ان دنوں روز ٹی ٹوئنٹی کا میچ ہو رہا ہے۔ پہلے 20 اوور پارلیمنٹ میں کھیلے جاتے ہیں۔ آخری 20 اوور میں‘ دس دس اوور عمران اور ڈاکٹر قادری باری باری کھیلتے ہیں۔ میڈیا کے ناظرین بڑی مشکل میں ہیں۔ آدھا دن ایک ٹیم کا کھیل دیکھتے ہیں اور شام سے رات گئے تک کا وقت کنٹینر گروپ لے جاتا ہے۔ پنڈی اسلام آباد کے نوجوان کو سینمائوںکے ساتھ سٹیج کے نائٹ شو بھی دستیاب ہیں۔ جس کی مرضی ہو‘ وہ ''مولانا‘‘ کی پرفارمنس دیکھ لیتا ہے اور جس کا دل چاہے ''مسٹر‘‘ کی جوش و جذبے سے بھری تقریریں سن لیتا ہے۔ لیکن دوسرے شہروں کے ناظرین خصوصاً بچے اور نوجوان بڑی مشکل میں ہیں۔ دن کو ٹی وی دیکھنا چاہیں تو پارلیمنٹ میں لمبی لمبی تقریریں لگی ہوتی ہیں اور رات کو ٹی وی دیکھنے بیٹھیں تو ''مسٹر‘‘ اور ''مولانا‘‘ تقریر فرماتے دکھائی دیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے‘ ٹی وی چینل ریٹنگ بڑھانے کی دوڑ میں لگے ہیں۔ کئی ایک تو کمرشل بھی نہیں چلاتے کہ بیچ بیچ میں کوئی اچھا چہرہ ہی نظر آ جائے‘ میٹھی آواز ہی سنائی دے جائے۔ اسلام آباد کے شہری زیادہ پریشان ہیں۔ انہیں یوں لگتا ہے کہ دھرنے ان کے خلاف دیئے گئے ہیں۔ بچے ان کے سکول نہیں جا رہے۔ 80 فیصد سرکاری ملازمین دفتروں میں پہنچنے سے قاصر ہیں۔ جب پولیس اور مظاہرین میں سنگ زنی‘ اشک آور گیس اور گولیوں کا مقابلہ ہوتا ہے‘ وہ وقت اسلام آبادیوں پر بہت بھاری پڑتا ہے۔ شہریوں کی طرف سے نکلنے کی کوشش کریں تو دکھ اور خواہش کے بغیر‘ آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگتے ہیں اور پولیس والی سمت سے نکلیں‘ تو پتھروں کی بارش میں پھنس جاتے ہیں۔ اسلام آباد میں اشیائے ضرورت کے نرخوں نے‘ شہریوں کی قوت خرید پر حملہ کر رکھا ہے۔ جو دکان‘ جہاں پر واقع ہے‘ اس پر وہیں کے ریٹ لگتے ہیں۔ جہاں آنسو گیس کے اثرات کم ہوں‘ وہاں چیزیں مہنگی ملتی ہیں۔ جہاں اثرات زیادہ ہو جائیں‘ وہاں سستی ہو جاتی ہیں اور دکانوں کی تیسری قسم‘ جہاں آنسو گیس کا زور ہوتا ہے‘ وہ اکثر بند رہتی ہیں۔
اس مقابلہ آرائی میں کم و بیش سب کا نقصان ہوا۔ دکاندار کا اس لئے کہ انہیں جان کا خطرہ مول لے کر سودا خریدنے کے لئے آنا جانا پڑتا ہے۔ آنسو گیس میں پھنس گئے‘ تو بعد میں دکانداری کی سکت نہیں رہتی اور سنگ زنی کی بوچھاڑ میں جا گھسے تو دکان اور خریدا ہوا سودا‘ دونوں کو چھوڑ کے ہسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ سیدھا ڈاکٹر کے پاس چلے گئے تو مرہم پٹی ہو جاتی ہے۔ پولیس کے ہاتھ لگ گئے تو وہ ''نامعلوم‘‘ مقام کی طرف لے جا کر پتہ نہیں کیا کرتی ہے؟ شہریوں کو نامعلوم مقام پر لے جانے کی لت تو بہت پرانی ہے۔ فرق صرف یہ پڑا ہے کہ پہلے پولیس صحت مندوں کو غائب کرتی تھی۔ اب زخمیوں کو اٹھاتی ہے۔ سراغ لگانا چاہیے کہ پولیس ان زخمیوں کا کرتی کیا ہے؟ کہیں ان کے گردے تو نہیں بیچتی؟ پولیس کی بے رحمی تو مشہور ہے‘ لیکن وہ اس قدر بھی سنگدل ہو گی‘ اس پر یقین نہیں آتا۔
پاکستان میں اس طویل ہنگامہ آرائی کے پیچھے کیا ہے؟ ہمارے وزیر اعظم کو بھی پتہ نہیں۔ وہ بھی اراکین پارلیمنٹ سے پوچھتے پائے گئے کہ اس تحریک کے پیچھے کیا ہے؟ پیچھے کیا ہوتا ہے؟ یہ سوال پوچھنا بے کار ہوتا ہے۔ کوئی بتاتا ہے نہ دکھاتا ہے کہ پیچھے کیا ہے؟ ایک بھارتی گائیکہ تو کئی برسوں سے کسی نہ کسی ریڈیو کے نشریئے یا ٹی وی پر گا گا کر پوچھتی ہے کہ ''چولی کے پیچھے کیا ہے؟‘‘ بے چاری کو آج تک پتہ نہیں چلا۔ پتہ چل جاتا تو آرام سے گھر بیٹھتی۔ روز روز کیوں پوچھتی کہ ''چولی کے پیچھے کیا ہے؟‘‘ پاکستان کی بیشتر حکومتیں یہی سوال پوچھتی پوچھتی گھر چلی جاتی ہیں کہ پیچھے کیا ہے؟ فوجی آمروں کے خلاف تحریک چلتی ہے تو وہ پوچھتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا ہے؟ دھاندلی سے منتخب حکومتوں کے خلاف مظاہرے ہوں تو وہ بھی یہی پوچھتی پائی جاتی ہیں کہ پیچھے کیا ہے؟ گھر جانے کے بعد سمجھ میں آ بھی جائے‘ تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس طرح کے راز ہر دور کے سر پھرے‘ آسانی سے جان لیتے ہیں کہ پردے کے پیچھے کیا ہے؟ جب سوویت یونین نے نقشے میں پشاور پر سرخ نشان لگایا تھا تو سب کو معلوم تھا کہ پیچھے کیا ہے؟ لیکن پاکستان اور امریکہ دونوں کی حکومتیں دیر تک وجہ بتانے سے انکار کرتی رہیں۔ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی بات کرتے ہوئے‘ جب ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ پیچھے کیا ہے؟ پیچھے والا صاف مکر جاتا ہے۔ جیسے افغانستان کے معاملے میں ہم مکرتے رہے۔ وہاں کی اکثر حکومتوں نے شور مچایا کہ وہاں دہشت گردی کرنے والوں کے پیچھے کون ہے؟ لیکن ہم نے کبھی مان کر نہیں دیا کہ پیچھے کون ہے؟ امریکہ واحد سپر پاور ہے‘ جو ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کر دیتی ہے کہ پیچھے کون ہے؟ آپ امریکی حکومت کی طرف سے جاری کردہ بیانات پڑھ چکے ہوں گے۔ اس نے متعدد بیانات میں ان عناصر کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں چلنے والی احتجاجی تحریک کے پیچھے جو کچھ دیکھا‘ اس کی طرف نہ صرف اشارے کئے کہ پیچھے کون ہے بلکہ دھمکیاں بھی دیںکہ وہ پاکستان پر
پابندیاں تک لگا سکتا ہے۔ یہ بات اب راز نہیں کہ پیچھے کیا ہے؟ بھارت والے‘ بلوچستان میں ہونے والے واقعات کی بات سن کر کبھی نہیں مانتے کہ پیچھے کیا ہے؟ لیکن پاکستان میں تنازعہ کشمیر کے حوالے سے تعلقات کو نارمل کرنے کے عمل میں رکاوٹوں پر فوراً کہہ دیتے ہیں کہ پیچھے کیا ہے؟ امریکہ کی نئی پالیسی اب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وہ شرق اوسط میں اپنی سرگرمیاں کم کر کے‘ جنوبی ایشیا کی طرف توجہ دے رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس پالیسی کے پیچھے کیا ہے؟ منہ سے کوئی کچھ نہیں کہتا۔ امریکہ نے بہت عرصہ پہلے اس خطے کے بارے میں اپنی پالیسی کا اعلان کر دیا تھا۔ اسے نکسن ڈاکٹرین کہتے ہیں۔ یہ ڈاکٹرین 1970ء میں آئی تھی۔ اس میں امریکی صدر نکسن نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ مستقبل میں بھارت کو ایک علاقائی طاقت کی حیثیت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ مشرقی پاکستان کی شکست کے بعد‘ جب بھٹو صاحب نے باقی ماندہ پاکستان کی حکومت سنبھالی‘ شکست کی تباہ کاریوں کے اثرات سے ملک باہر نکل آیا‘ تو بھٹو صاحب نے قومی خودمختاری پر مبنی پالیسی اختیار کر لی۔ بھٹو صاحب نے ایٹمی پروگرام شروع کر کے‘ پاکستان کو دفاعی اعتبار سے اتنا مضبوط بنانے کی کوشش کا آغاز کر دیا کہ ہمارا دفاع ناقابل تسخیر ہو جائے اور وہ بھارت کی بالادستی کی پالیسی کو ناکام بنا دیں۔ جبکہ امریکہ ایسا نہیں چاہتا تھا۔ یہاں تک کہ امریکی وزیر خارجہ نے انہیں براہ راست یہ دھمکی دے دی تھی کہ ''اگر آپ نے ایٹمی پروگرام ختم نہ کیا‘ تو عبرتناک انجام کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘بھٹو صاحب نے ایٹمی پروگرام جاری رکھا۔ امریکہ نے اپنی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے‘ بھٹو صاحب کو عبرتناک انجام سے دوچار کر دیا اور اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل ضیاالحق نے‘ پاکستان کو عبرتناک انجام سے دوچار کر دیا۔ اس وقت ساری قوم جانتی تھی کہ ان واقعات کے پیچھے کیا ہے؟ قومی خودمختاری کی پاکستانی پالیسی کا دشمن کون ہے؟ 2012ء تک ہمارے حکمران برضا و رغبت ''عبرتناک انجام‘‘ کی امریکی دھمکی کے زیراثر رہے۔ جنرل کیانی نے چیف آف سٹاف مقرر ہونے کے بعد امریکی دبائو کی مزاحمت شروع کر دی۔ اس زمانے میں جنرل کیانی اور امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مائیک مولن کے مابین جب بدمزگی پیدا ہوئی‘ تو میڈیا میں اس کے کافی چرچے ہوئے تھے۔ ابھی تک ایسی کوئی علامت سامنے نہیں آئی‘ جس سے ظاہر ہو کہ باہمی اعتماد کا سابقہ رشتہ بحال ہو چکا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ امریکہ‘ پاکستان کے بڑے سٹیک ہولڈرز کے مابین کشمکش سے‘ پوری طرح واقف ہے۔ اس کے حالیہ پالیسی بیانات کو دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ پیچھے کون ہے؟ ضیاالحق کی جگہ کون کھڑا ہے اور بھٹو صاحب کی جگہ پر کون؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ پوزیشنیں بدل گئی ہیں؟