"NNC" (space) message & send to 7575

دستک

کل واہگہ بارڈرپر دھماکہ ہونے کے بعد‘ میں نے ''دنیا ٹی وی‘‘ پر کہا تھا'' جذبہ حب الوطنی کو کوئی دشمن ختم نہیں کر سکتا‘‘۔ آج واہگہ بارڈر پرپرچم اتارنے کی تقریب ‘معمول کے مطابق منعقد ہوئی اورپاکستانی شہریوں نے خواتین اور بچوں سمیت جتنی بڑی تعداد کے ساتھ اس تقریب میں شرکت کی اور جوش و خروش کے ساتھ‘ اللہ اکبر‘ پاکستان زندہ باد‘ دہشت گرد مردہ باد‘ جیوے جیوے پاکستان اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے۔ انہیں سن کر دہشت گردوں کے حوصلے ضرور پست ہو گئے ہوں گے۔ پاکستانی قوم کے حوصلے‘ تو خدا کے فضل و کرم سے‘ بزدلانہ خود کش بمباری کی تباہ کاری کے بعد ‘ پہلے سے زیادہ بلند ہو گئے۔اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔اس حقیقت کا زندہ ثبوت‘ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر‘ دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ کل شام‘ جس وقت لوگ پرچم اتارنے کی تقریب دیکھ کر‘ واپس جا رہے تھے تو دہشت گردوں کے دھماکے نے واقعی کربلا برپا کر دی تھی۔عورتیں‘ بچے‘ جوان ‘ بوڑھے سب ایک ساتھ خون میں نہا گئے۔60سے زیادہ شہریوں نے جام شہادت نوش کیا۔200سے زیادہ خون بہاتے زخمیوں کو اٹھایا گیا۔ فطری طور سے یہ ایک ماتم کا منظر تھا۔ دہشت گردوں نے اس مقام پر دھماکہ کر کے‘ پاکستانیوں کے جذبہ حب الوطنی کو للکارا تھا۔ شہیدوں کو دفناتے اور زخمیوں کو ہسپتالوں کی طرف لے جاتے ہوئے‘ پاکستانیوں کے آنسو ضرور بہہ رہے تھے لیکن آج انہی پاکستانیوں کے ہم وطن‘ دہشت گردوں کے لئے‘ اپنا جواب لے کر واہگہ کی تقریب میں‘ جوش و خروش کے ساتھ اتنی ہی بڑی تعداد میں شریک ہوئے‘ جتنے کہ اتوار والے دن وہاں آتے ہیں۔ عام دنوں میں اتنا زیادہ رش نہیں ہوتا۔ اتوار کو چھٹی کی وجہ سے‘ حاضرین کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کل نو محرم کا دن تھا۔ اس روز شہری اپنے اپنے عقیدے کے مطابق‘ شہیدان کربلا کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہوتے ہیں لیکن کل کے دھماکے نے‘ جذبہ حب الوطنی کو جو چیلنج کیا تھا۔لوگ غمِ حسین علیہ السلام کو ساتھ لے کر‘ واہگہ پہنچے اور دہشت گردوں کے خلاف نعرے لگا کر‘ ثابت کر دیا کہ مٹھی بھر ظالموں کا ٹولہ‘20کروڑ کی قوم کے جذبہ حب الوطنی کو‘ کچلنے کے خواب کبھی پورے نہیں کر سکتا۔ انہیں ناکام ہونا ہو گا، مٹنا ہو گا اور ایک دن سرزمین پاک کو‘ ان کے ناپاک وجود سے نجات ضرورحاصل ہو گی۔
واہگہ کے مقام پر‘ پرچم اتارنے کی شاندار تقریب پر دھماکہ کر کے‘ دہشت گردوں نے اپنی طرف سے ایک دستک دی ہے جو پاکستان اور بھارت دونوں کے لئے ہے۔ واہگہ پر وہ دروازہ موجود ہے‘ جس کے ایک طرف کے پھاٹک بھارت میں اور دوسری طرف کے پاکستان میں کھلتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دونوں ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں۔ دونوں طرف کے سرحدی محافظ ملتے ہیں۔ ایک سے دوسرے ملک میں‘ آنے جانے والے‘ ایک دوسرے کو ملتے ہوئے گزرتے ہیں کیونکہ دونوں پھاٹکوں کے درمیان کا حصہ‘ وہ ہے جس پر پاکستان اور بھارت‘ دونوں کے باشندے ویزے دکھائے بغیر پہنچ سکتے ہیں۔ بھارتی باشندے‘ اپنا پاسپورٹ چیک کر ا کے‘ ویزے کے بغیر‘ بھارتی سمت والا دروازہ پار کر کے‘ اس جگہ سے گزرتے ہوئے پاکستانی سمت کے پھاٹک پر پہنچتے ہیں جہاں سے انہیں ویزاآفس میں جا کر‘ پاکستان میں انٹری کی مہر لگوانا ہوتی ہے۔ مہر لگنے سے پہلے‘ وہ بھارتی سرحد پار کر کے جتنی دیر‘ پاکستانی حصے میں رہتے ہیں، ان کے پاس ویزا نہیں ہوتا‘ویزا بعد میں ملتا ہے۔ اسی طرح پاکستانی اپنے ویزاآفس میں ‘پاسپورٹ دکھانے کے بعد‘ جب اپنے ملک کا پھاٹک پار کر کے آگے‘ بڑھتے ہیں تو سڑک کا جتنا حصہ‘ وہ پیدل پار کرتے ہیں‘ اس وقت تک ان کے پاس بھارت میں انٹری کی مہر نہیں ہوتی۔ وہ دوسری طرف کا گیٹ پار کرنے کے بعد‘ انٹری کی مہر لگواتے ہیں۔ یہ جگہ صرف واہگہ پر ہے ‘جہاں دونوں ملکوں کے شہریوں کو انٹری کی مہر کے بغیر‘ آتے جاتے ہوئے ‘ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور گپ شپ کرنے کی آزادی ہے۔ چند لمحوں کے لئے ہی سہی لیکن یہ لمحے میسر تو آجاتے ہیں۔ دہشت گردوں نے ا نہی لمحوں پر حملہ کیا ہے۔ واہگہ جہاں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کا دروازہ کھلتا ہے‘ اسے بند کرنے کی کوشش کی گئی ۔ یہ ثابت کیا گیا کہ ان کی نسبت کسی وطن سے نہیں۔ وہ صرف عوام دشمن ہیں۔ وہ جس بے رحمی سے بھارتی عوام کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں‘ اس سے زیادہ بے رحمی کے ساتھ پاکستانی عوام کو ‘ اپنے بموں سے شہید کرتے ہیں۔دونوں ملکوں کے عوام‘ جس قدر جلد اس حقیقت کو سمجھیں گے، انسانیت کے ان دشمنوں کا مل کر مقابلہ کر سکیں گے۔
67 برس کے تجربے نے‘ دونوں ملکوں کو یہ سبق دیا ہے کہ فوجی طاقت سے ‘ہم دونوں میں سے کوئی بھی کشمیر پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ پاکستان یہ جانتا ہے ‘ اس نے اپنے حصے کے کشمیریوں کو آزادی و خود مختاری دے رکھی ہے۔ ہماری فوج صرف لائن آف کنٹرول پر ڈیوٹی دیتی ہے۔ کشمیر کے شہروں اور دیہات میں موجود نہیں۔ کشمیریوں کی زندگی اپنی ہے۔ آزادی اپنی ہے۔ انتظامیہ اپنی ہے۔ پولیس اپنی ہے۔ حکومت اپنی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں‘ کشمیریوں کو یہ آزادیاں حاصل نہیں ہیں۔ ان پر سات لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجی مسلط ہیں۔ وہاں کی حکومت‘ وہاں کے شہر‘ وہاں کے دیہات‘ ہر جگہ بھارتی فوج کا قبضہ ہے اور بھارت بضد ہے کہ وہ عوام پر‘ اپنا قبضہ اسی طرح برقراررکھے گا۔ قبضے علاقوں پر تو کئے جا سکتے ہیں‘ عوام پر نہیں کئے جا سکتے۔ بھارت سو سال تک بھی‘ کشمیر پر بطور قوت قبضہ رکھ کر‘ ان کے دل نہیں جیت سکتا لیکن اس طرح کے جو سو سال بھارت پر گزریں گے‘ کیا وہاں کے حکمرانوں کو اندازہ ہے کہ برصغیر کی کیا حالت ہو جائے گی؟۔ دہشت گردی کی جو نئی طاقتیں پروان چڑھ رہی ہیں وہ قوموں‘ سرحدو ں اور ملکوں پر یقین نہیں رکھتیں۔ داعش کے نام سے قاتلوں کا جو گروہ طاقت پکڑ رہا ہے‘ اس نے عراق‘ شام اور کردوں کی سرحدوں کو پامال کر کے‘ اپنے مراکز بنا لئے ہیں اور دہشت گردوں کا یہ گروپ‘ وبا کی طرح پھیل رہا 
ہے۔ آزاد کشمیر کا ماحول تو ان کے لئے سازگار نہیں کیونکہ وہاں آزاد لوگ رہتے ہیں، لیکن مقبوضہ کشمیر میں داعش کو پنپنے کے لئے انتہائی شاندار ماحول میسر آئے گا اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی مدد کا نعرہ لگانے والوں کو‘ پاکستانیوں کی ہمدردیاں بھی حاصل ہو جائیں گی ۔ مقبوضہ کشمیر کی جنگ آزادی‘ کو ایک نئی زندگی اور ایک نئی طاقت میسر آجائے گی۔ داعش کی اپیل ‘بھارتی مسلمانوں کو بھی اپنی طرف مائل کر کے‘ حرکت میں لا سکتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پاکستانی حکومت محفوظ رہے گی۔ پاکستانی حکومت بھی ان بے لگام مسلح طاقتوں کے‘ ہاتھوں پریشان ہو گی اور بھارتی حکومت بھی۔القاعدہ اور داعش جیسی طاقتیں وہیں پروان چڑھتی ہیں‘ جہاں ظلم اور جبر کا راج ہو۔ برصغیر میں مقبوضہ کشمیر واحد جگہ ہے ‘جہاں ایسی دہشت گرد طاقتیں منظم ہو سکتی ہیں اور پھر گردو نواح کے خطوں میں‘ خون ریزی کا بازار گرم کر سکتی ہیں۔ میں نے صرف سادہ سا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آنے والے دنوں میں کیسی کیسی تخریبی طاقتیں جنم لے سکتی ہیں؟ یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جہاں بھی حالات معمول کے مطابق نہیں ہوں گے‘ حکمرانوں اور عوام کے درمیان اعتماد کے رشتے موجود نہیں ہوں گے، وہاں پر یہ وبائیں یقیناً جنم لیتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے نے‘ پورے برصغیر کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ داعش کی وبا ایران‘ افغانستان اور وسطی ایشیا میں پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جب تک مقبوضہ کشمیر پرظلم و جبر کا نظام مسلط ہے، داعش جیسے گروہوں کو وہاں اپنی جڑیں پھیلانے کے مواقع آسانی سے مل سکتے ہیں۔ دہشت گرد ی کے عفریت سے نمٹنے کے لئے‘ پاکستان بھی تنہا کچھ نہیں کر پائے گا اور بھارت بھی۔ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ان جنگجوئوں نے مجاہدین کے روپ میں‘ مقبوضہ کشمیر کے اندر کارروائیاں کیں تو پاکستان کے تمام قوانین کو روندتے ہوئے کنٹرول لائن کے پار گئے تھے۔ یہی کچھ وہ دوبارہ کر سکتے ہیں اور ہم نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو ہمارے بھی دشمن بن سکتے ہیں۔ ان کے ارادے اپنی طرز کی ایک اسلامی خلافت قائم کرنے کے ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد بھارت میں بھی کم نہیں۔ وہ جنونی برصغیر میں اپنے لئے ‘اچھے مواقع کی امیدیں رکھتے ہیں۔ ابھی ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ برصغیر میں انہیں کون کون سی طاقتوں کی حمایت میسر آئے گی؟ یہ بات میں اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے لئے‘ برصغیر کی موجودہ صورت حال میں بہت سے مواقع موجود ہیں۔ اگر بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے فوج واپس بلا کر‘ پوری ریاست جموں کشمیر کے عوام کو‘ تنازع کے مستقل حل تک‘ ایسا ماحول فراہم نہ کیا‘ جس میں وہ پاکستان اور بھارت دونوں کی رضا مندی سے‘ آزادی کی زندگی بسر کر سکیں تو برصغیر کو کبھی امن نصیب نہیں ہو سکتا۔ یہ انتظام ‘ایک عارضی حل کے لئے بھی ہو سکتا ہے جو دو اڑھائی عشروں تک برقرار رہے اور اس کے بعد کشمیری عوام سے پوچھ لیا جائے کہ وہ مکمل آزادی چاہتے ہیں؟ یا دستیاب صورت حال کو ہی مستقل کرنا چاہیں گے؟ دہشت گردوں نے خود کش حملہ کر کے‘دونوں ملکوں کے دروازے پر جو دستک دی ہے‘ اسے سمجھنے اور محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں