یوں لگتا ہے کہ عمران خان نے دھاندلی کے کیمرے کو نائٹ شو کا آئٹم بنا لیا ہے۔ جس طرح کیمرے کا آخری آئٹم ‘رقاصہ کے وہ انداز ہوتے ہیں‘ جن کے دوران ‘وہ آہستہ آہستہ اپنے لباس کے کچھ حصے ادھر ادھر پھینکتی ہے اور آخر کارضروری عزت بچا کر رفوچکر ہو جاتی ہے۔خان صاحب کی دھاندلی بھی نائٹ شو کا آخری آئٹم ہے۔ وہ جیب سے کاغذ نکال کر کبھی ایک اور کبھی دوحلقوں میں دھاندلی کی تفصیل عوام کے سامنے رکھتے ہوئے‘ لہرا لہرا کر بتاتے ہیں کہ اتنے ووٹ پول ہوئے‘ جن میں سے 35فیصد جعلی تھے۔ ابھی تک خان صاحب نے جتنے بھی نتائج بتائے ہیں‘ ان میں جعلی ووٹوں کا تناسب 35فیصد سے زائد رہاہے‘ کم ہوتے نہیں دیکھا۔ خان صاحب نے معمول بنا لیا ہے کہ وہ نائٹ شو کے آخر میں‘ دھاندلی کا آئٹم شروع کرتے ہیں اور پھر دھاندلی اپنا ایک ایک پردہ اتارتی ہوئی‘ عوام کے سامنے آنے لگتی ہے۔اگر دھاندلی کی ابھی تک دکھائی گئی پرفارمنس کو ہی دیکھا جائے‘ تواب اس میں کسی کوشبہ نہیں رہ گیا کہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی بڑے کمال کی ہوئی ہے۔ اب تک پاکستان میں ہونے والے تمام انتخابات کی دھاندلی 2013ء والی دھاندلی سے‘ بدرجہا زیادہ قابل توجہ اور جاذب نظر ہے۔ ماضی کے تمام انتخابی نتائج میں دھاندلی سائیڈ رول میں تو آتی رہی لیکن مرکزی کردار اسے کبھی نہیں ملا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ دھاندلی کو انتخابی نتائج میں‘ نہ صرف مرکزی کردار مل گیا بلکہ وہ اپنی بنائی حکومت کو 15 مہینے تک کھینچنے میں بھی کامیاب رہی۔ مزید کتنے ہفتے نکالے گی؟ اس کا اندازہ مشکل ہے۔''کروڑ پکا‘‘ کرنے والی میڈیا ٹیم ابھی تو یوںنغمہ خواں ہے‘ جیسے دھاندلی کی دلہن‘ سدا سہاگن رہے گی۔لیکن خان صاحب بہت ضدی لگتے ہیں۔ وہ اس کا سہاگ جلد از جلد چھیننے پر تلے ہیں۔
اس دھاندلی نے عوامی ووٹوں کا دیوا تو پلّامار کے بجھا دیا۔جعلی ووٹوں سے کئے ہوئے سولہ سنگھار‘ اس کے پتی دیو کو اتنا بھا گئے ہیں کہ وہ اسے غیروں کی نظروں سے ہر قیمت پر بچانا چاہتے ہیں۔ پتی دیو کو اندر سے پتہ ہے کہ جیسے ہی غیروں کی نظر دھاندلی کے جوبن پر گئی‘ ان کا راج سنگھاسن خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے‘ دھاندلی کی تشریح پر جھگڑا کرنے میں لگے ہیں۔ یہ بات وہ مان گئے ہیں کہ اگر دھاندلی ثابت ہو گئی‘ تو وہ راج سنگھاسن چھوڑ دیں گے، لیکن دھاندلی کیا ہے؟ اس کا گھونگھٹ اٹھانے سے وہ صاف انکاری ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ دھاندلی کی تشریح وہ خود کریں گے۔یہی تشریح سب کو مانناہو گی۔میں نے تو کہا تھا کہ سڑک پر چلتے ہوئے آدمی سے پوچھ لیں کہ دھاندلی کیا ہے؟ وہ فوراً بتا دے گا کہ دھاندلی کیسی ہوتی ہے؟ لیکن پتی دیو کو ضد ہے کہ وہ اصلی دھاندلی کا چہرہ کسی کو نہیں دیکھنے دیں گے۔ دھاندلی اسی کو مانیں گے‘ جو ان کی تشریح کے مطابق ہو گی۔ مذاکراتی اس پر بے حد پریشان ہیں۔وہ ڈکشنریاں دکھا رہے ہیں۔ مثالوں سے بتا رہے ہیں۔ عالموں اور فاضلوں سے رہنمائی لینے کے لئے کہتے ہیں۔ لیکن پتی دیو کسی کی تشریح ماننے کو تیار نہیں۔ وہ ایک ہی بات پر اڑے ہیں کہ جس دھاندلی کا سراغ لگانے کے لئے‘ وہ عدالتی کمیشن قائم کریں گے‘ اس کی ٹرم آف ریفرنس یا دائرہ اختیار وہ مقرر کریں گے۔ کمیشن اس دائرے کی مقررہ حدود سے باہر جا کر‘ دھاندلی کے گھونگھٹ کو نہیں چھیڑے گا۔مذاکراتیے مختلف دلائل دے کر‘ اصلی دھاندلی کا چہرہ سامنے لانے پر اصرار کرتے ہیں، لیکن پتی دیو مان کر نہیں دے رہے۔ وہ بتاتے بھی نہیںکہ ان کے نزدیک دھاندلی کیا ہے اور کیسی ہے؟ سننے میں آیا ہے کہ وہ آرڈی نینس یا قانون میں دھاندلی کی جو بھی تشریح کریں گے‘ اسے پارلیمنٹ سے پاس کرا دیں گے۔ تشریح کچھ یوں ہو گی۔
(1)کمیشن کو اس سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ بیلٹ پیپر سرکاری پریس میں چھپا ہے یا اردو بازار کے پریس میں؟ بیلٹ پیپر کہیں بھی چھپا ہو‘ وہ بہرحال ایک ووٹ ہے۔ پرائیویٹ پریس میں اس کی چھپائی کو دھاندلی نہیں کہا جائے گا۔
(2)بیلٹ پیپرز کے تھیلوں میں اگر کوئی اور چیز نکلتی ہے‘ توکمیشن کو اس سے کوئی غرض نہ ہو گی۔ان میں سے چاول نکلتے ہیں‘ تو کمیشن انہیں آپس میں بانٹ لینے کا حقدار ہو گا۔ ردی نکلتی ہے‘ تو اسے بھی وہ اپنے پاس رکھنے یا بیچ دینے کا حقدار ہو گا، لیکن اسے دھاندلی قرار دینے کا اختیار اس کے پاس نہیں ہو گا۔
(3) بیلٹ پیپر پرانگوٹھے کا نشان نہ بھی ہوا‘ تو کمیشن کے پاس‘ اسے مسترد کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔ اسے صرف ووٹر کا نام اور شناختی کارڈ نمبر دیکھنے کا اختیار ہو گا۔ یہی دو چیزیں ووٹر کی شناخت کے لئے ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ سب چونچلے ہیں۔ کمیشن کے پاس چونچلوں کا اختیار نہیں ہو گا۔
(4)کمیشن کے پاس صرف بیلٹ پیپر دیکھنے اور پرکھنے کا اختیار ہو گا۔ وہ یہ دیکھنے کا مجاز نہیں ہو گا کہ پولنگ سٹیشن کے لئے بھیجے گئے کل بیلٹ پیپر کتنے تھے؟ اور بکسوں میں سے کتنے برآمد ہوئے؟ مثلاً اگر ایک پولنگ سٹیشن کے کل ووٹر 4 ہزار ہیں اور بیلٹ بکس میں سے 15ہزار نکل آتے ہیں‘ تو کمیشن اس پر اعتراض کا حق دار نہیں ہو گا۔ یہ امیدوار کی قسمت ہے کہ اسے کتنے ووٹ مل گئے؟ کمیشن
قسمتوں کے فیصلے نہیں کر سکے گا۔ وہ صرف یہ دیکھے گاکہ امیدوار کے حق میں کل کتنے ووٹ آئے ہیں؟
(5)مسلم لیگی امیدواروں کے ووٹوں پر کوئی اعتراض درست نہیں سمجھا جائے گا۔ ووٹ صرف ووٹ ہوتا ہے اور اسی وقت ووٹ ہوتا ہے‘ جب وہ ن لیگی امیدوار کے حق میں نکلے۔ اس لئے ن لیگی امیدوار کا ایک بھی ووٹ مسترد کرنا‘ کمیشن کے اختیار میں نہیں ہو گا۔ البتہ دیگر پارٹیوں کے امیدواروں کے جتنے ووٹ کمیشن چاہے مسترد کر سکتا ہے۔
(6)ن لیگی امیدوار کے ووٹ اگر حلقے کے تمام ووٹوں کی تعداد سے زیادہ ہو جائیں‘ تویہ کمیشن کا مسئلہ نہیں ہو گا۔ کمیشن صرف ووٹوں کی صحیح گنتی کا مجاز ہو گا۔ ان کی تعداد حلقے کے اصل ووٹوں سے زیادہ ہو جائے‘ تو یہ کمیشن کی سردردی نہیں۔ معجزے بھی تو اسی دنیا میں ہوتے ہیں۔
کمیشن کے دائرہ کار کو مندرجہ بالا پابندیوں اور شرائط کے مطابق تسلیم کر لیا جائے‘ تو جناب وزیراعظم نئے انتخابات کرانے کے پابند ہوں گے۔ آگے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ عمران خان کی مرضی کیا ہے؟ میں تو ابھی شاہ محمود قریشی اور جہانگیرترین جیسے عادی اقتدار پسندوں کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ خان صاحب اپنی پارٹی کو ان سے کس طرح بچائیں گے؟ کیونکہ میں خان صاحب کو صاف گو اور سچا سیاستدان سمجھتا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ سیاستدان کبھی سچا نہیں ہوتا، مگر خان صاحب کو سچا کہنے سے میری مراد یہ نہیں کہ وہ سیاستدان بھی نہیں ہیں۔ میں انہیں ایک ''سچا سیاستدان ‘‘سمجھتا ہوں اور یہی عام لوگوںکا خیال ہے۔ اگر انہیں اپنی کشتی میںآزمائے ہوئے مزید سیاستدانوں کے ساتھ اور بھی مزید آرائشی سامان لادنے کا شوق ہے‘ تو پھر وہ کمیشن کے لئے مندرجہ بالا ٹرمز آف ریفرنس کو تسلیم کر کے‘ اقتدار کے سجے سجائے دسترخوان پر بیٹھ جائیں۔ معاہدے کا مطلب یہی ہو گا۔ البتہ وہ اس طرح کا سیاستدان بنے رہنا چاہتے ہیں‘ جو کہ عوام انہیں سمجھ رہے ہیں‘ تو پھر یہ ممتاز بھٹو کہاں سے آ گئے؟وہ تو نوازشریف کے معیار پر بھی پورے نہیں اتر پائے۔ خان صاحب نے اپنے معیار کے مطابق سمجھ لیا‘ تو پھر خان صاحب کا معیار کیا ہے؟ 18سال کی سیاست میں دوچار معمولی لغزشوں کے سوا‘ خان صاحب نے کوئی غلطی نہیں کی۔ عوام یہی سمجھتے ہیں۔ وہ انہیں ایک مختلف سیاستدان سمجھتے ہوئے‘ اپنی امیدیں وابستہ کر بیٹھے ہیں۔ اگر وہ ان سیاستدانوں سے جا ملے یا انہیں اپنے ساتھ ملا لیا‘ جن سے عوام کو نفرت ہے‘ تویہ عوام کے دل پر اتنی بڑی چوٹ ہو گی جسے وہ مدتوں نہیں بھلا پائیں گے۔پاکستانی عوام سے بابائے قوم کے بعد‘ آج تک کسی سیاستدان نے وفا نہیں کی۔ ہمارے عوام بڑے حوصلے والے ہیں۔ وہ خان صاحب کی بے وفائی بھی برداشت کر لیں گے۔ البتہ ان کی زندگی پر مسلط اندھیروں کی عمر زیادہ ہو جائے گی۔ خان صاحب نے واقعی ممتاز بھٹوئوں کی طرف رخ کر لیا‘ تو پھر ان کی قسمت! ممتاز بھٹو‘ ایک بھٹو کو تو ہضم کر چکے ہیں۔ دوسرا بھی سہی۔