پاکستان کے تمام بڑے بڑے عہدیدار‘ اداروں کے سربراہان اور ایجنسیوں کے ترجمان ایک ہی رٹ لگا رہے ہیں کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں۔فنی اعتبار سے وہ درست ہیں لیکن داعش کی جڑیں ‘ جس طرح پاکستان میں موجود ہیں اور انہیںتازہ کرنے کے انتظامات ہو رہے ہیں‘ ان کے بارے میں ہماری ایجنسیوں اور حکومتی ترجمانوں کا کیا کہنا ہے؟۔جب داعش پاکستان میں آگئی تو پھر ایجنسیوں کی اطلاعات اور سرکاری ترجمانوں کے بیانات کا کون انتظار کرے گا؟۔ پھر تو ہم بم پھٹنے اور گردنیں کاٹنے کے مناظردیکھ کر‘ خود ہی سمجھ جائیں گے۔ حکومتوں کا کام کیا ہوتا ہے کہ وہ خطرات کا وقت سے پہلے‘ اندازہ کریں اور ان کے عملی صورت اختیار کرنے سے پہلے‘ عوام کے تحفظ کا انتظام کریں۔ کیا پاکستان کی ایجنسیوں اور حکومتی اداروں کو معلوم نہیں کہ داعش کی پاکستان میں آمد کا شور کیوں مچا ہے؟۔ خبریں کیوں چھپ رہی ہیں؟ اور عوام یہ کیوں محسوس کر رہے ہیں کہ داعش کسی وقت بھی پاکستان آسکتی ہے۔ جو بات گزشتہ روز ''نیویارک ٹائمز‘‘ نے لکھی‘ کیا وہ ہمارے اداروں کے علم میں نہیں ہے؟ جن کی ڈیوٹی ہی خطرات کی آمد سے قبل‘ ان کا سراغ لگانا ہے۔اخبار نے اصل میں وہی بات لکھی ہے جو ہمیں سرکاری ذرائع بتا رہے ہیں۔اخبار نے بھی یہی لکھا ہے کہ'' ابھی تک داعش نے کسی پاکستانی گروپ کو ‘ اپنی برانچ بنانے کاباقاعدہ اعلان نہیں کیا‘‘۔ اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ پاکستان کے ایک مقبول نامی طالبان کمانڈر نے بتایا ہے کہ وہ داعش کے ساتھ رابطوں کی کوشش کر رہا ہے لیکن ابھی تک کامیاب نہیں ہوا۔ درمیان داری کے لئے ''مجاہدین‘‘ کی مدد بھی لی گئی لیکن اسے ابھی تک جواب نہیں ملا ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ داعش پاکستان میں نہیں آئے گی؟ ہمارے ہر شہر کے درو دیوار پر‘ داعش کے لئے خیر مقدمی نعرے لکھے جا رہے ہیں۔ پولیس کی طرح‘ ہر سرکاری نمائندہ یہی کہتا ہے کہ ہمیں داعش کا کوئی کارندہ یہاں نہیں ملا۔ ملتا کہاں سے؟ موجود ہی نہیں۔ اصل میں داعش کی آمد کا خطرہ اسی میں ہے۔ ہمارے بیشتر دہشت گردگروہوں کو‘ گزشتہ دنوں بے شمار مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ضربِ عضب نے شمالی وزیرستان میں دہشت گروںکے ٹھکانے تباہ کر دئیے ہیں۔ جتنے غیر ملکی پاکستان میں بیٹھ کر‘ دہشت گردی کے منصوبے بناتے تھے‘ وہ سب کے سب شمالی وزیرستان میں تھے۔ فوجی آپریشن میں ان تمام ٹھکانوں کو ملیا میٹ کر دیا گیا ہے۔
دہشت گردوں کی چند ٹولیاں‘ افغانستان کی طرف فرار ہو گئی ہیں۔ باقی پاکستان میں اِدھر اُدھر بکھر کے روپوش ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی طالبان کے مختلف گروپ بھی‘ مختلف وجوہ کی بنا پر ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں۔سب سے بڑے گروپ کو پہلا صدمہ‘ بیت اللہ محسود کی موت سے پہنچا اور حکیم اللہ محسود کی موت نے تو انہیں‘ آخری متفقہ لیڈر سے محروم کر کے رکھ دیا۔ اس کے بعد‘ اتفاق رائے سے کسی ٹی ٹی پی کمانڈر کا انتخاب نہیں کیا جا سکا۔ملا فضل اللہ کو حکیم اللہ کا جانشین بنایا گیا لیکن کئی کمانڈروںنے اس تقررکو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اوراپنے علیحدہ علیحدہ گروپ بنا لئے۔ گویا حکیم اللہ محسود کی موت اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد‘ تمام دہشت گردوں کے تنظیمی ڈھانچے ٹوٹ پھوٹ گئے اور ان دنوں وہ سب کے سب‘ قیادت کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں ۔ انہیںملاعمر سے امیدیں تھیں کہ وہ ان کی مسلمہ قیادت میں‘ ایک مضبوط تنظیم کا حصہ بن جائیں گے لیکن ملاعمر محض ایک دیومالائی کردار بن کر رہ گئے ہیں۔نوجوان نسل کے دہشت گردوں میں سے انہیں کسی نے نہیں دیکھا اورجو سینئر ہیں‘ و ہ بھی گزشتہ دس برسوں سے ملاعمر کی شکل دیکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ملاعمر اب ان کے لئے صرف ایک نام ہے۔ملا عمر کے نام پر دوسرے لوگ‘ انہیں کمانڈ کرتے ہیںلیکن ملاعمر کی مسلسل روپوشی کی وجہ سے‘ شکوک و شبہات پیدا ہو چکے ہیں اور بیشتر مایوس دہشت گرد‘ ایک نئی طاقتور اور ایسی قیادت کے پیچھے کام کرنا چاہتے ہیں‘ جسے وہ دیکھ بھی سکیں‘ سن بھی سکیں اور اس سے واضح احکامات بھی حاصل کر سکیں۔یہ امید ابوبکر البغدادی نے پیدا کی۔وہ نہ صرف جمعے کے اجتماعات میں خطاب کرتے ہیں بلکہ جو علاقے داعش کے زیر قبضہ ہیں‘ وہاں بغدادی‘ لوگوں کے درمیان دیکھنے میں بھی آتے ہیں۔میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ مقبول نامی ایک پاکستانی کمانڈر نے ‘ اپنے عرب ساتھیوں کی مدد سے‘ بغدادی کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی مگر انہیں مایوسی کے سوا‘ ابھی تک کچھ نہیں ملا۔ کیا بغدادی ‘اپنی تنظیم پاکستان میں قائم نہیں کرنا چاہتے؟
یہ نا قابل یقین بات ہے۔ جہاں تک بیرونی دنیا کو ‘بغدادی کے خیالات کے بارے میں معلوم ہے‘ اس کے مطابق بغدادی کی سب سے زیادہ دلچسپی پاکستان میں ہے۔ وہ جلد از جلد داعش کی پاکستانی شاخ قائم کرنا چاہتے ہیں اور یہی فکر مندی کی بات ہے۔داعش کی قیادت بھی‘ اپنے پاکستانی حامیوں کو منظم کرنے کی خواہش مند ہے اور پاکستان میں ان گنت تربیت یافتہ دہشت گرد‘ اس کی آمد کے منتظر ہیں۔ یہ وہی منتشر اور مایوس دہشت گرد ہیں‘ جو ہمارے شہروں میں کھمبوں اور دیواروں پرداعش کے سلوگن لکھتے پھر رہے ہیں۔ پاکستان میں داعش کی قیادت کی دلچسپی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ داعش کو نہ صرف عافیہ صدیقی کے بارے میں معلوم ہے بلکہ وہ اس کے مجاہدانہ کردار کی تعریف بھی کرتی ہے اور اس کی رہائی کے عزم کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق نے دہشت گردی کا جو زہریلا پودا‘ فاٹا میں لگا کر دہشت گردی کی انسان دشمن قوتوں کو طاقتور بنا کر‘ پورے خطے میں پھیلایا تھا‘ اب اس کے پھول پھل دکھائی دینے لگے ہیں۔اس شخص نے افغانستان میں امریکیوں کے مقاصد پورے کرنے کے لئے‘ دنیا بھر کے غنڈوں‘ مفروروں اور عرب ملکوں کے بھگوڑوں کو یورپ اور امریکہ سے جمع کر کے‘ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پہنچایا تھا اور انہیں تربیت دے کر‘ افغانستان میں بھیج دیا تھا۔یہی لوگ تھے‘ جنہوں نے سوویت افواج کے خلاف‘ جنگ کرنے کی آڑ میں‘ افغان آبادیوں میں اندھا دھند لوٹ مار کی۔ان کے اپنے ہی ساتھی‘ جو بظاہر مجاہدین بنے ہوئے تھے‘ ایک دوسرے سے برسرپیکار ہو گئے۔ میں بار بار اس کی مثال دیا کرتا ہوں کہ جب تک کابل پر سوویت فوجوں کا قبضہ رہا‘ اس شہر کی خوب صورتی پوری طرح برقرار رہی لیکن جیسے ہی سوویت فوجیں‘ واپس گئیں۔ ضیا الحق کے یہی مجاہدین ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے اور افغانستان میںایسی تباہی برپا ہوئی‘ جس کی مثال صرف تاتاریوں کے حملوں میں ہونے والی تباہ کاریوں سے دی جا سکتی ہے۔ کابل کا خوب صورت شہر‘ سوویت فوجیوں کے ساتھ جنگ میں برباد نہیں ہوا۔ نام نہا دمجاہدین کی باہمی جنگ و جدل کے دوران‘ تباہ ہوا۔ کابل کوان عالمی دہشت گردوں نے تباہ کیا‘ جنہیں امریکیوں نے بطور تحفہ پاکستان بھیجا اور ضیا الحق نے انہیں تربیت اور امریکیوں کا دیا ہوا اسلحہ دے کر‘ افغانستان میں داخل کیا۔
ضیا الحق کی سرپرستی میں ہی‘ اسامہ بن لادن پاکستان آیا تھا۔ یہاں افغانستان میں سرگرم دہشت گردوں سے اس کے رابطے کرائے گئے تھے اور پھر اس نے افغانستان میں جا کر‘ دہشت گردی کا مرکز قائم کیا تھا۔ ضیا الحق نے پورے خطے میں عالمی دہشت گردوں کے جو مراکز قائم کئے تھے‘ وہ پھیلتے پھیلتے کم و بیش ساری مسلم دنیا میں پھیل گئے۔ان میں ایک تنظیم القاعدہ بھی تھی۔ داعش اسی کے دئیے ہوئے انڈے بچوں پر مشتمل ایک گروہ ہے۔ اس نے عراق اور شام کے علاقوں پر قبضہ کر کے‘ جس طرح ایک اسلامی ریاست قائم کی ہے‘ وہ امریکیوں کی مدد کے سوا‘ ممکن نہیں تھا ۔ درحقیقت داعش مستقبل میںامریکہ کے جنگی منصوبوں کا ایک حصہ ہے۔
میں پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ داعش ایسے تمام مسلم ملکوں کی فوجی طاقت کو منتشر کرنے کے لئے‘ معرضِ وجود میں لائی گئی ہے‘ جو اسرائیل کے لئے خطرہ بن سکیں۔عراق میںامریکہ نے یہ کام خود کیا اور لبیامیں القاعدہ کے دہشت گردوں سے کرایا اور پھر تربیت یافتہ دہشت گرد‘ شام میں داخل کئے۔ انہیں اسلحہ دے کر عراق کے علاقے پر قبضہ کرنے کے قابل بنایا۔شام اور عراق کی سرحدیں پامال کر کے‘ دونوں کے علاقوں پر مشتمل داعش کی قوت قائم کی۔ یاد رکھئے کہ یہ تنظیم اسرائیل کے لئے خطرہ بننے والے‘ہر مسلم ملک کی دفاعی طاقت کی توڑ پھوڑ کے لئے بنائی گئی ہے۔ اس کا اصل نشانہ مصر اور پاکستان کی فوجیں ہوں گی اور یہ بھی عرض کر دیتا ہوں کہ پاکستان کو اس کے ایٹمی ذخائرسے محروم کرنے کے لئے بھی‘ داعش سے ہی کام لیا جائے گا۔ منصوبے بہر حال یہی ہیں۔ کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ وقت کرے گا۔ پاکستانی اتھارٹیز عوام کو تسلیاں کس بل بوتے پر دے رہی ہیں؟ کہ پاکستان میں ابھی داعش کا کوئی خطرہ نہیں۔ ہماری فوج کے تو چیف آف آرمی سٹاف نے امریکہ میں کھڑے ہو کر‘ خود داعش کے خطرے کا اعتراف کرتے ہوئے‘ اسے ناکام بنانے کا اعلان کیا ہے۔