بھارت کی سابقہ قیادتیں‘ برصغیر کوتباہی سے بچانے کے لئے مختلف تدابیرکے تحت ‘ متعدد اقدامات کرتی رہیں۔ ان کی وجہ سے سارک کا تصور قبول کیا گیا اور یہ تنظیم خطے کے سات ملکوں میں باہمی رابطوں کا ڈھیلا ڈھالاذریعہ بنتی رہی۔ اب اس میں افغانستان بھی شامل ہو چکا ہے۔ نئے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی انتہاپسندی‘ شاید اسے مزید آگے نہ چلنے دے۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ مختلف اور متضاد پالیسیاں رکھنے والے ممالک‘ جب کوئی اجتماعی فورم تشکیل دیتے ہیں‘ تو اس میں بنیادی اصول یہ رکھا جاتا ہے کہ باہمی طور سے متنازعہ معاملات کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ البتہ کانفرنس کے دوران ایسے ملکوں کے نمائندوں کو راہداریوں میں بات چیت کے جو مواقع ملتے ہیں‘ ان سے فائدہ ضرور اٹھایا جاتا ہے۔ اکثر اوقات ان ملکوں کے نمائندے‘ جو براہ راست مذاکرات نہ کر پاتے ہوں‘ اجتماعی تنظیموں کے اجلاسوں کے دوران رابطے کر لیتے ہیں۔ اس طرح دوطرفہ ہٹ دھرمی بھی قائم رہتی ہے اورتبادلہ خیال کے مواقع بھی مل جاتے ہیں۔ اب تک سارک کی جتنی بھی کانفرنسیں ہوئی ہیں‘ ان کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان اور بھارت نے اٹھایا ہے۔ دونوں ملکوں کی قیادتیں‘ جب براہ راست رابطے قائم نہیں کر پاتی تھیں‘ سارک نے انہیں باہمی رابطوں کے لئے ایسا فورم فراہم کر دیا‘ جہاں ہم باضابطہ ملاقاتوں کی بجائے‘ راہداریوں میں تبادلہ خیال کر لیا کرتے تھے اور اکثر اوقات اس کا ہمیں فائدہ بھی ہوا۔ یوں لگتا ہے کہ مودی صاحب نے اب یکطرفہ طور پر‘ سارک کو بھارت کی پٹھو تنظیم بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ دہلی سے ہی یہ طے کر کے آئے تھے کہ پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ توہین آمیز سلوک کریں گے۔
پاکستان کی سفارتی ٹیم پہلے ہی اول درجے کی نہیں تھی۔ اب تو اس کا وجود ہی نہیں۔ کوئی نہیں جانتاکہ خارجہ پالیسی کے فیصلے کون کرتا ہے؟ ان پر کس کا اختیار ہے؟ اورحکمت عملی تشکیل دینے کے لئے کونسی ٹیم کام کر رہی ہے؟ اگر کچھ افراد یا کوئی ٹیم‘ سفارتی معاملات اور ان میں مضمر چالبازیوں کو سمجھنے پر مامور ہوتی‘ تو موجودہ سارک کانفرنس کے لئے26/11 کی تاریخ پڑھ کر ہی چونک اٹھتی اور پاکستان تاریخ بدلنے کا مطالبہ کر دیتا۔ واضح رہے کہ ایسی کانفرنسوں میں تمام فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں۔ کوئی ایک فریق اپنی مرضی نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ اجلاسوں کی تاریخوں کا تعین بھی۔ حالیہ سارک کانفرنس کے انعقاد پر پاکستان کو مدعو کرتے ہوئے‘ یقینی طور پر پوچھا گیاہو گا کہ کیا اس کے لئے 26نومبر کی تاریخ قابل قبول ہو گی؟ اگر ہم تاریخ بدلنے پر اصرارکرتے‘ تو مودی صاحب کو یہ میلہ لگانے کا موقع نہ ملتا۔ 26نومبر ممبئی میں دہشت گردی کے واقعات کا دن ہے اور اس دن ممبئی میں ہلاک ہونے والوں کی برسی منائی جاتی ہے۔ بھارتی میڈیا دردبھری کہانیاں دکھاتا ‘ سناتا اور پڑھواتا ہے۔ مودی نے خود اپنی تقریر میں‘ اس واقعہ کا دردبھرے انداز میں تذکرہ کر کے‘ 26نومبر کے المیے کو یاد کیا۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ دہشت گردی کے ان المناک واقعات کی یادیں تازہ کرنے کے خواہش مند تھے تاکہ پاکستان کو مطعون کیا جائے اور یہ کام نریندرمودی اور ان کے میڈیا نے موثر اندازمیں کیا۔ کچھ کہے بغیر بھی پاکستان کو خطے میں دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے ملک کا درجہ دے کر‘ اسے ہراساں کیا گیا۔ سچی بات ہے‘ ہمارے ملک کے وزیراعظم کے ساتھ کٹھمنڈو میں‘ جو توہین آمیزسلوک کیا گیا‘ وہ صرف بھارت کے عناد کا مظاہرہ تھا۔ کوئی دوسرا ملک نہ تو اس کا خواہش مند تھا اور نہ اس نے بھارت کا ساتھ دیا۔ بدقسمتی سے پاکستان کے سوا باقی سارے ملک ‘ بھارت کے دبائو میں رہتے ہیں۔ انہیں خاموش تماشائی بن کر بھارت کی سفارتی بدتمیزی دیکھنا پڑی۔ہماری سفارتی ٹیم میں‘ ذرا بھی اہلیت ہوتی‘ تو ہم خود کچھ کہنے کی بجائے کسی بھی دوست ملک مثلاً سری لنکا سے 26 نومبر کی تاریخ پر اعتراض کرا سکتے تھے اور اس طرح بھارت کو ممبئی کا سانحہ استعمال کر کے پاکستان کی سبکی کا موقع نہ ملتا۔مودی صاحب کو کرنا وہی تھا‘ جو انہوں نے کٹھمنڈو میں کیا۔ تاریخ بدل دی جاتی تو انہیں جذباتی ڈرامہ کھیل کر‘ پاکستان کو ملزم کی حیثیت سے پیش کرنے کا بہانہ نہ ملتا۔
اب آتے ہیںسارک کے بارے میں بھارت کی نئی پالیسی کی طرف۔ سارک کی تنظیم کو قبول کرنے میں بھارت کی مصلحت یہ تھی کہ اس کی آڑ میں وہ‘ پاکستان کے ساتھ معمول کے تجارتی اور سفارتی تعلقات میں‘ آہستہ آہستہ اضافہ کرتا رہے گا اور مسئلہ کشمیر کی تلخی میں وقت کے ساتھ کمی آتی جائے گی۔ پاکستان نے یہ مقصد پورا نہیں ہونے دیا۔ مودی سرکار نے غالباً آتے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کشمیر پر من مانا حل مسلط کرے گا اور پاکستان کوسارک سے نکال کراپنی ایک پٹھو تنظیم میں بدل دے گا۔ بھارت ‘ چین کا بڑھتا ہوا اثرونفوذ اور طاقت میں اضافے کو دیکھ کر‘ خطے کی سیاست میںاپنے آپ کو چین کے مقابل لانا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ سارک کو استعمال کرنے کا خواہش مند ہے۔ پاکستان کے ہوتے ہوئے سارک‘ بھارت کی پٹھو تنظیم نہیں بن سکتی۔ پاکستان کی وجہ سے دوسرے رکن ممالک بھی آواز بلند کر لیا کرتے تھے۔ اس بار یوں لگتا ہے کہ بھارت نے دیگر رکن ممالک کے ساتھ پہلے ہی لابنگ کر کے‘ انہیں اعتماد میںلے لیا تھا۔ ورنہ وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ‘نریندرمودی نے جو سلوک کیا‘ اس پر تمام اراکین یوں چپ سادھ کر نہ بیٹھے رہتے۔پہلے دن‘ دونوں لیڈر ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے رہے حتی کہ عشائیے پر بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کی۔ یوں لگتا ہے کہ رات کسی وقت‘ خطے میں امن کی خواہش مند طاقتیں حرکت میں آئیں اور دونوں ملکوں کے لیڈروں کو آمادہ کیا کہ پاکستان اور بھارت پہلے ہی‘ شدید کشیدگی کا شکار ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر چار ماہ سے شدید گولہ باری ہو رہی ہے۔ اگر یہ کانفرنس ناکام ہو گئی تو لازمی طور سے پاک بھارت کے درمیان کشیدگی میں زیادہ شدت آجائے گی۔ بہتر ہے کہ کانفرنس کو ناکامی سے بچانے کے لئے‘ دونوں فریق مصلحت سے کام لیں۔ اگلی صبح جب تفریحی مقام
پر‘ لنچ کا اہتمام ہوا‘ تو نوازشریف اور مودی دونوں کو ایک میز پر بٹھایا گیا۔ یہاں وہ پہلی بار ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے‘ مصافحہ کیا اور ساتھ ساتھ بیٹھ گئے۔ کھانے کی میز پر‘ قریباً دس منٹ تک دونوں کے درمیان بات چیت ہوئی۔ دونوں نے اپنے وفود کو‘ مشترکہ اعلان کے مسودے میں ردو بدل کی ہدایت کی‘ جس کا فیصلہ دونوں وزرائے اعظم نے دوران گفتگو کیا تھا۔ کانفرنس کے اختتام پر‘ وہ پہلی مرتبہ حاضرین کے سامنے ایک دوسرے کے قریب آئے۔ چالیس سکینڈ تک مصافحہ کرتے رہے اور پھر وزیراعظم مودی نے کوئی شگفتہ جملہ کہا جس پر دونوں لیڈر‘ بیس سکینڈ تک ہنستے رہے۔ ہال میں بیٹھے‘ پانچ سو کے قریب مہمانوں نے اس موقعے پر پرجوش تالیاں بجائیں ‘ جس سے ظاہر ہوا کہ گزشتہ دو دن تک‘ مودی اور نوازشریف میں کشیدگی کے مناظر دیکھ کر‘ حاضرین مایوس ہو گئے تھے۔ جب انہیں گرم جوشی سے ملتے دکھایا گیا تو وہ اظہار مسرت کے لئے‘دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے نمائندوں نے واضح کر دیا کہ'' وزرائے اعظم کے درمیان اس رسمی میل ملاپ کو‘ مذاکرات کا متبادل نہ سمجھ جائے۔ا گر آپ مصافحے کو مذاکرات کا متبادل سمجھتے ہیں تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے‘‘۔بھارتی نمائندوں نے واضح کیا کہ'' غیر رسمی بات چیت‘ مسکراہٹوں کے تبادلہ کو باضابطہ بات چیت اور مذاکرات نہ سمجھا جائے‘‘۔پاکستان نے توانائی کے معاملے میں تعاون کی جس تجویز پر صاد کیا ہے‘ اس پر تفصیلی بات چیت‘ آئندہ تین ماہ کے دوران ہو گی۔ سارک کے دیگر اراکین‘ وزیراعظم نوازشریف کوقائل کرتے رہے کہ وہ کم از کم انرجی ڈیل پر تھوڑی سی نرمی کا مظاہرہ کر دیں تاکہ کانفرنس مکمل ناکامی کا شکار نہ ہو جائے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی طارق فاطمی نے بھی کانفرنس سے زیادہ امیدیں نہ لگانے کا مشورہ دیا۔انہوں نے کہا '' اس پیش رفت کو بریک تھرو نہ کہا جائے‘ البتہ یہ کانفرنس مثبت نتائج کی حامل ضرور رہی‘‘۔کانفرنس اپنے قیام کے تیس سال کے بعد بھی ‘ کسی شعبے میں قابل ذکر پیش قدمی نہیں کر سکی۔ نہ اس کے ذریعے ممبران اراکین کے مابین اختلافی امور میں سے کسی ایک کا حل ڈھونڈا جا سکا۔حد یہ ہے کہ جب وزیراعظم مودی سے لائن آف کنٹرول پر ہونے والی‘ جھڑپوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بات ٹال دی۔وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ دورے پر گئے ہوئے پاکستانی صحافیوں نے جب مودی سے سوالات کئے تو انہوں نے ہر ایک کے ساتھ ہاتھ ملایا اور کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔کچھ طے پایا ہوتا تو بتاتے۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اس کانفرنس میں تنظیم ٹوٹنے سے بچ گئی لیکن مودی اپنے ارادوں میں پکے ہیں۔ انہوں نے اپنی آخری تقریر میں واضح کر دیا تھا کہ اگر ''ہم سارک کے ذریعے تعاون اور مسائل کا حل نہ کر سکے تو ہم میں سے زیادہ یا تھوڑے اراکین‘ سارک کو ایک طرف رکھتے ہوئے باہمی معاہدے کر لیں گے ‘ ‘ ۔ اصل بات یہی ہے۔بھارت کسی بھی وقت سارک کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے خطے کے دیگر تمام ملکوں کے ساتھ‘ دو طرفہ یا اجتماعی معاہدے کرنا شروع کر دے گا۔یہ اور بات ہے کہ پاکستان کو الگ رکھ کر‘ سار ک کے اراکین زمینی مواصلات کا کوئی منصوبہ‘ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکیں گے۔