمانے کے لئے ڈالر حاصل کئے گئے؟ کون سے ملک کے کس کس اعلیٰ درجے کے ہوٹل میں انہوں نے قیام کیا؟ کس طرح اہل خانہ کی بیرون ملک سیر وسیاحت کے لئے‘ ملک صاحب سے اخراجات وصول کئے گئے؟ ملک صاحب کے پاس ہر چیز کا ریکارڈ موجود ہے۔ کسی نے ان سے ثبوت مانگے؟ رسیدیں طلب کیں؟ ہوٹلوں اور بنکوں کے ریکارڈ منگوائے؟ ایئر لائنز سے ٹکٹوں کی تفصیلات طلب کیں؟ ان میں سے کچھ نہیں ہوا۔ ارسلان کی اس خاموشی کو مجرمانہ ہی سمجھا جائے گا ۔ انہیں اپنی اور والد محترم کی عزت کا خیال ہوتا‘ تو وہ مقدمے کی پیروی کرتے۔ اور ملک صاحب کو مجبور کرتے کہ وہ اپنے الزامات کے ثبوت پیش کریں۔ مجھ پر ایک صحافی نے سپریم کورٹ میں‘ الزام لگایا تھا کہ میں نے ایک ایجنسی سے تیس لاکھ روپے وصول کئے۔ میں خود سپریم کورٹ میں جا کر فریق بن گیا اور مسلسل کوشش کر رہا ہوں کہ عدالت عظمیٰ مقدمے کی سماعت کر کے فیصلہ سنائے۔ جب تک فیصلہ نہیں آتا‘ میں کوشش کرتا رہوں گا۔ ارسلان صاحب پر تو کروڑوں کے الزامات ہیں۔جن میں ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے والد محترم کے منصب کااستعمال کرتے ہوئے‘ ملک صاحب سے وعدے کر کے مراعات حاصل کیں کہ ان کے دبے ہوئے مقدمات کی سماعت شروع کرا کے‘ قانون کے مطابق فیصلے کرا دیں گے۔کیونکہ فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے‘ انہیں بھاری نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ ارسلان افتخار کے لئے اب سنہری موقع ہے کہ وہ مقدمات کی سماعت دوبارہ شروع کر اکے‘ اپنی اور اپنے والد محترم کی پوزیشن صاف کرے۔ بجائے اس کے اپنے اور اپنے خاندان پر لگے داغ دھبے دھوئیں ‘ وہ دوسروں کی فائلیں کھلوانے چل نکلے ہیں۔ارسلان صاحب نے ایک حکایت تو سن رکھی ہو گی کہ کسی گناہ گار کو پہلا پتھر وہ مارے‘ جس نے اپنی زندگی میں کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ کیا ارسلان افتخار اس معیار پر‘ پورے اترتے ہیں؟ کیا وہ اس حیثیت میں رہ گئے ہیں کہ الزامات کی طویل فہرست کے ہوتے ہوئے‘ عمران خان یا کسی دوسری شخصیت پر انگلی اٹھائیں؟ وہ کب تک اپنے والد محترم کا امتحان لیتے رہیں گے؟ اگر نوازشریف ان پر مہربان ہیں تو کب تک ان کی مہربانیوں کا فائدہ اٹھا کر ان کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہیں گے؟ بلوچستان انوسٹمنٹ کا وائس چیئرمین لگنے میں نوازشریف نے کچھ کیا ہویا نہیں؟ مگر ان کا نام لگ گیا ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک ‘نے سابق چیف جسٹس کا احترام کرتے ہوئے‘ ان کی تقرری کر دی۔ اس کے بعد‘ ان کی جو درگت بنی‘ انہیں تیسرے دن ہی ہاتھ کھڑے کرنا پڑ گئے لیکن غلطی بہر حال ان سے ہو گئی۔ ارسلان صاحب کسی بھی اعتبار سے ‘اس منصب کے اہل نہیں تھے۔ سرکاری ملازمت میں بھی انہوں نے جو بھی پوسٹ حاصل کی ‘ وہ اس کے اہل نہیں تھے۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔ سول سروس کے امتحان میں صرف پاس ضرور ہوئے‘ کوئی پوزیشن حاصل نہیں کر پائے تھے۔ اس کے باوجود وہ پولیس میں بھی گئے اور ایف آئی اے میں بھی۔ یہاں کون سی دل کشی تھی؟ جس کی خاطر چیف جسٹس آف پاکستان کے بیٹے کو اپنی تقرریاں کروانا پڑیں؟ ان کی تازہ حرکت کی وجہ سے‘ نہ وزیراعظم نوازشریف کے کاغذات نامزدگی نکلوانے کی کوشش ہوتی اور نہ عمران خان کو جواب دینا پڑتا۔ ارسلان نے بلاوجہ پہاڑوں کو ٹکر مار دی۔ عمران خان اور وزیراعظم کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ ارسلان اب البتہ ماضی کا حساب دینے پر ضرور مجبور ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں