عوام قدم قدم پر ثابت کر رہے ہیں کہ حکومت کی اتھارٹی مہین ہوتی جا رہی ہے اور حکومت ہے کہ وہ اس کے الٹ سمجھتے ہوئے‘ اپنی اتھارٹی پر زیادہ زور دینے لگی ہے۔ دونوں مارچوں کی کہانی یاد کرتے ہیں۔ حکومت نے اپنے آپ کو طاقتور سمجھتے ہوئے‘ مارچوں ہی کی مخالفت شروع کر دی اور شمالی وزیرستان کی دہائی دیتے ہوئے کہا: ''ایک طرف ہم جنگ لڑ رہے ہیں اور دوسری طرف ان لوگوں کو احتجاجی جلوس نکالنے کی پڑی ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ صرف فوج لڑ رہی ہے۔ حکومت تو دہشت گردوں کی مہربانی کا جواب دینے پر تلی ہوئی تھی۔ 2013ء کے انتخابات میں دہشت گردوں نے ن لیگ کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور مخالف جماعتوں کو دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے حامی ووٹ دینے باہر نکلے‘ تو اپنی زندگی کی فکر کر لیں۔ جن پارٹیوں کے نام لے کر دہشت گردوں نے دھمکیاں دی تھیں‘ ان کے ووٹر خوفزدہ رہے اور ن لیگ‘ من مانیاں کر کے‘ بھاری اکثریت سے جیت گئی۔ حکومت بنانے کے بعد‘اس نے غیرمشروطور پر طالبان سے مذاکرات کی پیش کش کر دی۔ دنیا بھر کا یہ اصول ہے کہ جن باغیوں نے ملک کے فوجیوںاور شہریوں کو‘ ہزاروں کی تعداد میں نشانہ بنایا ہواور سرکاری و نجی عمارتیں تباہ و برباد کی ہوں‘ ان کے ساتھ کبھی غیرمشروط مذاکرات نہیں کئے جاتے۔ ہمیشہ دہشت گردوں سے یہ بات منوائی جاتی ہے کہ وہ قتل و غارت گری کے سابقہ گناہوں کی معافی مانگیں اور آئندہ کے لئے دہشت گردی کی کارروائیاں بند کریں۔ ہماری حکومت نے انوکھا فیصلہ کیا اور طالبان کے ساتھ غیرمشروط مذاکرات شروع کر دیئے۔ 18کروڑ عوام کی نمائندہ حکومت نے تو باقاعدہ وزیراعظم کے نمائندوں کو مذاکرات پر مامور کیا۔ جبکہ دہشت گردوں نے‘ اپنا کوئی رکن یا عہدیدار‘ مذاکراتی ٹیم میں شامل نہیں کیا۔ پاکستان ہی کی سیاسی اور مذہبی شخصیتوں پر مشتمل ایک مذاکراتی وفد تیار کر کے‘ دہشت گردوں کی نمائندگی کا فرض انہیں سونپ دیا۔ پاکستانی ہی پاکستانیوں سے مذاکرات کر رہے تھے اورحکومت اسے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات قرار دے رہی تھی۔ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے فوجیوں نے انکشاف کیا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ‘ ڈیڑھ سال پہلے کیا جا چکا تھا۔ فوجی قیادت مناسب موقع کے انتظار میں تھی۔ جب نئی حکومت آئی تو فوج نے اس منصوبے پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا‘ لیکن حکومت نے مذاکرات کی میز بچھا کر‘ اسے التوا میں ڈال دیا اور اس وقت تک ڈالے رکھا‘ جب تک دہشت گردوں کی اکثریت اپنا اسلحہ اور اثاثے لے کر‘ پاکستان سے باہر نہیں نکل گئی۔ حکومت اس کے بعد بھی آپریشن شروع کرنے سے لیت و لعل کر رہی تھی کہ فوج نے ازخود آگے بڑھ کر یہ آپریشن شروع کر دیا اور حکومت نے تین چار دنوں کے بعد‘ اس کا سہرا اپنے سر باندھ کر‘ عوام کو خوش کرنے کی کوشش کی اور یہ بات بھول گئی کہ ''یہ تو پبلک ہے‘ سب جانتی ہے‘‘۔
آج ہی موجودہ حکومت کے ایک وزیرصاحب کا یہ بیان الیکٹرانک میڈیا پر سنا کہ حکومتی ممبران صوبائی و قومی اسمبلی اپوزیشن کے خلاف جلوس نکال کر ثابت کریں گے کہ اپوزیشن کے ''مٹھی بھر‘‘ نعرے باز‘ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ عوام کی بھاری اکثریت ان کے ساتھ ہے۔قدرت بھی حساب چکاتے وقت کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہے؟ یہ تجربہ پی پی پی کر چکی ہے‘ جو انتہائی برے حالات میں بھی ایک مقبول جماعت تھی۔ اس کے خلاف ایک چھوٹے سے طبقے نے سازش کر کے‘ مشکلات کھڑی کیں‘ لیکن احتجاجی جلوسوں کے ذریعے اپوزیشن نے گلیوں اور بازاروں میں یک طرفہ جلوس نکال کر‘پیپلزپارٹی والوں کو خاموش کرا رکھا تھا اور جب یہ واضح ہو گیا کہ سازشیوں نے حکومت کے ہاتھ پیر باندھ دیئے ہیں‘ تو عوام میں بے دلی پھیل گئی اور اپوزیشن کے حامیوں کے حوصلے بڑھ گئے تھے۔ ان حالات میں پیپلزپارٹی کے‘ ایک دو اراکین صوبائی اسمبلی نے‘ بھٹو صاحب کے حق میں جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ اپوزیشن نے پہلے ہی سے اپنے ورکروں کو جلوس کے راستے میں کھڑا کر دیا۔ ایم پی اے صاحبان نے‘ چند بے حوصلہ اور پریشان ورکروں کو‘ زبردستی ساتھ لے کر جلوس نکالا اور ان کی ایسی درگت بنی کہ ایم پی اے صاحبان روتے ہوئے گورنرہائوس لاہور میں بھٹو صاحب کے پاس جا پہنچے اور لگے فریادیں کرنے کہ ''ہمارے ساتھ بہت زیادتی ہو گئی۔ پولیس نے ہمیں تحفظ نہیں دیا‘‘۔ بھٹو صاحب نے ناگواری سے کہا: ''تم نے بھی تو جلوس نکالنے کے لئے شاندار موقع چنا۔ خدا کا شکر کرو کہ اپوزیشن کے اراکین کے ساتھ پولیس نے آگے بڑھ کر تم پر ٹماٹر نہیں پھینکے‘‘۔ یہ کہہ کر بھٹو صاحب نے‘ اپنے دودھ پینے والے مجنوئوں کو‘ سختی سے ہدایت کی کہ وہ ازخود پارٹی یا حکومت کی حمایت میں کوئی جلوس نہ نکالیں۔ یہ واقعہ‘ ن لیگیوں کے فائدے کے لئے درج کیا ہے۔ اس کے باوجود وہ ‘عوام کے غم و غصے کا نشانہ بنی ہوئی پارٹی اور حکومت کے حق میں جلوس نکالنا چاہتے ہیں‘ تو بسم اللہ۔ اب تو انڈے اور ٹماٹر اتنے مہنگے ہیں کہ عوام انہیں ضائع کرنے کے قابل نہیں رہ گئے۔ اب غیرمقبول پارٹیوں کے جلوسوں کی تواضع صرف پتھروں اور اینٹوں سے کی جا سکتی ہے۔ اپوزیشن کے خلاف جلوس نکالنے کے خواہشمند‘ وزیرصاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ گوجرانوالہ کا واقعہ یاد کر لیں۔ جب عمران خان کا جلوس شہر کے اندر داخل ہوا‘ تو جی ٹی روڈ کے دونوں طرف عوام کا جم غفیر‘ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے پرجوش استقبال کے لئے موجود تھا۔ اچانک ن لیگ کے گلوبٹ گروپ کے دس پندرہ ''مجاہد‘‘ پولیس کی حفاظت میں‘ جلوس پر پتھر پھینکنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ جلوس میں شامل نوجوانوں کو تو‘ ان کے لیڈروں نے روک لیا۔ لیکن آپ نے‘ ٹی وی پر گلوبٹ فورس کو‘ ہڑبڑاہٹ کے عالم میں بھاگتے ہوئے ضرور دیکھا ہو گا۔ وہ اپنے ہی شہر کے نوجوانوں کی جوابی یلغار کے خوف سے‘ پولیس کی حفاظت میں جانے کے لئے بھاگ رہے تھے۔ موجودہ حکومت نے اپنے 14ماہ کے دورحکومت میں‘ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جو کام کئے ہیں‘ ان میں سرفہرست لوڈشیڈنگ میں اضافہ‘ دالوں‘ سبز یوں‘ دودھ‘ چائے‘ غرض عام ضرورت کی ہرچیز کے نرخ ڈبل اور کئی چیزوں کے اس سے بھی زیادہ کر دیئے ہیں۔ گیس کی لوڈشیڈنگ جو پہلے کسی نے نہیں دیکھی تھی‘ موجودہ حکومت نے وہ بھی دکھا دی اور غریبوں کے چولہے ٹھنڈے ہونے لگے۔ رشوت کا بازار اتنا گرم ہوا کہ چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی‘ بڑی سے بڑی سفارش ناکام ہو گئی۔ جہاں بھی کام پڑتا‘ نقد ادائیگی سے کرانا پڑتا۔ حکومت نے ترقی کے جتنے بھی دعوے کئے‘ ان میں وعدوں کی بھرمار کے سوا کچھ نہیں تھا۔ صرف لاہور میں میٹروبس چلائی گئی۔ اس سے لوگوں کو فائدہ تو کم ہوا لیکن گھاٹا زیادہ ہو گیا۔ جو دس بیس روپے کرایہ لیا جاتا ہے‘ اس کے مساوی رقم حکومت اپنی جیب سے دیتی ہے۔ حکومت کی جیب میں پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ یہ عوام دیتے ہیں۔ گویا میٹروبس کا جو بھی کرایہ لیا جاتا ہے‘ اصل میں وہ پورے کا پورا عوام دیتے ہیں۔ لیکن جتنے لوگوں کے پیٹ پر لات پڑی‘ وہ ہزاروں اور لاکھوں میں ہیں۔ جہاں جہاں سے میٹروبس کے لئے جنگلہ روڈ بنائی گئی‘ اس کے دونوں اطراف کی دکانوں کا دھندہ چوپٹ ہو گیا۔ جو 10ہزار روپے روز کماتا تھا‘ اس کی آمدنی ایک دو ہزار رہ گئی۔ چوٹ کاری‘ جرمانہ بھاری۔ حکومت کی یہی کارکردگی یا کارستانی ہے‘ جس نے اٹھارہ بیس برس سے‘ جدوجہد میں مصروف سیاستدانوں کو دیکھتے ہی دیکھتے‘ سر آنکھوں پر بٹھا لیا۔ یہی ڈاکٹر طاہرالقادری تھے جو تقریباً تمام نشستوں پر امیدوار کھڑے کر کے‘ صرف خود اسمبلی میں پہنچ پائے تھے۔ (موصوف نے غصے میں آ کر وہ سیٹ بھی چھوڑ دی تھی۔) عمران خان 18 سال سے سیاسی جدوجہد کر رہے تھے۔ قومی ہیرو ہونے کے باوجود سیاست میں‘ ان کی خاص پذیرائی نہ ہوئی۔ لیکن موجودہ حکومت نے صرف 14مہینوں میں‘ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں کو اتنا بڑا لیڈر بنا دیا کہ اب وہ پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کو بری طرح سے ڈانٹتے اور ڈراتے ہیں۔
حکومت کے حمایتیوں کے پاس ‘ اس کے حق میں پیش کرنے کے لئے کتابی دلائل کے سوا کچھ نہیں۔ کبھی وہ آئین کی آڑ لیتے ہیں‘ کبھی وہ حکومت کی وہ خدمات گنواتے ہیں‘ جن پر عوام مشتعل ہو جائیں۔ کبھی ایسے گیلپ سروے کے حوالے دیتے ہیں‘ جن میں وزیراعلیٰ شہبازشریف کو عمران خان سے زیادہ مقبول شخصیت قرار دیا گیا ہو۔ حکومت کی حمایت میں‘ جلوس نکالنے کے خواہش مند ن لیگیوں کو شاید معلوم نہیں کہ اب جلوسوں کی حفاظت کے لئے انہیں پولیس نہیں مل سکے گی۔حوالے کے لئے اسلام آباد کی ریڈزون میں‘ دو جلوسوں کے داخلے کے مناظر دیکھ لیں۔ پولیس نہ صرف پرجوش عوام کی طرح‘ بڑھ چڑھ کر عمران خان کا استقبال کر رہی تھی بلکہ باوردی پولیس اہلکار‘ بھنگڑے بھی ڈال رہے تھے۔شریف برادران نے‘ بیس پچیس برس تک‘ عوامی مقبولیت کے مزے اڑائے ہیں‘ لیکن گزشتہ 14ماہ کی حکومت نے‘ سب کچھ بدل دیا ہے ع
وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا
نوٹ:- ''دنیا‘‘ نیوز کے پروگرام میں رانا ثناء اللہ خاں کی اس بات پر کہ ایف آئی آر کے اوپر‘ دوسری نہیں لکھی جا سکتی‘ ایک ریٹائرڈ پولیس آفیسر نے ٹیلیفون پر بتایا کہ پولیس صرف لاوارث مقتول کی مدعی بن سکتی ہے جبکہ یہاں تو مدعی ایف آئی آر لکھوانے کے لئے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔پولیس دو غلطیاں کر رہی ہے۔ ایک حقیقی مدعیان کی موجودگی میں خود مدعی بن کر اور دوسرے عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کر کے۔