وزیراعظم کا قوم سے خطاب‘ روایتی انداز میں تھا۔ اس دوران نہ تو انہوں نے موجودہ صورت حال کی وجوہ بیان کیں اور نہ حالات کا تجزیہ پیش کیا۔بجٹ کے تحت معمول کے منصوبوں اور اخراجات کا گوشوارہ پیش کر کے‘ روایتی دعوے کئے کہ انہوں نے کون کون سے کارنامے سر انجام دئیے ہیں؟ اورا ن میں سے ایک بھی کارنامے کا تعلق‘ براہ راست عوام کے مسائل اور ضروریات سے نہیں تھا۔ایک عوامی لیڈر کا14 ماہ کا اقتدار کم عرصہ نہیں ہوتا۔ خصوصاً جب وہ ایک طویل عرصے کے بعد‘ ملکی اور قومی امور کا انچارج بنا ہو۔اصولی طور پر وزیراعظم کے پاس پہلے سے چند فوری اقدامات کی فہرست ہونا چاہئے تھی کہ وہ ایک سال کے دوران‘ عوام کی بنیادی ضروریات اور مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے‘ایسے اقدامات کریں گے‘ جن سے عوام کو فوری طور پر فوائد پہنچ سکیں۔جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ ضروری نہیں کہ ہر کام کے لئے‘ بھاری فنڈز درکار ہوں۔ذہانت‘عوامی خدمات کے لئے سوچ بچار اور ان کے مسائل سے آگاہی ہوتو عوام کوچند ماہ میں احساس دلایا جا سکتا ہے کہ نئی حکومت ان کے مسائل کو اچھی طرح جانتی اور انہیں حل کرنے کے لئے ایک واضح پروگرام اور مضبوط ارادہ رکھتی ہے۔مثلاً اگرمارکیٹ کنٹرول کی ایک موثر سکیم بنا کر‘ اشیائے ضرورت کے طے شدہ نرخوں پر سختی سے عمل کرایا جاتا تو عوام گرانی کے ان ہوش ربا تھپیڑوں سے بچ سکتے تھے جو اجارہ داری اور ذخیرہ اندوزی کے حربوںسے‘ مختلف اشیاء کے نرخوں میں مصنوعی قلت اور قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کر کے‘ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے رہتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے عوام کو ذخیرہ اندوزوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف ہے۔ وزیراعظم کے اقتدار میں آتے ہی‘ صرف ایک چیز پر توجہ مرکوز کر لیتے تو عوام کو واضح طور سے احساس دلایا جا سکتا تھا کہ حکومت ان کی مشکلات سے آگاہ ہے اور انہیں دور کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔
امن و امان کی حالت بھی انتہائی تشویش ناک ہے۔ نئی حکومت آتے ہی‘ فوری طور پر موثر سکیمیں بنا کے‘ ملک گیر سطح پر ان کا نفاذ کر سکتی تھی۔ پولیس اور محلہ کمیٹیوں کے باہمی تعاون سے امن و امان کی صورت حال میں‘ کافی بہتری لائی جا سکتی تھی لیکن نئی حکومت نے قوم کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ نہیں دی اور عوام بیک وقت چور بازاری کرنے والوں‘ ذخیرہ اندوزوں اور سماج دشمن عناصر کی لوٹ مار کا نشانہ بنتے آرہے ہیں۔ میں صرف انہی دو چیزوں پر اکتفا کرتا ہوں۔ حکومت چاہتی تو اضافی اخراجات کے بغیر بھی‘ عوام کو سہولتیں پہنچا سکتی تھی مگر یوں لگتا ہے کہ عوام کے ووٹ لے کر‘ انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے اور بڑے بڑے منصوبوں پر توجہ دے کر‘بھاری رقوم مختص کی گئیں لیکن ان کے فائدے ‘حکومت کے موجودہ عرصہ اقتدار میں شاید ہی اسے پہنچیں۔ بے شک عوام کو خواب دکھانا اور بڑے منصوبے شروع کرنا‘لیڈروں کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن عوام کے روزمرہ مسائل پر توجہ دے کر‘ انہیں حل کرنا بھی ان کا فرض ہے۔وزیراعظم اور ان کی جماعت نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عوام جلد ہی حکومت سے نا امید اور بے زار ہو گئے۔ اس وقت دو لیڈر جو دو مختلف تحریکیں چلا کر‘حکومت اور عوام کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں‘ ان کے پاس بھی نہ کوئی واضح ایجنڈ ا ہے اور نہ اہداف۔ ایک ڈاکٹر طاہر القادری ہیں ‘ وہ صرف انقلاب کامبہم نعرہ لگا کر‘ عوام کو خواب دکھاتے رہتے ہیں ۔ان کے پاس کوئی پروگرام یا ایجنڈا موجود نہیں ہے۔ درحقیقت وہ روایتی ملائوں کی طرح‘ عوام کے جذبات سے کھیلتے اور انہیں ٹرانس میں لائے رکھتے ہیں۔ اپنے پیروکاروں کی تنظیمی طاقت اور اندھے جذبات کو استعمال کر کے‘ اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر‘ وہ حکومت کی رٹ کو چیلنج کر کے‘ اپنی لیڈری چمکاتے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان بھی‘ عوام کو مسحور اور متحرک کر کے‘ اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کے پاس بھی مستقبل کے لئے‘ کوئی پروگرام نہیں۔ وہ صرف انتخابات میں دھاندلی کا نعرہ لگا کر‘ حکومت مخالف جذبات ابھارتے ہیں۔ ان دونوں کے پاس عوام کو دینے کے لئے کچھ نہیں مگر ان کی کامیابی یہ ہے کہ عوام کو سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتے کہ وہ کس لئے حکومت مخالف مظاہرے کر رہے ہیں؟در حقیقت عوام اپنی ان تکلیفوں اور مصیبتوں کے خلاف‘ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں‘ جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت عوامی مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ سب سے بڑی اپوزیشن‘ پیپلز پارٹی حکمران جماعت کی دم چھلا بنی ہوئی ہے۔ اس کے لیڈروں نے انفرادی طور پر‘ جو فوائد حاصل کر رکھے ہیں ۔ وہ ان سے محروم نہیں ہونا چاہتے اور اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے حاصل کر لیا ہے‘ وہ نہ چھین لیا جائے۔ہمارے عوام کی بد قسمتی یہ ہے کہ نہ تو ان کے برسر اقتدار لیڈر‘ ان کی طرف توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کے رہنما‘ ان کے حقوق کے لئے لڑتے ہیں۔ اس خلا
میں مہم جو‘ جادو کی اپنی اپنی بانسری بجا کر‘ عوام کو احتجاجی مظاہروں میں الجھا کر‘ ان کے غم وغصے کا فائدہ اٹھاتے اور مختلف مقاصد پورے کرتے رہتے ہیں جو ان کے اپنے نہیں ہوتے بلکہ مختلف گروپوں اور طاقتوں کے ہوتے ہیں اور وہ عدم استحکام کی صورت حال پیدا کرکے‘ مخصوص عناصر کے لئے سازگار حالات پیدا کرتے ہیں۔یہ عناصر انتہائی ہوشیار‘ تیز طرار اور سماجی اور سیاسی سائنس کے ماہر ہوتے ہیں اور جب چاہتے ہیں حالات کو اپنی مرضی کے رخ پر ڈال لیتے ہیں۔ حالیہ بحران اس کی عمدہ مثال ہے۔ آج سے صرف چار ماہ پہلے تک‘ سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا۔ لگتا تھا کہ حکومت قدم جمانے میں کامیاب ہو چکی ہے اور وہ معاملات کو گرفت میں لا کر‘ ملکی امور چلانے میں کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے۔ غالباً یہی چیز‘ کچھ طاقتوں کو پسند نہیں آئی اور انہوں نے عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے‘ یقینی طور پر کوئی نہ کوئی منصوبہ بنایا اور قسمت آزمائی کر نے والے سیاست دانوں کوان راستوں پر لگا د یا۔ جو عدم استحکام اور بحران یہ لوگ پیدا کرتے ہیں‘ اس کے فائدے نادیدہ طاقتیں اٹھا تی ہیں۔ کام ہو چکا ہے۔ بحران پیدا ہو گیا۔ حکومت عدم استحکام سے دوچار ہو گئی۔ اس کے قدم اکھڑ گئے۔معیشت پر چوٹ لگ گئی۔اب بڑا کھیل شروع کرنے کے لئے‘ حالات موزوں ہو چکے ہیں۔ یہی نا دیدہ قوتیں ہیں‘ جنہوں نے صورت حال کو یک لخت بدل کے رکھ دیا ہے۔ عدم استحکام پیدا کرنے والوں میں‘ نہ اتنی سیاسی مہارت ہے اور نہ ذہنی صلاحیتیں کہ وہ خود کوئی فائدہ اٹھا سکیں۔حکومت بے چینی اور بحران پیدا کرنے والے ان کھلاڑیوں پر‘ نظریں جمائے رکھتی ہے جو اسے اپنے سامنے دکھائی دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ نادیدہ قوتوں کے سپاہی ہوتے ہیں اور حکومت انہیں اصل طاقت سمجھتے ہوئے‘ اپنی طاقت ان پر ضائع کرتی ہے اور حقیقت میں اپنے آپ کو کمزور کر لیتی ہے۔حالیہ چند روزہ بحران کے نتیجے میں اب تک کیا ہوا ہے؟ حکومت ان دو لیڈروں کے ساتھ طاقت آزمائی کر رہی ہے جن کے پاس نہ کوئی ایجنڈا ہے اور نہ سامنے کوئی منزل۔ وہ عارضی نوعیت کے مطالبات کے بل بوتے پر‘ احتجاجی تحریکوں میں شدت پیدا کر رہے ہیں اور حکومت میکانکی انداز میں‘ انہیں قابو میں لانے کی تدبیریں کرنے میں لگ جاتی ہے اور اس دوران ایک ایسا انفراسٹرکچر کھڑا کر دیتی ہے جو درحقیقت اس کے کسی کام کا نہیں ہوتا۔ اس کے فوائد‘ وہ نادیدہ طاقتیں اٹھاتی ہیں جو پرسکون ماحول میں انتشار پیدا کر کے‘ اپنے لئے راستے ہموار کرتی ہیں مثلاً جن دو تحریکوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر‘ریاستی مشینری میں عوامی ابھار پر غالب آنے کی صلاحیتیں پیدا کی جا رہی ہیں ‘ ان کا فائدہ حکومت نہیں بلکہ اس کی جگہ لینے والے اٹھاتے ہیں۔ناکہ بندیوں کے تجربے اور بدامنی پیدا کرنے والے عناصر‘ کی نشان دہی سے بھی حکومت کو فائدہ نہیں ہو گا اور اسی طرح جو خندقیں کھودی گئی ہیں اور نقل و حرکت پر کنٹرول قائم کرنے کے لئے جو نقشے اور حربے تیار کئے گئے ہیں‘ یہ بھی نادیدہ طاقتوں کے ہی کام آئیں گے۔مجھے نہیں لگتا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کو اپنی محنت اور قربانیوں کے وہی ثمرات ملیں گے جو وہ چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو امید ہی نہیں رکھنا چاہئے۔ عمران خان کی قسمت میںاگر دوچار جھولے لکھے ہیں تو وہ ان کا لطف اٹھا لیں گے اور باقی زندگی ان کی یاد میں گزارتے رہیں گے۔ حکومت نے اگر اپنے14 مہینے عوام کی خدمت میں گزارتے ہوئے باہمی اعتماد اور محبت کا رشتہ قائم کر لیاہوتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔اب اسے یہ گزرے ہوئے 14 مہینے دوبارہ نہیں ملیں گے۔