بلاول بھٹو نے قومی سیاست میں اپنی آمد کا اعلان‘ ایک معافی نامے سے کیا۔ اس میں انہوں نے پارٹی سے مایوس ہونے والے کارکنوں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا ہے ع
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
وہ جس پارٹی کی قیادت کرنے کے لئے میدان عمل میں اترنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ اس میں ماسوا چند دیوانوں کے‘ بھٹو صاحب کے نظریات اور بے نظیر شہید کی سیاسی عملیت پسندی اور سازشوں کی مزاحمت کرنے کی اہلیت سے‘ کوئی خاص واسطہ نہیں۔ ان کے والد محترم آصف علی زرداری سازشوں کا مقابلہ کرنے اور پھر خود حفاظتی کی تدبیروں سے کام لینا تو خوب جانتے ہیں‘ لیکن مستقبل کے وہ خواب‘ جو بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹودیکھا کرتی تھیں‘ زرداری صاحب کا نہ تو ان خوابوں سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ان کے پاس اپنے خواب ہیں‘ جن کی تعبیر حاصل کرنا ان کا مقصد ہو۔ انہوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ ان 5 سالوں کے دوران کیا‘ جب وہ ملک کے صدر رہے‘ مگر یہ تمام صلاحیتیں خود حفاظتی کے تقاضے پورے کرتی رہیں۔ مثلاً ان پرجو مقدمات تھے‘ انہیں منصب صدارت پر فائز ہو کر‘ زرداری صاحب نے غیرموثر کر دیا‘ لیکن اپوزیشن نے ان پر سب سے بڑا حملہ سوئس اکائونٹس کا مقدمہ کھولنے کی کوشش میں کیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب‘ اس کام پر تلے دکھائی دے رہے تھے کہ وہ سوئس کیس کھول کر صدر کو نہ صرف ہراساں کریں گے بلکہ برطرف کر کے انہیں سزا بھی دیں گے۔ چیف جسٹس کو اپوزیشن کی غیر مشروط اور غیرمحدود حمایت حاصل تھی۔ 90فیصد میڈیا‘ زرداری صاحب کے خلاف تھا اور ان پر چاروں طرف سے حملوں کا سلسلہ متواتر جاری رکھا گیا۔ سکینڈل کے بعد سکینڈل گھڑ کے‘ ان کی تشہیر کی گئی۔ مسلسل یہ مہم چلائی جاتی رہی کہ صدر کو کسی بھی وقت نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ چیف آف آرمی سٹاف سے مسلسل اپیلیں کی گئیں کہ وہ زرداری حکومت کا خاتمہ کر کے‘ ان کی پارٹی کو ایوان اقتدار سے باہر نکال دیں۔ ان اپیلوں کے ساتھ فرضی کہانیاں بھی منظرعام پر لائی جاتیں‘ جن میں بتایا جاتا کہ اب زرداری حکومت ختم ہونے کو ہے۔ ہر سال کوئی نہ کوئی تاریخ دی جاتی کہ زرداری صاحب اس دن فارغ ہو جائیں گے۔وہ بغرض علاج بیرون ملک جاتے‘ تو ایسے تبصروں اور خبروں کی بھرمار ہو جاتی‘ جن میں بتایا جاتا کہ اب زرداری صاحب واپس نہیں آئیں گے۔
دو واقعات ایسے ہوئے‘ جن میں زرداری صاحب کو فارغ ہی نہیں بلکہ جیل میںبھیجنے کی پوری تیاریاں کرنے کے قصے کہانیاں عام ہوئے۔ ایک مرتبہ جب وہ علاج کے لئے دبئی روانہ ہوئے تو بڑے اعتماد سے یہ خبریں اور تجزیے شائع ہونے لگے کہ صدر کی زندگی خطرے میں ہے‘ اب وہ شاید ہی وطن واپس آئیں۔ اتفاق یہ ہوا کہ دبئی ہسپتال میں داخلے کے بعد چند روز ‘ ان کی کوئی تصویربھی شائع نہ ہوئی۔ اس بات کو بھی بطور ثبوت پیش کیا جانے لگا کہ زرداری صاحب کی حالت بہت خراب ہے۔ کئی دنوں کے بعد‘ ہسپتال سے ان کی تصویر سامنے آئی‘ تو ان کی غیریقینی حالت کے پراپیگنڈے نے دم توڑا۔ لیکن ڈھیٹ قسم کے مخالفین پھر بھی اصرار کرتے رہے کہ اصل بیماری کو چھپا لیا گیا ہے۔ اب صدر ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہیں رہیں گے‘ لیکن زرداری صاحب نے صحیح سلامت اور تندرست و توانا حالت میں واپس آ کر‘ مخالفین کے منہ بند کر دیئے۔ میموگیٹ کا حملہ بہت شدید تھا۔آئی ایس آئی کے ایک افسر‘ جنرل پاشا نے کسی تھرڈ کلاس اور فلاپ فلم کاپلاٹ تیار کر کے‘ صدر مملکت کو غداری کے الزام میں برطرف اور قید کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ اس منصوبے میں طاقت کے تمام بڑے مراکز کو شامل کر لیا گیا۔ مثلاً عدالت عظمیٰ کی طرف سے اس کیس کی تحقیقات شروع کرا دی گئیں‘ جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ حسین حقانی کے نام سے ایک خط منسوب کر کے‘ الزام لگایا گیا کہ یہ صدر زرداری کے ایما پر ‘ جنرل مولن اور ان کے ذریعے صدر اوباما تک پہنچایا جائے۔ اس میں فوج پر الزام لگایا گیا کہ وہ منتخب حکومت کو ختم کرنے کی سازش کر رہی ہے اور اس سلسلے میں صدر اوباما جمہوری حکومت کی مدد کریں۔ پاشا صاحب نے ساری پراپیگنڈہ مشینری کا رخ ایوان صدر کی طرف کر دیا۔ ایک گمنام کردار‘ منصور اعجاز نامی شخص کی خدمات حاصل کر کے لندن کے اخبار ''فنانشل ٹائمز‘‘ میں ایک مضمون شائع کیا گیا‘ جس میں اس نے لکھا کہ حسین حقانی نے ‘ صدر پاکستان کی طرف سے ایک خفیہ خط ‘ جنرل مولن تک پہنچانے کے لئے اسے دیا۔ (چند روز پہلے وہ ننگی عورتوں کی کشتیوں میں ریفری بن کے بیٹھا دکھائی دیا)۔ اس خط کی بنیاد پر‘ جنرل پاشا نے ایک لمبی چوڑی کہانی گھڑ کے‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کو قائل کیا کہ اس خطرناک سازش کی انکوائری کی جائے۔ عدالت نے فوراً ہی کمیشن بنا دیا۔ منصور اعجاز‘ پاکستان میں عوامی ردعمل سے ڈر کے یہاں آنے سے خوفزدہ تھا۔ چنانچہ سپریم کورٹ نے ایک تحقیقاتی کمیشن بنا کر کارروائی کرنے کا حکم دے دیا۔ منصور اعجاز کو اجازت دی گئی کہ وہ لندن میں بیٹھ کر‘ سیٹلائٹ ٹرانسمیشن کے ذریعے گواہی دے سکتا ہے۔ اسے یہ سہولت فراہم کر دی گئی‘ لیکن جب حسین حقانی نے‘ آئی ایس آئی کے افسر کے معاندانہ رویے کو دیکھتے ہوئے‘ اپنے لئے وہی سہولت مانگی‘ جو منصور اعجاز کو دی گئی تھی‘ تو سپریم کورٹ نے اس سے انکار کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل کیانی خود بھی اس کیس میں ملوث ہوئے اور انہوں نے ایوان صدر پر دبائو ڈالا کہ حسین حقانی کو پاکستان طلب کیا جائے۔ حسین حقانی پاکستان آئے۔ انہیں اندیشہ تھا کہ جنرل پاشا انہیں پھڑکا دیں گے‘ لیکن صدر زرداری نے انہیں خصوصی سکیورٹی فراہم کر کے‘ اپنا مہمان رکھا اور جنرل پاشا کی کوششوں کے باوجود ‘ حسین حقانی کو بخیروعافیت پاکستان سے باہر بھیج دیا گیا۔ دوسری طرف کیس کو مضبوط کرنے کیلئے خود جنرل پاشا اور جنرل کیانی دونوں نے‘ اپنے بیان حلفی سپریم کورٹ میں جمع کرائے‘ جن میں اس فرضی کیس کے حق میں موقف اختیار کیا گیا۔ اس کیس کی تفصیل بہت لمبی چوڑی ہے۔ میں نے واقعات کومحض سرسری طور سے لکھا ہے۔
زرداری صاحب کو کبھی خود وقت ملا‘ تو ہو سکتا ہے‘ وہ اس تباہ کن سازش کا پس منظر عوام کے سامنے لے آئیں‘ لیکن جو کچھ میں ان دنوں سنتا اور پڑھتا رہا ہوں‘ اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ صدر کو گھیرنے کی پوری طرح تیاری کی جا چکی ہے۔ ایک اور بھٹو کیس شروع کر کے‘ صدر زرداری کوسزائے موت تک پہنچایا جائے گا۔ زرداری صاحب نے اپنی زندگی اور پاکستان کو مارشل لا سے کیسے بچایا؟ اس کی کہانی تاریخ کی چند سنسنی خیز سازشوں میں سے ایک ثابت ہو گی۔ برسبیل تذکرہ عرض کرتا چلوں کہ غداری کے اس مقدمے کی تیاری میں عدالت کی مدد کرنے کے لئے جناب نوازشریف خود کالاکوٹ پہن کر سپریم کورٹ جا پہنچے تھے۔ انہوں نے وکالت کی ڈگری عرصہ پہلے حاصل کر رکھی ہے‘ لیکن کبھی عدالت میں نہیں گئے۔ صرف غداری کے اس کیس میں پیش ہونے کے لئے‘ وہ عدالت میں پہنچ گئے تھے۔ چند روز پہلے اسی آصف زرداری نے نوازشریف حکومت کوبحران سے نکالا اور اب تک اس کی مدد کر تے آ رہے ہیں۔ وہ محلاتی سازشوں سے نمٹنے کی بہترین صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ تو کر چکے ہیں‘ لیکن عوامی سیاست کا انہیں کوئی تجربہ نہیں۔مشکل یہ ہے کہ زرداری صاحب اپنے آپ پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک بہترین عوامی مقرر بھی ہیں۔ عوامی تحریک کی قیادت بھی کر سکتے ہیں۔ عالمی امور کو بھی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے وزیراعظم کوپوری طرح سے جکڑ کے رکھا ہوا تھا۔ ان کے پاس واحد اختیار یہ تھا کہ غریبی دور کریں۔ اس حوالے سے ایم بی بی ایس کی ایک اصطلاح بھی سامنے آئی تھی۔ ان کا ایک اور کارنامہ بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے صدر مملکت کے اس آمرانہ اختیار کا خاتمہ کیا‘ جو آئین کی دفعہ 58(2)B کے تحت صدر کو یہ اختیار دیتی تھی کہ جب چاہتا اسمبلیاں برخواست کر سکتا تھا۔
میرے نزدیک بلاول کا معافی مانگنا بلا ضرورت ہے۔ اس نوجوان کی سیاسی زندگی ہے ہی کتنی؟ اس کے پاس غلطی کرنے کا موقع ہی کب تھا؟ جس پر وہ معافی مانگتا‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب وہ قومی سیاست میں بھرپور حصہ لینے کا آغاز کر رہا ہے۔ اسے گھر سے ایک بات طے کر کے نکلنا ہو گا کہ والد صاحب سیاسی رہنمائی ضرور کریں گے لیکن فیصلوں کا اختیار بلاول کے پاس رہے۔ پارٹی کی تنظیم بلاول اپنی آزادانہ مرضی کے تحت کریں گے؛ البتہ انتخابی سٹریٹجی بنانے میں والد سے رہنمائی لیں گے۔ پارٹی کی تنظیم نو وہ خود کریں اور جن لیڈروں نے پارٹی کا عوامی کردار ختم کر کے‘ اسے اقتدار کے ثمرات سمیٹنے تک محدود کر دیا ہے‘ انہیں مکمل طور پر فارغ کر کے‘ نئے چہرے سامنے لائے جائیں۔ پرانے چہروں سے پارٹی ورکرز‘جس قدر بیزار ہیں‘ اس کا بلاول بھٹو اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ مگر مجھے ایساہوتا نظر نہیں آ رہا۔ بلاول بھٹو کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر جو لوگ‘ انہیں عوامی زندگی میں لا رہے ہیں‘ ان کی تو شہرت ہی بلاول کو لے ڈوبے گی۔ ایسے لوگوں کے کندھوں پر بیٹھ کر بلاول سیاست کرنے نکلیں گے‘ توان کے نانا اور والدہ محترمہ کی وجہ سے‘ لوگ جو امیدیں رکھتے ہیں‘ انہیں شدید مایوسی ہو گی۔لیکن یہ کام مشکل نہیں۔ ان کی والدہ نے بھی کم عمری میں ہی‘ بھٹو صاحب کے تمام وزیروں اور عہدیداروں کو فارغ کر کے‘ اپنی مرضی کی تنظیم بنائی تھی اور اسی کو لے کر ‘ ووہ دو بار اقتدار میں آئیں۔ محترمہ شہید ‘ان لوگوں سے ہمیشہ محتاط رہیں‘ جنہوں نے بھٹو صاحب کی پھانسی پر مٹھائیاں کھائیں اور خوشیاں منائیں۔ آج انہی میں سے چند لوگ ‘ بلاول کو ''نیک دلانہ‘‘ مشورے دے رہے ہیں۔