"NNC" (space) message & send to 7575

ایک دیرینہ قاری کا خط

میں قارئین کی موقر رائے سے استفادہ ضرور کرتا ہوں لیکن انہیں کالم میں شامل کرنے سے حتی الامکان گریز رہتا ہے۔زیر نظر خط شائع کرنے کا سبب یہ ہے کہ جناب ڈاکٹر تعظیم عامر نے ایک دیرینہ قاری کی حیثیت سے‘ مختلف ادوار میںمیرے کالموں کا تدریجی مطالعہ کر کے‘ اپنی رائے دی ہے جس کا احترام کرنا چاہئے۔انہوں نے جناب نوازشریف کے ساتھ میری وابستگی کے دور کو''موت ‘‘قرار دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے مجھے پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ میاں صاحب کے ساتھ میری وابستگی کے دو ادوار ہیں‘ پہلا دور وہ جب میں نے اپنے کالم میں بطور سیاست دان ان کی تحسین کی تھی اور دوسرا وہ‘ جب میں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کے چیئرمین کی حیثیت میں حکومت سے وابستہ ہوا۔ تقریر نویسی کے فرائض دونوں ہی ادوار میں ادا کرتا رہا۔جب میں حکومت میں نہیں گیا تھا تب‘ ایک آزاد کالم نویس کی حیثیت سے ان کی حمایت کی۔ حکومت سے وابستہ ہونے کے بعد‘ میں نے کالم لکھنا قریب قریب بند کر دیا تھا۔ کبھی کبھار جو کالم لکھتا اس میںحکومت کا ذکر آیا بھی تو سرسری طور سے۔بیشتر کالموں میں حکومت پر تنقید کی گئی ہے۔ تعظیم عامر صاحب نے اگر مجھے پڑھنا ترک نہ کر دیا ہوتاتو وہ یاد کر سکتے تھے کہ میں ان دنوں میں کیا لکھتا رہا ہوں؟
جس زمانے میں نوازشریف کی طرف میں متوجہ ہوا‘اسے یادوں میں دہرا نے سے پتہ چل جاتا ہے کہ ایسا کرنے کی وجوہ کیا تھیں۔ میں نے متعدد کالموں میں وضاحت کر دی تھی کہ میں ان کے سیاسی کردار کو کیوں اہمیت دے رہا ہوں؟اس دور کی دلچسپ بات یہ ہے کہ میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا انتہائی سخت مخالف تھا جبکہ نوازشریف کے حق میں لکھا کرتا تھا۔میرا جواز یہ تھا کہ آمریت میں ملک کے سیاسی منظر پر جاگیردار چھا گئے تھے اور نوازشریف واحد سیاست دان تھے‘ جو صنعت کار طبقے سے ابھرے تھے۔میرے نزدیک صنعت کار‘ جاگیردار کی نسبت زیادہ ترقی پسند اور روشن خیال ہوتا ہے۔سیاست میں ایک صنعت کار کی آمد کو‘ میں رجعت پسندی سے ایک قدم آگے نکلتا ہوا دیکھ رہا تھا اور ایسا ہوا بھی۔نوازشریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے رجعت پسندی کی پسماندہ معیشت کا جمود توڑنے کی کوششیں کیں۔ اگر تبدیلی کا یہ عمل جاری رہتا تو میری توقع تھی کہ کم از کم‘ ہم جاگیردارانہ دور کی تاریکیوں سے کچھ عرصے بعد‘ باہر نکل پائیں گے۔ بدنصیبی سے ایسا نہ ہو سکا۔نوازشریف نے جاگیردارانہ معاشرے میں تبدیلی لانے کے بجائے خود اس کا سیاسی حصہ بننے کو ترجیح دی اور آج ان کی حکمرانی‘ فرسودہ جاگیردارانہ نظام کے تحفظ کا ذریعہ بنی ہوئی ہے اور گزشتہ چند ہفتوں کے دوران‘ ان کی حکومت نے عوام کے خلاف جو پالیسیاں اختیار کی ہیں‘ انہیں دیکھنے کے بعد شاید ہی کسی عوام دوست کو نوازشریف سے اچھی توقعات باقی رہ گئی ہوں ۔ انہوں نے شہری حقوق اور آزادیوں کو جس بری طرح سے پامال کیا اور بے گناہ اور نہتے مردوں‘ عورتوں اور بچوں پر گولیاں چلوائیں‘ اس کے بعد رہی سہی خوش فہمی بھی ختم ہو چکی ہو گی۔ نوازشریف اب ماضی کے ملبے میں دبی ہوئی‘ مراجعت پسند شخصیت ہیں۔اب ان میں اپنی اصلاح کرنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔جس لیڈر کا وزیرخزانہ اسحاق ڈار ہو‘ اس سے ترقی پسندانہ صنعتی و مالیاتی پالیسیوں کی امید رکھنا خود فریبی کے علاوہ کچھ نہیں۔ میں جس نوازشریف کو جانتا تھا‘ وہ اکثر یہ سوچا کرتے تھے کہ اپنے تمام اثاثوں کا ٹرسٹ بنا کر‘ اسے فلاحی کاموں کے لئے وقف کر دیں اور خود صرف سیاست تک محدود ہو جائیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آج کے نوازشریف کو دیکھ کر‘ مجھ پر کیا گزرتی ہو گی؟ آخر میں ڈاکٹر تعظیم عامر کا خط پیش خدمت ہے۔
نذیر ناجی صاحب!
میں لیون (Lyon) ‘ فرانس سے ڈاکٹر تعظیم عامر ہوں۔ میں آپ کے کالموں کا باقاعدہ قاری تھا، لیکن جب آپ نواز شریف (ایک سیا ست دان) کے ساتھ مل گئے تو میں نے نذیرناجی کی موت پر آنسو بہائے اور آپ کو پڑھنا چھوڑ دیا‘ لیکن پھر دنیا ٹی وی پر آپ کو سننے کے بعد میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ 'ٹائیگر‘ بڑی جرأت کے ساتھ واپس آگیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے اس اہم موقعے پر‘ جب تمام تجزیہ کار(35سے60سال) باقاعدہ سسٹم کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ، حالانکہ وہ اس کرپٹ سسٹم اور سیاست دانوں کو بے نقاب بھی کرتے رہے ہیں ؛ ایسے میں اکیلی (واحد) آپ کی آواز قابل تعریف ہے۔
ناجی صاحب! نوجوان (18تا28سال ) مستقبل پر نظر رکھتے ہیں۔ فعال پیشہ ور (active Perofessional) 'حال‘ میں زندگی گزارتے ہیں اور سینئر (50برس سے اوپر کے معمر لوگ) ماضی کے خوابوں میں زندہ رہتے ہیں۔ یہ جنریشن گیپ کا کرشمہ ہے۔ بہت کم سینئر‘ فطری ارتقا کو سمجھتے اور اپنی ذہنی کیفیت کا تجزیہ کرنے کے لئے اچھی یادداشت کے مالک ہوتے ہیں اور( اسی خاصیت کی بدولت) ان کا رویہ نوجوان اور فعال پیشہ وروں (ایکٹو پروفیشنلز) کی طرح کا ہوتا ہے۔
تاریخ کی ورق گردانی کریں تو تبدیلی کے محرک ہمیشہ نوجوان رہے ہیں ‘ اس لئے کہ ان کی نظر مستقبل پر ہوتی ہے۔ ( موجودہ دور میں) فعال (سرگرم ) لوگ موجودہ سسٹم میں ہی اپنی پوزیشن بنانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں جبکہ سینئر (معمر یا بزرگ) افراد اپنی ماضی کی یادداشتوں کی روشنی میں (بطور رہنما) نصیحت کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ آپ کا شمار یقیناً ان معدودے چند سینئرز (بزرگوں) میں ہوتا ہے جو اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں۔ نوجوانوں کو آپ کی رہنمائی درکار ہے‘ اس لئے ازراہ کرم اپنی مضبوط( محکم ) منطق اور طرز استدلال کے ساتھ یہ فریضہ انجام دیتے رہیے۔
میرے والد محترم (22سال کی عمر میں) مسلم لیگ انبالہ کے سپہ سالارِ شہر تھے۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے برطانوی بحریہ (برٹش نیوی) کوچھوڑ دیا تھا۔ میرے دادا کانگریس کے سرگرم رکن تھے۔ مجھے ان کی باتیں اور طرز زیست یاد ہے۔ (میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ) پاکستان ‘ نوجوانوں نے بنایا تھا۔ سینئرز (بزرگوں) اور سرگرم زندگی گزارنے والوں کی اکثریت کانگریس کے ساتھ تھی یا وہ غیر جانبدار تھے۔
صرف یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ انگریزوں نے قائداعظم کو پیش کش کی کہ ''پورا پنجاب لے لیں‘ بنگال کو چھوڑ دیں‘‘۔ قائد نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر جواب دیا : '' نہیں‘‘۔ مسلم لیگی سیاست دان حیران تھے کہ قائد نے یہ تجویز کیوں مسترد کر دی۔ آپ جانتے ہیں‘ کیوں؟ خود قائد نے اس کی وضاحت بعد میں کر دی تھی :'' جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان بنے گا ۔ یہی ہمارا نظریہ اور تحریک کی بنیاد ہے۔ میں پنجاب کے مفاد کے لئے بنگالی مسلمانوں کو قربان نہیں کر سکتا‘‘۔ لیڈر اور سیاست دان میں یہی فرق ہوتا ہے(لیڈر اصولوں اور نظریے پر سودے بازی نہیں کرتا جبکہ سیاست دان کچھ لو‘ کچھ دو کی بنیاد پر سیاسی کاروبار کرتا ہے۔)
میں کچھ سینئر تجزیہ کاروں کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ عمران خان کو '' کچھ لو‘ کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر موجودہ صورت حال (تنازع) کو حل کر لینا چاہئے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو وہ 'سیاست دان‘ بن جائے گا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ (عمران خان) پیدائشی 'لیڈر‘ ہے ۔ وہ ''کچھ لو‘ کچھ دو‘‘ کا سیاسی کاروبار نہیں کرے گا۔
1992ء کے ورلڈکپ کے دوران مجھ سمیت تمام پاکستانی مایوس ہو چکے تھے کہ پاکستان کیسے جیتے گا؟ (یعنی یہ معجزہ کیسے ہو گا؟) لیکن اکیلا عمران خان پرعزم تھا کہ وہ ورلڈکپ ضرور جیتے گا اور اس نے تمام تر اندازوں اور تجزیوں کے برعکس ورلڈکپ جیت لیا۔ سنیل گواسکر ان چند افراد میں سے ایک تھا ‘جس نے اپنی کمنٹری کے دوران کہا تھا کہ پاکستانی ٹیم کی بدن بولی( باڈی لینگوئج) سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ورلڈکپ جیتنے کے لئے یہاں آئی ہے۔
ازراہ کرم اپنی گفتگو میں ان نکات کو بھی نمایاں کیجئے۔ آپ میرا نام بھی استعمال کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ فرانس سے ڈاکٹر عامر۔
میں آپ کی جرأت اور بے باکی کو سلام پیش کرتا ہوں۔ 
احترامات کے ساتھ‘
ڈاکٹر تعظیم عامر‘ فرانس

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں