سیاست میں اتنا مندا بھی کبھی نہیں دیکھا تھا‘ جو پچھلے ایک سال چلتا رہا۔ الیکشن میں دھاندلی ہوئی یا دھاندلا؟ نوازشریف جتنی فیصلہ کن اکثریت کے ساتھ جیتے‘ اس کے بعد سیاست کی منڈی ٹھنڈی پڑ گئی تھی۔ جو ‘ جس حالت میں اسمبلیوں کے اندر پہنچا‘اسی پر گزارا کرنے کے طور طریقے ڈھونڈنے پر لگ گیا۔شیخ رشید کو ایک سیٹ ملی۔ وہ اس کے ساتھ بھی‘ اول درجے کے سٹیک ہولڈرز میں شامل ہو گئے۔ اب جو نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے‘ اس میں کل جماعتی سربراہی کانفرنسیں بھی ہوا کریں گی‘ جن میں شیخ رشید ‘ نوازشریف‘ عمران خان اور ایم کیو ایم برابر بیٹھا کریں گے۔ یہ آگے کی بات ہے۔ فی الحال تو اس گرمی بازار سیاست کی نیرنگیاں‘ وزیراعظم ہائوس کے اندر دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ ایسے ایسے لوگ جو پارلیمنٹ کی راہداریوں میں وزیراعظم‘ وزیرخزانہ‘ حتیٰ کہ کسی چھوٹی موٹی رسیلی وزارت کے سربراہ کوڈھونڈتے پھرتے تھے‘ اب وہ وزیراعظم ہائوس میں ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے نظر آتے ہیں۔انہیں چاہیے کہ عمران خان کو دعائیں دیں 'جس نے انہیں اس قابل بنا دیا‘ ورنہ کہاں یہ اور کہاں وزیراعظم کے ساتھ لمبی لمبی ملاقاتیں؟ اور وہ بھی صوفے پر اپنے جسم کی پوری چوڑائی کو فراخدلی سے استعمال کرتے ہوئے‘ بیٹھ کر۔ شہروں اور دیہات کے بڑے بڑے چوہدری ‘روزمرہ کی زندگی میں عام آدمی سے نہیں ملتے۔ گاڑی میں بیٹھ کر گھر سے نکلتے ہیں اور گاڑی میں بیٹھے بیٹھے گھر واپس آ جاتے ہیں۔ دفتر میں کوئی جانے نہیں دیتا ۔ گھر میں کوئی ملنے نہیں دیتا۔ مگر جب کسی برابر کے چوہدری سے‘ اس کی ٹکر ہوتی ہے‘ تو حالات فوراً ہی بدل جاتے ہیں۔ گھر اور دفتر‘ دونوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ جو چوہدری صاحب کی جھلک تک دیکھنے سے محروم ہوتا‘ وہ بھی چاہتا تو دندناتا ہوا دفتر میں جا کر سب سے چوڑے صوفے پر چوڑا ہو کر بیٹھتا اور موڈ بنتا توگھر کے ڈرائنگ روم میں گھس کے ‘چوہدری صاحب سے‘ برابر کی سطح پر گپ شپ لڑاتا۔ عام آدمی کو ایسی سہولت اسی وقت ملتی ہے‘ جب چوہدری مشکل میں ہو اور کئی مرتبہ تو یوں ہوتا ہے کہ چوہدری ‘کمی کمین کے گھر بھی خود پہنچ کر گلہ کرتا ہے ''بھائی! آپ بہت دنوں سے نہیں ملے‘ میں نے سوچا خود گھر آ کے بات کر لیتا ہوں۔‘‘ آج کل وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے گھروں اور دفتروں کے دروازے کھل گئے ہیں۔جسے اپنے گھر میں بیوی کے ساتھ صلح کرانے کے لئے‘ کوئی آدمی نہیں ملتا‘ وہ وزیراعظم اور اپوزیشن کے درمیان ثالثی کرانے پہنچ رہا ہے اور وزیراعظم یا وزیراعلیٰ ہیں کہ انہیں دروازے پر جا کر رسیو کر رہے ہیں۔ گلے یوں ملتے ہیں‘ جیسے برسوں سے بچھڑے ہوں۔ مہمان اپنی طرف سے کام کی بات مکمل کرتا ہے‘ جس میں کوئی بات کام کی نہیں ہوتی۔ ملاقات کے اختتام پر‘ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ پوچھتے ہیں‘ہمارے لائق کوئی خدمت؟ مہمان پہلے سے تیار ہوتا ہے اور بتاتا ہے کہ ''میں پرنسپل سیکرٹری کے پاس کچھ فائلیں رکھ آیا ہوں‘ ازراہ کرم یہیں منگوا لیں۔‘‘ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ لاکھ ٹالیں کہ میں بعد میں دیکھ لوں گا‘ مگر کیا مجال ہے؟ جو سیاسی بحران کے نازک موقع پر ہاتھ لگے وزیراعظم کو یوں چھوڑ دے‘ وہ دوبارہ درخواست کرتا ہے کہ'' آپ فائلیں ابھی منگوا لیں‘‘ اور اخلاق اور حالات سے مجبور‘ وزیراعظم فائلیں منگوالیتے ہیں۔ جب فائلیں آتی ہیں‘ تو ان کا بنڈل دیکھ کر وزیراعظم کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔ مجبوراً ان فائلوں پر فٹافٹ دستخط کر کے‘ ثالثی کی پیش کش لے کر آئے ہوئے اگلے مہمان کو اندر بلواتے ہیں۔
وزیراعظم کی مدد کو آنے والے‘ ان کے ہمدرد‘ خیرخواہ اور ثالثی کے خواہش مند‘ عموماً وزیراعظم کی مشکل میں انہیں تسلی دینے آتے ہیں‘ حوصلہ بڑھاتے ہیں‘ اپوزیشن کے خلاف مخالفانہ جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ لوگ بہت گندے ہیں‘ جمہوریت کے دشمن ہیں‘ ان سے آپ کی کامیابی نہیں دیکھی جاتی۔ آپ نے ایک سال کے اندر ملک کی جو شاندارخدمات انجام دی ہیں‘ اسحق ڈار ان کی پوری تفصیل نہیں بتا پا رہے‘ لیکن میں جس طرح لوگوں کو سمجھاتا ہوں کہ آپ نے پاکستان کے لئے کیسے کیسے کارنامے انجام دیئے ہیں تو ان کے دل میں آپ کا احترام پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہوتے ہیں‘ جب وزراء کو ضروری کاموں کے لئے بھی وزیراعظم سے ملاقات کا وقت نہیں ملتا۔ ایسے ایسے لوگوں کو وقت ملنے لگتا ہے‘ جو مہینوں ٹیلی فون اور پیغامات بھیجنے کے باوجود ‘وزیراعظم کے ساتھ بات تک نہیں کر پاتے۔ آج کل صورتحال یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی پہلی ہی کال میں‘ وزیراعظم سے ہمکلام ہونے کا شرف حاصل ہو جاتا ہے اور بہت سے تو ایسے ہیں‘ جنہیں خود وزیراعظم فون کر رہے ہیں۔ اس طرح کے تماشے بھی ہوتے ہیں کہ کوئی شخص بحران سے نکلنے کی ترکیب بتانے کے لئے گھر پہ وقت مانگتا ہے‘ کیونکہ وزیراعظم ہائوس میں سب کے سامنے ملنے سے گریزاں ہوتا ہے۔ وزیراعظم اسے مجبوراً لاہور میں اپنے گھر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر ملاقات کے لئے پہنچ جاتا ہے۔ مجبوراً وزیراعظم کو بھی اپنی فیملی بلانا پڑتی ہے۔ وہ بڑے فخر سے اپنے بیوی بچوں کو وزیراعظم کے ساتھ اپنے تعلقات کی تاریخ بتاتا ہے اور انکشاف کرتا ہے کہ اس کی بیگم وزیراعظم کی بے حد مداح ہیں۔ پھر اپنی بیگم سے کہتا ہے ''بتائو نا‘ تم وزیراعظم کے بارے میں کیا کہتی رہتی ہو؟‘‘ وہ بیچاری کچھ نہیں کہہ پاتی‘ تو موصوف فوراً ہی اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ بیگم آپ کے بارے میں کیا خیالات رکھتی ہے۔ جب خاطرمدارات کے مراحل ختم ہوتے ہیں‘ تو وزیراعظم سوچتے ہیں کہ اب تو یہ شخص بحران سے نکلنے کا نسخہ بتائے گا‘ جس کا کہہ کر‘
اس نے مجھ سے وقت مانگا ہے‘ مگر وہ کچھ کہہ کر نہیں دیتا اور پھر اچانک کھڑے ہو کر شکریہ ادا کر کے‘ وزیراعظم کو ہکّا بکّاچھوڑتا ہوا رخصت ہو جاتا ہے۔ جب حکومت کے دن اچھے ہوں‘ تو اس کے وزراء اور اراکین اسمبلی کی گردنوں میں بھی سریا آ جاتا ہے‘ مگر موجودہ صورتحال بتاتے ہوئے عامر متین نے لکھا ہے کہ آج کل وزیروں اور حکمران پارٹی کے ممبروں کی گردنوں سے سریا نکلا ہوا ہے۔ ان کے ہونٹ جو مسکرانا بھول چکے تھے‘ اب بات بات پر پھیلنے لگتے ہیں۔ بات نہ بھی ہو‘ پھر بھی پھیلتے رہتے ہیں۔یہ لوگ بھی وقت کو دیکھتے ہیں۔ آج کل حکومتی گھبراہٹ کے دن ہیں‘ انہوں نے سریے نکال کر پھینک دیئے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جیسے ہی دن بدلے‘ وہ اپنے باس کی فیکٹری سے تازہ تازہ نئے سریے لے کر‘ گردنوں میں ڈال لیں گے اور اگر سر پہ الیکشن آ پڑا‘ تو ڈھیلی گردنوں پر گزارا کر لیںگے۔ یہ وقت ترقی کے خواہش مند سیاستدانوں کے لئے انتہائی سازگار ہے۔ نوابزادہ نصراللہ خاں کے دنیا سے جانے کے بعد‘ بابائے جمہوریت کا مقام خالی پڑا ہے۔ یہ بڑی عزت کی جگہ ہوا کرتی تھی۔ جب میں نے کسی لیڈر کا نام لے کرایک دوست سے کہا کہ وہ یہ جگہ حاصل کر سکتا ہے تو اس نے برا سا منہ بنا کر پوچھا ''اسے وہاں بٹھا کر تم یہ چاہتے ہو کہ وہ بھی عزت کی جگہ نہ رہے۔‘‘افسوس! قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ عزت کی چھوٹی سی جگہ پُر کرنے کے لائق بھی‘ کوئی بندہ دستیاب نہیں۔ جماعت اسلامی کے نئے امیرسراج الحق کو داد دینا پڑتی ہے کہ ایسے حالات میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو بابائے جمہوریت کی حیثیت میںپیش کر دیا ہے۔ وہ صوبائی وزیرخزانہ کی کرسی سے‘ اتنی تیزی کے ساتھ ابھرے اور بابائے جمہوریت کے کردار کی طرف بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ شاید ہی کوئی دوسرا‘ ان کے مقابلے میں بابائے جمہوریت بننے کا حق دار بن سکے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سراج الحق نے بابائے جمہوریت بننے کا جو آزمائشی کورس شروع کیا ہے ‘ وہ اس میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں؟ بظاہر تو مشکل نظر آتا ہے کہ جماعت اسلامی کے ماحول میں پروان چڑھنے والا کوئی شخص‘ بابائے جمہوریت کا مقام حاصل کر سکتا ہے‘ لیکن پاکستان میں کیا نہیں ہوتا؟ میں حیران ہوں کہ وزیراعظم نے ایسے لوگوں کو خود ملاقات کے لئے طلب کر لیا ہے اور بہت سے دوسروں نے خود وقت مانگ کر اپنی خدمات پیش کر دی ہیں‘ لیکن لاہور کے ایک سیاستدان امبر شہزادہ کا نام‘ سننے میں نہیں آیا کہ وہ بھی وزیراعظم سے ملاقات کے لئے گیا ہے یا نہیں؟ وزیراعظم نوازشریف ایسے لوگوں کو بھی محروم نہیں کرتے۔ لاہور میں ایک لطیف بٹ ہوا کرتے تھے۔ اللہ کرے زندہ سلامت موجود ہوں۔ وزیراعظم انہیں بھی اپنے ذاتی مصاحب کی حیثیت میں قومی اسمبلی لے جاتے‘ جہاں انہیں معززین کی گیلری میں بٹھایا جاتا۔ ایک دن حزب اختلاف کا کوئی ممبر بول رہا تھا۔ لطیف بٹ کے خون میں جوش آیا اور انہوں نے گیلری ہی سے وزیراعظم کی شان میں اتنی زوردار تقریر کی کہ سارا ایوان پریشان ہو گیا۔ سب سے زیادہ پریشان خود وزیراعظم تھے۔