عمران خان 18 سال انتھک جدوجہد کر کے‘ لب بام تک پہنچ گئے ہیں۔ ایسا نہ ہوکہ کامیابی کے قریب آ کر‘ اپنی کمند ہی توڑ بیٹھیں؟اس وقت حالات خان صاحب کے حق میں جا رہے ہیں۔ نوازشریف کی ایک سالہ حکومت نے ‘خان صاحب کے حق میں اتنا کچھ کر دیا کہ اب انہیں صرف ہاتھ آگے بڑھا کر کامیابی کو تھامناہے۔ نوازشریف کے بعد‘ خان صاحب نے اپنی کامیابی یقینی بنانے کے لئے‘ ڈاکٹرطاہرالقادری کو میدان میں اتارا۔ان کی طرف سے حکومت پر دبائو آیاتوحکومت نے ‘ماڈل ٹائون کے ایک پارک میں‘ جلیانوالہ باغ کی یاد تازہ کر کے‘ اپنے آپ کو بھنورمیں پھنسا لیا۔ اب خان صاحب کے لئے صرف اتنا کام رہ گیا ہے کہ گھبرائی ہوئی حکومت پر‘ جس قدر ممکن ہو‘ دبائو بڑھاتے رہیں اور میرا اندازہ ہے کہ جو خطرہ حکومت نے اپنے لئے پیدا کر لیا ہے‘ اس کو ہنرمندی سے استعمال کر کے‘ نوازشریف کو انتخابی اصلاحات حتیٰ کہ قبل ازوقت انتخابات کے لئے مجبور کر سکتے ہیں۔ فوری انتخابات کا مطالبہ یوں بھی مناسب نہیں۔بے شک فوجی آپریشن کامیابی کی طرف گامزن ہے، لیکن مکمل کامیابی ہونے تک خطرات موجود رہیں گے۔فی الحال صرف 10نشستوں پر دوبارہ گنتی کر کے‘ جتنی نشستوں پر دھاندلی ثابت ہو‘ وہاں ضمنی انتخابات کرا لیں ۔ اسمبلیوں کی مدت کچھ عرصے کے لئے‘ ایک سال کم کر دی جائے۔ یہ تجویز پیپلزپارٹی پیش کر چکی ہے۔ ابھی تو یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ فوری انتخابات کی صورت میں‘ عمران خان فیصلہ کن کامیابی حاصل کر لیں گے، لیکن 3سال کے بعد ہونے والے انتخابات میں‘ خان صاحب کی کامیابی یقینی ہو جائے گی۔ مجھے اپنی بات ثابت کرنے کے لئے ستاروں کا حال نہیں بتانا پڑے گا۔ سیدھی سی بات ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں تین چار سال حکومت میں رہ کر‘ کوئی لیڈر یا پارٹی‘ اپنی مقبولیت میں اضافہ نہیں کر سکتی۔ البتہ اس میں کمی جتنی چاہے کر لے۔ عموماً کمی ہی آتی ہے۔ کیونکہ حکومت چلانے کے لئے وسائل دستیاب نہیں ہوتے۔ عوام کے مطالبات اور ضروریات زیادہ ہوتی ہیں۔ اچھا سیاستدان ہو‘ تو کچھ مناسب سکیمیں بنا کے اورگڈگورننس دے کراپنی عزت بنا لیتا ہے۔تیسری بار کے وزیراعظم‘ نوازشریف پہلے ہی سال میں ثابت کر چکے ہیں کہ وہ دونوں کام نہیں کر سکتے۔ نہ عوام کو راحت دینے والی سکیمیں بنا سکتے ہیں اور نہ گڈگورننس دے سکتے ہیں۔ ان کا 14 ماہ کا ریکارڈ‘ میرے اس دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔ اس طرح خان صاحب مزید 3سال انتظار کریں اور اس دوران خیبرپختونخواہ پر توجہ مبذول کر کے‘ اعلیٰ معیار کی گورننس کا ماڈل قوم کے سامنے پیش کریں۔ ایک سال کے اندر وہ خیبرپختونخوا کی پولیس میں انقلابی تبدیلیاں لا چکے ہیں۔ جس کی تعریف ان کے حامی ہی نہیں‘ مخالفین بھی کر رہے ہیں۔ باقی شعبوں میں انقلابی اصلاحات کر کے‘ وہ اپنی قوم کے سامنے مثال پیش کر سکتے ہیں کہ اگر انہیں پورے ملک کی حکومت ملے‘ تو کس طرح عوام کی زندگی بدل سکتی ہے؟ ضروری نہیں کہ سارا کچھ اسی طرح ہو جائے‘ جس طرح میں نے لکھا ہے۔ صرف مدعا سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ ملک و قوم کو نقصان بھی نہ پہنچے، سیاسی کشیدگی بھی طول نہ پکڑے اور تبدیلی بھی خوش اسلوبی سے ہو جائے۔
دوسرا منظر بہت ہی خوفناک ہے۔ اگر انقلاب اور آزادی مارچ‘ ڈاکٹر قادری اور عمران خان نے مل کر نکال لیا‘ تو یہ ممکن ہی نہیں کہ احتجاج کو پُرامن رکھا جا سکے۔ پچھلے چند روز کا ریکارڈ گواہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب جب بھی کوئی اجتماع کرتے ہیں‘ مسلم لیگ (ن) کی حکومت شدید ردعمل ظاہر کرتی ہے اور کچھ نہ کچھ بے گناہ‘ شہید ہو جاتے ہیں۔ پولیس کے ساتھ تصادم بھی ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر قادری کے دھرنے کو پرامن طریقے سے واپس گھر بھیجنے کے لئے‘ جس صبروتحمل اور کھلے دل سے‘ صدرزرداری کی حکومت نے ہینڈل کیا‘ میاں برادران کے مزاج میں یہ چیز نہیں ہے۔ ڈاکٹرقادری کے معاملے میں امتیازی بات یہ ہے کہ میاں برادران اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے مابین شدید نوعیت کی باہم ذاتی ناپسندیدگی بھی ہے‘جو یقیناابھی تک کے فیصلوں پر اثرانداز ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہونے کا امکان ہے۔عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنے جلوس کو ڈاکٹرقادری کے جلوس سے معقول حد تک فاصلے پر رکھیں اور اسلام آباد جا کر جلسوں کے مقام بھی علیحدہ علیحدہ ہونے چاہئیں۔ مثلاً ابھی تک پوزیشن یہ ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے‘ دیگر جماعتوں کو دعوت دی گئی کہ وہ بھی احتجاج میں ساتھ دیں۔ساتھ دینے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ایک ہی جلوس میں شریک ہوں۔ احتجاجی تحریک میں ساتھ دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دونوں فریق مشترکہ ہدف کے خلاف اپنے اپنے طور پر احتجاج کریں۔ خود ڈاکٹر طاہرالقادری نے جو اعلان کیا ہے‘ اس میں بھی انہوں نے یہی کہا ہے کہ ''انقلاب مارچ اور آزادی مارچ اکٹھے چلیں گے۔‘‘ گویا دونوں مارچ الگ الگ ہوں گے۔ ایک کی قیادت ڈاکٹر طاہرالقادری خود کریں گے اور دوسرے مارچ کی قیادت عمران خان اور ان کے رفقا۔ گویا ڈاکٹر قادری نے یکجہتی کی جو پیش کش کی ہے‘ اس میں انقلاب اور آزادی مارچ کو الگ الگ دیکھا گیا ہے۔ انہیں الگ الگ ہی ہونا چاہیے۔ اگر دونوں مارچوں کے شرکا یکجا ہو گئے‘ تو اس سے بڑی قباحتیں پیدا ہوں گی۔ پی اے ٹی کے کارکنوں اور سرکاری اہلکاروں کے مابین باہمی تلخی عروج پر ہے۔ دونوں طرف کاخون بھی بہہ چکا ہے۔ ڈاکٹر قادری کے نعروں اور چیلنجز ‘ دونوں میں شدت ہے۔ یہی شدت حکومتی ترجمانوں کے بیانات میں بھی موجود ہے۔ ظاہر ہے‘ ان کے نعرے اور سرکاری بیانات میں‘ باہمی اشتعال انگیزی بڑھے گی اور کسی بھی قسم کا تصادم ہو سکتا ہے۔ نتیجے میں تشدد کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ آزادی مارچ کو آزادانہ طور سے ‘ اپنے طے شدہ راستے پر لے کر جائیں اور اپنے ہی منتخب کردہ مقام پر جا کر دھرنا دیں۔ پی اے ٹی اپنا جلوس اور مظاہرہ الگ کرے۔ البتہ دونوں ہی 14اگست کو لاہور سے چلیںاور اسی شام اسلام آباد پہنچ جائیں اور ایک ہی مطالبہ اپنے اپنے انداز میں میڈیا اور حکومت کے سامنے پیش کریں۔ ظاہر ہے‘ ان دونوں کے درمیان کوئی انتخابی اتحاد تو ہوا نہیں اور نہ ہونے کی امید ہے۔ ڈاکٹر صاحب انتخابی عمل میں حصہ لینے کے موڈ میں بھی نظر نہیں آتے۔ اگرآگے چل کر بھی احتجاجی تحریکیں جاری رکھنے کی ضرورت پڑی‘ تو یہ متوازی طور پر چلائی جا سکتی ہیں اور اگر عمران خان اور نوازشریف کے درمیان کوئی سمجھوتہ طے پا جاتا ہے‘ تو یقینی طور پر ڈاکٹر قادری اس کے پابند نہیں ہوں گے۔ وہ اپنے انقلاب کی جدوجہد جاری رکھیں اور خان صاحب جمہوری عمل کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اگر لیڈروں یا کارکنوں کی جذباتیت کے نتیجے میں‘ جلوسوں کو یکجا کر لیا گیا‘ تو ڈاکٹر قادری کے پیروکار اپنے لیڈر کی پیروی کریں گے اور تحریک انصاف کے کارکن‘ اپنے رہنمائوں کی ہدایات کے تحت چلیں گے۔ دونوں پارٹیوں کے کارکن مل جل کر چلے‘ تو پی اے ٹی کے کارکنوں اور سرکاری اہلکاروں کے مابین اگر خدانخواستہ تصادم ہو گیا‘ تو تحریک انصاف کے کارکن بھی اس کی زد میں آ جائیں گے اور صورتحال کسی بھی انداز میں بدل سکتی ہے۔اس سے زیادہ تفصیل نہ میں لکھ سکتا ہوں اور نہ شائع کر سکتا ہوں۔ مدعا واضح ہے۔ ردوقبول کا اختیار خان صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنی تحریک کو محفوظ رکھتے ہوئے کسی خرابی کے بغیر‘ منزل مقصود تک لے گئے‘ تو کامیاب رہنما ثابت ہوں گے اور اگر تصادم کی لپیٹ میں آ گئے‘ تویہ لیڈرشپ کی خامی ہو گی۔
جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے‘ اس کے لئے حالات انتہائی مشکل ہو جائیں گے۔ وزیراعظم کے موجودہ دوراقتدار کا‘ پہلا سال عوام کے لئے انتہائی مایوس کن رہا ہے۔ حکومت نے جومنصوبے شروع کئے ہیں‘ روزمرہ زندگی میں‘ ان کے فوائد چارپانچ برس بعد عوام تک پہنچیں گے۔ جبکہ روٹی ‘ روزگار ‘ گیس‘ بجلی‘ پٹرول‘ سبزیاں‘ گوشت ‘ امن و امان‘ فوری نوعیت کی ضروریات ہیں۔ ان میں عوام کو برائے نام ریلیف بھی نہیں ملا۔ اس کے برعکس وہ پہلے سے زیادہ تکلیف میں آ گئے ہیں۔ پورے پنجاب میں ٹریفک معطل اور سڑکیں بند کر کے‘ بے گناہ عوام کو جو تکلیف پہنچائی گئی‘ اسے لوگ مہینوں نہیں بھولیں گے۔ اس تکلیف پر عوام‘ شریف برادران کے خلاف سخت غم و غصے میں ہیں۔ حکومت کی مضبوطی نہ سکیورٹی فورسز کی اطاعت شعاری میں ہوتی ہے‘ نہ بیرونی سرپرستی میں۔ جب عوام کا اعتماد حکومت سے اٹھ جائے‘ تووہ کچھ بھی کر لے‘ بحال نہیں ہو سکتا۔ ہر نئی حکومت پہلے سال کی کارکردگی میںہی عوام کو قائل کر لیتی ہے کہ وہ آگے چل کر مسائل حل کرنے کی اہل ہے۔ کارکردگی اچھی نہ رہی ہو‘ تو عوام باور کر لیتے ہیں آنے والے برسوں میں بھی یہی کچھ ہو گا۔شریف برادران اپنی موجودہ ٹیم کے ساتھ عوام کا اعتماد بحال نہیں کر پائے۔ ضروری نہیں کہ زک پہنچانے والا ہر مصاحب بدنیت ہو۔ اپنی اپنی سمجھ بوجھ بھی ہوتی ہے۔مثلاً آصف کرمانی صاحب نے جو بیانات دیئے ہیں‘ ہوبہو وہی ہیں‘ جو ان کے والد گرامی احمد سعید کرمانی‘ ایوب خان کے حق میں دیا کرتے تھے۔ وہ ایک مخلص مسلم لیگی کارکن تھے۔ اپنی طرف سے وہ ایوب خان کو صحیح سمجھتے تھے۔ لیکن ان کے دفاع میں جو بیانات جاری کرتے‘ وہ حقائق کے بالکل برعکس ہوتے۔ نتیجے میں ایوب خان سے نفرت میں اضافہ ہو جاتا۔ ان کا ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ شالیمار کے بی ڈی ممبروں نے‘ ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا۔ تواضع کے لئے ایک لمبی میز لگائی گئی تھی۔سب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ تمام حاضرین نے‘ اپنے اپنے ہاتھ میں چمچہ پکڑ لیا اور سب نے کہنی کے بل ہاتھ کھڑا کر کے‘ لہرانا شروع کر دیا۔ پہلے تو اتنے زیادہ چمچے ایک ساتھ لہراتے دیکھ کر‘ کرمانی صاحب حیران ہوئے اور پھر اٹھ کر چل دیئے۔