پاکستان اور بھارت کے درمیان‘ لائن آف کنٹرول پر ‘جو دوطرفہ مقابلہ ہو رہا ہے‘ وہ کئی وجوہ کی بنا پر دوررس نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ 200کلومیٹر تک‘ جو سرحدیں عملاً جنگ کی لپیٹ میں ہیں۔ ان میں ایک حصہ ایسا ہے‘ جس میں بھارت کا علاقہ لائن آف کنٹرول پر واقع ہے۔ جبکہ اس سے ملنے والا پاکستانی رقبہ‘ بین الاقوامی سرحد کا حصہ ہے۔ یعنی سیالکوٹ کی وہ سرحد‘ جس کے ایک طرف پاکستان ہے اور دوسری طرف جموں کا علاقہ۔ جس کی حیثیت متنازعہ ہے۔اس محاذ پر پاکستان کی طرف سے جو فائر کیا جاتا ہے‘ وہ متنازعہ علاقے میں جاتا ہے اور بھارت کی طرف سے جو فائر آتا ہے‘ اس سے بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ سرحدوں کے اس حصے پر‘ فائرنگ کا تبادلہ پیچیدہ صورتحال پیدا کر رہا ہے۔ بھارت نے کہیں جان بوجھ کرچھیڑخانی کے لئے محاذ کے اس علاقے کا انتخاب تو نہیں کیا؟ پاکستان ‘ بھارتی مقبوضہ علاقے پر‘ کوئی ایسی کارروائی نہیں کر سکتا ‘ جو پھیل کر دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ جنگ بھڑکانے کا سبب بن جائے۔ بھارت کے پاس ایسا کرنے کی متعدد وجوہ موجود ہیں۔ عملی طور پر وہ اس وقت بھی پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے‘ دو ملکوں کے درمیان باقاعدہ جنگ کا خطرہ پیدا کر رہا ہے۔ پاکستان موجودہ حالات میں‘ کسی بھی طرح کی جنگ کا خطرہ مول لینے کی پوزیشن میں نہیں۔ ہم دہشت گردی کے خلاف باقاعدہ جنگ میں شریک ہیں۔ بلوچستان اور کراچی کے حالات ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم اپنی فوج کو مزید کسی جنگ کی طرف دھکیلیں۔
بھارت متعدد وجوہ کی بنا پر‘ سرحدی چھیڑخانیاں کرنے پر مائل ہو سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کی حکومتوں نے‘ بعض اوقات اپنی داخلی ضروریات کی خاطر جنگ کا ماحول پیدا کیا۔ ہماری روایت یہ رہی ہے کہ جب کوئی حکومت داخلی مسائل کا شکار ہونے لگتی ہے‘ تو وہ دوسرے ملک کے ساتھ‘ جنگ کی صورتحال پیدا کر کے یا جنگ چھیڑ کے‘ اپنی سیاسی حیثیت مستحکم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ پاکستان نے ایسی کوششیں کم کی ہیں۔ جبکہ بھارت متعدد بار جنگ کی صورتحال پیدا کر چکا ہے۔ حالیہ تاریخ میں بھارت تین بار جنگ کے حالات پیدا کر چکا ہے۔ کارگل کی محدود لڑائی میں بھارت نے‘ اپنی فضائیہ کو استعمال کر کے‘ جنگ کی صورتحال پیدا کی۔ اگر وزیراعظم نوازشریف اس وقت ہنگامی بنیادوں پر‘ امریکہ سے مدد نہ مانگتے‘ تو جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ دوسری بار‘ بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے موقع پر‘ بھارت نے بین الاقوامی سرحدوں پرفوج بھیجنا شروع کر دی تھی۔ امریکی مداخلت پر اس نے فوج کی مزید نقل و حرکت روک دی۔ تیسرا موقع ممبئی میں‘ ہونے والی دہشت گردی کے موقع پر آیا۔ اس بار بھارت نے انٹرنیشنل سرحد پر فوجوں کو باقاعدہ متعین کر دیا تھا۔ اس بار بھی امریکی مداخلت سے جنگ کی کیفیت ختم ہوئی۔ اس میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس بار خدانخواستہ اگر باقاعدہ جنگ شروع ہوئی‘ تو اسے ایٹمی جنگ میں بدلنے سے روکنا انتہائی مشکل ہو گا۔ پاکستان ‘ بھارت کے ساتھ روایتی جنگ میں فتح یاب ہونے کی توقع نہیں کر سکتا اور نہ ہی جنگ کو طول دینے کی پوزیشن میں ہے۔ کھلی جنگ کی صورت میں یقینی دفاع کے لئے‘ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال‘ ہماری مجبوری بن جائے گا۔ بھارتی پالیسی سازوں میں بھی ایسے انتہاپسند موجود ہیں‘ جوپاکستان پر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خواب دیکھتے ہیں۔ جبکہ پاکستان کے پاس اپنی سلامتی اور دفاع کے لئے‘ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال‘ ناگزیر مجبوری بن جائے گا۔ بھارت کی موجودہ حکومت میں‘ بی جے پی کی تین اتحادی جماعتیں‘ انتہاپسندانہ رحجانات رکھتی ہیں۔ ان کے لیڈر برملا پاکستان پر قبضہ کرنے کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ یہ مذہبی جنونیوںسے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں‘ جو بھارت ماتا کی اکھنڈتا پر یقین رکھتے ہیں۔ دنیا کو اس خطرے کا پورا پورااندازہ ہے۔ اس کے باوجود بااثر قوتیں ‘ ایٹمی جنگ روکنے کے لئے مناسب اقدامات نہیںکر رہیں۔ پاک بھارت جنگ میں ایٹمی اسلحہ کے استعمال پر تمام بڑی طاقتیں موقع بہ موقع اظہار تشویش کرتی رہتی ہیں۔ لیکن جنگ کے خطرے کی جڑ‘ یعنی تنازعہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے سے گریزاں ہیں۔اس مسئلے کی کنجی بھارت کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا نہیں کہ پاکستان اور بھارت کی قیادتیں‘ تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کی اہلیت نہیں رکھتیں یا اس کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتیں۔پچھلی صدی کے آخر میں‘ واجپائی اور نوازشریف دونوں نے‘ پرامن حل کی بنیادیں دریافت کر لی تھیں۔ جن کا معاہدہ لاہور میں باقاعدہ تعین کر لیا گیا تھا۔ اس معاہدے کو دونوں ملکوں کے عوام سے تعلق رکھنے والے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے‘ بخوشی تسلیم کر لیا تھا۔ اگر دونوں مذکورہ لیڈروں کو‘ ایک سال کا وقت مل جاتا‘ تویہ تنازعہ کشمیر حل کرنے کے لئے باقاعدہ معاہدہ کر کے‘ برصغیر میں ایٹمی جنگ کا خطرہ ٹال سکتے تھے۔ افسوس کہ پاکستان کے چند خودسر لوگوں نے کارگل کی جنگ چھیڑ کے‘ امن کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اٹل بہاری واجپائی واحد لیڈر تھے‘ جو انتہاپسند اور اعتدال پسندوں کو مطمئن کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اب وقت گزر چکا ہے۔ بھارتی انتہاپسند‘ بی جے پی میں‘ قیادت کے فقدان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ نریندر مودی کو پارٹی کی قیادت پر فائز کرنے میں کامیاب ہو گئے۔مودی آر ایس ایس کے رضا کار رہ چکے ہیں اور ہندو انتہاپسندوں کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے خواہش مند ہیں۔ وہ محض سیاسی ضرورتوں کے لئے ایک مدبر کا روپ دھارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ آر ایس ایس کے آدمی ہیں اور آر ایس ایس ‘ ہر قیمت پر اکھنڈ بھارت کے حصول پر بضد ہے۔ انہوں نے حلف برداری سے پہلے امن پسندی کا جو روپ دھارا تھا‘ وہ محض ایک چال تھی۔ عملی طور پر انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی کشمیر میں اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کی درپردہ کوششیں شروع کر دی تھیں۔ ان کا پہلا ہدف‘ تھوڑے ہی عرصے کے بعد‘ کشمیر کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو اکثریت دلانا ہے۔ بظاہر وہ ایک مدبر کی حیثیت میں کشمیری عوام کا اعتماد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن درپردہ وہ پوری ریاستی طاقت استعمال کر کے‘ اپنی پارٹی کی حکومت بنوانے کے خواہش مند ہیں۔ وہاں ان کی پارٹی‘ جائز و ناجائز حربوں سے اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیابی ہو جاتی ہے‘ توپارلیمنٹ میں انہیں پہلے ہی فیصلہ کن اکثریت حاصل ہے۔ اس وقت بھارتی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ لوک سبھا میں‘ اس کی طرف سے ایک بھی مسلمان نمائندہ منتخب ہو کر نہیں آیا۔ مجموعی اعتبار سے بھی ‘بھارتی پارلیمنٹ میں مسلمان ایم پیزکی آواز موثر نہیں ہو سکتی۔ جب پارلیمنٹ اور جموں وکشمیر کی ریاستی اسمبلی میں‘ بی جے پی کو اکثریت مل گئی‘ تو نریندر مودی پہلی فرصت میں الحاق کشمیر کی مہم شروع کر دیں گے۔
ریاست جموں و کشمیرکے بارے میں‘ بھارتی حکومت کی دیرینہ پالیسی یہ ہے کہ ریاست ‘ بھارت کا حصہ ہے۔ پاکستان نے آزاد کشمیر پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور بھارت ‘ کشمیر کے اس حصے کو واپس لے کر‘ پوری ریاست کو یکجا کرنے کا حق رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی حکمرانوں کی عاقبت نااندیشیوں کے باعث‘ پاکستان اپنی اصل آبادی اور جغرافیائی رقبے کو برقرار نہیں رکھ سکا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے‘ عالمی سطح پر ہمارے وزن اور اہمیت دونوں کو آدھا کر دیا۔ باقی ماندہ پاکستان میں اگر سیاسی استحکام پیدا کیا جا سکتا‘ تو ہم پھر بھی کشمیر کا مستقبل طے کرنے میں موثر کردار ادا کر سکتے تھے۔ ہماری سیاسی قیادتوں کی خودغرضی اور حکمت و تدبر سے محرومی نے‘ ہمیں آج ایسی جگہ لا کھڑا کیا ہے‘ جہاں بھارت کے انتہاپسندوں کو ایک طاقتور ملک کی حکومت اور پالیسی سازی کا اختیار مل گیا ہے اور ادھر حالت یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر 2013ء میں جو پارلیمنٹ قائم ہوئی‘ اس کی قانونی اور آئینی حیثیت مشکوک ہو چکی ہے۔ مختلف سماجی طاقتیں باہم برسرپیکار ہیں۔ بلوچستان اور کراچی‘ اس وقت بھی وفاقی یا صوبائی حکومت کے کنٹرول میں نہیں۔ فاٹا میں جنگ جاری ہے اور باقی علاقوں میں دہشت گردوں نے اپنا جال پھیلا رکھا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے اندر‘ کوئی اجتماعی موقف اختیار کر کے‘ عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔ اب بھی اگرہم اپنی قومی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے‘ ان کمزوریوں پر قابو پا لیں‘ جو اجتماعی قومی فیصلوں کے راستے میں حائل ہیں‘ توہم انتہاپسند ہندوئوں کو‘ ریاست جموں و کشمیر پر مستقل قبضہ کرنے سے روک سکتے ہیں۔اگر ہم ایسا نہ کر پائے‘ توہمارے حکمران طبقوں کی داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ البتہ کشمیر کی جنگ آزادی ہر حال میں جاری رہے گی۔ پورے خطے کے مسلمان‘ بھارت کو ریاست جموں و کشمیر ہضم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ 18کروڑ پاکستانیوں کے ساتھ‘ گردونواح کے مسلمان شامل ہو جائیں‘ تو چالیس پینتالیس کروڑ مسلمانوں کی آبادی‘ بھارتی طاقت سے ٹکر لینے کا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔ اس طاقت کے اتحاد میں رخنہ ڈالنے کی سازش ابھی سے شروع کی جا چکی ہے۔ امریکہ اور بھارت دونوں مل کر شیعہ سنی فساد برپا کر کے‘ اس طاقت کو متحد ہونے سے روکیں گے۔ یہاں پہنچ کر میں نے قلم رکھ دیا ہے۔