"NNC" (space) message & send to 7575

نئی صدی کا نیا محاذ

آج بہت سے زندہ لوگ‘ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جناب ذوالفقارعلی بھٹو‘ جو اپنی عظیم بیٹی بے نظیر شہید کے وجود میں منتقل ہو گئے تھے اور خود بے نظیر بھٹو‘ اپنے عظیم والد کے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈتے ڈھونڈتے‘ قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔ ابوالاعلیٰ مودودی‘ جن کی زندگی بھٹو صاحب کے نظریات اور پالیسیوں کی مزاحمت کرتے ہوئے گزری اور جب ذوالفقارعلی بھٹو‘ آمریت کے بڑھتے ہوئے مہیب سایوں کی مزاحمت میں‘ تعاون کے لئے مولانا مودودی کے گھر گئے تو سڑک پر جمعیت طلبا کے پُرجوش نوجوانوں سے‘ بھٹو صاحب کی تذلیل کے لئے نعرے لگوائے گئے اور جنرل ضیاالحق‘ جو نواز شریف کو اپنا جانشین قرار دیا کرتے تھے‘ آج ایک ہی دن یہ تینوں ایک ساتھ‘ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پیپلز پارٹی‘ بھٹو اور بے نظیر کے نظریات کے ''بوجھ‘‘ سے آزاد ہو گئی۔ جماعت اسلامی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے تصورات سے فارغ ہو گئی اور ضیاالحق کی سیاسی وراثت کوڑے دان میں پھینک دی گئی اور نیا سیاسی سفر شروع کر دیا گیا۔ وقت کے ساتھ‘ بتدریج بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ بدلنے کا یہ عمل وقفوں سے ہوتا ہے‘ تسلسل سے ہوتا ہے لیکن ایک ہی جھٹکے میں اتنے بدلائو‘ بیک وقت ہوتے بہت کم دیکھے ہیں۔ اتنے زیادہ مرحومین کی‘ اپنی وراثتوں سے یک لخت بے دخلی کا حادثہ شاید ہی کبھی یوں ہوا ہو۔ بھٹو صاحب نے اپنے نظریات کے لئے کیا کیا نہیں کیا؟ زندگی کا بہترین حصہ‘ عوام کے درمیان رہ کر‘ جدوجہد کرتے ہوئے گزارا اور اقتدار کے جو چند سال ملے‘ ان میں دشمنوں کی سازشوں میں گھرے رہے۔ اپنوں کے زخم کھائے‘ اپنے احسان مندوں کی بے وفائیاں دیکھیں اور ایسے ہی ایک دغا باز کے ہاتھوں پھانسی پا گئے لیکن وہ عوام کے ذہنوں میں‘ جن خوابوں کی جوت جگا گئے تھے‘ وہ مزدوروں‘ کسانوں‘ محنت کشوں اور وطن پرستوں کے سینے میں روشن رہی اور قبل اس کے کہ اس کی روشنی ماند پڑ جائے ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے آگے بڑھ کر‘ وہ جوت تھام لی اور روشنی کا سفر پھر سے شروع کر دیا۔ جیلوں میں عذاب ناک زندگی گزاری۔ روپوشی کے دن دیکھے۔ جلاوطنی کے صدمے اٹھائے اور وطن سے برسوں دوری کا درد سہنے کے بعد‘ وطن واپسی کا موقع ملا تو آتے ہی مظلوم اور پسے ہوئے طبقوں کی قیادت سنبھال لی۔ اپنے باپ کے قاتل کے دور حکومت میں‘ جان پر کھیل کر عوامی جدوجہد میں شرکت کی اور آمر کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔ قبل اس کے کہ وہ اپنی شکست کی آواز بن کر‘ ایک آوارہ روح کی طرح اپنے ظلم کے ستائے لوگوں کے درمیان رہتا‘ اسے قدرت نے عبرت ناک سزا سے دوچار کر دیا اور اس کا فانی جسم‘ آگ کے شعلوں کی نذر ہو گیا۔ اسے اپنے کفن میں ثابت و سالم لیٹ کر‘ نماز جنازہ سے فیض یاب ہونے کی سعادت بھی حاصل نہ ہوئی۔
ضیاالحق کی رخصتی کے بعد‘ اس کے جانشینوں میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ آمریت کا مردہ اٹھا کر چند قدم مزید چل سکتے۔ انہیں فوراً ہی‘ جمہوریت کی بحالی کا اعلان کر کے‘ انتخابات کرانا پڑے۔ آمر کے ورثا نے ہر ممکن کوشش کی کہ بھٹو کی بیٹی کو بدعنوانیوں‘ سازشوں اور ریاستی طاقت کے ذریعے‘ انتخابات میں شکست سے دوچار کریں لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود‘ وہ بے نظیر کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہو سکے اور وہ اتنی نشستیں حاصل کرنے میں بہرحال کامیاب ہو گئیں کہ ایک مخلوط حکومت کی سربراہی کر سکیں۔ ضیاالحق کے وارثوں نے ٹھان لی کہ وہ بے نظیر کو کامیابی سے ہمکنار نہیں ہونے دیںگے۔ ان کے خلاف مسلسل اور پے در پے سازشیں کی گئیں اور سیاسی مقابلہ کرنے کے لئے‘ نواز شریف کو میدان میں اتارا۔ بی بی نے آمریت کے جانشینوں کے
متحدہ محاذ کا سامنا کرتے ہوئے‘ عوام کی بھلائی کے لئے بہت کچھ کرنا چاہا‘ لیکن ریاستی اداروں کی درپردہ ریشہ دوانیوں کا ہدف بنی رہیں۔ اپنا پہلا دور اقتدار مکمل کئے بغیر‘ انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور نواز شریف کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اقتدار میں آ کر نواز شریف نے بے نظیر کو سیاسی طور سے ملیامیٹ کرنے کی انتھک کوشش کی مگر اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بے نظیر ایک بار پھر عوامی طاقت کے بل بوتے پر‘ الیکشن جیت کر وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گئیں۔ اقتدار سنبھالتے ہی ان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ پھر وہیں سے شروع کر دیا گیا‘ جہاں بے نظیر نے اسے توڑا تھا۔ اب نواز شریف سیاسی ڈوئیل کے چکر سے باہر آنا چاہتے تھے لیکن جن طاقتوں نے‘ انہیں بے نظیر کے مقابلے پر کھڑا کیا تھا‘ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ نواز شریف‘ ایک خودمختار سیاست دان کی حیثیت سے کام کر سکیں۔ شاید ان کا اندازہ درست تھا۔ نواز شریف کو جب پہلی مرتبہ‘ خود مختار سیاست دان کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا تو ایوان اقتدار کے اندر‘ بُل اِن چائینا شاپ کی مثال بن گئے۔ جو سامنے آیا سینگوں پر اٹھا لیا۔ جج سامنے آئے تو انہیں اٹھا کے‘ زمین پر دے مارا۔ کسی جرنیل نے غصہ دلایا تو اسے پھڑکا دیا۔ صدر نے تنگ کیا‘ تو اسے اچھال کے درخت میں ٹانگ دیا‘ لیکن ایسا بہت بعد(صفحہ9بقیہ نمبر1)
میں ہوا۔ اس وقت ان کی توانائیاں‘ بے نظیر بھٹو کو ناکام بنانے پر صرف ہو رہی تھیں۔ آخرکار وہ اس میں کامیاب ہو گئے اور ایک بار پھر بے نظیر بھٹو‘ ایوان اقتدار سے سڑک پر آ گئیں اور نواز شریف دو تہائی اکثریت سے انتخابات میں کامیاب ہو کر‘ پس پردہ قوتوںکے دبائو سے باہر آ کے‘ من مانیاں کرنے کے لئے آزاد ہو گئے۔ کئی ججوں‘ جنرلوں‘ مخالف سیاست دانوں اور صدور کو پھڑکانے کے بعد‘ انہوں نے آخری بار‘ پرویز مشرف کو سینگوں پر رکھ کر اچھالا‘ تو اس کے سازشی ساتھیوں نے نواز شریف کو گرفت میں لے کر‘ زندان میں ڈال دیا۔ قسمت کے دھنی تھے۔ جرنیلوں کے شکنجے سے بچ کر‘ جلاوطن ضرور ہوئے لیکن یہ زمانہ انہوں نے شاہی محل میں گزارا۔ جلاوطنی کا عرصہ پورا ہونے سے پہلے ہی‘ وہ فاتحانہ انداز میں وطن واپس آئے لیکن انہیں جلاوطنی کے معاہدے کی آڑ میں اس وقت کے حکمران‘ پرویز 
مشرف نے واپس بھیج دیا۔ بے نظیر شہید‘ پرویز مشرف کے ساتھ جمہوریت بحال کرنے کی شرط پر وطن واپس آ گئیں اور انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں ہونے لگیں۔ نواز شریف نے اپنے میزبان شاہی خاندان سے کہا کہ ان کی حریف سیاست دان پاکستان میں واپس آ گئی ہیں تو انہیں بھی یہ حق ملنا چاہئے۔ شاہی خاندان نے پرویز مشرف کو مجبور کیا کہ اب وہ نواز شریف کو واپسی سے نہیں روک سکتے۔ جلد ہی نواز شریف بھی واپس وطن آ گئے اور دونوں نے اپنی اپنی انتخابی مہم شروع کر دی۔ انتخابی مہم کے دوران بے نظیر بھٹو نے براہ راست مزدوروں‘ محنت کشوں اور متوسط طبقے کے لوگوں میں‘ بیداری کی لہر دوڑانا شروع کر دی اور حکمران طبقے‘ جو طویل آمریت کے دور میں پل پل کر‘ دنبے بن چکے تھے‘ وہ غریبوں کو اپنے سر چڑھتے دیکھنا گوارا نہیں کر سکتے تھے؛ چنانچہ ایک سازش ہوئی اور بے نظیر بھٹو کو‘ بے رحمی سے گولیوں کا نشانہ بناتے ہوئے‘ شہادت کے درجے پر فائز کر دیا گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا‘ جب بھٹو خاندان میں‘ ان کی وراثت حاصل کرنے کے لئے ایک بھی بالغ فرد موجود نہیں تھا۔ بے نظیر کے تینوں بچے کم عمر تھے‘ مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو نے‘ بلوغت میں قدم تو رکھ دیا تھا لیکن وہ سیاست کے خون ریز کھیل سے دور رہنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو شاعری اور لٹریچر کی دوسری اصناف میں مصروف کر لیا تھا۔ ان کے علاوہ مرتضیٰ بھٹو کا کوئی بچہ بالغ نہیں تھا۔ خود مرتضیٰ بھٹو‘ اپنے آپ کو پاکستان کے حکمران طبقوں کے لئے نا قابل قبول بنا چکے تھے اور انہیں بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں ہی گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کے شوہر‘ آصف زرداری ان کا جانشین بننے میں کامیاب ہو گئے اور بھٹو صاحب کے جانشین کی حیثیت میں پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھال لی۔ پانچ سال کے دور اقتدار اور اب سندھ کی حکومت چلا کر‘ وہ بھی بھٹو کی چھترچھایا سے باہر نکل چکے ہیں۔ نواز شریف سیاست میں جنرل ضیا کو بہت دور چھوڑ آئے ہیں۔ جماعت اسلامی‘ مولانا مودودی کو پیچھے چھوڑتی ہوئی‘ سراج الحق کی قیادت میں آ چکی ہے۔ مولانا مودودی کا علمی راستہ ترک کر کے‘ نوابزادہ نصراللہ خاں کی سیاسی معاملہ بندی کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے سراج الحق بابائے جمہوریت بننے کی کوشش میں‘ جماعت اسلامی کو نیا روپ دے دیں۔ یہ سانحے ا لگ الگ وقت پر‘ رونما تو ہوتے رہے لیکن تقریب وداع منعقد نہیں ہوئی تھی۔ سب کے وارثوں نے‘ آج ایک ہی دن میں‘ اپنے اپنے ماضی اور اپنی اپنی جماعت کے بانیوں کو خیرباد کہہ دیا۔ وقت نے تبدیلی کا ایک دائرہ مکمل کر لیا اور سب اپنے اپنے ماضی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے‘ وقت کے نئے دائرے میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان کی سوچوں اور طبقاتی مفادات کا ٹکرائو پیچھے رہ گیا ہے۔ اب ان کے مفادات بھی ایک ہو چکے ہیں۔ ٹکرائو بھی ختم ہو گیا ہے۔ زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ نواز شریف کی جھولی میںڈال دیا ہے۔ ان سب کی طاقت‘ ایک ہی جگہ یعنی موجودہ پارلیمنٹ میں جمع ہو چکی ہے یا سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اب یہ نئی نسل کی سیاسی قوت کو‘ ابھرتے ہوئے دیکھ کر‘ مشترکہ جارحیت کی تیاری کر رہے ہیں۔ نئی صدی میں نئی طرز کا محاذ ‘معرض وجود میں آ رہا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں