"NNC" (space) message & send to 7575

ہمیں سیاست سے بچائو

گزشتہ چند روز کے دوران ‘فوج کو کم از کم تین مرتبہ یہ وضاحت کرنا پڑی کہ اسے سیاسی معاملات سے کوئی واسطہ نہیں‘وہ ان سے بچنا چاہتی ہے۔ اس کے باوجود فوج کے خلاف مسلسل ایک مہم چلائی گئی۔ ایک مخصوص لابی کی میڈیا پلٹن کو چھوڑیئے۔ ایک سیاسی جماعت کو بھی نظرانداز کر دیجئے۔ وزیروں کے بیانات پر بھی خاک ڈالیے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس یہ جاننے کے لئے کم ہے کہ فوج کونشانہ کون بنا رہا ہے؟ غالباً دنیا کی تاریخ کا یہ پہلا پارلیمانی اجلاس ہے‘ جو اپنے ہی ملک کے ایک حساس ترین ادارے کو‘ ہدف بنانے کی خاطر منعقد کیا گیا۔ میں اکثر تاریخی حوالے دیتا رہتا ہوں کہ فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث کرنے والے کون رہے؟ پہلا مارشل لا‘ سیاستدانوں کی باہمی چپقلش اور ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھا۔ اور تو اور‘ وہ اپنے ملک کو کوئی مستحکم حکومت بھی نہ دے سکے۔ حد یہ ہوئی کہ ایک حکومت کئی ماہ کے جوڑ توڑ کے بعد‘ بنائی گئی اور 90دنوں میں اسے ختم کر دیا گیا۔ یہ سیاستدانوں کی لڑائی ہی تھی‘ جس کی وجہ سے ایک سیاسی گروپ نے اپنے مقاصد کے لئے‘ فوج کے سربراہ کو وزیربنا کر کابینہ کے اندر بٹھایا اور اسے سیاسی امورمیں شریک کر لیا۔ فوجی کا اپنا ذہن ہوتا ہے۔ وہ اجتماعی بحث مباحثے اور ماہرین کی وسیع تر مشاورت کے بعد ‘ایک فیصلہ کرتا ہے اور پھر اس فیصلے کو ادارے کی ذمہ داری سمجھ کر‘ اس پر عمل کرتا ہے۔ سیاستدانوں کو ہر وقت اقتدار کے جوڑ توڑ میں سرگرداں دیکھ کر‘ ایوب خان اپنی دانست میں حالات پر قابو پانے کے لئے اقتدار پر قابض ہو گئے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ جس کام میں انہوں نے ہاتھ ڈال دیا ہے‘ یہ ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ یقینا انہوں نے تباہ کن غلطیاں کیں۔ یہاں تک کہ پہلے مشرقی پاکستان کو بیزاری کی حد تک‘ مغربی پاکستان سے دور کرتے چلے گئے اور ایک دن کابینہ کی میٹنگ میں خود ہی کہہ دیا ''ہم کیوں نہ مشرقی پاکستانیوں سے کہیں کہ وہ اپنے معاملات خود چلا لیں؟‘‘ یہ ایک اکتائے ہوئے غیرسیاسی آدمی کی رائے تھی۔ ہو سکتا ہے اس کا مطلب وہ نہ ہو‘ جو سمجھا گیا۔
یحییٰ خان کا اقتدار پر قبضہ بھی‘ سیاستدانوں کی اپنی سازش تھی۔ ایوب خان انتقال اقتدار پر تیار ہو گئے تھے۔ انہوں نے سیاستدانوں کی گول میز کانفرنس بلا کر‘ خوش اسلوبی سے انتقال اقتدار کے سلسلے میں مشاورت کی۔ سیاستدان کسی بھی ایک فارمولے پر متفق نہ ہو سکے۔ ان میں سے کچھ نے اندر ہی اندر یحییٰ خان کے ساتھ مل کرسازشیں شروع کر دیں۔ ایوب خان کو ان کی خبر ملی‘ تو انہوں نے مزید کسی جھنجھٹ میں پڑے بغیر‘ اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ یحییٰ خان سیاسی سوجھ بوجھ سے بالکل ہی عاری تھے۔ ادنیٰ درجے کی سازشیں کرتے تھے اور انہی سازشوں کے نتیجے میں انہوں نے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کر دی اور ملک کو تباہی سے دوچار کر گئے۔ انہوںنے پاک فوج کو ہزار میل دور‘ دشمن کے حصار میں آئے ہوئے ایک خطے میں ‘ اپنے ہی عوام پر چڑھا دیا۔ نتیجے میں شکست ہوئی اور ملک دو لخت ہو گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک شکست خوردہ ملک میں اقتدار کی ذمہ داریاں سنبھالیں‘ جس کے 90ہزار قیدی اور وطن عزیز کا 5ہزار مربع میل سے زیادہ علاقہ دشمن کی تحویل میں تھا۔ قومی خزانے کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ ان حالات میں بھٹو نے ملک کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ دنیا کو منوایا کہ نصف کے قریب حصے سے محروم ہونے کے بعد بھی‘ پاکستان ایک قابل عمل ملک ہے‘ جو آزاد قوموں کی صف میں‘ اعتماد کے ساتھ کھڑا ہونے کی اہلیت رکھتا ہے۔ جلد ہی انہوں نے یہ کر کے بھی دکھا دیا۔ ان کے زمانے میں پہلا موقع تھا کہ فوج کے سربراہ جنرل ضیاالحق نے ‘خود سازش کر کے‘ اقتدار پر قبضہ کیا۔ وہ ایک طالع آزما شخص تھے۔ فلسطینی مسلمانوں کے خلاف فوجی کارروائی میں حصہ لے کر‘ امریکہ کی خدمات انجام دے چکے تھے۔ اس سازش میں امریکہ نے ان کی ہر طرح سے مدد کی۔ انہوں نے بھٹو صاحب کو برطرف کر کے‘ امریکہ کی سرپرستی میں پھانسی پر چڑھا دیا۔ انہوں نے فوجی قیادت کو باقاعدہ اپنے سیاسی عمل میں شامل کیا اور جب وہ دنیا میں نہ رہے‘ تو ان کے فوجی جانشینوں نے پس پردہ رہ کر‘ ملک کی حکومت چلائی اور ایک عشرے کے دوران جو منتخب وزرائے اعظم آئے‘ انہیںکٹھ پتلیوں کی طرح استعمال کیا گیا۔ پرویزمشرف کا معاملہ‘ اپنے تینوں پیش رو حکمرانوں سے مختلف تھا۔ انہوں نے کارگل میں ایک تباہ کن فوجی کارروائی کر کے‘ نہ صرف کشمیر پر پاکستان کا کیس تباہ کر دیا‘ بلکہ کشمیری حریت پسندوں نے ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر‘ عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کر لیا تھا اور دنیا میں یہ آواز اٹھائی جانے لگی تھی کہ بھارت کو کشمیریوں کے جائز حقوق دینا چاہئیں۔ کارگل کے حملے نے صورتحال یکسر بدل کے رکھ دی۔ ہم اس حملے سے کچھ بھی حاصل نہ کر پائے اور اپنی بہادر فوج کے جوانوں اور افسروں کو ایک ناقص منصوبہ بندی پر مبنی جنگ میں دھکیل کر‘ انہیں شکست سے دوچار کیا۔ بھارت نے پاکستان پر جارحیت کا الزام لگا کر‘ کشمیری عوام کی اس جدوجہد کو بھی کمزور کر دیا‘ جسے وہ کامیابی کے قریب پہنچانے کے راستے پر گامزن تھے۔ اس سانحے کے بعد پرویزمشرف اور ان کے ساتھیوں کو خطرہ پیدا ہوا کہ اس تباہ کن غلطی پر‘ انہیں فوج سے برطرف کر کے سزا دی جائے گی۔ جب وزیراعظم نے صدر سے‘ جنرل مشرف کی برطرفی کا حکم نامہ اچانک حاصل کر کے‘ جنرل ضیاالدین کو غیررسمی انداز میں‘ چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا‘ تو بغاوت کے اس منصوبے پر ازخود عملدرآمد 
ہو گیا‘ جو جنرل مشرف اور ان کے ساتھی پیش بندی کے لئے بنا چکے تھے۔ یہ انتہائی افراتفری میں کیا گیا آپریشن تھا‘ جو صرف دو تین جنرلوں نے پوری فوج کو اندھیرے میں رکھ کر شروع کر دیا تھا۔ بیشتر جنرل اس سازش سے بے خبر تھے۔ بعد میں ہر ایک کو یہ دھوکہ دے کر ساتھ ملایا گیا کہ اب آپریشن کامیاب ہو چکا ہے۔ سب ہمارے ساتھ ہیں۔ بہتر ہے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ آ جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ فوج کی یکجہتی خطرے میں پڑ جائے۔ مشرف کے اقتدار پر قبضے کے بعد بھی‘ بہت سے جنرلوں کو منانے کا کام رات بھر جاری رہا۔ قریباً 5بجے شام شروع کیا گیا آپریشن ‘ رات کے 2بجے مکمل ہو پایا اور تب کہیں جا کر جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالنے کااعلان کیا۔ یہ کہانی میں نے اس لئے بیان کی ہے تاکہ آپ سچائی کو جان لیں۔ اقتدار پر قبضے کی باقاعدہ سازش صرف ایک جنرل نے کی۔ جبکہ دیگر تینوں جنرلوں نے اچانک پیدا ہونے والے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اقتدار پر قبضہ جمایا۔ 
جنرل مشرف کے بعد‘ اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے فوج کو موقع حاصل تھا کہ وہ اقتدار کو دوبارہ اپنے قبضے میں کر لے۔ بے نظیرشہید ہو چکی تھیں۔ نوازشریف ہر قیمت پر پیپلزپارٹی کو اقتدار سے محروم رکھنے پر تلے ہوئے تھے۔ آصف زرداری کی حکمرانی‘ پاکستان کے مقتدر طبقوں کے لئے ایک روح فرسا تصور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میڈیا میں‘ ان کے خلاف زبردست مہم چلائی گئی اور عوام کو ذہنی طور پر تیار کر لیا گیا کہ وہ فوج کا اقتدار قبول کرنے پر راضی ہو جائیں۔ اس ماحول میں جنرل کیانی کو باربار ترغیب دی گئی کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر لیں‘ لیکن انہوں نے جمہوری حکومت کو نہ صرف قدم جمانے کا موقع دیا بلکہ اسے سنبھالتے بھی رہے۔ انہوں نے 2013ء کے انتخابات پاکستانی معیار کے مطابق صاف ستھرے کرائے اور اقتدار نوازشریف کے سپرد کر دیا۔
بطور چیف آف آرمی سٹاف ‘جنرل راحیل شریف کے انتخاب کی پوری قوم نے تعریف کی۔ سیاستدان‘ میڈیا‘ عوام اور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے‘ بلاامتیاز اس انتخاب کی تعریف کی۔ جنرل راحیل کا ماضی بے داغ ہے۔ وہ اپنے کیریئر کے کسی بھی مرحلے میں‘ سیاست میں دلچسپی رکھنے والے‘ ہم پیشہ لوگوں کے قریب نہیں گئے۔ جو حالات دھرنوں کے دوران پیدا ہوئے‘ ان کا ہم سب کو علم ہے۔ جنرل راحیل شریف پیشہ سپاہ گری میں‘ اپنی خاندانی روایات پر بجا طور سے فخر کرتے ہیں۔ ان کا خاندان دو نشان حیدر پانے کاامتیاز رکھتا ہے۔ جب احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا‘ تو انہوں نے ایک باوقار فوجی کی طرح‘ اپنے آپ کوسیاسی معاملات سے مکمل احتیاط کے ساتھ الگ تھلگ رکھا۔ جن لوگوں کو یہ امید تھی کہ وہ ان کی پشت پناہی کریں گے‘ انہوں نے جنرل راحیل کی غیرجانبداری کو بے اعتنائی سمجھا اور حکومت کے مخالفین تو بہرحال اس کی توقع ہی نہیں رکھتے تھے۔(جاری)
نوٹ:- گزشتہ روز13 ستمبر کے کالم میں لفظ کیبرے کی جگہ کیمرے شائع ہو گیا۔ عفوخواہ ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں