"NNC" (space) message & send to 7575

شہیدو! میں شرمندہ ہوں

واشنگٹن میں صدر اوباما اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے‘ خطے میں دہشت گردی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے‘ اسے ختم کرنے کے لئے تعاون کا اعلان کیا۔ مجھے نہیں پتہ کہ بھارت میں اس وقت کہیں بڑے پیمانے پردہشت گردی ہو رہی ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں ضرور دہشت گردی جاری ہے۔ لیکن یہ نہتے عوام کے خلاف ‘ بھارتی سکیورٹی فورسز کی دہشت گردی ہے۔ باقی بھارت کے جن صوبوں میں دہشت گردی کے اکادکا واقعات ہوتے ہیں‘ ان پر قابو پانے کے لئے مقامی پولیس ہی کافی رہتی ہے۔ مجھے یہ پڑھ کر تعجب ہوا کہ جس ملک نے دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے 50ہزار سے زیادہ انسانوں کی قربانیاں پیش کیں۔ ہزاروں شہریوں‘ بچوں‘ عورتوں اور بوڑھوں کو دہشت گردی کے واقعات میں جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ ہمارے کئی علاقوں پر دہشت گردوں نے قبضہ جمائے رکھا۔ خصوصاً شمالی وزیرستان کا علاقہ‘ دنیا میں دہشت گردوں کا سب سے بڑا اڈہ بن کر رہ گیا تھا۔ جہاں کم و بیش دنیا بھر کے دہشت گرد جمع ہو چکے تھے اور وہ شمالی وزیرستان سے نکل کر نہ صرف پاکستان کے شہروں اور حساس مراکز پر حملے کرتے رہے بلکہ دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی کی واردات ہوئی‘ اس میں شمالی وزیرستان سے گئے ہوئے دہشت گردوں نے تھوڑی یا زیادہ تعداد میں ضرور حصہ لیا۔ یہ دہشت گرد افغانستان میں سرگرم تھے ہی۔ انہوں نے عراق میں جا کر بھی وارداتیں کیں۔ لبیا کی خانہ جنگی میں شریک ہوئے۔ جس دہشت گرد نے لبیا کے سابق صدر پر آخری وار کئے‘ وہ لاہور سے گیا ہوا ایک دہشت گرد تھا۔ ان دنوں دہشت گردوں کا بدنام زمانہ خراسانی گروپ‘ جس کا مرکز شمالی وزیرستان ہے‘ اس کے اراکین داعش کے ساتھ مل کر شام اور عراق دونوں میں دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں۔
پاکستان واحدملک ہے‘ جو دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف باقاعدہ برسرجنگ ہے۔ ہماری مسلح افواج نے حال میں‘ عالمی دہشت گردوں کے سب سے بڑے مرکز‘ شمالی وزیرستان میں دلیرانہ کارروائیاں کر کے‘ ان کے اڈوں‘ کمین گاہوں‘ زیرزمین مراکزاور اسلحہ کے ذخیروں کو تباہ و برباد کر کے‘ بیرون ملک سے آئے ہوئے دہشت گردوں کو تتربتر کر دیا ہے۔ اس فوجی آپریشن میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اتنی بڑی تعداد میں دنیا کا کوئی بھی ملک دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں کر سکا۔ جبکہ مجموعی طور پر ہماری فوج نے‘ دہشت گردوں کے خلاف جو کارروائیاں کیں‘ ان میں ہزاروں انسانیت دشمنوں کو مارا جا چکا ہے۔ ماضی میں پاکستان کے فوجی آمروں یا کمزور سول حکومتوں کے ادوار میں‘ دہشت گردوں کو پاکستان سے نہ صرف سہولتیں دی جاتی رہیں بلکہ انہیں ہر طرح کا اسلحہ‘ نقل و حرکت کی آزادی اور خفیہ مراکز قائم کرنے کی سہولتیں دی گئیں۔ یہ سب آمروں کا کیا دھرا ہے کہ پاکستان بدقسمتی سے‘ دنیا میں دہشت گردوں کا سب سے محفوظ اور مضبوط ٹھکانہ کہلایا جانے لگا۔ 2008ء میں طویل عرصے کے بعد‘ پاکستان میں فوجی آمریت ختم ہوئی‘ تب امریکہ ‘ دہشت گردی کے خلاف مہم میں پاکستان کی جو مدد کر رہا تھا‘ اس سے بھی دستکش ہو گیا۔ بلکہ کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت‘ وہ جو تھوڑی بہت امداد دیا کرتا تھا‘ وہ بھی بند کر دی۔ لیکن جب سے پاک فوج کی قیادت تبدیل ہوئی ہے اور جنرل راحیل شریف نے منافقانہ رویہ ترک کر کے‘ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی شروع کی ہے‘ اس وقت سے پاکستان میں دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حرکت دم توڑ رہی ہے۔ جنرل راحیل نے آتے ہی دہشت گردوں کے بدنام زمانہ مرکز‘ شمالی وزیرستان کے خلاف موثر فوجی کارروائی کافیصلہ کیا۔ لیکن منتخب حکومت نے نامعلوم وجوہ کی بنا پر‘ دہشت گردوں سے مذاکرات کایک طرفہ فیصلہ کر ڈالا۔ دہشت گردوں نے کمال ہوشیاری سے‘ مذاکرات کی اس پیش کش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اپنا کوئی عہدیدار‘ مذاکرات کے لئے نامزد نہیں کیا۔ صرف پاکستان کے چند مولانا حضرات کو اپنا نمائندہ قرار دے کر‘ مذاکراتی ٹیم کا نام دے دیا اور پاکستان کو ان کے ساتھ مذاکرات میں الجھا کر‘ طالبان کو وقت حاصل کرنے کاموقع فراہم کیا گیا۔ طالبان نے اس کا فائدہ اٹھا کر‘ بدنام زمانہ دہشت گردوں اور زیادہ تجربہ کار جنگجوئوں کو‘ شمالی وزیرستان سے نکل جانے کے مواقع مہیا کئے۔ اس دوران سوات سے نکلے ہوئے دہشت گرد‘ نہ صرف جنوبی پنجاب کے چند اضلاع میں جا کر چھپ گئے بلکہ ان کی ایک اچھی خاصی تعداد‘ افغانستان میں جا کر‘ ٹھکانے بنانے میں کامیاب ہو گئی اور بہت سے دہشت گرد‘ عراق اور شام جا کر کارروائیوں میں شامل ہو گئے۔ 
فوج نے بے معنی مذاکرات کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ شمالی وزیرستان کے خلاف منظم کارروائی شروع کر دی۔ اس میں پاکستان کی بری فوج کے ساتھ‘ پاک فضائیہ نے بھی حصہ لیا اور دہشت گردی کے خفیہ ٹھکانوں پر‘ موثر فضائی حملے کر کے‘ ان کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ فوج اس کارروائی کے لئے بہت عرصہ پہلے آپریشن کی تیاری کر چکی تھی۔ لیکن اس وقت کے جنرل کیانی نے‘ بغیر کسی وجہ کے لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دیا اور آپریشن شروع کرنے کا حکم دینے سے گریزاں رہے۔ یہ انکشاف آئی ایس پی آر کے سابق ڈائریکٹر جنرل‘ اطہر عباس نے ایک انٹرویو میں کیا۔ لیکن جنرل راحیل کی قیادت میں‘ جب سے پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا ہے‘ فوجی کارروائی مکمل عزم و ارادے اور پاک فوج کی روایتی جرات اور بہادری کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ پاکستان نے یہ کارروائی شروع کرتے وقت‘ کسی بیرونی طاقت سے مدد نہیں چاہی۔ جو کچھ ہم نے کیا‘ اپنے وسائل کے بل بوتے پہ کیا اور کرتے جا رہے ہیں۔ پاک فوج کے آپریشن کے بارے میں پورے یقین اور اعتماد سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم اپنی سرزمین پر‘ دہشت گردی کے خلاف پوری دنیا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم‘ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں‘ شرکت کے لئے گئے‘ تویہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ امریکیوں نے‘ دہشت گردی کے معاملے میں بھارتی وزیراعظم کے ساتھ تو غوروفکر کرتے ہوئے‘ 
باہمی تعاون کی ترکیبیں سوچیں۔ لیکن پاکستان جو دہشت گردی کے خلاف‘ طویل مدت سے جنگ لڑ رہا ہے اور آج اس کی فوجیں جتنے بڑے محاذ پر‘ دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں‘ دنیا میں کسی ملک کی فوج ‘ اتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی۔ اس کے باوجود ہم سے‘ اس مسئلے پر نہ تو امریکی حکومت نے کسی بھی سطح پر بات چیت کی اور نہ ہی داعش کے خلاف حال میں قائم کئے گئے‘ 40قوموں کے نئے اتحاد کے کسی رکن نے‘ پاکستانیوں سے تبادلہ خیال کیا۔ حالانکہ اس موضوع پر بات چیت کرنے کا سب سے زیادہ حق پاکستان کا ہے۔ داعش کے خلاف جو عالمی سطح پر محاذ قائم ہوا ہے‘ اس کے 40اراکین میں سے کسی ایک نے بھی‘ اس جنگ کو اہمیت نہ دی‘ جو پاکستان دہشت گردوں کے خلاف پوری طاقت سے لڑ رہا ہے۔پاکستانی عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا یہ جنگ صرف پاک فوج کی ہے؟ حکومت پاکستان کے ایجنڈے میں اس کی کوئی اہمیت نہیں؟ پاکستان کی وزارت خارجہ کیا کر رہی ہے اور کیا کرتی رہی ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شمالی وزیرستان کا آپریشن شروع ہوتے ہی پاکستان یورپ‘ امریکہ‘ چین حتیٰ کہ بھارت میں بھی‘ خصوصی نمائندے بھیج کر عالم انسانیت کی اس جنگ کے بارے میںآگاہ کرتا اور کسی نہ کسی انداز سے دہشت گردی سے متاثر ہونے والے ملکوں کو‘ پاکستان کی اس جنگ پرمعلومات فراہم کی جاتیں‘ جو وہ پوری دنیا کے لئے لڑ رہا ہے۔ پراپیگنڈے کے محاذ پر سب سے تعاون کے لئے کہا جاتا کہ ان کے ذرائع ابلاغ اپنے اپنے عوام کو یہ بتا سکتے کہ پاکستان اس وقت کتنے خلوص اور دلجمعی سے‘ پوری انسانیت کے دشمنوں کے ساتھ برسرپیکار ہے۔ کیا ہماری وزارت خارجہ یہ کوشش نہیں کر سکتی تھی کہ جنرل اسمبلی میں لابنگ کر کے ‘ عالم انسانیت کی یہ جنگ لڑنے پر‘ پاکستان کے حق میں ایک تاریخی قرار داد ہی منظور کرا لی جاتی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر بروقت اور خلوص دل سے کوشش کی جاتی‘ تو یقینی طور پر عالمی برادری کی طرف سے‘ پاکستان کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی تھی‘ جو ہمارے جوانوں اور افسروں کے لئے عالم انسانیت کی طرف سے یکجہتی کا پیغام ہوتا۔ ہمارے ارباب اقتدار نے سیاسی طور پر‘ ملک میں اپنے لئے جو بلاوجہ کی مشکلات پیدا کر رکھی ہیں‘ انہیں ایک لمحے میں ختم کر کے‘ قوم کی توجہ دہشت گردی کے خلاف‘ جنگ کی طرف مبذول کرائی جا سکتی تھی۔ پارلیمنٹ کا جو اجلاس‘ فوج کے خلاف الزام تراشی پر ضائع ہوا‘ اسی طرح کا اجلاس فوجیوں کے حوصلے بلند کرنے اور انہیں عوام کی حمایت کا یقین دلانے کی خاطر کرایا جا سکتا تھا۔ افسوس! کہ اس جنگ میں پاک فوج کو نہ تو اندرون ملک سے بھرپور تائیدوحمایت مل رہی ہے‘ جس کی وہ بجا طور پر حق دار ہے‘ نہ ہی عالمی برادری کی طرف سے۔ دنیا کا کوئی ملک‘ جنگ لڑتی ہوئی اپنی فوج کو یوں نظرانداز کرتا ہے؟ جیسے ہم نے کر رکھا ہے۔ حد یہ ہے کہ ہمارا میڈیا بھی سیاستدانوں کی بے معنی اور بیہودہ کشمکش پر‘ زیادہ توجہ دے رہا ہے ۔ اخباروں اور ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز میں‘ سیاستدانوں کے بے مغز بیانات کو اہمیت دی جاتی ہے اور آپریشن ضرب عضب کی خبروں کو یوں جگہ دی جاتی ہے‘ جیسے یہ دنیا کے کسی دورافتادہ ملک میں‘کسی اجنبی قوم کی فوج لڑ رہی ہے۔میں اس جنگ میں قربانیاں دینے اور شہادتیں پیش کرنے والے جوانوں اور افسروں سے یہی کہہ سکتا ہوں کہ شہیدو! میں شرمندہ ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں