عملی طور سے انتخابی مہم شروع ہو گئی۔ عمران خان اپنی تحریک لے کر‘ آگے بڑھتے آرہے ہیں۔ انہیں پختہ یقین ہے کہ جن انتخابات کو وہ دھاندلی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ‘ آخر کار ان کی حقیقت سامنے آئے گی اور قبل از وقت انتخابات ناگزیر ہو جائیں گے۔ ان کی احتجاجی تحریک ‘اپنے جوہر میں انتخابی بھی ہے اور گزشتہ تین ماہ سے جس زور شور کے ساتھ وہ اسے چلا رہے ہیں‘ ایسا انتخابی مہم کے آخری دنوں میں بھی نہیں ہوتا۔ عام طور سے‘ پولنگ سے چھ سات دن پہلے روزانہ جلسوں اور جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پولنگ والے دن‘ انجام کو پہنچ جاتا ہے لیکن عمران خان نے روزانہ جلسے جلوسوں کا جس انداز میں'' جلوس‘‘ نکالا ہے‘ اس کی مثال کسی انتخابی تحریک میں نہیں ملتی۔ صرف امریکہ ہے‘ جہاں صدارتی انتخاب کے وقت‘ طویل انتخابی مہم چلتی ہے لیکن اس کے کئی مراحل ہوتے ہیں۔ یہاں تو ایک ہی معمول ہے۔روز کا دھرنا‘ روز کا مظاہرہ اور روز کی تقریر۔ ہو سکتا ہے کسی نے شمار کیا ہو‘ میں صرف اندازے سے لکھ رہا ہوں کہ عمران نے کم از کم ڈیڑھ دو سو تقریریں ضرور کر دی ہوں گی۔ دو تقریریں یومیہ تو لازمی تھیں۔ ایک تقریر وہ شام سات بجے کے قریب کرتے اور دوسری رات گئے‘ گیارہ بارہ بجے۔ شاید ہی کوئی سیاست دان‘ اتنے کم عرصے میںاتنی زیادہ تقریروں کا ریکارڈ رکھتا ہو۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کے سننے والے بھی انہی کی طرح با ہمت ہیں۔ کوئی شخص اپنی پسندیدہ ترین فلم ‘ زیادہ سے زیادہ آٹھ دس مرتبہ اور کوئی جنونی ہو تو پندرہ بیس مرتبہ دیکھ سکتا ہے۔ لیکن یہاں عوام نے مسلسل نوے دن اوسطاً دو تقاریر یومیہ سنی ہیں اور مسلسل دلچسپی لے رہے ہیں ۔ اب تقریروں کا جو نیا دور شروع ہونے جا رہا ہے۔ اندازہ ہے اس میں بھی عوام کا رش اور دلچسپی اسی طرح برقرار رہیں گے۔ ابھی تک ایسا جائزہ دیکھنے میں نہیں آیا‘ جس میں گزشتہ سو روزہ جدوجہد میں قائم ہونے والے‘ ریکارڈز مرتب کئے گئے ہوں۔مجھے اپنی نصف صدی سے زیادہ کی صحافتی زندگی میں‘ کبھی ایسے مناظر دیکھنے کو نہیں ملے۔
نئے انتخابات اب زیادہ دور نہیں رہ گئے۔ اس کا پتہ دیگر سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں سے ہو رہا ہے ‘جو انہوں نے ہڑبڑاہٹ میں شروع کی ہیں۔ ہر پارٹی بھاگتی ٹرین پکڑنے کی تگ و دو میں ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری‘ تو کینیڈا سے بھاگم بھاگ پاکستان پہنچے اور دھرنے میں شریک بلکہ شریکا بن کر بیٹھ گئے۔انہوں نے بھی یومیہ تقریروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ زورِ خطابت تو ان کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ انہوں نے ٹھان لی تھی کہ حکومت کی مخالفت میں وہ‘ عمران کو کسی قیمت پر آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔عمران تو قدم بقدم ٹمپو میں اضافہ کر رہے تھے لیکن ڈاکٹر صاحب زقند پر زقند بھرتے سرپٹ بھاگ رہے تھے اور ساتھ ساتھ مڑ کے دیکھتے بھی رہے کہ عمران کہیں ان سے آگے تو نہیں نکل رہے؟ جیسے ہی انہیں لگتا کہ عمران قدرے تیز ہو گئے ہیں تو وہ اپنی زقندیں مزید بڑھا دیتے۔ ایک مرحلہ ایسا آیا کہ عمران تو حکومت سے مقابلے کے ارادوں میں شدت پیدا کرتے رہے‘ ڈاکٹر صاحب نے اپنے آپ کو گولیوں کے لئے پیش کر دیا۔اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ ایک شام اپنا کوٹ اتارا اور قمیض اٹھا کر‘ اپنا چھپن انچ کا سینہ عوام کے سامنے‘ کھول کر ٹھونکا اور دعوت دی کہ وہ اچھی طرح دیکھ لیں‘ انہوں نے قمیض کے نیچے بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی۔گولی کے راستے میں کسی طرح کی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔ حکومت جیسے چاہے نشانے بازی کرے‘ ان کا سینہ حاضر ہے۔ اس موقعے پر عمران خان ‘ ڈاکٹر صاحب سے پیچھے رہ گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے آگے بڑھنے کا سلسلہ‘ بند نہ کیا۔ چند روز بعد‘ انہو ں نے کفن منگوا کر اپنے ساتھیوں کے سروں پر بندھوائے اور قربانی کی فضیلت بیان کرنا شروع کر دی اور آخری مرحلے پر موصوف نے جس مقام پر دھرنا دے رکھا تھا‘ وہیں قبریں کھدوائیں اور حکومت کو للکارتے رہے کہ ہمت ہے تو ہمیں شہید کر کے‘ ان قبروں میں دفنائو۔کسی نے گولی نہ چلائی‘ کوئی کفن پہنانے نہیں آیا اور نہ کسی نے پہلے سے کھودی ہوئی قبروں کافائدہ اٹھایا۔میں اب تک نہیں سمجھ پایا کہ ڈاکٹر صاحب نے دھرنا دے کر‘ عمران خان کی نقل کرنے کے سوا‘یہ سارا دھوم دھڑکا کیا کس لئے تھا؟ ماسوا اس کے کہ عمران عوام کو تبدیلیوں کی جو امیدیں دلاتے‘ وہ ان سے آگے بڑھ کر چٹکی بچاتے ہی انقلاب برپا کر دینے کے دعوے کرنے لگتے جیسے انقلاب کوئی جن ہو اور ڈاکٹر صاحب اپنا چراغ گھسا کے اس جن کو حاضر کریں گے اور عوام سے کہیں گے کہ اب جو مانگو گے‘ یہ جن تمہاری خدمت میں پیش کر دے گا۔ تبدیلیوں کے جتنے بڑے بڑے اور فی الفور نتائج کے جو دعوے ‘ ڈاکٹر صاحب کر رہے تھے‘ اس طرح انقلاب کبھی نہیں آتا‘ صرف جن آسکتا ہے۔
دھرنے کا دوسرا مہینہ ختم ہونے سے پہلے‘ ڈاکٹر صاحب کی زنبیل میں جو کچھ تھا‘ سامنے آگیا۔سب کے سب وعدے‘ استعمال میں آکر ختم ہو گئے۔ زنبیل میں چھلکوں کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔ اس پر اچانک وہ دھرنا چھوڑ کر‘ امریکہ اور کینیڈا چلے گئے۔ میدان میں اکیلے عمران خان رہ گئے۔انہوں نے شہر شہر ‘ جلسے کر کے تحریک کادائرہ پورے ملک میں پھیلانا شروع کر دیا۔ ہر جلسہ ریکارڈ پر ریکارڈ قائم کرنے لگا۔انہوں نے جس شہر میں بھی جلسہ کیا‘ وہ اس شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ قرار پایا۔ مقبولیت کا یہ عالم دیکھ کر‘ حکومت اور اس کے ساجھے داروں کے رنگ فق ہونے لگے۔جلدی میں اور تو انہیں کچھ نہ سوجھا''ڈاکٹر صاحب کو ارجنٹ کال دی گئی کہ وہ فوراً واپس آکر‘ عمران کے جلسوں کے سامنے اپنا چھابہ لگائیں۔ ایسا نہ ہو کہ میدان میں اکیلا عمران خان رہ جائے اور ان کو عوام کے جشنِ فتح میں داخلے کا موقع ہی نہ ملے‘‘۔ عمران خان بیک وقت ایک کے بعد ایک‘ دھرنے اور جلسے کرتے چلے جا رہے ہیں اور ڈاکٹر صاحب نے چھوٹے شہرو ں کا رخ کر کے‘ جلسے جمانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ دھرنے سے وہ ایسا بھاگے ہیں کہ پلٹ کر ابھی تک اسلام آباد کا رخ نہیں کیا۔انہیں پہلا دھرنا بھی بے نتیجہ چھوڑ کر‘ اسلام آباد سے لوٹنا پڑا۔ اس
بار طویل دھرنا دینے کے بعد بھی‘ وہ خالی ہاتھ چلے گئے مگر اس بار لگتا ہے کہ ان کو اپنے مستقبل کا آخری سہارا سمجھنے والے دیر تک انہیں میدان میں رکھنا چاہتے ہیں مگر انہیں یقین نہیں آرہا کہ ڈاکٹر صاحب اکیلے ‘عوام کے ووٹ توڑ کر‘ ان کی انتخابی کامیابی کو متاثر کر سکیں گے۔حکومت مخالف ووٹ توڑنے کے لئے‘ ان کی کریڈیبلٹی مجروح ہو چکی ہے۔ عمران خان تیزی سے بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ اسی پریشانی میں حکومت مخالف ووٹ توڑنے کے لئے‘ ایک اور جماعت کو میدان میں اتارا گیا۔ مذہب کے نام پر پھیری لگانے والے بہت سے لوگ‘ ہر وقت مارکیٹ میں موجود رہتے ہیں‘ جب عوامی غم و غصے کے سامنے بے بسی اور تنہائی کا شکار ہونے والی حکومتیں‘ گھبراتی ہیں تو وہ ان پھیری والوں کو میدان میں اتارتی ہیں کہ وہ حکومت کی زیادہ سے زیادہ مخالفت کر کے‘ اس کے مخالف ووٹوں کو تقسیم کریں۔ جماعت اسلامی‘ گزشتہ انتخابات کے وقت ہی سے گواچی گائے کی طرح ‘اِدھر ُادھر پھر رہی تھی۔ آخر کار خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت میں‘ کرسی پر جگہ ڈھونڈے میں کامیاب ہو گئی۔ اس وقت تک (ن) لیگ اسے خاطر میں نہیں لا رہی تھی لیکن جب دیکھا کہ عمران اکیلے ہی‘ حکومت کی مخالف رائے عامہ کو‘ اندھا دھند اپنے ساتھ ملاتے چلے جا رہے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کے بعد‘ جماعت اسلامی کو بھی دودھ وودھ پلا کے‘ میدان میں اتار دیا۔ اسے جلسے کے لئے نفری فراہم کرنے میں مدد دی اور رات کومقوی کھانے کھلا کر‘ میدان میں اترنے کا حوصلہ دیا لیکن ابھی حکومت کی ڈھارس بندھتی نظر نہیں آرہی۔ ایک اور پاسنگ باقی ہے‘ جسے (ن) لیگ نے ابھی تک میدان میں نہیں اتارا لیکن جب حکومت نے دیکھا کہ دو چھابے مل کر بھی عمران کے جھکے ہوئے پلڑے کو اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو رہے تو بچابچایا پاسنگ بھی چھابوں کے ساتھ شامل کر دیں گے۔یہ ہتھیار عموماً ڈکٹیٹروں نے استعمال کیا ہے۔ موجودہ حکومت کہنے کو تو جمہوری ہے لیکن جس طرح موجودہ اسمبلی بنائی گئی ‘ وہ اسی کا چربہ نظر آتی ہے جیسے ڈکٹیٹر اپنی اسمبلیاں بنایا کرتے تھے۔ وہ بھی عوام کے ووٹوں پر ڈاکہ ڈال کے اسمبلیاں کھڑی کرتے اور ان سے ووٹ لے کر‘ منتخب ہو جاتے۔ہوا اس مرتبہ بھی ‘ کچھ ایسا ہی ہے۔دھاندلی سے اسمبلیاں بنائیں اور حکومت قائم کر لی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ آمروں کی طرز پر‘ بنائی گئی اسمبلی میں حکومت بھی اسی طرز کی بنتی گئی‘ جسے اب لوگ بادشاہت کہتے ہیں۔حکمران جماعت‘ روز بروز اپنی عدم مقبولیت میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوتے دیکھ کر‘ گھبراہٹ کا شکار ہے اور اسے بچائو کا آخری راستہ یہی نظر آیا کہ ملک میں حکومت کے حامیوں کی تعداد تو اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے‘ عوام کی جوبھاری تعداد حکومت کی مخالفت میں نکل پڑی ہے‘ ان کے ووٹ توڑنے کے لئے‘ عمران سے زیادہ انقلابی نعرے لگانے والوں کو میدان میں چھوڑا جائے۔دودھ پینے والے دو مجنوں‘ میدان میں آچکے ہیں۔ تیسرے کو لانے کے لئے ڈیزل سستا کر دیا گیا ہے تاکہ وہ بھی حکومت مخالف ووٹ بٹورنے کا کام دے سکے۔ دیکھتے ہیں یہ ترکیب کتنی کارآمد ثابت ہوتی ہے۔دیکھنے میں تو یہی آیا ہے کہ ٹرک سے کھینچے گئے گنے جمع کر کے‘ شوگر مل نہیں چلائی جا سکتی۔ ٹرک بھرے کا بھرا رہتا ہے‘ عمران کے جلسوں کی طرح۔