عمران خان سیاسی زندگی کے ایسے دوراہے پر آ کھڑے ہیں‘ جس سے آگے ‘ جو راستہ بھی وہ چنیں گے‘ ان کی زندگی کے لئے انتہائی اہم اور فیصلہ کن ہو گا۔ اس دوراہے تک پہنچتے ہوئے‘ انہوں نے بڑے بڑے معرکے سر کئے۔ سیاست کے ابتدائی برسوں میں‘ انہیں کرکٹ سے حاصل شدہ شہرت سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ انہیں بھی ایک عام آدمی کی طرح سیاسی امتحانات سے گزرنا پڑا۔ وہ کرکٹ میں جن کامیابیوں کے عادی تھے‘ سیاست میں توقع کے مطابق فوراً حاصل نہ کر پائے۔ لیکن وہ ایک باہمت اور پختہ عزم اور ارادہ رکھنے والے انسان ہیں‘ ثابت قدمی سے منزل کی طرف بڑھتے رہے۔ پہلے دو انتخابات میں انہیں بری طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ہو سکتا ہے‘ وہ ان ناکامیوں کو اپنی شکست سمجھ کر‘ ہمت ہار بیٹھتے۔ لیکن وہ ثابت قدمی سے اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہے اور 2013ء کے انتخابات سے کچھ ہی عرصہ پہلے‘ وہ لاہور میں ایک دھماکہ خیز جلسہ کر کے‘ سیاسی زندگی کے نئے دور میں داخل ہو گئے۔ ان پر کامیابی کا دروازہ کھل گیا۔ ایسا یونہی نہیں ہو گیا تھا۔ وہ جن گزشتہ 2 انتخابات میں ناکام ہوئے تھے‘ ان میں عوام نے‘ ایک بااصول لیڈر کو ابھرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس دوران انہیں بارہاحکمران طبقوں میں شامل ہونے کے مواقع ملے۔ ان کے پائے استقلال میںکوئی لغزش نہ آئی۔ ان کے ذہن میں جو بھی خیال‘ تصور یا نظریہ تھا‘ وہ اسی کے تحت آگے بڑھتے گئے۔ رائج الوقت سیاست سے ان کی یہی بے اعتنائی‘ اقتدار کی کھینچا تانی سے دور رہ کر‘ اپنی دھن میں سیاست کرنے کے انداز اور مستقل مزاجی ‘ عوام کی نگاہوں میں بستی گئی اور ایک منفرد سیاستدان کی حیثیت سے وہ عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بناتے رہے۔
اس کا عملی مظاہرہ ‘لاہور میں مینار پاکستان پر اکتوبر 2011ء کے جلسے میں ہوا اور اس کے بعد انہیں پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔یہ جلسہ ہر لحاظ سے پاکستانی سیاست کے متعفن ماحول میں خوشبو کے جھونکے کی طرح آیا ۔ اس کے ساتھ نئے نئے امکانات اور نئے نئے رنگوںکی لہریں نمودار ہوئیں‘ جو پرانی سیاست گری سے الگ اور منفرد تھیں۔ ہرچنداس نئے پن کے اندر ایک واضح سیاسی نظریہ یا مستقبل کا کوئی نقشہ موجود نہیں تھا۔ سب کچھ ظاہری تھا۔ جلسے کے حاضرین میں ایک تنوع ضرور تھا۔ لیکن نہ روایتی کارکن۔ نہ روایتی حاضرین۔ نہ روایتی مقررین۔ نہ روایتی نعرے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا جلسہ تھا‘ جس نے پاکستانی سیاست کو نیا رخ دے دیا۔اس نئے پن میں خاص دلکشی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے‘ تمام سیاسی جماعتوں کو‘ اس کا کوئی نہ کوئی رنگ اختیار کرنا پڑ گیا۔ سب سے زیادہ مسلم لیگ (ن) متاثر ہوئی اور ایک روایت پسند جماعت ہونے کے باوجود‘ اس نے بھی اپنے جلسوں میں موسیقی کے وقفے رکھنا شروع کر دیئے۔ موسیقی نے دقیانوسی سیاست کے یبوست زدہ ماحول کو‘ فرحت افزا تازگی دی۔جو تقلیدنہیں کی جا سکی‘ وہ تھا خود عمران خان‘ جو مردانہ وجاہت کا شاندار نمونہ ہے۔ درازقد‘ چھریرا بدن‘خوبصورت بال‘ بھاری بھرکم آواز اور اس پر کرکٹ کے زمانے کا گلیمر۔ ان سب چیزوں نے مل کراس کی شخصیت کو مرکز توجہ بنا رکھا ہے۔ خواتین کا وہ پہلے ہی سے پسندیدہ ہیرو تھا۔ سیاستدان کی حیثیت میں بھی یہ پسندیدگی اسے حاصل رہی۔ دیکھتے ہی دیکھتے عمران خان کے جلسوں کے رنگ ڈھنگ نے‘ نئی طرز سیاست کو مقبول بنا دیا۔ 2013ء میں انتخابات کا اعلان ہوتے ہی عمران خان کی پارٹی روایتی سیاسی کارکنوں اور طالع آزمائوں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ اس کے جلسے اپنا رنگ جماتے رہے۔ پارٹی میں نوواردان کے ہجوم کو دیکھ کر‘ عمران خان اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور ٹکٹوں کی تقسیم میں بہت سی بے احتیاطیاں کر گئے۔ ان کے بیشتر امیدواروں کوالیکشن میں حصہ لینے کا تجربہ نہیں تھا۔ پولنگ سٹیشنوں پر آئے ہوئے ووٹروں سے فائدہ اٹھانے کی ٹیکنالوجی سے‘ نہ امیدوار واقف تھے اور نہ ہی ووٹر۔ بہت سے امیدوار‘ ووٹ لینے کا ہنر نہیں جانتے تھے اور بہت سے ووٹر ‘پہلی بار ووٹ ڈالنے آئے تھے۔ اس طرح عمران خان اپنے حامیوں کی بہت بڑی تعدادکے ووٹوں سے محروم رہ گئے۔ اس کے باوجود ووٹروں کی اتنی بھرمار تھی کہ اگر بیلٹ بکس تک پہنچنے میں کامیاب ہونے والے ووٹوں کی گنتی بھی تحریک انصاف کے حق میں ہو جاتی‘ تو وہ اپنی حاصل شدہ نشستوں سے کم از کم دوگنا نشستیں ضرور حاصل کر لیتے۔ بدقسمتی سے انتخابی مشینری کے حساس حصوں پر‘ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری نے اپنا دبدبہ قائم کر رکھا تھا۔ حقیقت میں ان کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن وہ اپنے اثرورسوخ اور طاقتور شخصیت کے بل بوتے پر ‘انتخابی نتائج کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
نتائج آنے کے فوراً ہی بعد‘ عمران خان اور ان کے حامیوں کو پتہ چل گیا کہ وہ راہزنی کا شکار ہو چکے ہیں۔بعد کی کہانی سب جانتے ہیں۔ عمران خان نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ہر دستیاب قانونی راستہ اختیار کر کے‘ انصاف حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ہر مرحلے پر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آخر تنگ آ کر اس نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا۔ عمران کے پرجوش حامی انصاف کے حصول میں اس کا بھرپور ساتھ دے رہے تھے اور اب تک دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے علیحدہ مشن اور جداگانہ پروگرام کے تحت پاکستان واپس آئے تھے۔ ان کی آمد سے پہلے ‘ ان کی قیام گاہ اور مدرسے پر‘ پولیس کی کارروائی ہو گئی۔ جس میں 14بے گناہ مرد اور خواتین شہید ہوئے۔ 80سے زیادہ حامیوں کو براہ راست گولیاں لگیں اور نئی سیاسی تاریخ کا کبھی نہ بھولنے والا سانحہ رونما ہو گیا۔ مجھے ڈاکٹر قادری کے منشور‘ منصوبوں اور عزائم کا زیادہ پتہ نہیں ہے۔ لیکن حکمرانوں کے خلاف ان کی جدوجہد عمران خان سے ملتی جلتی تھی۔ منزل اور مقاصد الگ الگ ہونے کے باوجود‘ دونوں نے احتجاجی تحریک ایک ساتھ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن روزاول ہی
سے‘ جدوجہد کو متوازی خطوط پر رکھا۔ ان کے جلوس بھی الگ الگ رہے اور دھرنے بھی۔ اور دونوں کے حامیوں کے مزاج اور خصوصیات میں بھی بڑا فرق ہے۔ ڈاکٹر قادری کے ماننے والے انہیں اپنا روحانی رہنما سمجھتے ہیں اور ان کے حکم کی تعمیل کرنا اپنے عقائد کے تحت لازم۔ جبکہ عمران خان کے حامیوں کا اپنے لیڈر کے ساتھ رشتہ ‘سیاسی نوعیت کا ہے۔ ایک طرف نامعلوم انقلاب کا نعرہ ہے جبکہ دوسری طرف صاف اور شفاف انتخابات کا۔ آج احتجاجی تحریک کو شروع ہوئے 27 دن گزر چکے ہیں۔ نہیں معلوم یہ آگے کہاں تک چلے گی؟ روایتی انداز میں دیکھا جائے‘ تو عمران خان کی تحریک ‘روایتی سیاست کی نظر میں کامیاب ہو چکی ہے۔حکومت خود یہ کہہ کر انہیں‘ کامیابی کے نعرے لگانے کا موقع دے رہی ہے کہ ''ہم نے ان کے 5نکات مان لئے ہیں۔اب انہیں چاہیے کہ سمجھوتہ کر کے‘ اپنی تحریک ختم کر دیں۔‘‘ انہیں شرکت اقتدار کی دعوت بھی دی گئی۔دوسری طرف عمران خان‘ اپنی تحریک کو بہت آگے لے آئے ہیں۔ بظاہر حکومت اور اس کے حامی‘ عمران خان کی سیاسی طاقت کا اعتراف نہیں کرتے۔ لیکن اندر سے وہ جان چکے ہیں کہ عمران خان کے حامیوں کا طوفان اتنا شدید ہے کہ مخالفین اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکیں گے۔ اگر وہ عمران کو کمزور سمجھتے‘ تو ان کی ساری شرطیں مان کے فی الفور ازسرنوانتخابات کے لئے تیار ہو جاتے۔ مگر وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت آزادانہ انتخابات کرا دیئے گئے‘ تو پارلیمنٹ اور جمہوریت کے نام پر گٹھ جوڑ کرنے والے تمام مفادپرستوں کا صفایا ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر قیمت پر انتخابات سے بچنا چاہتے ہیں اور عمران خان کو شریک اقتدار کر کے‘ سٹیٹس کوبرقرار رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ عمران کی پارٹی میں شامل روایتی سیاستدان‘ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے بے تاب ہیں۔ وہ عمران کو سمجھوتے پر آمادہ کرنے کے لئے‘ وہی دلائل کا استعمال کریں گے‘ جو حکومت کر رہی ہے۔ اگر عمران سمجھوتے پر آمادہ ہو جائے‘ تو عمران کے سارے مخالفین اور حکمرانوں کی پوری میڈیا پلٹن دیکھتے ہی دیکھتے عمران کی مدح خوانی شروع کر دے گی۔عمران اپنی سیاسی زندگی کے فیصلہ کن موڑ پر آ چکا ہے۔ وہ چاہے‘ تو سٹیس کو کا حصہ دار بن کر‘ ایک کھوکھلے‘ متعفن اور مرتے ہوئے نظام کا حصہ بن کراقتدار کے مزے لوٹ سکتا ہے اور چاہے‘ تو ساری ترغیبات کو ٹھکرا کر‘ آنے والے دور کا بانی بن سکتا ہے۔ عمران سمجھوتہ کر لے یا نئے دور کا نقیب بن جائے؟ یہ فیصلہ کرنا اس کے اختیار میں ہے۔ تقدیر نے عمران خان کو ایک نئے دور کے بانی کا اعزاز تو دے دیا ہے۔سمجھوتہ کر لیا‘ تو وہ ایک ہی ٹوکری میں پڑے‘ گندے انڈوں کے درمیان جگہ پا لے گا۔ لیکن تاریخ میں پھر بھی لکھا جائے گا کہ عمران نے پاکستان میں مفادپرستوں کی سیاست کی دیوار توڑ کر‘ نئی سیاست کے لئے راستہ کھول دیا ہے۔ لیکن عمران کسی نئے سیاسی نظام کی بنیاد رکھ کر اسے پروان چڑھانے میں کامیاب ہو جائے گا؟ اس سوال کا میرے پاس جواب نہیں۔قدرت کا اپنا نظام ہے۔ اگر نوازشریف‘ تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم بن سکتے ہیں‘ توعمران ایک نئے نظام کی بنیاد کیوں نہیں رکھ سکتا؟