شاعروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب تک دل پر ٹھیس نہ لگے‘ شاعر کے کلام میں سوز و گداز نہیں آتا۔ سیاستدان‘ ان سے مختلف نہیں۔ سیاستدان میں بھی اسی وقت جوش و جذبہ پیدا ہوتا ہے‘ جب اس کے دل پر ٹھیس لگی ہو۔ 5ستمبر کو خورشید شاہ اور چوہدری اعتزاز احسن کی جذبات سے لبریز اور ڈرامائیت سے بھرپور‘ تقریریں سن کر یوں لگا کہ ان کے دلوں کو بھی کہیں نہ کہیں سے ٹھیس ضرور پہنچی ہے۔ شاہ جی پر تو شک کیا جا سکتا ہے کہ انہیں سندھ میں‘ کہیں ٹھیس لگی ہے۔ سیاست میں یا معاملات دل میں؟ سیاست کی چوٹ کا اندازہ کریں‘ تو نظر وزارت اعلیٰ کی کرسی پر جاتی ہے۔ اگر یہ اندازہ درست ہے‘ توبات غلط نہیں۔ آپ سندھ میں وزارت اعلیٰ کی کرسی پر‘ ایک نظر ڈال کر دیکھیں۔ صاف دکھائی دے گا کہ کرسی اگر 50سال کی ہے‘ تو اس پر بیٹھنے والا 100 سال کا۔ یہ بڑھاپے میں بیاہ رچانے والی بات ہو گئی۔ جیسے کوئی 90 سال کا بوڑھا‘ 25سال کی جوان خاتون سے شادی رچا کر بیٹھ جائے‘ تو یہ بالکل ایسے ہو گا جیسے قائم علی شاہ ‘وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ خورشید شاہ کی سیاسی زندگی کو دیکھیں تو پارٹی اور صوبے میں‘ انہوں نے جو خدمات انجام دی ہیں‘ وہ ہر لحاظ سے انہیں‘اس کرسی کا حقدار بناتی ہیں‘ جس پر شاہ جی ستم فرما رہے ہیں۔ شاہ جی سے غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے۔ میرے دونوں ممدوح شاہ جی ہیں۔ قائم علی شاہ بھی۔ خورشید شاہ بھی۔ لیکن دونوں میں فرق بہت بڑا ہے۔ کھجور تازہ تازہ پکی ہو‘ تو میٹھی اور مہک دار ہوتی ہے۔ پرانی ہو جائے‘ تو چھوہارہ بن جاتی ہے۔یہی حال سید کا ہے۔جب تک بدن میں پھرتی اور تازگی رہتی ہے‘ وہ ''بانکے شاہ‘‘ کہلاتا ہے اور جب 90 سال‘ کھا کے ڈکار نہ مارے‘ تو وہ صرف پیری مریدی کے کام کا رہ جاتا ہے۔ کوئی بدِ میں ڈال دے‘ تو اس کی مرضی۔ لیکن اسے زیر کے ساتھ پڑھنا مقوی رہتا ہے۔زبرلگا دی جائے‘ تو بد ہو جاتا ہے۔کسی ضعیف کو بد کہنا گستاخی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کہلوانے والے کے دل میں‘ اندر ہی اندر گدگدی ہونے لگے۔
میں بھی خورشید شاہ کی بات چھیڑ کے کہاں سے کہاں چلا گیا؟ شاہ جی نے بھی جمعے کے دن یہی کیا۔ جس جوش و جذبے اور غم و غصے کے ساتھ‘ انہوں نے اپنی تقریرمیں چوہدری نثار کو نشانہ بنایا‘ اس سے یوں لگا جیسے چوہدری صاحب نے ‘ابھی ابھی شاہ جی کے دل پر ٹھیس لگائی ہو۔وہ کہہ رہے تھے ''سینئر وزیر نے ہمیں آگ اور پانی کے دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ وزیرداخلہ‘ وزیراعظم اور حکومت کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ ڈوری ہلانے والوں کے اشارے پر ناچ رہے ہیں۔ ٹیپوسلطان کو بھی میر صادق جیسے غدار نے‘ انگریزوں کے ہاتھوں مروایا تھا۔(شاہ جی‘ وزیراعظم کو ٹیپوسلطان بنا گئے)وزیراعظم اس وزیر کو کابینہ سے نکال دیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی مخلوق پیدا کر دی ہے(اشارہ چوہدری نثار کی طرف)‘ جو آستین کے سانپ کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس نے آپ (وزیراعظم) کے محسنوں کی پشت میں چھرا گھونپا ہے۔ میاں صاحب! آپ کے لشکر میں پورس کے ہاتھی ہیں‘ جو حکومت کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ میاں صاحب! آپ کی پارٹی میں غدار موجود ہیں‘ جو سامنے آ کر نہیں لڑ سکتے۔ آپ کا یہ وزیر‘ ڈوری پر ناچنے والا ہے اور اپنی حکومت کے خلاف سازش کر رہا ہے۔‘‘شاہ جی کی تقریر کے بعد‘ وزیراعظم نے باقاعدہ کھڑے ہو کر تین مرتبہ مختلف الفاظ میں معذرت کی۔ غالباً اسی دوران چوہدری اعتزاز احسن ایوان میں داخل ہوئے۔ عام تاثر یہی تھا کہ خورشید شاہ کی‘ تھر کی سرخ مرچ جیسی ‘ بچھو کی طرح زبان پر کاٹنے والی‘ تقریر سن کر ‘ چوہدری نثار پر سب کے غصے ٹھنڈے ہو گئے ہوں گے۔ سب کے دلوں کی بھڑاس نکل گئی ہو گی۔ سب کے سینوں میںٹھنڈ پڑ گئی ہو گی۔ لیکن چوہدری صاحب ‘مولاجٹ بن کر گرجنے کے موڈ میں ہوں گے۔ وہ تکلفات پروقت ضائع کرنے کی بجائے‘ فوراً ہی ہدف پر یوںجھپٹ پڑے کہ''اللہ دے اور بندہ لے۔‘‘ جاٹ چوہدری نے‘ راجپوت چوہدری کو اپنے کارنامے بتا کرجو کچھ کہا‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ ''مولے نوں مولا نہ مارے‘ تے مولا نئیں مر سکدا۔‘‘ دراصل راجپوت چوہدری نے ایک دن پہلے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ‘جاٹ چوہدری پر الزام لگایا کہ ''وہ سیاست میں روپیہ کمانے آئے ہیں۔ انہوں نے گیس کا لائسنس لے رکھا ہے۔‘‘ جاٹ چوہدری نے جواب دیا ''گیس کا بزنس میری اہلیہ کرتی ہیں۔ وہ اتنا ٹیکس دیتی ہیں ‘جتنا آپ (اراکین پارلیمنٹ) میں سے کوئی نہیں دیتا ہو گا۔‘‘ اور پھر انہوں نے فلیش بیک میںچوہدری صاحب کو ہدف بنا کر ایسے ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے کہ ایوان میںسناٹا چھا گیا۔ وہ 12اکتوبر کی اس شام سے شروع ہوئے‘ جب وزیراعظم نوازشریف نے‘ جنرل ضیاالدین بٹ کو آرمی چیف بنا کر‘ ان کے کندھوں پر ستارے لگائے۔ اس وقت ٹرپل ون بریگیڈ کے سربراہ‘ بریگیڈیئر صلاح الدین ستی کو صورتحال کنٹرول میں کرنے کے لئے کہا‘ تو اس نے جواب دیا کہ'' ابھی میرے پاس نوٹیفکیشن نہیں آیا۔ جیسے ہی آئے گا میں آپ کے حکم کو فالو کروں گا۔‘‘ وزیراعظم سے مخاطب ہوتے ہوئے ''جس نے آپ کی حکومت کاکام کر دیا‘ وہ شخص کون تھا؟ کس کا بھائی تھا؟‘‘ جاٹ چوہدری کا اشارہ‘ راجپوت چوہدری کے بھائی‘ ریٹائر جنرل افتخار علی کی طرف تھا‘ جو اس وقت سیکرٹری دفاع تھے۔ ''اگر وزیراعظم کے حکم کے مطابق‘ سیکرٹری
دفاع کے دفتر سے جنرل مشرف کی برطرفی اور جنرل ضیاالدین بٹ کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری ہو جاتا‘ تو جنرل مشرف وزیراعظم کو‘ ایک برطرف شدہ جنرل کی حیثیت سے نکالتے۔ تقرری کے نوٹیفکیشن کے بعد ‘ جنرل ضیاالدین بٹ احکامات جاری کرنے کے مجاز ہو جاتے۔ دوسرے تمام جنرل ان کا حکم ماننے کے پابند ہوتے۔ اس طرح جنرل مشرف کی بغاوت ناکام ہو سکتی تھی۔لیکن جنرل افتخار نے‘ جنرل پرویزمشرف کو موقع دیا کہ وہ اپنی سازش میں کامیاب ہو کر اقتدار پر قبضہ کر لیں۔‘‘ انہوں نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''اگر سیکرٹری دفاع آپ کے حکم کی تعمیل کر دیتا‘ تو جنرل محمود اور جنرل عثمانی بغاوت کرنے میں کامیاب نہ ہوتے۔انہوں نے چوہدری نثار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ''وہ دیکھو چوہدری نثار‘ اب بھی ایوان میں مجھے آنکھیں دکھا رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھے پیسہ کمانے والا سیاستدان کہنے والا‘ خود بتائے کہ پپو پٹواری کون ہے؟ جہانگیر تحصیلدار کون ہے؟ ‘‘ان کے ساتھ جاٹ چوہدری نے‘ راجپوت چوہدری کے پرسنل سیکرٹری کا نام لیا‘ جو اس وقت مجھے یاد نہیں آ رہا۔ان تینوں کرداروں کی کہانیاں ضلع راولپنڈی میں کافی پاپولر ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کچھ کردار بہت مشہور ہیں۔ جن میں سے بیشتر کا تعلق پولیس اور محکمہ مال سے ہے۔ دونوں محکموں کے افسروں کی پوسٹنگز اور ٹرانسفرز کے اختیارات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چوہدری نثار کے پاس ہیں۔ وہ جسے چاہیں ضلع راولپنڈی میں رکھ سکتے ہیں اور جسے چاہیں نکال دیتے ہیں۔ آج شام راجپوت چوہدری ‘جواب آں غزل یا جوابی حملہ کس طرح کرتے ہیں؟ پپو پٹواری اور جہانگیرتحصیلدار کے قصے کہانیوںکے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ لیکن ایسی جھڑپوں کے بارے میں ہمارے عام لوگ یہ کہتے ہیں ''ککڑ کھہہ اڑاوے‘ تے سر اپنے وچ پاوے۔‘‘
اس جھڑپ کے سیاسی مضمرات بھی کچھ کم نہیں ہوں گے۔ چوہدری اعتزاز احسن کی تقریر کو پارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے بھی سراہا ہے۔ اس کا جائزہ کسی اور دن لوں گا۔ مگر اس دوران آپ نے اپنے نمائندوں کے بارے میں کافی کچھ جان لیا ہو گا۔ ایک دوسرے کے بارے میں وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں‘ وہ غلط نہیں ہوتا۔ جب محلے کی دو عورتیں لڑتے لڑتے آپے سے باہر ہو جاتی ہیں‘ تو ایسے ایسے راز کھولتی ہیں‘ جن کے متعلق عام حالات میں کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔لیکن اس طرح کے کام کوٹھوں اور چوباروں پر تو دلچسپ لگتے ہیں۔ مگر جب قانون سازی کے سب سے بڑے ادارے کے اراکین‘ وہ مناظر دہرانے لگیں‘ تو کیا وزیٹرگیلری میں آیا ہوا بندہ یہ نہیں سوچتا ہو گا کہ یہی کچھ دیکھنا تھا‘ تو یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی؟گلی محلوں میں مزے کر لئے ہوتے۔