"NNC" (space) message & send to 7575

کیا برصغیر میں ایٹمی جنگ ہو سکتی ہے؟

بروس ریڈل‘ امریکہ کے سکیورٹی نظام کے ماہر گنے جاتے ہیں‘ خصوصاً جنوبی ایشیا اور کائونٹر ٹیرر ازم پر انہیں اتھارٹی مانا جاتا ہے۔ ان دنوں بطور سینئر تجزیہ کار اور پروفیسر کی حیثیت میں جانز ہاپکنز سکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل سٹڈیز اورالبرائٹ سٹون برج گروپ کے سینئرمشیر ہیں۔سی آئی اے کے تجزیہ کار بھی رہے ہیں اور کائونٹر ٹیرر ازم ایجنسی میں بطور ماہر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ یہ ذمہ داری انہوں نے29سالوں تک نبھائی اور2006ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔اپنی پیشہ ورانہ حیثیت میں بروس ریڈل نے برصغیر پاک و ہند کے معاملات پر ماہرانہ خدمات انجام دیں۔ آج میں ان کا ایک خصوصی تجزیہ پیش خدمت کر رہا ہوں۔ ان دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان‘ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ آج ہی پاکستان کے سابق چیف آف آرمی سٹاف اور سابق صدر پرویز مشرف کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ ''ضرورت پڑی تو پاکستان بھارت کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گا‘‘۔ یہ محض گیدڑ بھبکی نہیں۔ برصغیر کے ان دونوں ملکوں کے درمیان تصادم کے ممکنات موجود ہیں۔ میں بروس ریڈل کی ایک تحریر پیش کر رہا ہوں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین‘ ایٹمی تصادم کا خطرہ تصوراتی نہیں‘ یہ کسی وقت بھی حقیقت میں بدل سکتا ہے اور یہ کہ برصغیر کے عوام کو اندازہ ہو سکے کہ وہ کیسے خوفناک خطرات کے سائے میں جی رہے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں خطرناک
انداز سے بڑھتی کشیدگی
بھارت اور پاکستان 1947ء سے اب تک چار جنگیں لڑ چکے ہیں جبکہ کئی ایسے بحران رونما ہوچکے ہیں کہ جب جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ دونوں ملک 1998ء میں ایٹمی دھماکے کرچکے ہیں۔ اب ایک بار پھر دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ اس کا آغاز مئی میں ہوا جب عسکریت پسندوں کے ایک خوب مسلح جتھے نے مغربی افغانستان کے شہر ہرات میں واقع بھارت کے قونصل خانے پر حملہ کیا تھا۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ بھارت کے نئے قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری والی شام بھارتی سفارت کاروں کو ہلاک کیا جائے۔ قونصل خانے کے محافظوں نے ایل ای ٹی کے دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ یوں بحران برپا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بھارتی انٹیلی جنس حکام نے قیاس کیا کہ اس حملے میں پاکستان ملوث ہے ۔ ان کا قیاس تھا کہ جلد ہی ایسا ایک اور حملہ ہوگا۔ شاید ان کے دونوں قیاس درست تھے ۔ اس موسم گرما میں کشمیر میں بھارتی اور پاکستانی فوجی دستوں کے مابین جھڑپوں میں اضافہ ہوگیا۔ لائن آف کنٹرول پر دس سال کی بدترین گولہ باری اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس سے دونوں اطراف میں عام شہریوں کو گھر بار چھوڑنا پڑے۔ اس ماہ بیس افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی فوج کے کمانڈروں کو حکم دیا کہ بھارتی عزم و ارادے کے اظہار کے لیے لائن آف کنٹرول پر سخت جوابی حملہ کیاجائے ۔ نریندر مودی نے مئی میں اپنے پاکستانی ہم منصب نوازشریف کو اپنی تقریب حلف برداری میں مدعو کرکے زبردست قدم اٹھایا تھا؛ تاہم اس وقت سے انہوں نے کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ معمول کی سفارتی گفت و شنید ملتوی کردی اور دہشت گردی کے ضمن میں سخت موقف کا اظہار کیا۔ انہوں نے تجربہ کار انٹیلی جنس چیف اجیت ڈوول کو اپنا قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا ہے۔ اجیت ڈوول کو دہشت گردی اور پاکستان کے حوالے سے سخت گیر تصور کیاجاتا ہے۔
نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے ان کے پیش رو منموہن سنگھ پر اس حوالے سے سخت تنقید کی کہ انہوں نے 2008ء کے ممبئی حملے کا کمزور جواب دیا تھا۔ تربیت یافتہ اور اسلحہ سے لیس دس عسکریت پسندوں نے سو معصوم شہریوں کو ہلاک و زخمی کردیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں 6امریکی بھی تھے لیکن کوئی فوجی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
2001ء میں بی جے پی کی ایک سابق حکومت نے بھارتی پارلیمان پر پاکستان سے کروائے جانے والے حملے کے جواب میں فوج کو کئی ماہ تک سرحد پر متعین رکھا تھا۔ دونوں ملک تقریباً ایک سال تک حالت جنگ میں رہے تھے ۔ اس سے دو سال پہلے دونوں ملکوں میں کارگل کے قصبے کے گرد کشمیر میں جنگ لڑی گئی تھی۔
1997ء کی کارگل جنگ میں پاکستانی فوج نے ایل او سی عبور کرکے کشمیر میں ایک اہم ہائی وے کے قریب واقع پہاڑوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ بی جے پی کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے جواب میں فضائی اور زمینی حملے کروائے ۔ بھارتی بحریہ نے پاکستان کی بڑی بندرگاہ کراچی کو محصور کرنے کی تیاری کرلی تھی۔ اس بندرگاہ کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان تیل درآمد کرتا ہے۔ اس بندرگاہ کے محاصرے سے پاکستان میں تیل کی رسد بری طرح متاثر ہوتی۔ بھارتی بحریہ حملہ کرنے کے لیے اس قدر بے قرار تھی کہ اعلیٰ کمان کو اسے روکنا پڑا تھا۔ پاکستانی کارگل میں جنگ ہارنے لگے تو انہوں نے اپنی ایٹمی فورسز کو ہائی الرٹ کردیا۔ صدر بل کلنٹن نے اس وقت کے اور موجودہ وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ 4جولائی 1997ء کو بلیئر ہائوس میں ہونے والی ملاقات میں فوج نکالنے کے لیے دبائو ڈالا۔ اگر کلنٹن نے ایل او سی سے پیچھے ہٹنے کے لیے نوازشریف پر دبائو نہ ڈالا ہوتا تو جنگ مزید شدید ہوجاتی اور شاید دونوں ملک ایک دوسرے پر ایٹم بم گرا دیتے۔
مستقبل کا بحران کیسا ہوگا، یہ جاننے کے لیے کارگل ایک عمدہ مثال ہے۔ بی جے پی حکومت نرمی کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔ وہ حملہ آور دہشت گردوں کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑ سکتی۔ اس سے دہشت گردی کو ہوا ملے گی۔
کارگل جنگ اور آج کی صورت حال میں فرق یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے پاس 15سال پہلے کی نسبت ایٹم بم اور ڈلیوری سسٹم زیادہ ہیں۔ پاکستان ٹیکٹیکل نیوکلیئرویپن بنا رہا ہے اور اس کے ایٹمی اسلحہ خانے میں دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ چین پاکستان کو نیوکلیئر ری ایکٹر فراہم کررہا ہے۔ بھارت کے پاس ایسے میزائل ہیں جو پورے پاکستان اور بیجنگ تک مار کرسکتے ہیں۔ اس ہزاری کے آغاز کے وقت جنگ میں شدت کا جتنا خطرہ تھا ، آج اس سے کہیں زیادہ ہے۔
1999ء میں پسپائی اختیار کرنے پر نوازشریف کو فوجی کمانڈر پرویز مشرف نے اقتدار سے ہٹا دیا۔ پرویز مشرف نے کارگل جنگ کی منصوبہ سازی کی تھی۔ اب پرویز مشرف نوازشریف سے مطالبہ کررہے ہیں کہ نریندر مودی کو ترکی بہ ترکی جواب دیاجائے اور بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے۔ حزب مخالف کی بڑی جماعت کے سربراہ بلاول بھٹو نے کشمیری مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے سخت موقف اپنانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے عہد کیا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم بنیں گے تو پاکستان کے لیے کشمیر کا ہر انچ حاصل کریں گے۔ نوازشریف ایک اور لیڈر عمران خان کی جانب سے استعفیٰ کے لیے ڈالے جانے والے دبائو میں آئے ہوئے ہیں۔ جنوبی ایشیا کی دونوں جانب سیاست نے مصالحت یا مکالمے کے لیے بہت کم گنجائش چھوڑی ہے۔
جنوبی ایشیا میں امریکہ کو ایک ایسی طاقت تصور کیاجاتا ہے، جو روبہ زوال ہو۔ افغان جنگ نے اس تصور کو تقویت دی ہے۔ اسلام آباد اور نئی دہلی میں امریکہ کا اثرو رسوخ کم ہے۔ اب کلنٹن کی طرح جنگ میں شدت کو روکنا آسان نہیں ہوگا، لیکن ایٹمی جنگ کے نتائج اتنے خوف ناک ہیں کہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں