"NNC" (space) message & send to 7575

ہرچہ باداباد

فرسودہ سیاسی اور معاشرتی روایات کے مضبوط جال کو توڑ کر ‘نئی راہیں نکالنے والے سیاسی رہنما‘ مدت کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ یوں تو ہم بھارتی جمہوریت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے‘ لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ وہاں سیاسی استحکام کے باوجود‘ ایسا ایک بھی لیڈر پیدا نہیں ہوا جیسے تحریک آزادی کے دوران کانگریس یا دیگر ہندو لیڈروں میں پیدا ہوئے تھے۔ مہاتما گاندھی‘ پنڈت جواہر لال نہرو‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ جے پرکاش نارائن‘ ڈاکٹر امبیدکر‘ سردار پٹیل‘ سبھاش چندر بوس‘ یہ سب اپنے زمانے کے عہدساز لیڈر ہیں۔ آزادی کے بعد‘ بھارت نے آج تک اس قدوقامت کا کوئی لیڈر پیدا نہیں کیا۔کیا بھارت بانجھ ہو گیا؟ یا حالات کا فرق Larger Than Life لیڈروں سے محرومی کا باعث ہے؟میں اس کی وجہ حالات کے فرق کو قرار دوں گا۔جبر‘ غلامی‘ آزادیوں سے محرومی کے ماحول میں غیرمعمولی انسانی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔ جبکہ کسی قوم کو خواہشات کی تسکین کا ماحول میسر ہو جائے تو وہاں نہ چیلنج درپیش آتے ہیں اور نہ غیرمعمولی صلاحیتوں کے لیڈر پیدا ہوتے ہیں۔ اس بحث کو میں طول نہیں دینا چاہتا کیونکہ آج یہ میرا موضوع نہیں‘ ورنہ یہ کلیہ نہیں کہ آزاد اور مستحکم معاشروں میں بڑے لیڈر پیدا نہ ہوں۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ اس پر پھر کبھی بات کروں گا۔ فی الحال مجھے یہ کہنا ہے کہ بانی پاکستان نے تو دور غلامی میں جنم لیا تھا اور تاریخ کے عظیم ترین رہنمائوں میں جگہ پائی۔ لیکن موجودہ پاکستان میں محض 50سال کے عرصے کے اندر دو عہد ساز لیڈر پیدا ہو چکے ہیں۔ کسی لیڈر کی قدروقیمت کا تعین‘ اس کے ہم عصروںکے خیالات سے نہیں کرنا چاہیے۔ ہر لیڈر کی عظمت اور اس کے کارہائے نمایاں کا تعین‘ اس کا وقت گزر جانے کے بعد ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ گزرا ہوا وقت جتنا طویل ہو‘ اتنا ہی اس کے پرکھنے کے معیار ‘بہتر ہوتے جاتے ہیں۔ 
میں آزادی کے بعد ‘پاکستان میں پیدا ہونے والے جن دو بڑے لیڈروں کا ذکر کرنے چلا ہوں‘ ابھی تک دونوں ہی متنازعہ ہیں۔ بھٹو صاحب کی خوبیوں سے انکار کرنے والوں کی کمی نہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کے سیاسی جانشین بھی ہیں۔ میری نظر میں‘ بھٹو کے تاریخ ساز کردار کی صحیح پہچان تب ہو سکے گی‘ جب ان کے ہم عصروں اور ان کے سیاسی وارثوں کا زمانہ گزر چکا ہو گا۔ دوسرے عمران خان ہیں‘ جنہوں نے فرسودہ روایات کے سنسان جنگل میں‘ ابھی قدم ہی رکھا ہے اور جنگل کی حالت وہی ہے جو اچانک کسی اجنبی کی آمد پر وہاںکے باسیوں کی ہوتی ہے۔ سب اپنی اپنی آنکھوں میں حیرتیں لئے‘ خوفزدہ آوازیں نکالتے ہوئے ادھر ادھر دوڑتے اور اجنبی سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن تاریخ جس سے ‘ جس سطح پر‘ جو کام لینا چاہتی ہے‘ اسے وہ خود ہی تلاش کر کے تراش لیتی ہے۔ عمران خان ہماری فرسودہ سیاست کے جنگل میں‘ 18برس پہلے اجنبی کی حیثیت میں اترا تھا اور مختلف راستے ‘ جمگھٹے اور ٹھکانے دیکھتا ہوا‘ اپنے مقصد کی تلاش میں کامیاب ہو گیا۔ آج وہ عہد سازی کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہو چکا ہے۔ اسی کیفیت کو میں نے ایک کالم میں یوں بیان کیا تھا: 
عمران کے ہاتھوں میں ہیں لمحوں کی لگامیں
یہ دھرنے‘ یہ سازشوں کی کہانیاں‘ یہ خنجرگھونپنے والے بروٹس‘ تحقیر کرنے والے بونے اور مشترکہ مفادات کو خطرے میں دیکھ کریکجا ہونے والے ایک دوسرے کے دشمن اور ترغیبات دینے والے قارون‘ سب اپنی اپنی نگاہ اور بساط کے مطابق ‘ عمران کی حیثیت کے اندازے لگائیں گے اور اپنے اپنے بچائو کی راہیں ڈھونڈیں گے۔لیکن اب عمران ‘ لٹیروں کی منڈلی میں شامل ہو کر‘ اپنے مقصد کی طرف پیش قدمی نہیں روکے گا اور روکے گا تو انہی کی طرح ہو جائے گا جن کے حملوں سے بچتے بچاتے‘ وہ آج اس مقام تک پہنچا ہے کہ اپنے مقصد کو واضح طور پر دیکھتا ہوا آگے بڑھ سکے۔ عمران کے بہت سے خیرخواہ بھی موجودہ حالات کو مشکل سمجھتے ہوئے‘ اسے سمجھوتے کرنے کے مشورے دے رہے ہیں۔ ایک ماہ پہلے میں نے بھی یہی لکھا تھا کہ ایک حد تک آگے بڑھ کر‘ جتنی کامیابی مل سکتی ہے‘ وہ حاصل کر کے مزید کے لئے جدوجہد کرنا چاہیے۔ لیکن وہ وقت نکل چکا۔ عمران کی آوازمیں‘ اب کروڑوں لوگوں کی آوازشامل ہو چکی ہے۔ 
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب میرے رازداں ''ہر طرف ہیں‘‘
(اقبال ؒسے معذرت)
عمران کو اب اپنے لوگوں کا ساتھ دینا ہو گا جو اُس کی آواز میں اپنی آوازیں ملا چکے ہیں۔ عمران اب اپنی آواز کا خود مالک نہیں۔ وہ کروڑوں آوازوں کا امین ہے۔ جہاں تک ریت رواج کا تعلق ہے‘ پاکستانی سیاست اب صرف دولت اور مفادات کا کھیل رہ گیا ہے۔ اس سیاست کے دامن میں عوام کو بھیک دینے کے لئے بھی کچھ نہیں۔ سیاست صرف دولت کا کھیل ہے۔ دولت کے کھیل میں شریف خاندان کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ دولت کے اوپر صرف عوام ہیں۔ عوام نے اپنی آواز‘ عمران کی آواز میں ملا کر‘ اسے سب پر بھاری کر دیا ہے۔اب اسے چھوٹی چھوٹی چیزوں کی طرف دیکھنا بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ جو لوگ آج بھی عمران کو پچھتاوا دلا رہے ہیں کہ اس نے سمجھوتے کا فلاں موقع گنوا دیا‘ وہ پیش کش مان جاتاتو بہت کچھ مل سکتا تھا اور یہ کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑا‘ عمران کو چاہیے سمجھوتا کر لے۔ انہیں عمران کی اس طاقت کا اندازہ ہی نہیں‘ جو دھرنوں کے دائرے سے بلند ہو کر پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ عمران اگر اب سمجھوتا کرے گا تو یہ اپنے بلند قدوقامت کو بھول کر‘ بونوں کی منڈلی میں شامل ہونے کے مترادف ہو گا اور ان کے ساتھ مل کر وہ حاصل کیا کرے گا؟ یہی بونے اپنی ختم ہوتی ہوئی زندگی کا عرصہ مزید دراز کر لیں گے اور ہو سکتا ہے‘ عمران کی زندگی کا عرصہ مختصر کر دیں۔ 
پاکستانی عوام نے بے حد تکلیفیں اور صدمے اٹھاکر‘ بھٹو کے بعد‘ عمران کو اپنی امیدوں کا مرکز بنایاہے۔ بے شک بھٹو‘ ان کی امیدیں پوری نہیں کر سکے۔ جتنی صلاحیتیںاور عوامی تائید و حمایت کی جتنی طاقت‘ اللہ تعالیٰ نے بھٹو کو دی تھی‘ وہ چاہتے تو عوام کی محبتوں کی طاقت ملا کر‘ ناقابل تسخیر ہو سکتے تھے۔ ایسا نہ ہو سکا۔ بھٹو صاحب کو خود بھی اس کا احساس اور پچھتاوا تھا۔ انہوں نے زندگی کے آخری دنوں میں جو کتاب کاغذوں کے ٹکڑے اور سگریٹوں کے خالی پیکٹ جمع کر کے‘ ان پر لکھی اور ایک ایک پرزے کی شکل میں باہر بھیجی تھی‘ اس میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ انقلاب کا راستہ چھوڑ کر مجھ سے غلطی ہو گئی۔ عمران خان واحد لیڈر ہیں جو بھٹو کے اس اعتراف سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بھٹو نے اپنی غلطی یہ بتائی تھی کہ وہ جاگیرداروں اور موقع پرستوں کے حصار میں آ کر‘ عوام سے دور ہو گئے تھے۔ عمران خان واحد لیڈر ہیں جو بھٹو صاحب کے اس اعتراف سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 18سال پہلے میں نے انہیں کہا تھا کہ سیاست کرنے کے لئے آپ کو الیکشن جیتنے والے امیدواروں کی بھی ضرورت پڑے گی۔ یہ میں نے اس وقت کہا تھا۔ اب عمران خان کو عوام کی محبت اور حمایت نے دوسروںکی محتاجی سے آزاد کر دیا ہے۔ بھٹو صاحب نے جتنے کھمبے کھڑے کئے‘ وہ بھی جیت گئے تھے۔ انہوں نے خواہ مخواہ‘ ماضی میں انتخابی کامیابیاں حاصل کرنے والے روایتی سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر ٹکٹ دیئے اور خسارے میں رہے۔ آج عمران خان بھی اسی پوزیشن میں ہیں۔ الیکشن جب بھی آیا ‘ عوام ان کے کھمبوں کو ووٹ دیں گے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے کھمبے‘ عوام کے اندر ہی سے چنیں۔ یہ تصور غلط ہے کہ اسمبلیوں میں آ کر لوگ بگڑ جاتے ہیں۔ وہ صرف اس وقت بگڑتے ہیں جب لیڈر‘ مفادپرستوں کے گھیرے میں آ جائے۔ معلوم نہیں کیوں؟ مجھے عمران سے امید ہے کہ وہ اس گھیرے میں نہیں آئے گا۔ رہ گیا یہ سوال کہ اس کی مخالفت میں کتنی آوازیں بلند ہو رہی ہیں؟ یہ عمران کو سنائی ہی نہیں دینی چاہئیں۔ طاقتور سے طاقتور آواز بھی‘ عوام کی آوازوں کی دبیز تہوں کو چیر کے‘ راستہ نہیں نکال پائے گی۔عمران کو اب صرف عوام کے ساتھ رابطوں کو مسلسل بحال رکھنا چاہیے اور فارغ اوقات میں ہوم ورک کرنا چاہیے کہ ماضی کے ملبے کو کون سے طریقوں سے صاف کرنا ہے؟ اور نئے پاکستان کی تعمیر میں کیا کیا میٹریل استعمال کرنا ہے؟ اہم ترین بات یہ ہے کہ جدیدانتظامی اور ٹیکنالوجی کی سہولیات سے فائدہ اٹھا کر‘ عوام کے ووٹ پر ڈاکہ زنی کو ناممکن کر دیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں