ایک عمران خان نے کتنے لوگوں کو کام پر لگا رکھا ہے۔ خود وزیر اعظم‘ جنہیں سینکڑوں کام کرنا ہوتے ہیں‘ وہ بھی جب مصروف ہونا چاہیں تو ایک بیان عمران خان کے خلاف‘ جاری کرنا نہیں بھولتے۔ بیرونی دوروں میں جب صحافی ان کے ساتھ ہوں‘ تو دوران پرواز بھی عمران خان ہی موضوعِ گفتگو بنتے ہیں۔ کئی بار تو میں نے بیرونی ملکوں سے ان کے ایسے بھی بیانات پڑھے ہیں‘ جن کا موضوع‘ عمران خان تھے۔ حد یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ‘ انتہائی مشکل دورے کے خاتمے پر‘ واپس لاہور آتے ہوئے وہ‘ عمران خان کو یاد کرنا نہیں بھولے۔ اب تو عزیزی حمزہ شہباز بھی طبع آزمائی کے لئے‘ عمران خان ہی کا انتخاب کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ جب سے انہوں نے یہ نسخہ آزمانا شروع کیا ہے‘ ا ن کی تقریر میں روانی بھی آ گئی ہے اور شگفتگی بھی۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف‘ پہلے تو عمران خان کے نام کے بغیر‘ بیانات جاری کر دیا کرتے تھے مگر جب سے عمران نے دھرنے کا امرت دھارا‘ مارکیٹ کیا ہے‘ حکمران خاندان کا ہر رکن‘ اس امرت دھارے کے بغیر نہیں رہتا۔ اور تو اور عزیزہ مریم نوازکو بھی‘ جب ٹویٹر پر اظہار خیال کرنا ہوتا ہے‘ تو ان کا پسندیدہ موضوع انکل عمران خان ہی ہوتے ہیں۔ البتہ سلمان شہباز‘ اس موضوع پر طبع آزمائی کرتے کبھی نہیں دیکھے۔ اگر وہ بھی عمرانی بیانات جاری کرتے ہیں تو میں اپنی کم علمی پر معذرت خواہ ہوں۔ وہ ذہین نوجوان ہیں‘ یقیناً ان کا اندازِ بیان زیادہ شگفتہ اور تیکھا ہو گا۔ جب حکمران خاندان‘ ایک ہی شخص کو ہر وقت یاد کرتا ہے‘ تو سرکاری اور درباری ملازمین کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ تند اور تیز دھار والے بیانات دینے میں خواجہ سعد رفیق‘ سب سے آگے ہیں۔ وہ ایسا جملہ گھڑتے ہیں کہ خود خواجہ صاحب کو اس کا جتنا لطف آتا ہے‘ میرا اندازہ ہے کہ اس سے زیادہ مزہ عمران خان لیتے ہوں گے۔ عزیزم عابد شیر علی‘ پارٹی کا نشان اور شان ہیں۔ انہوں نے عمران خان کے علاوہ‘ اور بھی کئی ہدف چن رکھے ہیں اور اپنے شکار کو ایسے ایسے کچوکے لگاتے ہیں کہ نشانہ بننے والے لوگوں کو‘ ان کے زہریلے جملوں کی لت پڑ جاتی ہے بالکل ایسے‘ جیسے کچھ لوگوں کو سانپ سے ڈسوانے کا نشہ لگ جائے‘ جب تک وہ چوبیس گھنٹے سانپ سے نہیں ڈسواتے‘ ان کا بدن ٹوٹنے لگتا ہے‘ انگڑائیاں آنے لگتی ہیں‘ ہڈیاں چٹخنے لگتی ہے اور غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ میں کبھی کبھی یہ سوچ کر‘ پریشان ہو جاتا ہوں کہ جس روز عابد شیر علی‘ تہذیب و شائستگی کی بھینٹ چڑھ گئے‘ اس وقت نشہ بازوں پر کیا گزرے گی؟
جڑانوالہ میں‘ چوہدری پرویز الٰہی کی گاڑی کے سامنے‘ بھنگڑا ڈالنے والی ٹیم کے کیپٹن‘ طلال چوہدری ہوا کرتے تھے۔ مسلم لیگ کے درجنوں دروازے ہیں۔ کوئی‘ کسی بھی دروازے سے مسلم لیگ میں داخل ہو‘ اس کی آخری منزل قیادت شریف ہوتی ہے۔ کوئی جلد اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے اور کئی برسوں بھٹکتے پھر رہے ہیں‘ انہیں ابھی تک‘ منزل نہیں ملی۔ طلال چوہدری‘ ان خوش نصیبوں میں ہیں‘ جنہیں چوہدری برادران کے ڈیرے سے نکل کر‘ سیدھے رائیونڈ میں داخل ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ اگر آپ نے کسی کو مسلم لیگ کے نشے میں‘ سرشار دیکھنا ہو‘ تو وہ طلال چوہدری ہیں۔ جب وہ (ن) لیگ کا دفاع یا حمایت کر رہے ہوں تو ان کے منہ سے شعلے ہی نہیں نکلتے‘ جسم سے چنگاریاں بھی چھوٹ رہی ہوتی ہیں۔ (ن) لیگ کے عشق کا بھوت‘ کسی کسی کے سر پر سوار ہوتا ہے‘ ایسے لوگوں میں نمایاں ترین شخصیت‘ طلال چوہدری کی ہے۔ کچھ لوگ‘ (ن) لیگ کے نشے میں ڈوب کر‘ انہیں گفتگو کی دھمال ڈالتے ہوئے‘ دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں‘ وہ شام ہوتے ہی ٹی وی لگا کر بیٹھ جاتے ہیں‘ جلدی جلدی چینل بدلتے ہیں۔ سامنے ہر چینل پر طلال چوہدری براجمان نظر آتے ہیں۔ کسی کو اس میں دلچسپی نہیں ہوتی کہ وہ کیا فرما رہے ہیں۔ وہ صرف ان کے بولنے کی ادائوں پر‘ فدا ہیں اور انہیں ہر رنگ میں دیکھنے کی خاطر‘ چینل پہ چینل بدلتے ہیں۔ پاکستان میں شیخ رشید‘ مقبول ترین ٹی وی مقرر ہیں۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ ٹی وی چینلز‘ انہیں اپنے پروگراموں میں بلانے کے لئے‘ بھاری سے بھاری رقم دینے کو تیار رہتے ہیں۔ شیخ صاحب کوغیب پر اتنا یقین ہے کہ وہ کسی دوسرے سے امید ہی نہیں لگاتے۔ فنِ خطابت میں خدا نے انہیں ید طولیٰ عطا فرمایا ہے۔ دوسرے لوگ فن کے جھنڈے گاڑتے ہیں اور شیخ صاحب ید طولیٰ لہراتے ہیں۔ ید طولیٰ کو آپ کمالِ فن کا پرچم سمجھ لیجئے۔ اردو شاعروں کی پسندیدہ شخصیتیں‘ صرف دو ہیں‘ ایک زاہد اور ایک شیخ۔ میاں صاحب نے پہلے شیخ رکھا‘ اب ان کے پاس زاہد ہے۔ بہت سے لوگوں نے ہمارے شیخ رشید کی ویڈیو ریکارڈنگز کا ریکارڈ جمع کر رکھا ہے اور جب اکیلے بیٹھ کر‘ ان کا ریکارڈ لگانا ہو‘ تو پہلے نواز شریف کے زمانے کی گفتگو چلاتے ہیں اور اس کے ختم ہونے پر‘ بعد از نواز دور کی اور پھر جھوم جھوم کر گنگناتے ہیں۔
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
کچھ لوگ شیخ صاحب کی شخصیت سے اپنے اخلاق اور کردار کی حرمت بچانے کے لئے‘ ان سے پرہیز کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ فیض صاحب نے ایسے ہی لوگوں کے لئے ایک یادگار شعر لکھ چھوڑا ہے ؎
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا لیڈر ہو‘ جس نے فیض صاحب کے اس شعر سے مدد نہیں لی۔ اکثر ایسے ہیں‘ جنہوں نے کسی نہ کسی مرحلے پر‘ اپنی زندگی تباہ کی۔ ان میں نواز شریف سر فہرست ہیں۔ آپ کہیں گے کہ نواز شریف تو خدا کے فضل سے اچھے بھلے خوش حال اور آسودہ زندگی گزار رہے ہیں لیکن یہ بھی کوئی زندگی ہے؟ اکیلا عمران خان ہر
وقت ان کے کپڑے پھاڑتا رہتا ہے۔ کبھی چھیڑ کے بھاگ جاتا ہے۔ کبھی دھرنا دے کر ستاتا ہے۔ کبھی احتجاجی تحریک کی دھمکی دیتا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے نومبر کی تیس تاریخ کو انہوں نے ہوّا بنا رکھا ہے۔ وزیر اعظم روزانہ صبح اٹھ کر پوچھتے ہیں کہ تیس تاریخ کتنی دور ہے؟۔ جس اندیشے کا فیض صاحب نے اظہار کیا تھا‘ عمران اس کا اندازہ نہیں کر سکے۔ شیخ سے رسم و راہ کر بیٹھے۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کی مدد فرمائے تو فرمائے۔ آثار یہی لگتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسان عظیم کا اعتراف کرتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ شکر ہے زندگی تباہ نہ کی۔ سچ پوچھئے تو وزیر اعظم کی طرح‘ عمران خان کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے؟ گھر میں بجلی کٹی ہوئی ہے۔ اسلام آباد میں رہنے کے لئے‘ دوسرا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ کنٹینر میں دھرنا جما رکھا ہے۔ یا سوتے ہیں یا تقریر کرتے ہیں۔ تقریر کرتے کرتے سو جاتے ہیں‘ سوتے سوتے تقریر کرتے ہیں۔ ان کے پیاروں نے تو اب‘ ان کے خوابوں میں آنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ کانوں کو ہاتھ لگا کر کہتے ہیں کہ توبہ توبہ‘ عمران کے خوابوں میں جانے کا کوئی فائدہ ہے؟ جب جائو ایک ہی تقریر سننے کو ملتی ہے اور وہ ہر کسی کو دیکھ کر‘ نعرہ لگاتے ہیں ''گو نواز گو‘‘۔ ہم انہیں کئی بار بتا چکے ہیں کہ ہم نواز نہیں لیکن خدا جانے ان پر کیا بھوت سوار ہے کہ جتنے پیار کرنے والے‘ عمران کے خوابوں کا رخ کرتے ہیں‘ وہ ہر ایک کو نواز سمجھ کر‘ ایک ہی تکرار کرتے ہیں ''گو نواز گو‘‘۔ خدا کا شکر ہے کہ جاگنے کے بعد‘ خان صاحب لوگوں کو اچھی طرح پہچاننے لگتے ہیں۔ شاہ محمود‘ جہانگیر ترین اور اپنے دیگر ساتھیوں کو دیکھ کر ''گو نوازگو‘‘ کا نعرہ نہیں لگاتے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خان صاحب کی امیدیں بر لائے۔ وہ ''گو نواز گو‘‘ کی کیفیت سے شفایاب ہو جائیں اور ایسی حالت کو نہ پہنچیں کہ چلتے چلتے ہر وقت ایک ہی نعرہ لگائیں ''گو نوازگو‘‘۔ عمران خان ایک صحت مند اور توانا انسان ہیں اور ان کی قوت ارادی اتنی مضبوط ہے کہ جس دن انہوں نے ارادہ کر لیا‘ وہ ''گو نوازگو‘‘ کی کیفیت سے آزاد ہو جائیں گے لیکن اس وزیر کا کیا بنے گا؟ جس کا وظیفہ ہی عمران بن چکا ہے۔ انہیں جہاں موقع ملتا ہے‘ صحافیوں کو جمع کر کے عمران‘ عمران کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بات بنے نہ بنے۔ پھبتی چپکے نہ چپکے۔ ان کے ذہن میں جو بھی گندا‘ بھدا‘ بدصورت‘ گھنائونا‘ کراہت انگیز‘ مکروہ‘ متعفن اور کریہہ خیال آتا ہے‘ اس پر عمران خان کا نام چسپاں کر کے‘ سننے والوں کو بدمزہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے منہ کا ذائقہ اس قدر بگڑ چکا ہے کہ تازہ سالن کے ساتھ‘ روٹی بھی نہیں کھا سکتے‘ منہ کا ذائقہ ٹھیک رکھنے کے لئے سڑا ہوا سالن مانگتے ہیں۔ قدرت نے اب تک جتنے بھی خوبصورت چہرے بنائے ہیں‘ ان میں کبھی ایک خوبصورت چہرہ بنا کر‘ اسے اتنا پچھتاوا نہیں ہوا ہو گا‘ جتنا وہ یہ چہرہ بنا کر پچھتا رہی ہو گی۔ اس شخص کو دیکھ کر‘ مجھے وہ اشتہاری فلم یاد آ جاتی ہے‘ جس میں ایک انتہائی خوبصورت لڑکی‘ حسن و جمال کا نور بکھیرتے بکھیرتے‘ جب اچانک بولتی ہے تو اس کی آواز مینڈک جیسی ہوتی ہے ع
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
ہمارا ملک بھی عجیب ہے۔ لوگ گوبر کو گوئبلز کہتے ہیں۔ ان کے منہ کا مزہ بھی خراب نہیں ہوتا۔