"NNC" (space) message & send to 7575

ڈاکٹر مجید نظامی

جناب مجید نظامی ایک تاریخ ساز زندگی گزارنے کے بعد‘ اللہ کو پیارے ہو گئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ایسی بھرپور زندگی کا چند ‘یادگاری سطور میں‘ احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ صحافت‘ سیاست‘ سماجی زندگی‘تحقیق اور تہذیبی اقدار‘ ہر شعبے میں انہوں نے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ صحافتی خدمات بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہر باخبر شخص ان سے اچھی طرح واقف ہے۔پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی سیاست میں‘ ان کا کردار کسی بھی سیاستدان کی نسبت زیادہ اہم رہا ہے۔ ایوب خان کے خلاف سارے سیاستدانوں کی جدوجہد ایک جگہ تھی اور اکیلے مجید نظامی کی جدوجہد ‘ ان سب سے زیادہ۔ ایک ''نوائے وقت‘‘ ہی تھا‘ جس نے تسلسل اور استقامت کے ساتھ نہ صرف ایوب خان کی مخالف تحریک کو آگے بڑھایا بلکہ وہ تمام سیاستدان‘ جو اس مشکل دور میں آمریت کے خلاف کام کر رہے تھے‘ انہیں زندہ بھی ''نوائے وقت‘‘ نے رکھا۔ باقی اخبارات پر‘ پریس ٹرسٹ کے ذریعے سرکاری قبضہ ہو چکا تھا۔ کچھ اخبار حکومتی کارروائیوں کی وجہ سے دم توڑ چکے تھے۔ جو آزاد اخبارات باقی رہ گئے تھے‘ انہیں اپنی بقا کے لئے سمجھوتے کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ پہلی آمریت کے خلاف ساری جنگ ‘ مشرقی پاکستان کے اخبارات نے لڑی اور مغربی پاکستان میں واحد اخبار ''نوائے وقت‘‘ نے۔ محترمہ فاطمہ جناح کا دور سیاست ''نوائے وقت‘‘ کی زندگی کا سنہرا زمانہ تھا۔ مادرملت ‘ سیاست سے ہمیشہ کنارہ کش رہیں۔ لیکن جب ایوب خان نے صدارتی الیکشن کا اعلان کیا‘ تو انہیں یقین تھا کہ کوئی امیدوار مقابلے میں نہیں اترے گا۔ حقیقت بھی یہی تھی۔ اپوزیشن پٹ اور پس چکی تھی۔ تمام سیاستدانوں نے سر جوڑ کے جب سوچا کہ ایوب خان کے مقابلے میں کونسا امیدوار لایا جائے؟ کسی کا نام نہیں جچ رہا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ تجویز کس کی تھی؟ لیکن اتنا یاد ہے کہ اپوزیشن کے اجلاس کے دوران‘ اچانک ایک شخص نے کہا کہ اگر ''ہم محترمہ فاطمہ جناح کو امیدوار بننے پر رضامندکر لیں‘ تو ایوب خان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘ اپوزیشن کا ایک پورا وفدمحترمہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے امیدوار بننے کی درخواست کی۔ ملک میں عوام کی بے بسی اور جمہوریت کی مکمل موت کا خطرہ سامنے دیکھ کر محترمہ فاطمہ جناح امیدوار بننے پر تیار ہو گئیں۔ 
ان کے امیدوار بنتے ہی ''نوائے وقت‘‘ رضاکارانہ طور پر ان کا ترجمان بن گیا اور ایسا بنا کہ حق ادا کر دیا۔ میری یادداشت کے مطابق انہیں مادر ملت کا خطاب ''نوائے وقت‘‘ نے دیا تھا اور اگر کسی فرد یا گروپ نے انہیں پہلے مادرملت کہہ بھی دیا تھا‘ تو اس خطاب کو رائج ''نوائے وقت‘‘ نے کیا۔ یہ وہ دور تھا‘جب ''نوائے وقت‘‘ کی اشاعت دیکھتے ہی دیکھتے تمام اخباروں سے زیادہ ہو گئی۔ یہ واحد اخبار تھا‘ جس میں اپوزیشن اور عوام کے جذبات کی ترجمانی کی جاتی تھی۔ دوسرے کسی اخبار میں جرأت ہی نہیں تھی کہ ایوب خان کے خلاف کوئی خبر شائع کرتا۔ صحافت پر ظلمت کا ایسا کوئی زمانہ کم ہی آیا ہو گا۔ جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاالحق نے سنسر شپ ضرور نافذ کی تھی لیکن وہ صرف چند ماہ کے لئے تھی۔ ایوب خان کا تو پورا عرصۂ اقتدار ہی پریس کے لئے طویل سیاہ رات کی طرح تھا۔ ''نوائے وقت‘‘ ہی ایک ایسی شمع تھی‘ جہاں سے آزادی اظہار کی روشنی پھوٹتی تھی۔ مادرملت کی انتخابی مہم عروج پر پہنچ گئی‘ تب جا کر ایک دو اخباروں کو اپوزیشن کی خبریں چھاپنے کا حوصلہ ہوا۔ حوصلہ بھی اتنا ہوا کہ روزنامہ ''جنگ‘‘ نے ووٹنگ سے‘ ایک دن پہلے پورے صفحہ اول پر ایوب خان کی رنگین تصویر شائع کی۔ جس میں وہ کرسی پر بیٹھے تھے اور ان کے پیروں کے نیچے گلاب کے پھول بچھے تھے۔ گلاب ایوب خان کا انتخابی نشان تھا۔ عوامی جذبات کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ عام قارئین نے بھی پہلی نظر میں بھانپ لیا کہ اس تصویر میں کیا کہا گیا ہے؟ 
ایوب خان کا کنٹرول اتنا زیادہ تھا کہ مادرملت سوفیصد عوام کی بھرپور تائید و حمایت کے باوجود الیکشن نہ جیت سکیں۔ ووٹ کا اختیار عوام کے پاس تھا ہی نہیں۔ ملک کے دونوں حصوں میں 80ہزار بنیادی جمہوریت کے ممبر تھے۔ یہ اصل میں موری ممبر کہلاتے تھے اور ملک کا سربراہ چننے کا اختیار 80 ہزار بی ڈی ممبروں کے پاس تھا۔ یہ لوگ انتظامیہ کے پالتو تھے۔ ڈی سی‘ ایس پی کے احکامات کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے باوجود مادرملت مشرقی پاکستان میں حیرت انگیز طور پر زیادہ ووٹ لے گئیں۔ جبکہ مغربی پاکستان میںووٹ کم نکلے۔ ایوب انتخاب تو جیت گئے، لیکن باقی ہر لحاظ سے شکست کھا گئے۔ عوام کی نظروں میں اپنی عزت بحال کرنے کے لئے انہوں نے بھارت سے جنگ چھیڑ دی۔ چند روز کے لئے ہیرو ضرور بنے، لیکن جیسے ہی انہوں نے معاہدہ تاشقند پر دستخط کئے‘ ان کی حالت پہلے سے بھی زیادہ بری ہو گئی اور آخرکار شدید عوامی احتجاج کے نتیجے میں‘ انہیں اقتدار سے دستبردار ہونا پڑا۔ لیکن جاتے جاتے بھی وہ اپنا ہی بنایا ہوا آئین توڑ کر یحییٰ خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر گئے۔ صحافیوں کے ایک اجتماع میں یحییٰ خان نے فوجی جاہ و جلال کے ساتھ‘ صحافیوں پر رعب ڈالا اور پاکستان کے بارے میں انہیں اپنے فرائض سے آگاہ کرنا شروع کیا۔ اس پر نظامی صاحب سے نہ رہا گیا اور انہوں نے کہا ''آپ ہمیں پاکستان کا مطلب سمجھائیں گے؟ آپ کا تحریک پاکستان میں کردار کیا ہے؟ انگریز کی نوکری کرتے کرتے آپ نے یہاں عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کے آمریت قائم کی۔ پاکستان کا مفاد کیا ہے؟ یہ ہم جانتے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اقتدار میں آپ کی موجودگی‘ پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں۔‘‘ اس محفل میں ہفت روزہ ''شہاب‘‘ کی طرف مولانا کوثر نیازی گئے تھے۔ واپس آ کرانہوں نے حیرت سے مجھے بتایا کہ ''نظامی صاحب نے تو حد کر دی۔ وہ ایسا بولے کہ جنرل یحییٰ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ہمیں ڈر تھا کہ آج وہ گھر نہیں جائیں گے۔ کچھ بھی نہ ہوا۔‘‘نظامی صاحب سے میرا قریباً نصف صدی کا تعلق تھا۔ 50ء کے عشرے میں ''نوائے وقت‘‘ کا لائل پور ایڈیشن شائع ہونے لگا تھا۔میں نے چند ہفتے جھنگ میںنامہ نگار کی حیثیت سے کام کیا۔ اس دوران جناب حمید نظامی سے رابطے ہوئے‘ جو ان کی زندگی تک برقرار رہے۔ لاہور آ گیا ‘تو کئی بار مال روڈ کے ایک ریسٹورنٹ میں ان کی روائتی نشست میں مودبانہ بیٹھنے کا موقع ملا۔
