گزشتہ روز سیلاب کے متاثرین کو امداد دینے کے لئے ‘وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ شہبازشریف وزیرآباد گئے۔ امدادی رقوم دینے کی تقریب ایک ہال میں جاری تھی۔ کچھ متاثرین کو ہال میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ انہوں نے باہر کھڑے کھڑے‘ اپنی حالت زار بتاتے ہوئے‘ ن لیگ کے مقامی لیڈروں اور انتظامیہ کے لوگوں سے درخواستیں کیں کہ انہیں بھی مستحقین کی فہرست میں شامل کر کے‘ امداد دی جائے۔ دھکے ملنا شروع ہو گئے۔ جب وزیراعظم نوازشریف اپنی کار میں بیٹھ کر ‘واپس جانے لگے‘ تو ان دکھیاروں نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے احتجاجاً ''گونوازگو‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ امداد سے محروم‘ ان لوگوں پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں ‘ مقامی ایم پی اے توفیق بٹ‘ ان کے ساتھی مانی بٹ اور دوسروں نے حملہ کر دیا اور بھوکے ننگے لوگوں کی مکوں‘ لاتوں اور تھپڑوں سے تواضع شروع کر دی اور وہ ''گونوازگو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے‘ اپنی جانیں بچا کر بھاگ گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس پر حکمران خاندان کی طرف سے جو جواب آیا‘ اس میں دھمکی دی گئی کہ ''ایسی حرکات کرنے والے شیروں سے پنگا نہ لیں۔ ورنہ انہیں سر چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی۔‘‘ یہ پیغام وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کی طرف سے تھا‘ جو انہوں نے ٹویٹر پر دیا‘ لیکن ضرب مومن لگانے کی ذمہ داری‘ ان کے چچا شہبازشریف نے پوری کی۔ آپ نے فرمایا ''اللہ کے شیر جاگے‘ تو سرخی رہے گی‘ نہ پائوڈر۔‘‘ سرخی پائوڈر پر تو آخر میں تبصرہ کروں گا۔ فی الحال میں ارباب اقتدار کے اس حیرت انگیز ردعمل پر سوچ رہا ہوں کہ اچھے بھلے سمجھ دار ہوتے ہوئے بھی‘ چھوٹے میاں صاحب‘ تحریک انصاف کے شرارتی لوگوں کے جال میں کیوں پھنس گئے؟ یہ بات تو ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ جب شرارتی بچے کسی کو چھیڑنا شروع کر دیں‘ تو اس کے لئے سب سے بہتر راستہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں نظرانداز کرتے ہوئے‘ خاموشی سے گزر جائے۔ جو ایک بار ردعمل دے بیٹھا‘ و ہ پھنس گیا۔
اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ چھیڑخانی کرنے والوں کو کوئی نہ کوئی شکار مل ہی جاتا ہے۔ جیسے ایک سکول میں بچوں کی یونیفارم کا رنگ سبز تھا۔ انہیں دیکھ کر دوسرے بچے آوازے لگاتے ''دھنیے کی چٹنی۔‘‘ یونیفارم والے بچے‘ اس پر چڑتے اور لڑائیاں ہو جاتیں۔برصغیر کی عام شرارت یہ ہے کہ نوعمر نوجوان‘ بالوں سے فارغ کسی شخص کو دیکھتے ہی بڑے ادب سے اس کے پاس جاتے اور کہتے ''آپ کے پاس کنگھا ہو گا؟‘‘۔ سمجھدار لوگ مسکراتے ہوئے خاموشی سے آگے چل دیتے اور جو صاحب ایک مرتبہ غصے کا اظہار کر بیٹھتے‘ تو ان کا اس راستے سے گزرنا مشکل ہو جاتا۔ لڑکے جیسے ہی انہیں دیکھتے‘ کھیل چھوڑ کر آوازیں لگانے لگتے ''کنگھا۔ کنگھا۔ کنگھا‘‘ اور چڑنے والے بدنصیب کا نام ہی ''کنگھا‘‘ پڑ جاتا۔سیاستدان بھی ایک دوسرے کے نام بگاڑ کر انہیں چھیڑنے سے باز نہیں آتے۔ ایک زمانے میںایئرمارشل اصغر خان کا نام ''آلو خان‘‘ رکھ دیا گیا تھا۔ آلو سے ایئرمارشل کی کوئی نسبت نہیں تھی‘ لیکن یہ نام اتنی بار دہرایا گیا کہ آخر کار وہ بھی اس سے چڑنے لگے۔ بعض سیاستدان خود بھی اپنا نام ایسا رکھ لیتے ہیں کہ لوگ انہیں آتے جاتے چھیڑیں۔ لاہور میں ایک صاحب نے اپنا نام ''بابائے اردو ‘‘رکھ لیا تھا اور پھر خود اسی نام سے چڑنے لگے۔ جب انہیں کوئی ''بابائے
اردو‘‘ کہتا‘ تو وہ لڑنے کو آتے۔ایک شاعر نے اپنی غزل کی ردیف ''لق و دق‘‘ رکھ لی۔ عرصے تک یار لوگوں نے انہیں نے ''مسٹر لق و دق‘‘ کہہ کر بلایا اور ان کی خفگی کا سامناکیا۔کالج کا زمانہ ہر طالب علم کے لئے دلچسپ ہوتا ہے۔ چند لڑکے شرارتی ٹولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں اور وہ انہیں طرح طرح کے نام رکھ کر چھیڑتے ہیں۔ جیسے ''میدا مچھر‘‘۔ ''چھیما چھلی‘‘۔ ''گاما ٹرک‘‘۔ چھیڑخانیوں کی اپنی ایک دنیا ہے‘ جس سے لطف اندوز ہونے والے‘ اس سے محض تفریح کا کام لیتے ہیں۔ البتہ جو لوگ چھیڑخانیوں سے چڑنے لگتے ہیں‘ ان پر خصوصی توجہ مرکوز ہو جاتی ہے۔ چھیڑنے والے اتنا چھیڑتے ہیں کہ وہ بندہ خود زندگی سے عاجزآ جاتاہے۔ غالباً چوہدری اعتزاز احسن کو اس خطرے کا احساس ہے‘ جس میں انہوں نے وزیراعظم اور ان کے حامیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ''گونوازگو‘‘ کے نعروں سے بچنے کے لئے‘ کچھ عرصہ عوام میں آنا چھوڑ دیں۔ ورنہ ''گونوازگو‘‘ کی تکرار‘ ان کے اعصاب پر‘ بُری طرح سوار ہو جائے گی اور کوئی شخص ان کی طرف احترام سے بھی دیکھے گا‘ تو وہ یہی سوچیں گے کہ کم بخت ''گونوازگو‘‘ کہہ رہا ہے‘ لیکن اب تو پانی سر سے اونچا ہونے لگا ہے۔ وزیرصاحبان ''گونوازگو‘‘ کا نعرہ سن کر‘ جواب میں دھمکی دیتے ہیں'' ہم بھی تمہارے لیڈروں کے جلسوں میں گو عمران گو کے نعرے لگوا سکتے ہیں۔‘‘ لیکن پنجاب کے وزیراعلیٰ تو اپنے ماتحتوں سے بھی آگے نکل گئے۔ انہوں نے دھمکی دے ڈالی کہ ''اللہ کے شیر جاگے‘ تو سرخی رہے گی‘ نہ پائوڈر۔‘‘ لوگ حیران ہیں کہ نوجوان چھیڑ خانی تو‘ حکومت سے کرتے ہیں اور وزیراعلیٰ سرخی پائوڈر ختم کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ سرخی پائوڈر ختم کیسے کریں گے؟ کیا میک اپ کی دکانوں سے سارا سامان اٹھوا لیں گے؟ کیا بیوٹی پارلرز بند کرا دیں گے؟ یا ٹی وی سٹیشن یا فلم سٹوڈیوز میں‘ میک اپ رومز بند کرا دیں گے؟ وہ اور کیا کیا کریں گے؟ جن لوگوں کے ذہن میں گندے گندے خیالات آتے ہیں‘ ان میں سے ہو سکتا ہے کچھ یہ سمجھیں کہ وزیراعلیٰ‘ سرخی پائوڈر لگانے والی خواتین کا تعاقب شروع کر دیں گے‘ لیکن اب نہ تو ان کی عمر ہے اور نہ رتبہ کہ وہ سرخی پائوڈر لگانے والی خواتین کا تعاقب کریں۔ ویسے بھی خدا نے انہیں جو رتبہ دے دیا ہے‘ سرخی پائوڈر والیاں‘خود ان کا تعاقب کرتی ہوں گی۔ پھر یہ بھی واضح نہیں کہ ''سرخی رہے گی‘ نہ پائوڈر‘‘ کی دھمکی پر‘ وہ عمل کیسے کریں گے؟ کپڑے سے‘ سرخی پائوڈر والی خاتون کا چہرہ صاف کر دیں گے؟ یا محبت میں ناکام نوجوانوں کی طرح‘ ان کے چہرے پر تیزاب پھینک دیں گے؟ یا انہیں گھر پہنچا کر‘ بزرگوں کو حکم دیں گے کہ انہیں ابھی باتھ روم میں بند کر کے‘ نہانے پر مجبور کرو؟ ذہن میںطریقے تو اور بھی بہت سے آتے ہیں۔ مگر ایک وزیراعلیٰ کے حوالے سے‘ ان کا ذکر مناسب نہیں۔ ورنہ ہم نے توایسے فلمی ہیروز کاذکر بھی سن رکھا ہے‘ جن کے بارے میں مشہور تھا کہ جب رات کو گھر جا کروہ یہ کہہ کر کھانا کھانے سے انکارکرتے کہ ''بھوک نہیں۔‘‘ تو آگے سے بیوی جلا کٹا جواب دیتی ''بھوک کہاں رہے گی؟ پیٹ تو سرخی پائوڈر سے بھر آتے ہو۔‘‘مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ بیوی یہ طعنہ کیوں دیتی تھی؟ اور لوگ سرخی پائوڈر سے پیٹ کیسے بھرتے ہیں؟ یہ بھی کوئی کھانے پینے کی چیز ہے؟بہت سوچا کہ ''گونوازگو‘‘ کا نعرہ سن کر‘ وزیراعلیٰ نے ''سرخی رہے گی‘ نہ پائوڈر ‘‘ کی دھمکی کیوں دی؟ شہبازشریف ذاتی طور پر اسم با مسمیٰ یعنی شریف ہیں۔ فلمی ہیروز والے کام وہ نہیں کرتے۔ جہاں کہیں دل مچلا‘ شریعت کے مطابق‘ شادی کر لی۔ پھر وہ دکانوں‘ بیوٹی پارلرز‘ میک اپ رومز یا خواتین کے چہروں پر لگے ہوئے سرخی پائوڈر کے بارے میں‘ یہ ارادہ کیوں ظاہر کرتے ہیں کہ وہ یہ چیزیں نہیں رہنے دیں گے؟میرا خیال ہے یہ بات انہوں نے غصے میں کہی ہو گی۔ ورنہ ان کی نیت میں فتور نہیں آ سکتا۔ سرخی پائوڈر ختم کرنے کی دھمکی‘ خواجہ آصف یا غلیلی وزیر دے سکتے ہیں‘ مگر انہیں دھمکی دینے کی ضرورت ہی کیا؟ جہاں بھی سرخی پائوڈر پر بس چلتا ہے‘ یہ اسے رہنے نہیں دیتے۔ پارٹی کی بے بسی کا انتقام لے کر ہی چھوڑتے ہیں۔
سرخی پائوڈر کے قصے کو یہیں چھوڑتے ہوئے''گونوازگو‘‘ کے زبان زدعام نعرے کی طرف آتے ہیں۔ یہ ایک جانی بوجھی حقیقت ہے کہ حکومت جب بھی‘ عوامی نعروں کے جواب میں مشتعل ہو کر‘ جوابی کارروائی کرتی ہے‘جیسے ''سرخی پائوڈر پر حملہ‘‘ تو وہ خود خسارے میں رہتی ہے۔ عوام کے پاس تو اختیار ہی نہیں ہوتا کہ جس سے کام لے کر‘ وہ حکومت سے اپنی بات منوا سکیں۔ ان کے پاس صرف نعرے ہوتے ہیں‘ جو لگا کر وہ ارباب اقتدار کوچھیڑتے رہتے ہیں۔ اگر وہ خاموش رہیں‘ تو کام چلتا رہتا ہے۔ جواب دینے لگیں‘ توحکومت کتنے لوگوں کے پیچھے بھاگے گی؟ لوگ تو ہر گلی میں اور سڑک پر ہوتے ہیں۔ وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ اور وزرائے کرام کس طرف سے گزریں گے؟ گھر کے راستے پر بھی نعرے سنائی دیں گے۔ دفتر جاتے ہوئے بھی۔ تقریبات اور دعوتوں میں بھی۔ زبان زدعام ہونے والے نعروں سے جان چھڑانا مشکل ہوتا ہے اور جہاںحکومت جواب دینا شروع کر دے‘ پھر تو اور بھی مشکل ہو جاتاہے۔ ایک کی جگہ دس نعرے سنائی دینے لگتے ہیں۔ اس کا واحد علاج تو وہی ہے‘ جو ایوب خان نے کیا ۔انہوں نے اپنے بارے میں گندے گندے نعرے سنے‘ تو اہل خاندان سے کہہ دیا تھا کہ'' ایسی حکومت کا کوئی فائدہ نہیں‘ جہاں چھوٹے چھوٹے لوگ بھی کتا بلی کہنے لگیں‘‘ اور حکومت چھوڑ دی۔ ''گونوازگو‘‘ کے نعرے میں ایسی کوئی بات نہیںہے۔ لیکن یہ نعرے ''گو گو‘‘ تک کہاں رہیں گے؟ یہ آگے بھی بڑھ سکتے ہیں۔ وہاں تک بھی جا سکتے ہیں‘ جہاں ایوب خان کے خلاف لگنے والے نعرے چلے گئے تھے۔ حکومت کے لئے بہترین طریقہ یہی ہے کہ عوام کے نمائندوں سے بات چیت کر کے‘ عزت بچانے کا راستہ تلاش کر لے۔ ورنہ کہاں 20 کروڑ انسان اور کہاں حکمران اور ان کے چند گلو بٹ؟ آخر میں ایک سوال کہ سیاست میں خواتین کے حصہ لینے پر کسی سنجیدہ انسان کو سرخی پائوڈر کا طعنہ زیب دیتا ہے؟ سرخی پائوڈر اور مصنوعی بالوں میں کیا فرق ہے؟ ایسی باتوں کوطنزومزاح کا ہدف بنانایقینا خوش ذوقی نہیں۔