اندھیروں میں تنوع نہیں ہوتا۔ رنگینیاں نہیں ہوتیں۔ لہریں نہیں ہوتیں۔ تمام جانداروں کی نگاہوں کو بیکار کر دیتا ہے۔ سارے تنوع ‘ ساری رنگینیاں اور حسن کے سارے مظاہر‘ روشنی میں ہوتے ہیں۔ اسی لئے اندھیروں کو موت اور مایوسی سے تشبیہہ دی جاتی ہے اور روشنی کو امیدوں‘ آرزوئوںاور خوشیوں سے۔ اندھیرا ترتیب اور بے ترتیبی میں‘ فرق کی صلاحیت ختم کر دیتا ہے۔ جبکہ روشنی آپ کو ترتیب‘ توازن اور بدصورتی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت دیتی ہے اور آپ زندگی اور دنیا کو سنوارنے‘ نکھارنے اور حسین بنانے کا شوق‘ حسب ذوق پورا کر سکتے ہیں۔انہی لوگوں کو راستے نظر آتے ہیں۔ رنگ نظر آتے ہیں۔ قوس قزح دکھائی دیتی ہے۔ یہ حسن کی نیرنگیاں بھی دیکھتے ہیں اور حسن کے پیکر بھی تراش لیتے ہیں۔یہی لوگ ہیں‘ جو زندگی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جو سورہ رحمن میں بیان کی ہوئی‘ اللہ کی نعمتوں کو جھٹلانے کی بجائے‘ ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جو اسلام آباد کی ریڈ زون میں‘ ڈیرے ڈالے پڑے ہیں‘ انہی میں سے ہیں۔ چاروں طرف پھیلے بے ضمیری کے اندھیروں میں‘ بے بسی اور لاچاری کی زندگی گزارنے کی بجائے‘ یہ زندگی میں تبدیلی‘ تنوع اور حسن تلاش کرتے ہیں۔ اندھیروں کے خدائوں کے پجاری‘ اس زندگی کی لطافتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ ہمارا پاکستان جو بدعنوانی اور کرپشن میں ڈوبتا ڈوبتا‘ اپنے بڑے حصے کو بے ضمیری کے اندھیروں کی نذر کر چکا ہے۔ اس میں کہیں کہیں روشنی کی لو سر اٹھاتی ہے۔ اندھیروں کی دبیز چادر کے نیچے‘ کہیں کہیں چراغ کی لوروشنی کا سندیسہ دے کر‘ امیدوں اور حوصلوں کو جلا بخشتی ہے۔ جب اس طرح کے کئی چراغ اور ان کی کئی لوئیں‘ اندھیروں کے پھیلے سمندر میں‘ جابجا سر اٹھاتی ہیں‘تو روشنی کو راستے ملنے لگتے ہیں اور وہ کرن در کرن ہر طرف پھیلتے ہوئے اندھیروں پر غالب آ جاتی ہے۔
ابھی ہمیں چند چراغوں کی لوئیں دکھائی دی ہیں۔ اندھیروں کے خدائوں کے پجاری‘ انہیں دیکھ کر خوف سے تھرتھر کانپ رہے ہیں کہ
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی
وہ روشنی کے ڈر سے ‘ ان چراغوں کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب چراغوں کے روشن ہونے کا موسم آتا ہے‘ تو جوت سے جوت یوں ملنے لگتی ہے‘ جیسے سروں میں سر مل کر‘ گیت کو جنم دیتے ہیں۔ ہم ایک مدت سے وطن عزیز کو لہردرلہر ‘امڈتے ہوئے اندھیروں میں ڈوبتے دیکھ رہے تھے۔ ہماری اقدار‘ ہماری سوجھ بوجھ‘ ہماری انسانیت‘ ہمارا حسن نظر‘ ہماراذوق سلیم‘ ہماری اخلاقیات‘ ہماری عزت نفس‘ ہر چیزاندھیروں کی نذر ہو رہی تھی۔ مایوسیوں نے ہم سے حوصلے چھین لئے تھے۔ یوں لگتا تھا‘ قدرت نے ہم سے ہمارے حصے کی روشنی‘ واپس لینے کی ٹھان لی ہے۔ لیکن خدا اپنی دنیا کو ہمیشہ اندھیروں میں ڈبو کر نہیں رکھتا۔ جب اندھیرے بڑھ جائیں‘ تو ان میں کہیں کہیں چراغوں کی چھوٹی چھوٹی لوئیں اگنے لگتی ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ خدا نے ہمیں فراموش نہیں کیا۔ ہم اس کی نگاہ کرم کے‘ کسی نہ کسی گوشے میں آج بھی موجود ہیں۔ انفرادی سطح پر جابجا‘ ایسے خوبصورت تجربے ہمیں نصیب ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن قومی سطح پر ایسا کم کم ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ ہر طرف سے ہمیں مایوسیوں نے گھیرے میں لے لیا‘ چند چراغوں کی لوئیں لہرائیں۔ روشنی کے پیاسوں کے چہروں پر رونق آ گئی اور اندھیروں کے خدائوں کے پجاری‘ روشنی کی شعاعوںپر وحشیانہ یلغاریں کرتے نظر آنے لگے ہیں۔
ہمیں اندھیرے کے جس دریا میں ڈبویا گیا تھا‘ یوں لگتا ہے کہ ہم اس کے دوسرے کنارے کے قریب آ گئے ہیں۔ جس طرح ہر قوم کی زندگی میں تاریکی کا ایک دور آتا ہے۔ اسی طرح ہم پر بھی آیا۔ یہ دور آخر کار ختم ہونا ہے۔ ہم پر چھائی ہوئی تاریکی کا دور بھی ختم ہونے جا رہا ہے۔ آیئے! روشنی کی ان شعاعوں کو دیکھیں۔ جنہیں بجھانے کے لئے‘ اندھیروں کے خدائوں کے پجاری ‘ صف بند ہو کر جھپٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان نے جب 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف آواز اٹھائی‘ تو یہ اکیلی اور تنہا آواز تھی۔عمران خان کہہ رہے تھے کہ صرف 4انتخابی حلقوں کے نتائج کی چھان بین کرنے دو‘ ان سے پتہ چل جائے گا کہ دھاندلی کتنی ہوئی ہے؟ عمران کا دعویٰ تھا کہ دھاندلی نصف سے زیادہ حلقوں میں ہوئی ہے اور اگر یہ بات درست نکلتی‘ تو ان انتخابات کے نتیجے میں‘ جنم لینے والی اسمبلیاں‘ غیرنمائندہ ثابت ہوتیں اور اس کے اراکین کی بنائی ہوئی حکومتیں بھی اپنے جوازسے محروم ہو جاتیں۔عمران کا یہ مطالبہ نہیں مانا گیا۔ لیکن اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ اس نے انصاف کے تمام دروازوں پر دستک دی۔ ناکام ہونے کے بعد وہ سڑکوں پر نکل آیا اور لوگ ساتھ آنے لگے اور کارواں بننے لگا۔ جب اکیلی آواز کی تنہائی دور ہونے لگی‘ تو اندھیروں کے خدائوں کے پجاری‘ بڑھتے ہوئے خطرات کا اندازہ کر کے ہاتھ پائوں مارنے لگے۔ انہوں نے اپنے اپنے اختلافات بھلا دیئے۔ ناجائز ہونے کے خوف نے انہیں یکجا کر دیا اور انہوں نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی ڈھالیں اٹھا کر‘ روشنی کی شعاعوںکو روکنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ وہ یہ بھول گئے کہ پارلیمنٹ اور جمہوریت ‘ شفاف انتخابات کے نتیجے میں جنم لیتے ہیں۔ دھاندلی کے تعفن سے پیدا ہونے والے ادارے کو‘ نہ تو پارلیمنٹ کہا جا سکتا ہے ۔ نہ ہی اس کے طرز کارکردگی کو جمہوریت قرار دیا جا سکتا ہے۔ جب جمہوریت کی بنیاد ہی موجود نہیں‘ تو جمہوریت کیسی؟ جس کے اراکین ہی جعلی نتائج کی پیداوار ہوں‘ وہ پارلیمنٹ کیسی؟ جمہوری نظام اور اداروں کو تواندھیروں کے خدائوں کے پجاریوں نے اپنے منحوس پنجوںمیں جکڑ رکھا ہے۔ جب تک جعلی پارلیمنٹ اور جعلی جمہوریت کا صفایا نہیں ہوگا‘ حقیقی پارلیمنٹ اور حقیقی جمہوریت وجود میں نہیں آ سکتی۔ قوم اندھیروں میں غرق رہنے کی سزا پوری کر کے‘ آزادی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ چراغ ایک ایک کر کے‘ روشن ہونے لگے ہیں۔ بے حسی میںڈوبے خیالات‘ ضمیر کی انگلیوں کا لمس محسوس کرنے لگے ہیں۔ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی نگاہیں‘ روشنی کے رخساروں کے بوسے لینے لگی ہیں۔سچائی کی طاقت انگڑائیاں لیتی ہوئی‘ بیداریوں سے ہمکنار ہونے لگی ہے۔بچھڑے موسموں کے ساتھی‘ ایک ایک کر کے قریب آنے لگے ہیں۔ حسین موسموں کے آشنا چہرے‘ دکھائی دینے لگے ہیں۔ آیئے! اندھیروں کے ہاتھ جھٹک کر‘ سچائی کا راستہ اختیار کرنے والوں سے ملیں۔ یہ ڈاکٹر طاہر القادری ہیں‘ جو اپنی گرجدار آواز اور باوفا فدائیوں کے ساتھ‘ گندے نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا عزم لے کر‘ میدان میں اترے۔ یہ عمران خان ہیں‘ جو کرپشن کے متعفن ماحول میں تیار کئے گئے‘ انتخابی نتائج پر کھڑے جعلی اداروں اور نظام کا ملبہ صاف کرنا چاہتے ہیں۔ اندھیرے کے پجاری اکٹھے ہو کر‘ انہیں راستے سے ہٹانے کے جتن کر رہے ہیں۔ لیکن روشنی چراغ در چراغ ‘ راستوں کو ہموار کر رہی ہے۔ چراغ ایک ایک کر کے روشن ہو رہے ہیں۔ یہ اندھیروں کے خدائوں سے بغاوت کرنے والے آفتاب چیمہ ہیں۔ ان سے ایک قدم پیچھے خالد خٹک ہیں۔ صداقت کی شمعیں کبھی کبھی انصاف کے بلند ایوانوں میں روشن ہوا کرتی تھیں۔اب یہ سارے ایوانوں میں روشن ہونے لگی ہیں۔روشنی کا پہلا جھونکا‘ ایڈیشنل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ جج راجہ اجمل خان کی عدالت سے نکلا۔ چند ہی روز بعد دوسرا جھونکا جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سے اٹھا‘ یہ رپورٹ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے لکھی ہے اور لاہور ہائی کورٹ کے جج مسٹر جسٹس محمود مقبول باجوہ نے‘ تو پورا فانوس ہی روشن کر دیا۔ ایک چھوٹی سی موم بتی گلبرگ لاہور کی پولیس کے ڈرائیور‘ رمضان نے جلائی۔ اس کے ساتھیوں نے روایتی حربے استعمال کر کے ثابت کرنا چاہا کہ اس نے یہ کام نشے کی حالت میں کیا ہے۔ اسے ہسپتال میں نشے کا سرٹیفکیٹ دلانے کے لئے بھیجا گیا‘ تو ڈاکٹر کے ہاتھ میں اپنی شمع تھی۔ اس نے جھوٹا سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا۔ لہر چل نکلی ہے۔ اب یہ ہر طرف پھیلے گی۔ روشنی کی لہریں اندھیروں پر غالب آنے لگیں گی۔ امیدوں کے موسم میں‘ ہم اپنے نئے پاکستان سے ہم آغوش ہوں گے۔ کرپشن سے پاک۔ ہاتھوں میں برکت اور آنکھوں میں نور لئے ‘خزاں زدہ اہل وطن!امیدوں کے پہلے پہلے دنوں کی مہک مبارک۔