"NNC" (space) message & send to 7575

کالے بادل

عجیب اتفاق ہے‘ کل ہی میں نے دولت اسلامیہ عراق وشام کے بارے میں‘ ایک رپورٹ پیش کرتے ہوئے‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پس منظر بیان کیا تھا اور آج یہ لکھنے کا پروگرام بنایا تھاکہ میں شرق اوسط اور برصغیر کے بارے میں‘ مذکورہ شدت پسند عناصر کے عزائم اور مقاصد کا جائزہ لوں گا۔ رات گئے امریکہ نے شرق اوسط میں نئی جنگ کا آغاز کر دیا۔ اس کے طیاروں نے شام میں واقع داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کئے۔ امریکیوں کے مطابق ان حملوںمیں سعودی عرب‘ اردن‘ متحدہ عرب امارات‘ بحرین اور قطر شامل ہیں۔ جس طرح عراق کی جنگ ‘ امریکہ کے گلے پڑ گئی تھی اور اسے بادل ناخواستہ سب کچھ نامکمل چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا‘ اسی طرح کا ڈرامہ‘ اب شام میں بھی ہونے جا رہا ہے۔یہاں بھی امریکہ‘ عراق ہی کی طرح اپنی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے‘ پہلا موقع ملنے پر ہی اپنا دامن کھینچ لے گا اور جس طرح عراق میں شیعہ سنی خانہ جنگی کی بنیاد رکھ کر وہاں سے گیا‘ اسی طرح شام میں جنگ کے نئے فریقوں کو باہم الجھا کر اپنا دامن چھڑا لے گا۔ لیکن یہ جنگ جو فی الحال عراق اور شام تک محدود رکھی جا رہی ہے‘ طے شدہ امریکی مقاصد پورے کرتے ہوئے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔اس کے بعد جنگ لامحدود علاقوں اور زمانوںمیں پھیلتی رہے گی۔ امریکہ اور فرانس کے اسلحہ خانے اندھادھند پیداوار شروع کر دیں گے۔ 
باخبر قارئین جانتے ہیں کہ امریکہ قریباً 15 سال سے شرق اوسط میں اسلحہ کے ڈھیر لگا رہا تھا۔ عام لوگ حیران تھے کہ امریکہ ‘ ان ملکوں میں ‘جن کے پاس نہ تربیت یافتہ فوجیں ہیں اور نہ ہی وہ اتنے بھاری اسلحہ کے ساتھ جنگیں لڑنے کی صلاحیتیں رکھتے ہیں‘ جدید ترین اسلحہ کے ذخیرے رکھ کر کیا کرے گا؟ ماہرین کا خیال تھا کہ امریکہ خطے کے اندر ہی کسی بڑی جنگ کا اہتمام کرے گا اور گردونواح کے ممالک‘ آپس میں ہی اسلحہ کے ذخیروں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں گے۔ اب منظر قدرے واضح ہو گیا ہے۔ آج کا پس منظر بیان کرتے ہوئے‘ کل کے کالم میں عرض کیا تھا کہ داعش‘ عراق اور شام کی سرحدوں کو ختم کر کے‘ دونوں ملکوں کے ایک بڑے حصے پر اپنا قبضہ جما چکی ہے‘ جہاں اس کے لیڈر نے اپنی خلافت کا اعلان کر رکھا ہے۔پاکستانی قارئین کو فی الحال یہ دور کی کوڑی دکھائی دے گی‘ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ خلیفہ صاحب نے پاکستان اور افغانستان میں اپنے دو خلیفے بھی مقرر کر کے بھیج دیئے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ جنگ کے پروانے آ چکے ہیں۔داعش کسی ایک ملک کے باغیوں پر مشتمل نہیں‘ اس میں قرب و جوار کے ہر ملک سے تعلق رکھنے والے جنگجو شامل ہیں۔ ازبک‘ چیچن‘ پختون‘ پنجابی‘ صومالیائی‘ عرب اور کئی دوسری قوموں کے جنگجو۔ جیسے جیسے عراق اور شام میں داعش کے ٹھکانوں پر‘ امریکی حملوں کا سلسلہ تیز ہو گا‘ اس کے حامیوں کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ دوسری طرف امریکی حملے جو شام اور عراق تک محدود ہیں‘ ان کا دائرہ پھیلنا شروع ہو جائے گا اور مزے کی بات یہ ہے کہ نئے حملوں کا 
نشانہ بننے والے ملکوں کی حکومتیں‘ خود پر حملوں کی اپنے آپ دعوتیں دیں گی۔ امریکہ نے جو خطرناک اسلحہ اس خطے میں جمع کر رکھا ہے‘ اسے وہ خود ہی تباہ کرنا چاہے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ جنگ کا دائرہ پھیلانے کے لئے کیا جواز تراشا جائے گا؟ میں صرف اندازہ کر سکتا ہوں کہ ممکن ہے داعش کا کوئی گروہ ‘ متحدہ عرب امارات کے فضائی حملے کو عذر بنا کر‘ ان میں سے کسی ایک کے اندر‘ دہشت گردی کی بڑی واردات کر دے اور امریکہ اسی طرح داعش کے ٹھکانوں پر حملے کی غرض سے‘ امارات کے ملکوں میں یہ کہہ کر کسی ایک کو نشانہ بنادے کہ یہاں سے داعش نے دہشت گردی کی ہے اور امریکہ داعش کے ٹھکانوں پر اسی طرح بمباری کرنے آ جائے‘ جیسے اس نے عراق اور شام میں شروع کر رکھی ہے۔ قارئین یقینا جانتے ہوں گے کہ سعودی عرب‘ قطر اور امارات میں جدیدترین امریکی اسلحہ کے ڈھیر لگے پڑے ہیں۔ امریکہ نہیں چاہے گا کہ روس کو اس جنگ میں کودنے کا بہانہ ملے۔ ابھی تک اس نے روس کو جنگ میں فریق بننے کا بہانہ فراہم نہیں کیا۔ جب سعودی عرب کے حمایت یافتہ شامی باغیوں کی مدد کے لئے‘ امریکہ نے شامی افواج پر حملوں کے بارے میں ''سوچنا‘‘ شروع کیا‘ تو روس نے فوراً ہی اس کی مخالفت کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ وہ بھی جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔ امریکہ نے فوراً ہی اپنا ارادہ ترک کرنے کا اعلان کر دیا۔ جس پر سعودی عرب‘ امریکہ سے ناراض بھی ہو گیا تھا‘ لیکن امریکہ نے جلد ہی سنّی انتہا پسندوں کے ایک دہشت گرد گروپ کواسلحہ مہیا کر کے‘ شام اور عراق کے اندر سے ایک علاقے پر اپنی حکومت قائم کرنے کے مواقع فراہم کئے۔ یہ گروپ دہشت گردی میں القاعدہ سے بھی دوقدم آگے ہے اور مسلمانوں کی آمرانہ حکومتوں کا دشمن ہے۔ امریکہ نے پہلے عراق میں‘ اس دہشت گرد گروپ کو نقصان پہنچانے کے لئے بمباری کا اعلان کیا۔ بلکہ خفیہ طور پر افرادی قوت بھی تیزی سے پسپا ہوتی ہوئی عراقی فوجوں کے حوصلے بڑھانے کے لئے مہیا کر دی۔ ورنہ داعش جس تیزی کے ساتھ بغداد پر یلغار کر رہی تھی‘ عراقی دارالحکومت کا دفاع مشکل ہو گیا تھا۔ بہرحال اب امریکہ نے داعش کو عراق کے سنّی علاقوں تک محدود کر دیا ہے۔ البتہ وہ کردوں کے زیرقبضہ تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس پر ترکی درپردہ خوش ہے کہ عراقی کرد جیسے جیسے کمزور پڑیں گے‘ ترکی میں آزادی کے خواہش مند کردوں کے حوصلے ٹوٹتے جائیں گے۔ جس کا فائدہ ترکی کو ہو گا۔ 
داعش کے بارے میں جس خوفناک حقیقت کو ابھی تک پردے میں رکھا جا رہا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے جنگجو اور ان کا خلیفہ‘ انتہاپسند تکفیری عقائد پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ صحابہ کرامؓ سے لے کر انبیائے کرامؑ تک کسی کے مزار اور روضے سے اظہارعقیدت کو بھی شرک قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے عراق میں کئی زیارتوں اور مساجد کو بموں سے اڑایا ہے۔ اس جنگ کی منصوبہ سازی صہیونیوں کاخفیہ گروپ کر رہا ہے۔ صہیونیوں کا دیرینہ منصوبہ یہ ہے کہ کسی طرح سے مسجد اقصیٰ کو شہید کر کے‘ دنیا بھر کے مسلمانوں کے حوصلے پست کئے جائیں۔ اس سلسلے میں دومرحلے مکمل کئے جا چکے ہیں اور دونوں مرحلوں میں‘ مسجد اقصیٰ کا ایک ایک حصہ نمازیوں کے لئے ممنوع قرار دے کر‘ یہودی عبادات کے لئے مخصوص کیا جا چکا ہے۔ تیسرے اور آخری مرحلے کو مکمل کرنے کا حوصلہ‘ وہ نہیں کر پا رہے۔ داعش کے جنگجوئوں کے طوراطوار دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ مذموم حرکت‘ ان سے کرائی جائے گی۔ وہ نہ بھی کریں‘ تو صیہونی خود اس گناہ کبیرہ کا ارتکاب کر کے‘ ذمہ داری داعش پر ڈال دیں گے۔ 
شام پر حملوں کی خبر کے ساتھ ہی‘ آپ نے ایک اور خبر بھی پڑھی ہو گی‘ جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں دہشت گردی سے بچائو کے لئے‘ تمام اداروں اور ایجنسیوں کو مستعد کر دیا گیا ہے۔ عالمی دہشت گردی اور امریکی عوام کی شہری آزادیوں سے محرومی‘ ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ جیسے جیسے امریکہ کا اقتصادی نظام کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے اور عوام کی بڑھتی ہوئی خواہشیں پوری کرنے میں حکمران طبقوں کو دشواریاں پیش آ رہی ہیں‘ امریکی حکمران‘ عوامی بے چینی کے مظاہروں سے بچنے کے لئے‘ شہری آزادیاں سلب کرتے جائیں گے۔ یہ سلسلہ 9/11 سے شروع ہوا اور اب تک امریکی عوام اپنی شہری آزادیوں کے بڑے حصے سے محروم کئے جا چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ امریکی عوام کی بے چینی میں اضافے پر ‘حکمران شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شام پر فضائی حملہ کرتے ہی‘ امریکہ میں ریڈالرٹ کی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے۔ فرانس کے حکمران طبقے بھی انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ بہت سے یورپی ملک بھی‘ اپنے عوام پر پابندیاں لگائیں گے۔ یونان‘ سپین اور اٹلی پہلے ہی عوامی بے چینی کی لہروں کی زد پر ہیں۔ روس‘ امریکہ کی ایک حریف طاقت کی حیثیت سے موقع کا فائدہ ضرور اٹھانا چاہے گا‘ لیکن اس کی اپنی مشکل بھی‘ مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی ہے۔ امریکہ نے بظاہر یہ جنگ‘ دہشت گردی کے خلاف چھیڑ کر‘ روس کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ روس کو اندازہ ہو چکا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کا ہتھیار استعمال کرنے میں‘ اتنی استعداد حاصل کر چکا ہے کہ وہ خود روس کے اندر بھی تخریب کاری کرا سکتا ہے۔ چین میں زنجیانگ کی صورتحال کا‘ روس کو پوری طرح اندازہ ہے۔ایمن الظواہری صاحب‘ برصغیر میں اپنا تنظیمی نیٹ ورک مضبوط کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔برصغیر کی اصطلاح سے صاف ظاہر ہے کہ ان کی نگاہیں برما‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا پر بھی ہیں۔ پاکستان پر وہ پہلے ہی سے مہربان ہیں۔امریکی سرپرستی میں دہشت گردی کا بھیانک عفریت‘ جس طرح اپنے سائے پھیلا رہا ہے‘ اسے دیکھ کر اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ جدید ترین اسلحہ زیادہ خطرناک ہے یا دہشت گردی کا ہتھیار؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں