آج میرے کالم کی جگہ غزہ یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر‘ حیدرعیدکی کرب انگیز ڈائری شائع ہوئی۔دھوئیں اور شعلوں کی دورنگی چادر اوڑھ کے‘ غزہ کی صورتحال پر خون سے لکھی گئی تحریر کی جگہ کچھ اور شائع کرناممکن ہی نہیں تھا۔ میرے کالم کی تو حیثیت ہی کیا ہے؟ ایسی اذیت ناک زندگی‘ جس سے اپنے بھی منہ پھیر چکے ہیں‘ بلاشبہ دوزخ کے شیطانی فرشتوں کی مسلط کردہ ہے۔ جو مظالم فلسطینیوں پر ڈھائے جا رہے ہیں‘ ان کے لئے ظلم‘ بربریت‘ شقی القلبی‘ بے رحمی اور درندگی جیسے الفاظ‘ بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ جنگوں کی تاریخ بہت پرانی ہے‘ لیکن بے بس‘ نہتے‘ عسکری تربیت سے محروم‘ دفاعی صلاحیتوں سے عاری اورپنجرے کی صورتحال میں پھنسے ہوئے انسانوں پر‘ غزہ میں جو گزر رہی ہے‘ اس کی مثال کہیں بھی اور کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ کم از کم میں یہی سمجھا اور جب اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے الفاظ کا چنائو کیا‘ تو عجیب صورتحال سامنے آئی۔ میں نے لکھا ''غزہ میں جو مکان بھی گھر ہے‘ جہاں خاندان اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں‘ جن کے پاس کوئی اسلحہ نہیں۔ فوجی تربیت نہیں۔ جان بچانے کا ہنر نہیں۔ موت سے فرار کی کوئی راہ نہیں۔ اسرائیلیوں کے لئے وہ ایک جنگی ہدف ہے اور اسے بموں کا نشانہ بنانا وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ‘‘ نظرثانی کے لئے پڑھا‘ تو سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کونسا ظلم ہے؟ اس سے زیادہ اندوہناک حالت تو میرے اپنے اہل وطن کی ہے۔ یہاں بھی گھروں پر بم پھینکے جاتے ہیں۔ بازاروں میں دھماکے ہوتے ہیں۔ یہاں کا عام شہری بھی نہتا ہوتا ہے۔ اس پر اچانک یوں حملہ ہوتا ہے کہ بھاگنے کا موقع ہی نہ ملے۔ ایسی کیا بات لکھوں‘ جسے پڑھ کے میرے ہم وطن‘ فلسطینیوں کے دکھوں کو محسوس کر سکیں؟ پھر میں نے لکھا ''درندہ صفت یہودیوں نے ایک ہسپتال میںزیرعلاج بچوں‘ عورتوں اور بوڑھوں پر بمباری کر کے‘ اسے تباہ کر دیا۔ ‘‘ یہ چند الفاظ دوبارہ پڑھ کر سوچا کہ یہ میں نے کیا لکھ دیا؟ میرے وطن میں تو درجنوں ہسپتال بموں سے تباہ کئے جا چکے ہیں۔ زیرعلاج مریضوں کو بارود میں بھون کے رکھ دیا گیا ہے۔ ایسا کون سا درد لکھوں؟ جس سے میرے اہل وطن ناآشنا ہوں؟ اس کے بعد میں نے لکھا ''غزہ میں بچوں کے سکولوں پر بمباری کر کے لوگوں کو گھروں میں محصور کر دیا گیا۔بچے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ ان کی پڑھائی رک گئی ہے۔ ‘‘ لکھتے لکھتے میں بھی رک گیا۔ نظرثانی کی تو یوں لگا‘ میں نے غزہ کا نہیں‘ اپنا المیہ لکھ ڈالا ہے۔ میرے وطن میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد بچے‘ اپنے گھروں سے انتہائی ابتری کی حالت میں نکلے۔ گرمی‘ گرد اور دھوپ میں ماں باپ کے کندھوں ‘ ٹرکوں‘ ٹرالیوں اور جانوروں سے کھینچی جانے والی گاڑیوں میں سوار بھوکے پیاسے رہ کر‘تپتی جھلستی بے سائباں زمین پر آ گرے۔ان کی پڑھائی کا سلسلہ بھی منقطع ہو چکا ہے۔ واپسی کا کچھ پتہ نہیں۔ جب اپنی بستیوں میں جائیں گے‘ تو ان میں سے کتنے ایسے ہوں گے‘ جو کھنڈرات میں اپنا گھر اور سکول ڈھونڈ سکیں ؟ فلسطینیوں کی ایسی کونسی تکلیف لکھوں؟ جس سے میرے اہل وطن نہ گزر رہے ہوں؟اسرائیلی الزام لگاتے ہیں کہ غزہ کے گھروں میں‘ دہشت گردوں نے راکٹ اور بم
ذخیرہ کر رکھے ہیں۔ یہ دلیل دے کر اسرائیلی گھروں پر بم پھینک رہے ہیں۔ بم ہمارے گھروں پر بھی اسی طرح پھینکے جاتے ہیں۔ اس الزام کے بغیر کہ اندر کوئی راکٹ یا بم موجود ہے۔ لاہور کی انتہائی پرامن آبادی‘ ماڈل ٹائون میں‘ اچانک گھروں کو دھماکوں سے اڑایا گیا۔ مکینوں پر ایسا کوئی الزام بھی نہیں تھا کہ ان کے گھر میں کوئی پٹاخہ موجود تھا۔ ایک مبصر نے لکھا کہ ''غزہ کا ہر گھر ایک جائز جنگی ٹارگٹ ہے۔‘‘ ہمارے بھی ہر گھرکو‘ ایک جنگی ٹارگٹ سمجھ لیا گیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے مکینوں کو یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ ان کے جرائم کیا ہیں؟ ایک رپورٹ میں لکھا ہے ''اسرائیلی اپنے شہریوں کے تحفظ کے لئے ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہیں اور فلسطینی اپنے ہتھیاروں کو بچانے کے لئے شہریوں کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ہم پر حملے کرنے والے اپنی مسلح طاقت کو تحفظ دینے کے لئے‘ شہریوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کوئی شہر یا بستی ایسی نہیں‘ جہاں دہشت گردوں نے خود کوشہری آبادیوں میں‘ ہتھیاروں سمیت نہ چھپا رکھا ہو۔ وہ انسانی آبادیوں کی آڑ لے کر اپنا اسلحہ اور اپنی طاقت بچاتے ہیں۔ غزہ والوں پر الزام ہے کہ ان کے شہر کو حماس والوں نے یرغمالی بنا رکھا ہے۔ دہشت گردوں نے ہمارے پورے ملک کو یرغمالی بنا رکھا ہے۔ لاکھوں یرغمالی اہل وطن کو بے سروسامانی کی حالت میں‘ گھروں سے نکال کر‘ ان سے جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ میں فلسطینیوں کے المیے کو زیادہ اذیت ناک سمجھتا ہوں۔ اس کے باوجود کہ ہمارے دشمن ‘ ہماری گردنیں کاٹ کر ‘ ہمارے سروں کو فٹبال بنا کر کھیلے۔ہمارے بچوں کے جسموں سے بم باندھ کر‘انہیں خود کو دھماکے سے اڑا دینے کے لئے اجتماعات میں استعمال کیا۔ ہماری عبادت گاہوں کو دھماکوں سے اڑایا گیا۔ مقبروں اور درگاہوں کو بموں سے تباہ کیا گیا۔ سرحدوںپر وطن اور آبادیوں میں شہریوں کی حفاظت پر مامور‘ سکیورٹی فورسز کو گولیوں‘ راکٹوں اور بارودی سرنگوں سے اڑایا۔ معصوم طالبات کو محض اس لئے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ تعلیم کیوں حاصل کر رہی ہیں؟ یقینا ہمارے حالات انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ اس کے باوجود میں فلسطینیوں کو زیادہ مظلوم بلکہ بدنصیب سمجھتا ہوں۔ ہمیں خدا نے اتنی توفیق دے رکھی ہے کہ ہم دشمنوں کا صفایا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنے دشمن کو ختم کرنے کے لئے‘ ساری دنیا کی حمایت حاصل ہے۔ ہماری سب سے بڑی طاقت ہماری آبادی ہے۔ ان کی تلواریں ٹوٹ جائیں گی‘ ہماری گردنیں ختم نہیں ہوں گی۔ ہمیں بہرحال اپنے دشمن پر غالب آنا ہے۔یہ امید فلسطینیوں کے پاس نہیں۔ ان کا وطن‘ ان سے چھین لیا گیا ہے۔وہ غریب‘ پسماندہ اور کمزور تھے۔ انہوں نے کسی کے
ساتھ زیادتی نہیں کی تھی۔ یہودیوں پر ظلم کرنے والے عیسائی تھے۔ ان کا قتل عام کرنے والوں میں کوئی مسلمان نہیں تھا۔ تباہ حال‘ بے وطن اور عیار یہودیوں نے‘ اپنی مظلومی کا رونا رو کر‘ یورپ والوں کی ہمدردیاں حاصل کیں اور طاقت کے نشے میں سرشار ‘ عیسائی طاقتوں نے‘ اپنے ہم مذہب نازیوں کے جرائم کا کفارہ ادا کرنے کے لئے‘ یہودیوںکو ایک ملک لے کر دینے کا منصوبہ بنایا‘ جسے وہ اپنا وطن قرار دے سکیں۔ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے‘ ضعیف فلسطینیوں کا وطن چھین کر یہودیوںکے تسلط میں دینے کا فیصلہ کر لیا۔ مظلوم فلسطینیوں سے‘ جس طرح ان کی زمینیں چھین کر‘ انہیں بے گھر کیا‘ ان کے باغات اور کھیت چھین کر صحرائوں میں دھکیلا اور جب انہوں نے اپنے گھر واپس مانگنے کے لئے دنیا کی مدد مانگی تو کوئی‘ انہیں بچانے کے لئے نہیں آیا۔ ان کے اپنے ہم مذہب اور ہم نسل عربوں نے بھی‘ ان کی ذرا مدد نہ کی۔ نام نہاد اسلامی ملکوں کے حکمرانوں نے اپنی حکومتوں کو بچانے کی خاطر فلسطینیوں کو درندوں کے سامنے بے یارومددگار کر کے پھینک دیا۔ آج تک دنیا کی کوئی طاقت فلسطینیوں کو ان کا گناہ نہیں بتا سکی۔بقول اقبالؒ ع
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
فلسطینیوں کا جرم ان کی غریبی‘ پسماندگی اور کمزوری تھی۔ دنیا کی تمام طاقتوں نے متحد ہو کر‘ انہیں جرم ضعیفی کی سزا دی اور ابھی تک دی جا رہی ہے۔ کوئی انہیں بچانے والا نہیں۔ کوئی نسلی‘ مذہبی اور انسانی رشتہ‘ ان کے کام نہیں آ رہا۔ دنیا کے ہر علاقے میں ‘انسانی حقوق کا کوئی نہ کوئی تصور موجود ہے۔ لیکن فلسطینیوں کے لئے یہ تصور کسی کے پاس نہیں۔ اپنے بھی اور غیر بھی‘ ان کے انسانی حقوق کو عملاً تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ فلسطینیوں کی بہت بڑی آبادی وطن سے نکال کر دوردور پھینکی جا چکی ہے۔ جو رہ گئے‘ وہ آزادی کی امید یا بے بسی کی وجہ سے‘ بے آباد زمینوں پر بارودی دھماکوں سے بچنے کے لئے پناہ گاہیں ڈھونڈتے ہیں‘ انہیں وہ بھی نہیں ملتیں۔ ان کی سرزمین‘ ان سے چھین کر انہیں بنجرزمینوں پر پھینک دیا گیا ہے۔ سرحدیں بند کر دی گئی ہیں۔ کسی کو ان کی مدد کے لئے‘ ان کے قریب آنے کی اجازت نہیں۔
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جائوں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
فلسطینیوں کی حالت زار پر فی الوقت‘ مجھے یہی شعر موزوں نظر آیا۔انسانی نسلیں‘صدیوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد‘ قوموں کی صورت میں وطن حاصل کرتی ہیں۔ ان میں جو قومیں وطن کے تحفظ کی صلاحیت حاصل کر لیں‘ وہ اپنی طاقت کے مطابق ‘زندہ رہنے کی گنجائشیں ڈھونڈ لیتی ہیں اور جو ایسا نہ کر سکیں‘ انہیں بے وطنی کی حالت میں‘ رفتہ رفتہ اپنی قومی شناخت سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ ان کے وطن‘ ان کی یادوں میں رہ جاتے ہیں۔ دو تہائی فلسطینی‘ وطن سے باہر‘ وطن کی یادوں میں رہتے ہیں۔ جن کے لئے وطن کو جیل بنا دیا گیا ہے‘ ان کے پاس ملاقاتی بھی نہیں جا سکتے۔ جانے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔جو ان کے حق میں کلمہ خیرکہتے ہیں‘ سب کے سب منافق ہیں۔ ان کی نام نہاد حمایت‘ شرمندگی چھپانے کی مجرمانہ کوشش کے سوا کچھ نہیں۔میرا یہ کالم بھی ایسی ہی ایک کوشش ہے۔