ہماری شہرت اور عزت کس بلندی پر تھی؟ مسلم اُمہ کی عظمت و وقار کاکیا عالم تھا؟ علم جسے مومن کی میراث سمجھا جاتا ہے‘ اس کی روشنی سے مسلم دنیا کتنی روشن اور جوہرِ تخلیق سے مالامال ہے‘ ایک سترہ سالہ لڑکی نے ہم سب کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ ہماری عزت و شہرت کو داغدار کر ڈالا۔ یہ ساری سازش یہودیوں‘ عیسائیوں اور ہندوئوں کی ہے۔ یہ بدبخت قومیں نجانے کیوں ہمارے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔ انہیں جب بھی موقع ملتا ہے‘ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی‘ ہر کوشش آزماتی ہیں۔ جب سے نوبل امن انعام شروع ہوا ہے‘ اسلامی دنیا کی خواتین کا دامن صاف رہا۔صرف اس مسلمان لڑکی نے بے وقوفی اور نادانی کر کے‘ اسلام دشمنوں کو موقع دیا کہ عالم اسلام کی باپردہ اور گھریلو خواتین کی پاکیزگی کو آلودہ کریں اور ان کی حرمت کی تاریخی اور عالمگیر شہرت کو مٹی میں ملائیں۔پاکستان کے لاکھوں دین دار اور پاک باز مسلمان اس سانحے کی خبر سن کر‘ ابھی تک غمزدہ ہیں۔ رات کو رورو کر سوتے ہیں اور صبح کو روتے روتے جاگتے ہیں۔ اس نادان لڑکی نے فرزندان اسلام کو بہت دکھ پہنچایا ہے۔اسامہ بن لادن‘ ایمن الظواہری‘ ملاعمر اور داعش کے خلیفہ البغدادی نے‘ کیسے کیسے کارنامے انجام دے کر‘ دنیا پر مسلمانوں کی دھاک بٹھائی۔ کافروں کے سب سے بڑے سرغنہ ‘ امریکہ کا ورلڈ ٹریڈ سنٹر‘ جو اپنے عہد کی بلند ترین عمارت تھی‘ اس کے پرخچے اڑا کر سب سے بڑی سپر پاور کا غرور خاک میں ملایا اور اس میں کام کرنے والے چار ہزار کے قریب مردو زن‘ چشم زدن میں لقمہ اجل بن گئے۔ ہر چند مرنے والوں میں سینکڑوں مسلمان بھی شامل تھے لیکن کام تو وہ کافروں کے ملک میں‘ کافروں کے ساتھ ہی کررہے تھے۔ وہ بھی سب کے سب واجب القتل تھے۔اسامہ کے ماننے والوں نے اسلام کی سربلندی کے لئے‘ ناقابلِ فراموش خدمت انجام دی لیکن کافروں نے اپنے بچائو کے لئے‘ عیاری اور مکاری سے کام لیتے ہوئے اپنی املاک اور شہریوں کے جان و مال کو تحفظ دینے کے انتظامات کچھ زیادہ ہی کر لئے۔ مجاہدینِ اسلام نے زیادہ مشکلات کا شکار ہونے کے بجائے ‘اپنی صفوں کے اندر ہی خاطر خواہ تعداد میں کافر ڈھونڈ نکالے۔افغانستان میں کافروں کو خاک و خون میں ملانے کے لئے‘ دنیا بھر کے فدائیانِ اسلام کو پاکستان میں جمع کیا گیا اور وہاں سے افغانستان کے شہروں اور بستیوں پر دل کھول کر حملے کئے۔ جب سوویت یونین کی فوجیںدم دباکر وہاں سے بھاگ نکلیں تو مجاہدینِ اسلام نے جہاد سے منہ نہیں موڑا اور ایک دوسرے پر ہی گولیاں چلانا شروع کر دیںاور جی بھر کے آپس میں خون بہایا۔ اس کام کو مزید آگے بڑھانے کے لئے امریکہ حملہ آور ہو گیا اور اس نے اسلامی حکومت ختم کر کے‘ اس ملک پر قبضہ جما لیا۔ مجاہدین اسلام نے سامراجی ظالموں کو وہاں ایک دن‘ چین نہیں لینے دیا۔ امریکہ آخر کار دُم دبا کے بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔اگلے دو اڑھائی سال میں امریکہ کا ایک ایک فوجی‘ وہاں سے نکل جائے گا لیکن جہاد جاری رہے گا۔ مجاہدین کے ہرگروپ نے دوسرے گروپ کا خون بہانے کی تیاریاں کر لی ہیں۔
پاکستانی قوم جہاد سے فیض یاب ہونے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ہماری سرزمین پر ہمارے ہی وسائل سے تیار اور تربیت یافتہ ہو کر‘ جہاد میں کودنے والوں نے کبھی کبھی ازرہِ تفنن پاکستانی شہروں میں بھی بم شم چلائے۔ ان کے دھماکوں میں ہزاروں شہری بھی ہلاک ہوئے۔ سینکڑوں سکولوں اور کالجوں کی عمارتیں زمین بوس ہوئیں۔ہسپتال مریضوں سمیت تباہ کئے گئے۔مساجد اور امام بارگاہوں میں عبادت گزاروں کے پرخچے اڑے۔ درگاہوں اور مزاروں کو مسمار کیا گیا لیکن یہ سب مجاہدین کی پریکٹس کے لئے تھا ۔مشق جاری رکھنا اچھا ہوتا ہے‘ لیکن اصل جہاد افغانستان ہی میں رہا۔ مجاہدینِ اسلام کو اچانک احساس ہوا کہ پاکستان اس جہاد سے خود فیض یاب نہیں ہو رہا جو اس نے افغانستان میں شروع کرایا تھا؛ چنانچہ مجاہدوں کے چند دستے پاکستانیوں کی خدمت کے لئے تیار ہوئے اور انہوں نے ہمارے دفاعی اداروں کو نشانہ بنا کر‘ اپنی اس مہارت اور تربیت کا حق ادا کیا جو انہیں پاکستان کی بدولت نصیب ہوئی تھی۔اس جہاد میں جو تاریخ ساز کارنامہ سامنے آیا‘ وہ پاکستانی فوجیوں کے وہ کاٹے ہوئے سر تھے‘ جن سے مجاہدین فٹ بال کھیل کر لطف اندوز ہوئے۔ مجاہدین کے کچھ بدخواہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے ایک فوجی کا سر کٹنے پر دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان سے انتقام لے کر رہے گا۔ بھارتی فوجی کا سر کٹا تھایا نہیں یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن پاکستانی فوجیوں کے کٹے ہوئے سروں کو دنیا نے انٹرنیٹ پر دیکھا۔ ہو سکتا ہے یہ بھارتیوں کا انتقام ہو کیونکہ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ملا فضل اللہ کو بھارتیوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ جہادیوں کے حسنِ کردار کا نیا باب البغدادی نے شروع کیا ہے۔ اس کی تنظیم‘ جسے تخفیف کر کے‘ داعش کے نام سے پکارا جاتا ہے‘ اس کے سامنے تمام مجاہدین کے کارنامے ماند پڑ گئے ہیں۔دنیا کے باقی مجاہدین کچھ بھی کرتے رہے ہوں لیکن عورتوں‘ بچوں اور مردوں کو وہ یکساں ظلم و ستم کا نشانہ نہیں بناتے تھے مثلاً ملا فضل اللہ نے جب سوات پر اپنا کنٹرول قائم کیا تو اس نے اطاعت قبول کرنے والے مردوں اور بچوںسے جینے کا حق نہیں چھینا‘ صرف انہیں قتل کیا‘ جنہوں نے اپنی عزتیں بچانے کی کوشش کی۔ نوجوان اور کم سن لڑکیوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے بجائے ‘باقاعدہ نکاح کر کے‘ انہیں اپنے قبضے میں لے لیا لیکن داعش کے جہادی‘ اسلام کی سربلندی اور دبدبے کی خاطر‘ تمام کافروں کو بلاامتیاز قتل کرتے ہیںاور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں‘ انہیں کافر قرار دے کرمار ڈالتے ہیں۔ان کا طریقہ بہت ہی سادہ اور عام فہم ہے۔وہ جس بستی کو گھیرے میں لیتے ہیں وہاں کی تمام آبادی کو نکال کر ایک جگہ جمع کر لیتے ہیں۔ ان کی نوجوان عورتوں کو پکڑ کے ان کے سامنے اجتماعی آبروریزی کر تے ہیں۔ انہیں قتل کر ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد مردوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ قبریں کھودیں‘ ان میں اپنی عورتوں کو دفنائیں۔ اس کے بعد بچوں کو ان کے سامنے گولیوں سے اڑاتے ہیں اوربڑوں کو دوبارہ قبریں کھودنے کا حکم دیتے ہیں۔ جب قبریں کھد جائیں تو انہیں اند ر لیٹنے کا حکم دیتے ہیں اور پھر ان پر مٹی ڈال کر دفن کرنے کی زحمت خود اٹھاتے ہیں۔بعض اوقات یہ زحمت بھی وہ خود نہیں کرتے۔باری باری سب کو ایک ایک کے اوپر مٹی ڈالنے پر مجبور کرتے ہیں۔ آخر میںدوچار بچ رہنے والے‘ اس اعزاز کے مستحق ٹھہرتے ہیں کہ ان کی قبر پر مٹی مجاہدینِ اسلام خود ڈالیں۔
اسلامی دنیا گزشتہ کئی عشروں سے جو شاندار کارنامے سر انجام دے رہی ہے‘ ان کا جائزہ لے کر دیکھئے کہ ملت اسلامیہ شہرت و عظمت کی کیسی کیسی بلندیوں پر گئی اور پاکستان کی ایک بے رحم لڑکی نے کیسے ہمارے کارناموں پر پانی پھیر ڈالا۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اس نے ایک کافر ہندو کے ساتھ ‘نوبل امن انعام میں حصہ داری کر کے‘ پاکستان میں لاکھوں دلوں کو تڑپا دیا۔ کیا اچھا ہوتا وہ اپنے جسم پر بم باندھ کر‘ کسی مزار کے ہجوم میں جا کر پھٹ جاتی۔ دنیا بھر کے جہادی اس کا نام عزت و احترام سے لیتے مگر اس گمراہ لڑکی نے جنت کا راستہ چھوڑ کر‘ اپنے آپ کو دوزخ کا حقدار بنا لیا ۔ اب بھی وہ ایمان کی رسی دوبارہ تھام لے تو اپنی آخرت سنوار کے ملت اسلامیہ کو نئی عظمتوں سے ہمکنار کر سکتی ہے۔جہادی ماہرین نے اس کا لباس دیکھ کر‘ سوچ لیا ہو گا کہ تمام تر غلطیوں کے باوجود‘ اس لڑکی کے لئے اب بھی جنت میں جانے کا ایک موقع موجود ہے۔ اگر خدا اسے ہدایت دے اور وہ مجاہدین کی تنظیم سے رابطہ کر کے‘ اپنی خدمات جہاد کے لئے پیش کر دے تو جہادیوں کی یورپی شاخیں ملالہ کی شہادت کا انتظام کر سکتی ہیں۔اسے نوبل امن انعام کی تقسیم سے پہلے ‘بموں سے یوں آراستہ کر دیا جائے گا کہ وہ اپنی روایتی چادر اوڑھ کرتقریب میں شرکت کے لئے‘ ہال میں اندر جائے گی تو سب کچھ نارمل دکھائی دے گا۔ کافروں کے اجتماع میں جب وہ نامور شخصیتوں کے درمیان پہنچے گی تو وہاں پرآسانی سے بم چلا کر جنت کی طرف پرواز کر سکتی ہے اور جو دھبہ اس نے ملت اسلامیہ کے دامن پر لگایا ہے‘ اسے اپنے خون سے دھو کر اسے سر بلند کر سکتی ہے۔عالم اسلام کی تمام پردہ دار خواتین میں ملالہ کو جو عزت و احترام حاصل ہو گا‘ وہ دنیا میں اپنی مثال آپ ہو گا۔کاش وہ جہادی بن جائے۔