مجید نظامی صاحب سے میرا رابطہ اس وقت ہوا‘ جب میں کراچی میں کام کر رہا تھا۔ اس دوران انہوں نے مجھے کراچی کی ڈائری لکھنے کا حکم دیا۔ میں چونکہ دوسرے اخبار میں ملازم تھا‘ اس لئے فرضی نام سے کراچی کی ڈائری لکھتا رہا۔ ذاتی طور پر نظامی صاحب سے میرے تعلقات ہمیشہ نیازمندانہ رہے ہیں۔ ''شہاب‘‘ کے دور میں نے ان کے خلاف بھی لکھا۔ وہ ناراض بھی ہوئے۔ مگر چند ماہ کے بعد میں ‘انہیں سلام کرنے حاضر ہو گیا۔ نظامی صاحب نے مجھے معذرت کا موقع ہی نہیں دیا۔ ہمیشہ ہر مشکل میں میرے کام آئے۔ حد یہ ہے کہ جب ہفت روزہ ''شہاب‘‘ کی تعداد اشاعت‘ پرائیویٹ پریس کی گنجائش سے زیادہ ہو گئی‘ تو اضافی کاپیاں ''نوائے وقت‘‘ پریس نے چھاپ کر دیں۔ یاد رہے ہم بھٹو صاحب کی شدید حمایت میں لکھتے تھے جبکہ نظامی صاحب بھٹو صاحب کے زبردست مخالف تھے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ شورش کاشمیری‘ نظامی صاحب کے دست راست تھے۔ اکثر یوں ہوتا کہ اگر کوئی نظامی صاحب کے خلاف لکھ بیٹھتا‘ تو اس پر جوابی حملہ شورش کاشمیری اپنے ہفت روزہ ''چٹان‘‘ میں کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں کہا جاتا تھا کہ شورش کاشمیری‘ نظامی صاحب کا بازوئے شمشیرزن ہے اور شورش کاشمیری کے ساتھ ہماری باقاعدہ قلمی جنگ چل رہی تھی۔ وہ ہمیں معاف نہیں کرتے تھے ۔ ہم ان کا لحاظ نہیں کرتے تھے۔ میں جب کبھی نظامی صاحب سے ملتا‘ تو ڈرتا رہتا کہ وہ شورش صاحب کے معاملے میں ضرور کچھ کہیں گے۔ لیکن انہوں نے کبھی ذکر تک نہ کیا۔
میں 80ء کے عشرے کے وسط میں''نوائے وقت‘‘ میں آیا۔ جناب عارف نظامی نے میرے ایک سینئر ساتھی کالم نویس سے رابطہ کیا اور انہیں کہا کہ ''آپ نذیرناجی کو ساتھ لے کر ''نوائے وقت‘‘ میں آ جائیں۔‘‘ میرے ساتھی نے مجھے اس پیشکش سے آگاہ کرتے ہوئے مشورہ دیا بلکہ اصرار کیا کہ ہم دونوں اکٹھے چلیں۔ عارف نظامی صاحب سے ملاقات کا وقت مقرر ہوا۔ میں ان کے پاس پہنچ گیا۔ ساتھی بزرگ نہیں آئے اور میں واپس نہیں گیا۔ اس طرح ''نوائے وقت‘‘ سے 12سالہ وابستگی کا دور شروع ہوا۔ لکھنے کی جو آزادی مجھے پہلی مرتبہ حاصل ہوئی‘ اس کی وجہ سے میری کایا ہی پلٹ گئی اور پھر ایسے ایسے کالم لکھے گئے ‘ جو میرے لئے ایک نئے اور کامیاب دور کا آغاز ثابت ہوئے۔ نظامی صاحب نے مجھے یہاں تک آزادی دی کہ میرے ایسے کالم جو ان کے سکہ بند نظریات کے خلاف بھی ہوتے‘ وہ شائع کرتے رہے۔ اس کی نمایاں ترین مثال یہ ہے کہ میں نے 1991 ء یا 1992ء میں ایک ایسا کالم لکھا‘ جس میں رائے دی گئی تھی کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کر کے‘ عربوں کی زیادہ مدد کر سکتے ہیں۔ اس پر بہت شور برپا ہوا۔ لیکن نظامی صاحب نے اس معاملے میں مجھ سے بات تک نہیں کی۔ یادیں ہیں کہ امڈی آ رہی ہیں۔ کالم ہے کہ سمٹا جا رہا ہے۔ میں اسے کھینچ کر پھیلا نہیں سکتا۔ یادوں کی کمی نہیں۔جب جی چاہے گا‘ ان کی میزبانی کرتا رہوں گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں