"NNC" (space) message & send to 7575

مذہبی سیاستدان اور ایدھی کے ہاں ڈاکہ

ایک بات تو ثابت ہے کہ ہمارے مذہبی سیاستدان‘ عام انتخابات میں کبھی اتنی تعداد میں نشستیں نہیں جیت سکتے کہ اپنی حکومت بنا لیں۔ مگر اس احساس نے کہ وہ انتخابات کے ذریعے کبھی اقتدار میں نہیں آ سکتے‘ ان کی نفسیاتی کیفیت میں کچھ عجیب و غریب تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں۔ ان میں سے کچھ جمہوری تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور عوام کے حق حکمرانی کے نعرے لگاتے ہیں اور جب جمہوریت کی بساط کو فولڈ کیاجاتا ہے‘ تو وہ ہر آنے والے آمر سے جا ملتے ہیں اور اس کے حق میں ایسے ایسے دلائل پیش کرتے ہیں کہ آمر کی مخالفت کرنے والا اچھا بھلا مسلمان شک میں پڑ جاتا ہے کہ کہیں وہ دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہو جائے گا؟ جسے شک ہو‘ وہ پاکستان کے بدترین غاصب آمر یحییٰ خان کے حق میں‘ ان کے حامی علمائے کرام کے دلائل یاد کر لے۔ یحییٰ خان ہی نے نظریۂ پاکستان ایجاد کیا۔ اسی نظریۂ پاکستان کے تحت‘ ضیاالحق نے آئین میں 62 اور 63نمبر کی شرائط رکھ دیں۔ یہ ایسی شرائط ہیں‘ جن کے تحت کسی فوجی آمر یا انتخابات کے بعد بننے والے آمر کی حکومت‘ جسے چاہے جھوٹا اور خائن قرار دے کر‘ اسمبلی کی رکنیت کے نااہل قرار دے ڈالے۔ حکومت کی مخالفت کرنے والا ہر شخص‘ ہر وقت اس خطرے میں رہتا ہے کہ حکومت کسی بھی وقت‘ پارلیمنٹ میں اکثریت یا اپنے زیراثر عدالت کے ذریعے‘ جب چاہے اسے نااہل قرار دے سکتی ہے۔ ایوب خان نے تو خیر آئین کا تکلف بھی نہیں کیا تھا۔ آتے ہی ایبڈو لگایا اور بلاامتیاز تمام قابل ذکر سیاستدانوں کو نااہل قرار دے کر‘ 10 سال کے لئے گھر بٹھا دیا۔ ایوب خان کو مذہبی سیاستدانوں پر بھروسہ بھی نہیں تھا اور نہ کبھی انہوں نے ان سے مدد مانگی۔ 
یحییٰ خان نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے‘ مذہبی سیاستدانوں کی مدد حاصل کی اور ان کے بتائے ہوئے راستوں پر‘ اتنی فرمانبرداری سے چلے کہ مشرقی پاکستان‘ دشمن افواج کے کنٹرول میں دے دیا اور خود بھی اقتدار سے محروم ہو گئے۔ ذوالفقار علی بھٹوجو مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت سے جیت کر آئے تھے‘ عوام کو جمہوری آزادیاں دے کر‘ ان پر اعتماد کرنے کے بجائے‘ مذہبی سیاستدانوں کے دبائو میں آ گئے۔ ہماری قومی تاریخ میں‘ جس سیاستدان نے بھی اپنا اقتدار بچانے کے لئے مذہبی سیاستدانوں کی مدد حاصل کی‘ اس کا انجام برا ہوا۔ ضیاالحق‘ مذہبی سیاستدانوں کو سب سے زیادہ طاقت اور وسائل مہیا کرنے والے آمر تھے۔ لیکن ایک موقع پر آ کر‘ وہ اتنے تنہا اور بے بس ہو گئے کہ ان کے قتل کی سازش آسانی سے کامیاب ہو گئی۔ ضیاالحق کا ساتھ دینے والے مذہبی سیاستدانوں نے‘ ان کی ناگہانی موت کو فراموش کر کے‘ جوش و خروش سے عام انتخابات میں حصہ لیا اور اسمبلیوں میں اچھی خاصی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ نئے انتخابات میں منتخب ہونے والوں میں مذہبی سیاستدانوں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ لیکن بے نظیربھٹو نے واضح اکثریت نہ ہونے کے باوجود‘ حکومت بنانے کے لئے مذہبی سیاستدانوں کی مدد نہیں لی۔ نوازشریف‘ مذہبی رحجانات رکھنے کے باوجود‘ بطور وزیراعلیٰ اور وزیراعظم‘ مذہبی سیاستدانوں سے مدد تو لیتے رہے مگر ان کے دبائو میں کبھی نہیں آئے۔ 1988ء کے انتخابات میں‘ وہ آئی جے آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے تھے۔اقتدار انہیں صرف پنجاب میں ملا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت میں جماعت اسلامی‘ ان کی شریک اقتدار تھی۔ اس کے دبائو میں وہ کبھی نہیں آئے۔ 1990-97ء میں بطور وزیراعظم‘ انہوں نے مذہبی سیاستدانوں کو شریک اقتدار کرنے سے گریز کیا۔1999ء میں پرویزمشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا‘ توبظاہرلبرل ہونے کے باوجود‘ جب انہوں نے انتخابات کرائے‘ تومذہبی سیاستدانوں کو بڑی تعداد میں منتخب کرا لیا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ مذہبی سیاستدانوں کی طاقت سے‘ اقتدار پر اپنے گرفت مضبوط رکھیں گے۔ لیکن وقت پڑنے پر وہ ذرا بھی کام نہیں آئے۔ آصف زرداری اور نوازشریف نے مل کر‘ پرویزمشرف کو رخصت کر دیا۔ جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے‘ ان دونوں سیاستدانوںکے دوراقتدار میں‘ مذہبی سیاستدانوں کا دائو نہ لگ سکا۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی عام سیاستدان ہی کامیاب ہوئے۔ صرف خیبرپختونخوا میں مولانا فضل الرحمن کو چند نشستیں مل گئیں۔ باقی تینوں صوبائی حکومتیں ‘ مذہبی سیاستدانوں کی طرف سے کسی خطرے میں نہیں۔ صرف خیبرپختونخوا کی حکومت ‘ جماعت اسلامی کے ساتھ کولیشن میں ہے۔ مولانا فضل الرحمن مسلسل گھات لگائے بیٹھے ہیں اور وزیراعظم نوازشریف کو اکساتے رہتے ہیں کہ وہ خیبرپختونخوا کی حکومت کو گرانے میں ان کی مدد کریں۔ لیکن وہ ٹال مٹول سے کام چلاتے رہے۔ جب گزشتہ سیاسی بحران پیدا ہوا‘ تو مولانا کی نظریں بدلتے دیکھ کر انہیں فوراً ہی وفاقی حکومت میں جگہ دے دی۔ لیکن وہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف عمران خان‘ حکومت مخالف تحریک کی قیادت کر تے ہوئے‘ احتجاج کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ڈاکٹرطاہرالقادری اچانک کینیڈا سے پاکستان پہنچے اور عمران خان کے متوازی‘ حکومت مخالف تحریک کا اعلان کر کے‘ میدان میں کود پڑے۔ بہت کوشش کی کہ عمران خان کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کر لیں۔ غریبوں کی دعائیں عمران خان کے کام آ گئیں اور وہ ان کے مقدس سائے سے بچ گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑا اور اسلام آباد جا کر‘ عمران خان کے برابر دھرنا جما دیا۔ یہاں انہوں نے وہ باریک کام دکھایا‘ جو مذہبی سیاستدان دکھایا کرتے ہیں۔ عمران خان کی تحریک پرامن اور قانون کی حدود میں تھی۔ حکومت کو اس کے خلاف کوئی ایکشن لینے کا بہانہ نہیں مل رہا تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنا کام دکھایا۔ حکومت ‘ دھرنے میں شریک مظاہرین کو‘ منتخب مقامات پر مظاہروں کی اجازت دے رہی تھی۔ عمران خان انہی جگہوں تک محدود رہنا چاہتے تھے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے فدائیوں کو قانون کی خلاف ورزیوں پر لگا دیا۔ ان کے فدائین‘ حساس قرار دیئے گئے مقامات پر زبردستی جانے لگے۔ انہیں دیکھ کر‘ تحریک انصاف کے پرجوش کارکن بھی قابو میں نہ رہے اور اس طرح دھرنوں والے مظاہرین‘ ممنوعہ مقامات پر پہنچ گئے۔ تحریک انصاف کے کارکن وہاں بھی پرامن رہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کے فدائین‘ پولیس پر چڑھ دوڑے اور آخر میں پی ٹی وی سٹیشن اسلام آباد پر قبضہ کر کے ''ضرب قادری‘‘ لگا دی۔ اسٹیبلشمنٹ کے اندر‘ وزیراعظم کے بارے میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے تھے''ضرب قادری‘‘ کے نتیجے میں دور ہو گئے۔ دھرنے والوں کی سرگرمیوں کے بارے میں یہ تاثر قائم ہو گیا کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ سیاسی تبدیلی کی جو صورتحال پیدا ہو رہی تھی‘ اس میں ایک دم تبدیلی آ گئی۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان جو مذاکرات طول پکڑ رہے تھے‘ حکومت ان سے پیچھے ہٹ گئی اور جو تبدیلی مفاہمت کے ذریعے ممکن تھی‘ حکومت نے اس سے بھی گریز کر لیا اور عوام اپنے حالات بدلنے کی جو امیدیں لگا رہے تھے‘ وہ خاک میں مل گئیں۔ اس طرح ایک مذہبی سیاستدان نے پھر عوامی جدوجہد کو نقصان پہنچانے میں روایتی کردار ادا کر دیا۔ اب وہ اپنے وطن میں رہیں یا پاکستان میں قیام فرمائیں؟ فی الحال حکومت کو‘ ان سے مزید خدمات کی ضرورت نہیں رہ گئی اور جہاں تک بحران کا تعلق ہے؟ وہ ختم نہیںہوا‘ دب گیا ہے۔ یہ بحران کسی بھی وقت دوبارہ نمودار ہو سکتا ہے اور زیادہ شدت کے ساتھ ابھرے گا۔ نوازشریف اب بھی چاہیں‘ تو ازسرنومذاکرات کا سلسلہ شروع کر کے‘ طاقت کی پوزیشن میں رہتے ہوئے‘ کوئی حل تلاش کر سکتے ہیں۔ بنیادی جھگڑامتنازعہ انتخابات کا ہے۔ قانونی موشگافیاں جتنی بھی کی جائیں‘ کم ہیں۔ ہر اعتراض کے جواب میں دس حجتیں پیش کی جا سکتی ہیں۔لیکن گزشتہ انتخابات میںہونے والی دھاندلیوں کا جو سوال پیدا ہو چکا ہے‘ اس کا حل زورآزمائی میں نہیں۔ حکومت اپنی طاقت سے‘ وہ شکوک و شبہات دور نہیں کر سکتی‘ جو پیدا ہو چکے ہیں اور نہ ہی وہ اعتماد حاصل کر سکتی ہے‘ جو شفاف انتخابات کے نتیجے میں‘ قائم ہونے والی حکومت کو حاصل ہوتا ہے۔ نوازلیگ کو انتخابات کا بہرحال سامنا کرنا پڑے گا۔ اب وہ جتنا عرصہ چاہیں مزید حکومت کر لیں۔ لیکن جراتمندانہ پالیسیاں نافذ کر کے‘ ان کے خاطرخواہ نتائج حاصل کرنے کی‘ سہولت ان کے پاس نہیں رہی۔ جبکہ پیپلزپارٹی‘ جے یو آئی اور اے این پی کو مطمئن رکھنا‘ اب ان کے لیے آسان نہیں رہے گا۔ ایک فرمائش پوری نہیں ہو گی‘ دوسری سامنے آ جائے گی۔حکومت کو اسی طرح کی چالبازیوں کا سامنا کرنا ہو گا‘ جیسے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کرنا پڑا۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ مذاکرات ‘حریفانہ تھے اور اب جو کچھ ہونے والا ہے‘ وہ حلیفانہ ہو گا۔جہاں تک ڈاکٹر طاہرالقادری کا تعلق ہے‘ حکومت کا فرض ہے کہ وہ دھرنے وغیرہ کے تمام اخراجات ‘اگر انہیں ادا نہیں کئے تو اب کر دینا چاہئیں۔
مولانا عبدالستار ایدھی کے دفتر میں‘غریب لوگ بچوں کے شادی بیاہ اور آنے والی مشکلات کے لئے‘ جو تھوڑی بہت پونجی جمع کرتے ہیں‘ اس کے لٹنے یا چوری ہو جانے کے خوف سے ایدھی صاحب کے پاس‘ بطور امانت رکھوا دیتے ہیں۔ جہاں وہ محفوظ رہ سکیں۔ چند ڈاکوئوں نے غریبوں کی یہ پونجی لوٹ لی۔ اس سانحے پر سارا میڈیا اور عوام کے ترجمان‘ گھٹیا درجے کے ان ڈاکوئوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ حکومت کے پاس اربوں روپے کے جو ٹیکس جمع ہوتے ہیں۔ کیا وہ غریبوں کی پونجی نہیں ہوتی؟ جو حکومت کے پاس اس لئے جمع کرائی جاتی ہے کہ وہ ان کے جان و مال کی حفاظت ‘ بچوں کی تعلیم اور علاج معالجے اور بے سہارا لوگوں کے کام آئے گی۔لیکن اسے انتظامیہ کے افسران اور اراکین حکومت‘ جس بے رحمی سے لوٹ کر بیرون ملک رکھوا دیتے ہیں‘ کیا وہ ایدھی کو لوٹنے والے ڈاکوئوں کے مقابلے میں زیادہ بڑا جرم نہیں؟ ہماری مشکل یہی ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے ڈاکوئوں کے درپے ہو جاتے ہیں۔ وہ ہاتھ لگ جائیں‘ تو انہیں مار مار کے ادھ موا کر ڈالتے ہیں اور اربوں لوٹنے والے ڈاکو دندناتے پھرتے ہیں‘ ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں