ان دنوں آسٹریلیا میں جی-20 کا اجلاس مستقبل کے لئے بہت سے منصوبوں پر ‘غور کر رہا ہے۔ ممکن ہے کہ ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن‘ چینی وزیراعظم ژی اور اوباماایک ایسا ادارہ قائم کرنے پر آمادہ ہو جائیں‘ جو بڑی فوجی کارروائیوں کے بارے میں‘ تبادلہ معلومات کا کوئی نظام وضع کر لے۔ آسان الفاظ میں اس کا مفہوم یہ ہو گا''جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔‘‘یعنی طاقتور ملک ایک دوسرے کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ کر کے‘ دوسرے ملکوں میں اسی طرح کی مداخلت کر سکیں‘ جیسے روس نے یوکرائن میں کی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جیسے جیسے ترقی یافتہ ملک طاقتور ہوتے جائیں گے‘ وہ باہمی تصادم کے امکانات کم سے کم کرتے جائیں گے۔ اپنے تنازعات مذاکرات کے ذریعے طے کریں گے اور کمزور ملکوں کی طرف سے کسی خطرے کا امکان پیدا ہوا‘ تو باہمی انڈرسٹینڈنگ کے ساتھ کلب کا وہ رکن‘ جس کے لئے خطرہ پیدا ہو گا‘ کسی برابر کی طاقت کی طرف سے مزاحمت کے خطرے سے بے نیاز ہو کر‘ جو کارروائی مناسب سمجھے گا‘ کر ڈالے گا۔ اس پروگرام کے بنیادی خدوخال‘ ان دنوں آسٹریلیا میں طے ہو رہے ہیں۔ اس کانفرنس میں اجتماعی ایجنڈے بھی ہیں اور دوطرفہ بھی۔ بھارت اب باضابطہ طور پر ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن کے متحرک رکن کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ بھارت اور چین سرحدی تنازعات کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ باہمی تجارت اور تعاون کو فروغ دینے کے امکانات پر غور کریں گے اور مشترکہ خطرات کا مقابلہ کرنے کا طریقہ کار بھی طے کریں گے۔ اس سلسلے میں جس شعبے میں عملی تعاون کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ وہ دہشت گردی ہے۔ دو نوں ملک اپنے خلاف جس طرف سے بھی دہشت گردی کا خطرہ دیکھیں گے‘ مل کر اسے روکنے کی تدبیریں اور کارروائیاں کر سکیں گے۔ بھارت چین تعاون کا پہلا علاقہ‘ پاکستان اور افغانستان ہوں گے۔ چین نے گرینڈ اکنامک زون یا نئی سلک روڈ کے منصوبے میں‘ بھارتی مفادات کو خاصی اہمیت دی ہے۔ یہ سڑک جب مکمل ہو گی‘ تو ایک طرف سے بھارت کو خشکی کے راستے پوری دنیا سے ملا دے گی اور دوسری طرف بھارت کو اس کے جنوبی ملکوں کے ساتھ بھی آبی سڑک کے ذریعے مربوط کر دے گی۔ اس منصوبے پر بھاری سرمایہ کاری چین کی ہو گی‘ جبکہ فائدہ اٹھانے میں بھارت بھی حصے دار بن جائے گا۔ یہ دونوں ملک‘ دہشت گردی کے خلاف باہمی تعاون کے ذریعے بھی ایک دوسرے کے قریب آئیں گے اور پھر یہی تعاون بڑھتے بڑھتے معیشت اور ٹیکنالوجی تک پھیل جائے گا، جس کا زیادہ فائدہ بھارت کو ہو گا۔ اگر ہم نے دائیں بائیں ہر طرف جھگڑے پیدا کرنے اور جاری رکھنے کا سلسلہ برقرار رکھا‘ تو ہم ترقی کے عظیم ترین منصوبے یعنی گرینڈ سلک روڈ سے علیحدہ ہو کربہت نقصان میں رہیں گے۔ چین بری اور سمندری سڑک کا جو عظیم منصوبہ مکمل کرنے جا رہا ہے‘ اس کا بھرپور فائدہ وہ ممالک اٹھائیں گے‘ جہاں سے یہ سڑک گزرے گی اور اگر چین کو متبادل روٹ اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا‘ توپھر خداجانے ہم کب تک تعمیروترقی کے اس راستے کے فوائد سے محروم رہیں گے؟ کیونکہ چین جس تیزرفتاری سے اس منصوبے کو مکمل کرنے جا رہا ہے‘ وہ زیادہ دیر حالات کے معمول پر آنے کا انتظار نہیں کرے گا۔ اس منصوبے کو زیادہ محفوظ اور کارآمد
بنانے کے لئے چین کو زنجیانگ میں امن کی ضرورت ہو گی۔ اسی مقصد کے تحت وہ افغانستان کی مدد کر رہا ہے تاکہ وہاں حکومت کی عملداری قائم ہو سکے۔ امن و امان ہو اور تجارتی سرگرمیاں جاری رہیں۔ یہی کچھ وہ پاکستان سے چاہتا ہے۔ اگر ہم اپنے علاقے سے گزرنے والی سڑک کے اردگرد پُرامن اور محفوظ علاقے مہیا نہ کر سکے‘ تو جو خسارہ ہو گا‘ اس کی تلافی نہ معلوم کب تک ہو سکے؟ بھارت اور امریکہ پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف تعاون کے سمجھوتے کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے مشترکہ منصوبے بنانا بھی شروع کر رکھے ہیں۔ روس پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف‘ بھارت کا ہم خیال ہے۔ اب چین اور بھارت بھی اس شعبے میں تعاون شروع کر چکے ہیں اور جلد ہی مشترکہ کارروائیوں کی مشقیں بھی شروع کر دیں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کے حکومتی نظام میں مستقبلیات کا کوئی شعبہ یامحکمہ موجود بھی ہے یا نہیں؟ یونیورسٹیوں سے رہنمائی لینے کا ہمارے ہاں رواج ہی نہیں ۔حکومتیں اپنے کاموں میں ماہرین سے مدد لینے پر یقین نہیں رکھتیں۔ نہ یہاں تھنک ٹینکس ہیں‘ نہ فکری لیبارٹریاں‘جہاں مستقبل کے بارے میں سوچ بچار کیا جاتا ہواور ایسے فارمولے تخلیق کئے جاتے ہوں‘ جو مختلف نوعیت کے داخلی اور خارجی مسائل حل کرنے میں‘ حکومت کے لئے مدد گار ہوسکیں۔ تاریخ کے راستے پر ہمارا سفر‘ بدوئوں کے قافلے کی طرح ہے‘ جو آسمانوں کی طرف دیکھ کر‘ زمین پر اپنے راستے اختیار کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا‘ تو اب تک درجنوں طریقے سوچے جا سکتے تھے کہ دہشت گردی کا جو عفریت ہمارے ملک میں تباہ کاریاں کر رہا ہے‘ اس سے اپنے آپ کو کیسے بچائیں؟ بچنے کے لئے دوسروں سے تعاون اور مدد کیسے حاصل کریں؟ یہ وہ عفریت ہے‘ جس پر کوئی بھی ملک تن تنہا قابو نہیں پا سکتا۔ دہشت گردی پر صرف اپنے وسائل سے قابو پانے کے تجربے میں کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ امریکہ نے بے پناہ وسائل صرف کئے۔ نئے محکمے بنائے۔ جنگی مشینری میں طرح طرح کے اضافے کئے، لیکن دہشت گردی سے وہ آج بھی محفوظ نہیں۔ یورپ کی حالت یہ ہے کہ دنیا کی خونخوار ترین دہشت گرد تنظیموں کو وہاں
سے افرادی قوت میسر آ رہی ہے۔ ہم تو ویسے ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں، جس کا دل چاہتا ہے‘ اسلام کا نام لے کر‘ ہماری بوٹیاں کاٹنا شروع کر دیتا ہے۔ ہمارے سماجی نظام کو درہم برہم کر سکتا ہے۔ ہماری معیشت کو تباہی سے دوچار کر سکتا ہے ۔یہ سارے کام کرنے والوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور دوسرے ملکوں کے دہشت گرد گروپ ‘ہمارے ملک میں اپنی شاخیں قائم کرتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنی ملکی حدود کے اندر تو بہت کچھ کر سکتے ہیں، لیکن افغانستان اور عراق میں تیار ہونے والے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے کون روک سکے گا؟ پاکستان اور افغانستان میں حکومتی رابطے ابھی شروع ہوئے ہیں۔ دونوں حکومتوں کو اگر اپنے اپنے ملکوں کی سلامتی عزیز ہے‘ تو انہیں دہشت گردی کے خلاف مل کر آپریشن کرنا پڑے گا۔ اس کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ اگر افغانستان کی ساری پڑوسی حکومتیں ‘باہمی تعاون کے معاہدے کے تحت‘ اپنے اپنے زیراثر علاقوں میں دہشت گردی کے مراکز ختم کرنے میں تعاون کریں‘ تو کامیابی کی امید ہو سکتی ہے۔ لیکن یہاں پھر ہمارا مسئلہ آڑے آتا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ ہماری محاذآرائی جاری رہے گی‘ تو اس کا دائرہ افغانستان تک یقینا پھیلے گا۔ ہم جتنا بھی جتن کر لیں‘ افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ یہی صورتحال قائم رہی‘ تودنیا کی عظیم ترین اکنامک بیلٹ یعنی نئی سلک روڈ سے افغانستان بھی محروم ہو جائے گا۔ اب عالمی منظر کی طرف لوٹتے ہیں۔ جب بش جونیئر 2001ء میں نیوکونز کی ٹیم کے ساتھ اقتدار میں آئے‘ تو ان کے سامنے دو راستے تھے۔ یا تو وہ داخلی خوشحالی اور استحکام پر توجہ دیتے ہوئے‘ دنیا میں اپنی معاشی اور جیوپولیٹیکل بالادستی سے محرومی قبول کر لیں یاجنگیں چھیڑ کر عالمی بالادستی برقرار رکھیں۔ امریکہ نے جنگ کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اسی پر چلتا رہا‘ تو اسے یورپی یونین‘ روس اور چین ‘ سب کی طرف سے خطرات پیدا ہوتے رہیں گے اور جو ملک جنگ کا راستہ اختیار کر کے‘ افغانستان اور عراق میں بری طرح سے پسپا ہوا‘ وہ ان طاقتوں سے کس طرح ٹکر لے گا؟ اور کیسے اپنی حیثیت برقرار رکھ پائے گا؟ امریکی دانشور اور مفکر اس سوال کے جواب کی تلاش میں انتہائی پریشان ہیںکہ ہماری فوجی طاقت جو ترقی پذیر ملکوں پر غلبہ نہ پا سکی‘ وہ ان طاقتوں کا مقابلہ کیسے کرے گی؟ جب کیپیٹلسٹ عالمی معیشت میں بحران آیا‘ توخود امریکہ اپنے آپ کو کیسے سنبھال سکے گا؟ جبکہ عالمی سرمائے کا نیا ڈھانچہ تیزی سے تشکیل پا رہا ہے۔ امریکہ اس میں شامل نہیں۔ ہم جو عالمی سرمایہ داری کا دم چھلا ہیں‘ سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام کے بعد‘ کہاں کھڑے ہوں گے؟ مستقبل میں جو کچھ دوسری قوموں کو واضح طور سے دکھائی دے رہا ہے‘ ہمیں کیوں دکھائی نہیں دے رہا؟