"NNC" (space) message & send to 7575

نیا پاکستان پیدا ہو گیا؟

ذرا اس قبضہ گروپ کا اندازہ کریں‘ جو اصل مالکان کو احتجاج کرتے دیکھ کر‘ خود بھی ان کے ساتھ سڑک پر دھرنا دینے بیٹھ جائے۔ وہ سینہ کوبی کریں‘ تو یہ بھی سینہ کوبی کرنے لگے۔ مالکان سیاپا کریں‘ تو وہ بھی سیاپا شروع کر دے۔ مالکان قبضہ مانگیں‘ تو وہ بھی قبضہ مانگنا شروع کر دے۔ ایسے قبضہ گروپ کی عقل و فہم کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ جب بھٹو صاحب کے خلاف احتجاجی تحریک زوروں پر چل رہی تھی‘ تو ان کے ایک جیالے‘ طارق وحید بٹ مرحوم نے حکومت کے حق میں ''احتجاجی‘‘ جلوس نکال ڈالا۔ منظم مخالفین ڈنڈے لے کر جلوس پر ٹوٹ پڑے۔ بھٹو صاحب لاہور کے گورنرہائوس میں مقیم تھے۔ طارق وحید بٹ‘ سرگرم کارکنوں کے ساتھ‘ اپنے لیڈر کے سامنے کارروائی ڈالنے پہنچا اور شکایت آمیز لہجے میں بولا''جناب چیئرمین! میں نے آپ کے حق میں شاندار جلوس نکالا۔ لیکن مخالفین نے بڑی زیادتی کی۔‘‘ اس سے پہلے کہ طارق مزید تفصیل بیان کرتا‘ بھٹو صاحب نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا ''تمہیں کس نے کہا تھا کہ اپنی ہی حکومت کے خلاف جلوس نکالو؟یہ کام میرے مخالفین کر رہے ہیں۔ کیا تم بھی ان کے ساتھ مل گئے ہو؟ یا سڑکوں پر فساد کرانا چاہتے ہو؟‘‘بھٹو صاحب ذہین آدمی تھے۔ انہیں ملکی اور عالمی سازشیوں نے گھیر کے مارا۔ ان کے مخالفین‘ ان کی سیاست اور ذہانت کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ عوامی احتجاج کی زد پر آئی حکومتوں کے حامیوں نے ماضی میں بھی ایسا ہی کیا۔ ایوب خان کے خلاف جب پورے ملک میں بے اطمینانی پھیلی اور مظاہرے ہونے لگے‘ تو درباریوں نے ان کے حق میں جلوس نکالنا شروع کر دیئے۔ وہ جدھر بھی جاتے‘ لوگ انہیںجوتے‘ انڈے اور ٹماٹر مارتے۔ اس زمانے میں بدترین سیاسی مخالفین بھی پتھروں‘ لاٹھیوں اور کلاشنکوفوں کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ یادگار لطیفے شریف برادران کے ہیں۔ بے نظیرشہید ملک کی وزیراعظم تھیں اور نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ۔سیاسی طور پر یہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ نوازشریف نے اپنی وزیراعظم کے خلاف احتجاجی جلوس نکالنا شروع کر دیئے۔ اس وقت لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی تھی۔ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دورحکومت میں پنجاب کے وزیراعلیٰ نے‘ اپنے برادربزرگ کی تقلید کرتے ہوئے‘ صوبائی وزیراعلیٰ کی حیثیت میں صدرمملکت کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کر دیئے۔ وہ اپنی نگرانی میں پارٹی کے جلوس نکلواتے۔ واپڈا کے دفاترکے سامنے نعرے لگواتے اور اپنا سرکاری دفتر مینار پاکستان کی گرائونڈ میں ٹینٹوں کے نیچے لگا کر بیٹھ جاتے۔ یہ لوڈشیڈنگ کے خلاف ان کا احتجاج تھا۔ آج لوڈشیڈنگ‘ زرداری صاحب کے زمانے سے زیادہ ہے۔ شہبازشریف آج بھی پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں۔ آج انہیں عوام کی تکالیف بھی شاید اچھی لگتی ہیں۔ عوام سے ہمدردی ہوتی‘ تو آج بھی جلوس نکلواتے اور مینارپاکستان کی گرائونڈ میں‘ ٹینٹ کے نیچے دستی پنکھے کی ہوا لیتے ہوئے‘ دفتری امور انجام دیتے۔ 
مجھے ڈر ہے کہ اگر احتجاجی تحریک آگے بڑھی اور عمران خان نے اپنے اعلان کے مطابق مزید احتجاجی مظاہرے شروع کر دیئے‘ توحکومت کے حامی کیا کریں گے؟ اپوزیشن کی نقل میں ان کے جلوسوں کو دیکھ کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ جب عمران پہیہ جام ہڑتال کریں گے‘ تو جواب میں حکومت‘ پی آئی اے اور ریلوے کا پہیہ جام کر دے گی۔ ریلوے کے وزیرخواجہ سعد رفیق زمانہ طالب علمی میں‘ زبردست ایجیٹیٹر ہوا کرتے تھے۔ عین ممکن ہے‘ وہ خود اپنے وزیراعلیٰ کی طرح احتجاجی جلوسوں کی قیادت کریں‘ ریل کے انجنوں اور ڈبوں پر پتھر ماریں اور نوازشریف کے خلاف نعرے لگائیں۔ عمران خان ہڑتال کرائیں‘ تو مقابلے میں حکومت بھی سرکاری دفاتر میں ہڑتالیں کر دے۔ عمران کے ساتھی بھوک ہڑتال کریں‘ تو حکومتی وزرا بھی بھوک ہڑتال پر بیٹھ جائیں۔ حکمران پارٹی کی تو شاید مجبوری ہے کہ وہ اپنی حکومت کے دفاع کے لئے جو بھی ممکن ہو کر دکھائے، لیکن محمود اچکزئی کو کیا ہوا؟ ان کی تو اپنی پارٹی ہے۔ بھائی کی گورنری سمیت‘ ان کے جو بیس تیس رشتہ دار سرکار عہدوں پر فائز ہیں‘ ان کے خلاف تو کوئی جلوس نہیں نکل رہا، لیکن وہ بھی عمران خان کے خلاف میدان میں اترنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دفاع جمہوریت کے لئے ملک گیر مظاہرے کریں گے۔ اپوزیشن ‘ میاں صاحب کی حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہی ہے۔ میاں صاحب کی اپنی پارٹی احتجاجی مظاہرے کر رہی ہے۔ اب اتحادی بھی احتجاجی مظاہروں کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ میاں صاحب حکومت کہاں کریں گے؟ کس پر کریں گے؟ اور کس کے لئے کریں گے؟ وزیراعظم ہائوس میں بیٹھ کر کھانا بھی مانگیں گے‘ تو پتہ چلے گا کہ کچن کا سٹاف بھی ہڑتال پر ہے۔ ایسے حالات میں ایک دن وزیراعظم خود بھی احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوکر نعرے لگا رہے ہوں گے''لوڈشیڈنگ ختم کرو۔ لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی۔ ہائے آٹا! ہائے آٹا!۔ چور ڈاکو ہائے ہائے۔وزیروں کو رہا کرو۔‘‘ حکمران جماعت نے اگر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا‘ تو آخر کاریہی کچھ ہو گا۔ تو پھر حکومت کون چلائے گا؟ فکرمندی کی ضرورت نہیں۔ ہماری چار سیاسی حکومتوں نے اپنے ساتھ یہی کچھ کیا ہے‘ جو موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ انہوں نے بھی اسی طرح‘ اپنے دور اقتدار میں خود ہی جلوس نکالے۔ غم و غصے سے بھرے عوام نے ان جلوسوں پر انڈے پھینکے۔ بات آگے بڑھی۔ حکومت کے حامیوں اور مخالفوں میں لڑائیاں ہوئیں۔ سرکاری اور نجی املاک کو آگ لگنے لگی۔ نظم و نسق درہم برہم ہو گیا اور آخرکار فوج نے مداخلت کر کے‘ امن اور معمول کی زندگی بحال کی۔ اس مرتبہ فوج انتہائی احتیاط بلکہ صبر سے کام لے رہی ہے۔ سیاستدان 6سالوں سے حکومت چلاتے آ رہے ہیں۔ بارہا انہوں نے فوجی مداخلت کے حالات پیدا کئے۔ صوبائی حکومت‘ وفاقی حکومت سے لڑی۔ صوبائی حکومتوں نے وفاقی حکومتوں کے خلاف مظاہرے کئے۔ سرکاری دفتر جلائے۔ پروٹوکول کی دھجیاں اڑائیں۔ وزیراعلیٰ نے صوبائی دارالحکومت میں آنے والے وزیراعظم کو رسیو کرنے سے انکار کر دیا۔اپوزیشن لیڈر ‘ صدرمملکت کے خلاف مقدمے میں سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے ایک دوسرے کے پارٹی ورکروں کے خلاف کارروائیاں کیں۔ دونوں فریقوں نے حیلے بہانوں سے فوج کو مداخلت کے جواز فراہم کئے، لیکن اس نے ہر ترغیب کی مزاحمت کر کے‘ سیاستدانوں کو بار بار مایوس کیا۔ لگتا ہے کہ اب کی بار‘ دونوں فریق ایئرکنڈیشنڈ بسیں لے کر چھائونیوں میں پہنچ جائیں گے اور دردمندانہ شکایت کریں گے کہ اس بار آپ لوگ کیوں بے اعتنائی کر رہے ہیں؟ ہمیں حکومت کرتے 6سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ 1958ئـ کے بعد‘ آپ نے ہر سیاسی حکومت کو ساڑھے پانچ ‘چھ سال کے عرصے میں ہی فارغ کر کے‘ ان کی دعائیں لیں۔ 90ء کا پورا عشرہ ‘پس پردہ رہ کر سیاسی حکومتوں کی سرپرستی کی۔ ہم سے کیا قصور ہو گیا ہے؟ نہ تو ہماری سرپرستی کی جا رہی ہے اور نہ ہمیں اقتدار سے چھٹکارا دلایا جا رہاہے۔ آپ ہماری مدد کو کب آئیں گے؟ جب ہم ایک دوسرے کو مارمار کے لہولہان کر دیں گے؟ فیکٹریوں میں آگ لگا دیں گے؟دکانیں اور مارکیٹیں جلا دیں گے؟ کھیتوںکو ویران کر دیں گے؟ اگر آپ نے ہمیں اسی طرح بے سہارا چھوڑے رکھا‘ تو پھر آپ کے پاس بھی کوئی کام نہیں رہ جائے گا۔ جس چیز کے دفاع پر آپ مامور ہیں‘ ہم کسی دشمن کی آمد سے پہلے‘ خود ہی اسے تباہ و برباد کر دیں گے۔ خدارا جلدی سے‘ ہمیں حکمرانی کی مشقت سے فارغ کر دیں۔ ورنہ ہم آپ کو فارغ کر دیں گے۔ 
اب کی بار تو اینکرز اور صحافی بھی کمالات دکھا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ایک سابق عہدیدار نے‘ انتخابات میں اندھا دھند دھاندلیوں کا گوشوارہ عوام کے سامنے پیش کر دیا‘ تو میڈیا کی مخصوص پلٹن‘ عجیب و غریب دلائل کے ساتھ میدان میں آ گئی۔ دھاندلی کے راز افشاء کرنے والے سابق اہلکار پر الزام لگائے گئے کہ اس نے بزدلی سے کام لیا۔ سچ وہ ہوتا ہے‘ جو وقت پر بولا جائے۔ خداجانے سچ بولنے کا وقت کونسا ہوتا ہے؟ گھڑی پر کیسے نظر آتا ہے؟ عام طور سے یہی کہا جاتا ہے کہ جابر سلطان کے سامنے سچ کہنا جہادہے۔ انتخابی دھاندلیوں کے نتیجے میں قائم شدہ حکومت‘ ابھی برسراقتدار ہے۔ سلطان پورے جاہ و جلال کے ساتھ تخت پر براجمان ہے۔ الیکشن کمیشن کا سابق اہلکار جان ہتھیلی پر رکھ کر ایسے حقائق لے کر سامنے آ گیا ہے‘ جن کا سامنا کرنا‘ بادشاہ سلامت کے لئے مشکل ہو گا۔ ہمارے اینکرز اور صحافیوں میں سے کون ایسا ہے؟ جس نے حکمرانوں کے عین دور عروج میں ان کی سیاہ سچائیاں سامنے لا کر بادشاہ کو ننگا کیا ہو؟ افضل خان‘ پاکستان کی تاریخ کا واحد سرکاری ملازم ہے‘ جس نے خوفناک جرائم کی حقیقت ‘عین اس وقت بیان کی‘ جس سے فائدہ اٹھانے والے پورے جاہ و جلال کے ساتھ حکومت کر رہے ہیں؟جس نے بھی اس طرح کے سچ بتائے‘ وہ حکمرانوں کے رخصت ہونے کے بعد سامنے لائے گئے تھے۔ ہلکی ہلکی چٹکیاں تو لی جاتی رہیں، مگر تخت کو الٹا دینے والا سچ‘ عین اس وقت کسی نے نہیں بولا‘ جب بادشاہ پوری طاقت کے ساتھ‘ اس پر براجمان تھا۔یہ اس بات کی نشانی ہے کہ نیا پاکستان پیدا ہو گیاہے ۔ دوسری نشانی آفتاب چیمہ کا فرزند تیمور چیمہ ہے‘ جس نے آئی جی کے منصب پر فائز‘ اپنے والدکو مجبور کیا کہ وہ غیرقانونی احکامات ماننے سے انکار کر دیں اور آفتاب چیمہ نے نئی نسل کی آواز پر لبیک کہا۔ ایک ریٹائرڈ سرکاری اہلکار اور برسرمنصب اعلیٰ سرکاری افسر کے بیٹے نے ‘سچ کی آواز بلند کر کے‘ اعلان کر دیا ہے کہ نیا پاکستان پیداہو گیا۔کون جانے؟ پاکستان کی بیٹی مریم اور پاکستان کا بیٹا بلاول‘ سچائی کا پرچم کب اٹھاتے ہیں؟حیرت ہے کراچی کی ان خواتین پر‘ جنہوں نے عمران کی شادی کی بات سن کر‘ابھی سے ہاتھوں کو مہندی لگانا شروع کر دی ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری کے پیروکاروں میں اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ خواتین و حضرات بھی شامل ہیں۔ یہ ان لوگوں میں ہیں‘ جو علم تو حاصل کر لیتے ہیں۔ علم کی روشنی کے منتظر ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں