"NNC" (space) message & send to 7575

لوگ سب سمجھتے ہیں

حالیہ دو کالموں پر‘ قارئین نے جتنی بڑی تعداد میں اظہار رائے کیا ہے‘ اس پر سب کا فرداً فرداً جواب دینا ممکن نہیں۔ میں تو ویسے بھی رائے دینے والے قارئین کا ممنون احسان رہتا ہوں۔ قومی لیڈروں کی تیزی سے بدلتی پالیسیوں کو دیکھ کر‘ میں نے جو کچھ گزشتہ چند روز میں لکھا‘ اس پر اہل فکر کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور درد مند شہریوں کو بھی۔ لیڈروں سے نہ مجھے پہلے کوئی امید تھی‘ نہ اب ہے۔ بس دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے‘ کوئی معجزہ ہو جائے اور میرے بیس کروڑ اہل وطن‘ جنہیں دونوں ہاتھوں سے اندھیروں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے‘ روشنی کی طرف رخ کر لیں۔ عمران خان صاحب نے حکومت کو خود ہی مذاکرات کا موقع دے کر‘ جس غلطی کا شوق فرمایا تھا‘ میاں نواز شریف نے خان صاحب کی خیر خواہی کرتے ہوئے‘ خود ہی اس کا رُخ مزاحمت کی طرف موڑ دیا۔ یہی عوام چاہتے ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جس پر گامزن رہ کر‘ خان صاحب قوم کے لئے‘ کسی اچھے مستقبل کی امیدیں زندہ کر سکتے ہیں۔ میاں صاحب نے نہ صرف انہیں مذاکرات کے ٹریپ میں پھنسنے سے بچا دیا ہے بلکہ جدوجہد کے راستے پر‘ انہیں تیز رفتاری سے چلنے پر بھی مجبور کر دیا ہے۔ جو منزل دور دکھائی دے رہی تھی‘ اب اگر نزدیک نہیں تو زیادہ دور بھی نہیں رہ گئی۔
برصغیر کی تاریخ ہے کہ تین ملکوں میں جس رہنما پر حکومتوں نے زیادہ مظالم ڈ ھائے‘ عوام نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ بھارت کی تو صف اول کی ساری قیادت ہی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کا شاندار ریکارڈ رکھتی ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو‘ مہاتما گاندھی‘ جے پرکاش نارائن‘ شاستری جی‘ ابوالکلام آزاد‘ سردار پٹیل‘ غرض کوئی ایسا بڑا لیڈر نہیں جس نے جیلیں نہ کاٹی ہوں۔ سابقہ مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمن اور ان کے بیشتر ساتھی‘ جیلوں کے مصائب سے گزرنے کے بعد ہی عوام کے مقبول لیڈر بنے اور شیخ مجیب الرحمن کو بلند ترین مقام تک پہنچانے میں تو جیلوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ موجودہ پاکستان میں بھٹو صاحب‘ محترمہ بے نظیر شہید دونوں عوام کی نظروں میں اس وقت زیادہ محترم اور مقبول ہوئے‘ جب انہوں نے جیل کی صعوبتیں کاٹیں۔ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبر پختونخوا کے بیشتر قابل ذکر لیڈر جیلوں کے امتحان پاس کرنے کے بعد ہی عوام کی نگاہوں میں محترم ہوئے۔ نواز شریف نے بھی مقبولیت کی بلندیوں کو اسی وقت چھوا ‘جب وہ ایوان وزیر اعظم سے سیدھے کال کوٹھڑی پہنچائے گئے اور پھر اٹک جیل میں مقید رکھے گئے۔ انہیں شاہی جلاوطنی نے مقبولیت کی بلندیوں تک نہیں پہنچایا۔ ان کے سیاسی عزت و وقار اور عوام کے دلوں میں ان کی محبت میں حیرت انگیز اضافہ‘ ان کی جیل کی تکالیف کے باعث ہوا۔
عمران خان نے جو چند روزہ جیل کاٹی ہے‘ وہ کسی قومی مقصد کے لئے نہیں تھی۔ وہ ایک ایسے شخص کی نوکری کے لئے جیل گئے تھے‘ جو دوسروں کے سیاسی عزائم پورے کرنے کا‘ ایک آلہ کار تھا۔ اسے اپنی نوکری سے غرض تھی اور اسے شہ دینے والوں کو اپنے اقتدار میں دلچسپی۔ جن لوگوں نے عدلیہ کی خاطر قربانیاں دیں‘ انہیں وہ سب کچھ نہیں ملا جتنی کہ انہوں نے امیدیں لگا لیں تھیں۔ عدلیہ کے کردار میں جو موثر تبدیلیاں آئیں‘ ان کی وجہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور عوام کی خوش قسمتی تھی۔ وہ صاحب روز بروز‘ اپنے اصل چہرے کے اوپر سے ذرا ذرا نقاب سرکاتے ہوئے‘ عوام کی نگاہوں میں آ رہے ہیں۔ اگر خان صاحب کی خوش قسمتی سے حکومت نے انہیں گرفتار کر لیا تو ان کے لئے یہ خاص تحفہ خداوندی ہو گا۔ وہ سند یافتہ لیڈروں کی ایک صف میں شامل ہو جائیں گے اور رہ گیا جیل جانے کا معاملہ تو حکومت انہیں گرفتار کرے نہ کرے‘ خان صاحب کے لئے وارنٹ ہی کافی ہیں۔ ان کا پہلا فائدہ‘ جو خان صاحب کو مفت میں مل چکا ہے ‘ ان کی پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات شیریں مزاری کا یہ اعلان ہے کہ ''اب ہم مذاکرات نہیں کریں گے‘‘۔ میں تو پہلے ڈر ہی گیا تھا کہ خان صاحب کی ننکانہ صاحب والی‘ سرداروں والی پیش کش پر‘ حکومت فوراً ہی مذاکرات کی دعوت نہ دے ڈالے کیونکہ عدالتی کمیشن کی تشکیل پر‘ جن بھول بھلیوں میں شاہ محمود قریشی اور ان کے ساتھیوں نے دھکیل دیا گیا تھا‘ وہ ان سے باہر نکلنے کا راستہ آخر تک نہیں ڈھونڈ پائے تھے۔ وہ تو صاحبان اقتدار ہی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنی حکومت اور فوج کی مخالفت سے بھری تقریریں سن کر‘ لہر میں آ گئے اور انہوں نے مذاکرات ہی سے منہ موڑ لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ خود حکومت نے توڑا‘ جو جناب وزیر اعظم کے مزاج کے عین مطابق ہے۔ جب تک ان کی ضرورت ہو تو وہ خاک نشینوں کی ناز برداریاں بھی کر لیتے ہیں اور بعض روایات کے مطابق تو چھڑیوں کی عزت افزائی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس معاملے میں وہ اپنی ہم منصب‘ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید‘ کی طرح ایک ہی پیر کے مرید تھے۔ دونوں شوق سے چھڑیاں کھاتے اور پیر دھنکہ صاحب کا شکریہ ادا کرتے۔ عمران خان بھی چاہیں تو وزرائے اعظم کا یہ پسندیدہ شوق اختیار کر سکتے ہیں مگر میرا اندازہ ہے کہ وہ برق رفتار گھوڑے کی طرح‘ چھڑی کا چھونا بھی برداشت نہیں کریں گے۔ وزیر اعظم بن کر‘ حوصلہ پیدا ہو جائے تو یہ اللہ کی مرضی۔ بہرحال یہ تو جملہ معترضہ کو کھینچا لگانے کی بے ہودہ سی کوشش تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے عدالتی کمیشن بنانے کے لئے‘ جس خط کا شور مچایا جا رہا ہے‘ نہ تو وزیر اعظم آفس اس میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ نے کوئی دلچسپی دکھائی۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی خواہش مند شخصیت کمیشن بنانے کا خط لکھتی تو ایک دو مرتبہ کی یاد دہانی کے بعد‘ عدلیہ کمیشن 
کا اعلان کر سکتی تھی۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ وزیر اعظم کے خط میں ان ذمہ داریوں کا تعین ہی نہ کیا گیا ہو‘ جو کمیشن معرض وجود میں آنے کے بعد پوری کرے گا۔ پہلے بھی تو مذاکرات میں یہی جھگڑا چلا تھا کہ کمیشن کے دائرہ کار کا تعین کرتے ہوئے‘ دھاندلی کی تعریف کیا کی جائے؟ میں نے اس وقت بھی ایک ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ اگر دھاندلی کا مطلب پوچھنا ہے تو راہ چلتے کسی عام آدمی سے پوچھ لیجئے وہ بلا تامل بتا دے گا اور اگر کوئی اس کا مطلب طے کرنا شروع کر دے تو آپ دنیا بھر کے ماہرین لسانیات کو جمع کر لیں‘ کسی ایک مفہوم پر اتفاق رائے نہیں ہو سکے گا۔ یہاں تو دو متحارب فریق دھاندلی کے مفہوم کا تعین کرنا چاہتے تھے۔ حکومت کے نزدیک دھاندلی کا مفہوم یہ تھا کہ نواز شریف اور چیف جسٹس افتخار نے مل کر‘ کوئی گڑبڑ تو نہیں کی؟ کون سا عدالتی کمیشن ہے جو اس گڑبڑ کا سراغ لگا سکے؟ نہ کمیشن اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دھاندلی کے مفہوم پر اتفاق رائے ہو گا اور نہ بات آگے بڑھے گی۔ اس دوران پانچ سال پورے ہو جائیں گے اور اس کے بعد‘ میاں صاحب فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ خان صاحب کو خود دعوت دے دیں گے کہ '' او کے خان صاحب آپ مجھے دھاندلی کا مفہوم اپنے ہاتھ سے لکھ کر دے دیجئے‘ میں کمیشن کے دائرہ کار کا تعین کرتے ہوئے‘ وہی لفظ لکھ دوں گا‘‘۔ سیاسی مذاکرات جب کسی ایک فریق کے مفاد میں ہوں اور اختیار بھی اسی کے پاس ہو تو ایسا کبھی ممکن ہے کہ وہ کمیشن کے فرائض کا تعین کرتے ہوئے‘ وہی ذمہ داری لگائے جس کے مفہوم پر اتفاق رائے ہو سکتا ہو؟ خان صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ سیاست میں غیر جانبدار ریفری کوئی نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ بعض حالات میں سپریم کورٹ کے جج بھی۔ ورنہ جج حضرات کو انصاف فراہم کرنے کا اختیار ہوتا تو بھٹو صاحب کبھی پھانسی نہ لگتے اور نواز شریف کو غیر آئینی طریقے سے برطرف کرنے پر‘ جنرل پرویز مشرف کو آئینی تحفظ نہ ملتا۔ خان صاحب‘ پٹھان بھی ہیں اور ان کی دیانت داری کی بھی کافی شہرت ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر نعمت سے نواز رکھا ہے۔ انہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں اور جن مجبور اور مایوس عوام کو وہ سہارا دینے نکلے ہیں‘ انہیں سہار ے کی سخت ضرورت ہے۔ خان صاحب‘ اس پٹھان والا کام نہ کریں جس نے پانی میں پائوں نہ رکھنے کی ضد کر لی تھی اور گدھے کو تھوڑا سا کھینچنے کے بعد‘ پٹھان کو ضد چڑھ گئی اور غصے میں بے وقوف گدھے سے کہا‘ خوچے تو ہم سے بھی زیادہ ضدی ہے؟ لو میں بھی پانی کے باہر بیٹھ گیا ہوں‘ دیکھتا ہوں تو کب تک اس پانی میں نہیں اترتا؟ آپ کو زیب نہیں دیتا کہ وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگنے کی ضد لگا کر‘ خود ہی ان سے کہیں کہ استعفیٰ مت دو‘ چلو دوسرے مطالبات پر بات چیت کرتے ہیں۔ عوام کو اس بات چیت سے کوئی غرض نہیں‘ عوام کو وہی چاہئے جس کا آپ روزانہ کئی بار مطالبہ کرتے ہیں اور آپ نے ساری دنیا کے سامنے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ میں استعفیٰ لینے کے بعد ہی‘ دھرنے سے اٹھوں گا۔ یہ سراسر وعدہ خلافی ہے کہ استعفیٰ کی بات چیت بھی چلتی رہے گی اور دھرنا بھی چلتا رہے گا۔ یہ بات آپ نے پہلے کبھی نہیں کہی۔لوگ سب سمجھتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں