آصف زرداری کے حوصلے کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے 5 سال ‘ بے بسی کی حالت میں حکومت چلائی۔ انہیں مخالفانہ مظاہروں‘ مقدموں اور بے حساب سازشوں کامقابلہ کرنا پڑا۔ لیکن کسی بھی موقع پر انہوں نے پولیس کا ڈنڈا یا فوج کا ٹینک استعمال نہیں کیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ نوازشریف نے کوئی بڑی احتجاجی تحریک نہیں چلائی‘ لیکن جو لانگ مارچ لاہور سے لے کر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے چل نکلے تھے‘ وہ احتجاجی تحریک سے کم نہ تھا۔ آصف زرداری نے اسے روکنے کے لئے سول سکیورٹی فورسز کا ڈنڈا بھی استعمال نہیں کیا۔ جب نوازشریف اپنا جلوس لے کر گھر سے نکلے توپولیس کو احکامات تھے کہ جلوس نہیں نکلنا چاہیے‘ جس کی ابتداء کر دی گئی تھی۔ لیکن نوازشریف کے ساتھی گاڑیوں میں کلاشنکوفیں لہراتے ہوئے جب باہر نکلے اور گورنر سلمان تاثیر کو اطلاع ملی کہ وہ مسلح تصادم پر تلے ہوئے ہیں‘ تو انہوں نے فوراً پولیس کو پیچھے ہٹ جانے کا حکم دے دیا۔ اس طرح لانگ مارچ بلاروک ٹوک گوجرانوالہ سے آگے پہنچ گیا۔ جب اسلام آباد اطلاع گئی کہ مسلح جلوس جارحانہ انداز میں دارالحکومت کی طرف بڑھ رہا ہے‘ تو صدر زرداری نے ہنگامی مشاورت شروع کر دی۔ جلوس شب گزاری کے لئے راستے میں رکا۔ صبح ہونے سے پہلے پہلے فیصلہ کر لیا گیا کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کر دیا جائے۔ مطالبہ پورا ہونے پر‘ نوازشریف لانگ مارچ موقوف کر کے واپس آ گئے۔ صدر زرداری کو اس فیصلے کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ انہوں نے ہزیمت برداشت کر لی، لیکن طاقت کا استعمال نہیں کیا۔
یہ درست ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ‘ کبھی دل سے قبول نہیں کرتی۔ فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے خارجہ پالیسی میں پیپلزپارٹی کو ایک فیصلہ بھی آزادانہ نہیں کرنے دیا اور جو فیصلہ حکومت نے کیا بھی‘ اسے بدلحاظی سے ناکام کر دیا گیا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش ہویاامریکی قرضوں کی براہ راست منتخب حکومت کو ادائی کا سوال‘ کیانی صاحب نے کسی فیصلے پر حکومت کو عملدرآمد کی اجازت نہ دی۔ امریکہ نے جب کیری لوگر پیکج میں ایک شرط یہ رکھ دی کہ ترقیاتی قرضے منتخب حکومت کو دیئے جائیں گے‘ تو کیانی صاحب نے اپنے رفقا کے ساتھ مل کر‘ اس شق پر باقاعدہ اظہار ناراضی کیا، جس کا واحد مقصد امریکہ کو پیغام دینا تھا کہ جمہوری حکومت کو زیادہ لفٹ کرانے کی ضرورت نہیں۔ ممبئی کے واقعات پر صدر زرداری نے دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کے مابین براہ راست رابطوں کی تجویز پیش کی‘ تو اسے بھی جی ایچ کیو کی طرف سے ویٹو کر دیا گیا۔ چیف جسٹس صاحب نے بحال ہوتے ہی‘ ایسے ایسے فیصلے کئے کہ حکومت کا ناک میں دم آ گیا۔ ایک وزیراعظم کو برطرف کیا گیا اور دوسرے کی برطرفی ہوتے ہوتے رہ گئی اور وہ تو انتہا تھی‘ جب میموگیٹ کا ڈرامہ لگا کر حکومت کے خلاف سازش کا ایک مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی اور وزیراعظم سے کلیئرنس لئے بغیر‘ آئی ایس آئی کے چیف جنرل پاشا اور جنرل کیانی نے الزام تراشی پر مبنی حلفی بیانات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیئے اور نوازشریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے۔ آصف زرداری نے کسی بھی موقع پر‘ اتھارٹی کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ورنہ جتنا انہیں تنگ کیا گیا تھا‘ وہ پانچ چھ مہینوں کے بعد ہی اپنا ماڈل ٹائون کر بیٹھتے۔کسی منتخب حکومت کے بارے میں یہ سوچنا کہ اتھارٹی کا استعمال اس کے بس میں نہیں تھا‘ غیرحقیقی سوچ ہے۔ حکومت ہر حال میں حکومت ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں‘ جہاں فوج کے باربار اقتدار میں آنے کی روایت موجود ہو‘ وہاں ہر منتخب حکومت کو طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ آصف زرداری نے انتہائی ناسازگار حالات میں بھی سیاسی مخالفین سے ٹکر لے کر‘ حکومت کو آزمائش میں نہیں ڈالا اور انتخابات منعقد کرا کے‘ پرامن انتقال اقتدار کی شاندار روایت قائم کر گئے۔
نوازشریف پہلے ہی سال میں صبر کا دامن چھوڑتے نظر آ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ اب انہیں کوئی چیلنج نہیں کر سکے گا۔ وہ چاہتے تو اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر اصلاح احوال کے لئے انقلابی اقدامات کر سکتے تھے، جن کے بہت سے فوائد عوام تک پہنچ جاتے۔ مہنگائی پر کنٹرول کرنا آسان تھا، کیونکہ اس سمت میں ہونے والے ہر اقدام کی حکومت کو بھرپور تائید حاصل ہوتی۔ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لئے بے ہنگم اقدامات کے بجائے‘ تجربہ کار ماہرین اور منتظمین کی مدد سے‘ دستیاب بجلی کے اندر رہ کر ہی‘ لوڈشیڈنگ کے اوقات میں کمی اور باقاعدگی لائی جا سکتی تھی۔ غرض بہت سے شعبے ایسے ہیں‘ جن میں بہتری کے لئے روپے کی بجائے اعلیٰ صلاحیتوں سے کام لے کر عوام کو سہولتیں دی جا سکتی تھیں۔ لیکن حکومت بنا کر وہ عوام ‘ اسمبلیوں ‘ حتیٰ کہ اپنی پارٹی سے بھی لاتعلق ہو گئے۔ طاقت‘ خاندان کے اندر سمیٹ لی گئی۔اقتدار کی تلچھٹ پر فدویوں کاگروپ بٹھا دیا۔یہ درست ہے کہ انہیں‘ امریکہ اور سعودی عرب کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اس حمایت میں اضافہ بھی ہونے جا رہا ہے۔ سعودی عرب سے مزید ڈیڑھ دو ارب ڈالر تحفے میں ملنے والے ہیں۔ فوج پوری طرح ان کے ساتھ تھی لیکن مشرف کیس کو الجھا کر‘فوج کو خوامخواہ تشویش میں مبتلا کر دیا گیا۔ پرویزمشرف اب حکومت کے گلے کی ہڈی بن گئے ہیں۔ نگلیں مصیبت۔ اگلیں تو سبکی۔ اپنے ایک سال کے دوراقتدار میں‘ نوازشریف ایک فیصلہ بھی ایسا نہیں کر پائے‘ جس سے عام آدمی کو راحت ملی ہو۔ عام آدمی کی بیزاری اور تکلیفوں میں یقینا اضافہ ہوا ہے۔ ایک سالہ حکومتی کارکردگی کا نتیجہ یہ ہے کہ بیس بیس سال سیاست کر کے‘ ایک ہی مقام پر کھڑے ہوئے دو لیڈر‘ دیکھتے ہی دیکھتے بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آگئے۔عمران خان نے جو طاقت اور مقبولیت حاصل کی ہے‘ اس کا سہرا ‘ ن لیگ کی حکومتی کارکردگی کے سر ہے۔ جتنا فائدہ انہوں نے5 سال میں ن لیگ کی پنجاب حکومت سے اٹھایا‘ اس سے 10 گنا فائدہ انہوں نے وفاق میں ن لیگ کی ایک سالہ حکومت سے اٹھا لیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری جن کی تمام طاقت اور تنظیمی قوت کے باوجود‘ زرداری حکومت نے اسلام آباد میں انہیں دھرنا دینے کی سہولت مہیا کر کے‘ مذاکرات کے ذریعے دھرنا ختم کرا دیا‘ وہی طاہرالقادری‘ نوازلیگ حکومت کے لئے اتنا بڑا چیلنج بن گئے ہیں کہ ماڈل ٹائون جیسا المناک سانحہ رونما ہو گیا۔ مسلم لیگ (ن) بے گناہوں کے خون کے دھبے بیسیوں برس تک نہیں دھو پائے گی۔ ہر انتخابی مہم میں ن لیگ کے ہاتھوں پر جما ہوا خون‘ باربار پگھل کر ٹپکے گا۔ اس ایک سانحے کے نتیجے میں‘ حکومت اپنی طاقت گنوا بیٹھی ہے۔ جمہوری حکومت کی طاقت ہمیشہ اس کی اخلاقی اور آئینی کارکردگی میں ہوتی ہے۔ یہ طاقت ماڈل ٹائون کے خون ناحق میں ڈوب گئی۔ جس کا فوری مظاہرہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر ہو گیا۔ جہاں بھرپور اور بپھرے ہوئے مظاہرین نے پولیس کی دوڑیں لگوا کر‘ ہوائی اڈے پر قبضہ کر لیا۔ تجربے کے بعد بھی حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ وہ اسلام آباد میں عمران خان کے مظاہرے کو ڈنڈے سے روک لے گی‘ تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ اب پولیس ‘ لاہور والا تجربہ دہرانے سے پہلے کئی بار سوچے گی۔ حکومت کو شاید اس کا اندازہ ہو گیا ہے۔ اب وہ ماڈل ٹائون والا کام‘ فوج سے لینے کی کوشش کرتی نظر آ رہی ہے۔ یہ ایک ایسا بلنڈر ہو گا‘ جس میں لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ روٹی‘ روزگار‘ بجلی‘ تحفظ اور انسانی حقوق کا احترام کرنے والی حکومتوں سے تو لوگ کبھی کبھار ڈنڈے کھا لیتے ہیں۔ لیکن لوڈشیڈنگ‘ بھوک‘ بیروزگاری اور عدم تحفظ کے مارے ہوئے لوگوں میں‘ اتنی سکت نہیں رہتی کہ وہ ڈنڈے کھائیں۔ عوام کے صبر کا پیمانہ اتنالبریز ہو چکا ہے کہ حکومت کے کسی فدوی نے ایک دو اشتعال انگیز بیانات بھی دے دیئے‘ تو وہ بپھر جائیں گے۔ جب عوام بپھر جائیں‘ تو نہ امریکہ کی حمایت کام آ سکتی ہے، نہ سعودی عرب کی دولت اور نہ فوج کی ۔ عوام اپنے چاروں طرف کامیاب عوامی بغاوتوں کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے بھارت میں اناہزارے کی پرامن احتجاجی تحریک بھی دیکھ رکھی ہے۔ احتجاج کے راستے پر چلنے والے دونوں لیڈر‘ اگر عوامی طاقت کو پرامن رکھنے میں کامیاب ہو گئے‘ توان پر نہ پولیس ڈنڈا چلائے گی‘ نہ فو ج۔ انہیں یہ بھی خیال رکھنا ہو گا کہ ایجنٹ پرووکیٹرز‘سکیورٹی فورسز کو مشتعل کر کے‘ ایکشن پر مجبور نہ کریں۔اس حکومت کو ہلانے کے لئے پرامن احتجاج کی طاقت ہی کافی ہے۔ڈاکٹر طاہرالقادری کا ایجنڈا مبہم ہے۔ جبکہ عمران خان سسٹم کے اندر رہ کر مطالبات منوانا چاہتے ہیں۔ آج مڈٹرم الیکشن‘ حکمرانوں کو ہوا نظر آ رہا ہے۔ کشیدگی برقرار رہی‘ تو پھر حکومت مڈٹرم الیکشن مان کر بھی نہیں بچ پائے گی۔ جمہوریت کو بچانا آج حکومت کے اختیار میں ہے۔ کل کس کے اختیار میں ہو گا؟ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