کہتے ہیں جب اللہ تعالیٰ ساری مخلوقات کو بنا کر فارغ ہو گیا‘ تو ایک کی کمی رہ گئی تھی۔ خدا نے سوچا کہ آخری نوع کا ڈیزائن بنانے کی ذمہ داری ایک کمیٹی کے سپرد کر دی جائے۔ کمیٹی کے ڈیزائن کے مطابق جو چیز بنی‘ وہ اونٹ ہے۔ جب دنیا میں تمام اقسام کی جمہوریتیں بن گئیں تو تھکے ہوئے دانشوروں نے آخر میں‘ پاکستانی جمہوریت کا ایسا ڈیزائن تیار کیا‘ جو ابھی تک مکمل ہونے میں نہیں آ رہا۔ ہر پانچ دس سال کے بعد‘ پرانا ڈیزائن مٹا کر نیا ڈیزائن تیار کیا جاتا ہے۔ 2013ء میں جو ڈیزائن تیار ہوا‘ وہ ماضی کے تمام تجربوں سے مختلف نکلا۔ جو لوگ منتخب ہو کر‘ اسمبلیوں میں آئے۔ ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود‘ انہیں ابھی تک یہی پتہ نہیں چلا کہ حزب اختلاف کا کام کیا ہوتا ہے؟ اور حکومت کیا کرتی ہے؟ اور تو اور‘ انہیں اسمبلی کے اندر بیٹھنے کا طریقہ بھی معلوم نہیں۔ ان میں سے کچھ حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھتے ہیں اور کچھ حزب اقتدار کی لیکن تقریریں سب ایک جیسی کرتے ہیں۔ چند ماہ پہلے تو کمال ہو گیا۔ انتخابات میں ووٹ دینے والوں نے اپنی طرف سے‘ روایتی جمہوری نظام کے مطابق اسمبلیاں بنانے کی کوشش کی۔ شروع میں وہ ٹھیک ٹھاک لگ رہیں تھیں مگر دیکھتے ہی دیکھتے‘ نجانے کیا ہو گیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا۔ تمام اراکین اسمبلی کی شکلیں ایک جیسی ہو گئیں۔ تقریریں ایک جیسی ہو گئیں۔ خیالات ایک جیسے ہو گئے۔ الفاظ ایک جیسے ہو گئے۔ حزب اختلاف کے بنچ سے کوئی تقریر کرتا تو یوں لگتا کہ حزب اقتدار کا سب سے بڑا خوشامدی بول رہا ہے اور حزب اقتدار کی طرف سے کوئی بولتا‘ تو یوں لگتا کہ یہ رائیونڈ کے صنعتی گھرانے کا خاندانی مسخرہ ہے‘ جس نے بولنا صرف اس لئے سیکھا کہ وہ حکمران گھرانے کے ہر فرد کے کانوں میں رس گھولتا رہے اور بعض ارکان نے تو‘ دوسروں پر برتری اور سبقت حاصل کرتے ہوئے‘ اپنے آپ کو کچھ اور ہی بنا لیا۔ وہ عام انسانوں کی طرح بات کرنا بھی چھوڑ گئے۔
پرانے زمانے کے داستان گو‘ بادشاہ سلامت کا موڈ دیکھ کر‘ اصل کہانیاں ہی بدل دیا کرتے تھے۔ مثلاً اگر انہیں محسوس ہوتا کہ کہانی سنتے ہوئے بادشاہ سلامت کو ایک مزاحیہ کردار پسند آ گیا ہے تو وہ سناتے سناتے ہی ساری کہانی بدل کر‘ اپنے قصے کے کردار کو بھی مزاحیہ بنا دیتے۔ بادشاہ سلامت آزردہ ہوتے تو داستان گو‘ مزاحیہ کہانیوں کو ہی غم آلود اور دردناک بنا دیتے۔ اعتراض پر جواب دیتے کہ ہم اپنے بادشاہ کے غلام ہیں یا کہانی کے؟ گزشتہ ڈیڑھ سال سے ہمارے ملک کے بادشاہ سلامت کا موڈ‘ عمران خان کی آواز‘ صورت اور گفتگو‘ غرض ہر چیز سے خراب ہو جاتا ہے۔ انہیں صرف وہی شخص اچھا لگتا ہے جو بڑھ چڑھ کر‘ عمران خان کی خرابیاں تلاش کرے۔ بادشاہ سلامت کا مزاج‘ اعتدال پر رکھنے کے لئے سمجھدار درباری ہر محاورے‘ روایت اور تاریخی واقعے کو جیسے چاہتے‘ توڑ مروڑ کے بیان کر دیتے۔ پچھلے دنوں‘ عمران خان نے کہہ دیا کہ وہ اپنی احتجاجی تحریک کو اگلے مرحلے میں لے جاتے ہوئے‘ ایک ایک شہر بند کرائیں گے۔ بادشاہ سلامت کو بند کا لفظ بہت برا لگا ہو گا۔ ہر درباری کی کوشش تھی کہ اس لفظ کو مزید نفرت انگیز بنانے کے لئے تاریخی حوالہ تلاش کیا جائے۔ حوالہ ہاتھ نہ لگا تو موصوف نے خود ہی جملہ گھڑ کے‘ جنرل اروڑہ کے منہ میں ڈال دیا۔ جملہ یہ تھا کہ ''جنرل اروڑہ‘ بھی لاہور بند کرانے آیا تھا لیکن اسے منہ کی کھانا پڑی‘‘۔ درباری جملہ مجھے پوری طرح یاد نہیں رہا۔ ایسی چیزیں یاد رکھنے کے لائق بھی نہیں ہوتیں۔ بہرحال میں نے جوں توں کر کے‘ اس جملے کو یاد کیا اور اروڑہ اور عمران‘ دونوں کو جس طرح بند کے لفظ سے باندھ کر‘ جملہ گھڑا گیا‘ اس کا مفہوم بیان کر دیا لیکن جنرل اروڑہ‘ عمران خان اور تاریخ‘ تینوں کو بند کے لفظ میں جوڑتے ہوئے‘ تاریخ کی جو درگت بن گئی‘ وہ اپنی جگہ ایک نئی کہانی ہے۔
کہانی کچھ یوں بن گئی کہ 1965ء میں لاہور پر حملہ کرنے والے بھارتی فوج کے یونٹ کا کمانڈر جنرل اروڑہ نہیں‘ جوگندر سنگھ ڈھلوں تھا اور لاہور کے محاذ پر حملے کرنے والی فورس کا کمانڈر‘ جنرل نرنجن پرشاد تھا۔ ہو سکتا ہے لاہور پر قبضے کا خواب دیکھتے ہوئے‘ اس نے کوئی نہ کوئی بڑ ہانکی ہو‘ لیکن لاہور کے بارے میں جس بھارتی جنرل سے ایک مشہور جملہ منسوب ہے‘ اس کا نام جنرل چوہدری تھا۔ وہ بھارتی فوج کا سربراہ تھا۔ اور مشہور جملہ یہ ہے ''میں لاہور جم خانہ میں جا کر ایک چھوٹا لگائوں گا‘‘۔ لاہور میں چھوٹا تو کسی بھارتی جنرل کو نصیب نہ ہو سکا؛ البتہ لاہور جم خانہ میں شراب بند ہو گئی۔ کلب انتظامیہ نے بھارتی جنرلوں کے آئندہ خوابوں کی دنیا اجاڑ کے رکھ دی۔ نہ جم خانہ کلب میں چھوٹا رہا اور نہ بھارتی جنرلوں کے خواب رہ گئے۔ اب جنگ لڑ کر‘ چھوٹا لگانے کے لئے بھارتی فوجیوں کو چین سے جنگ کرنا پڑے گی۔ چین والے‘ انہیں موتھائی تو ضرور پلا دیں گے مگر جنگی قیدیوں کی حیثیت میں۔ اب ہم اپنے وزیر کے جنرل اروڑہ کو ڈھونڈتے ہیں۔ جنرل اروڑہ نے 1965ء کی جنگ میں حصہ ضرور لیا تھا مگر اس کی یہ حیثیت نہیں تھی کہ لاہور پر حملہ کرنے والی فوج کی قیادت کرتا۔ تاریخ میں توڑ پھوڑ کر کے ہمارے بادشاہ سلامت کے درباری نے جو تہلکہ خیز جملہ تیار کیا‘ اس پر بادشاہ خوش ہوئے یا نہیں؟ اصل حقیقت باخبر لوگ جانتے ہیں۔ وہ فن خوشامد کا نیا شہ پارہ پڑھ کر‘ یقیناً محظوظ ہوئے ہوں گے کیونکہ لاہور پر حملہ کرنے والے بھارتی جنرل کا نام اروڑہ نہیں‘ جے ایس ڈھلوں تھا۔ جنرل اروڑہ نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تھا۔ یقیناً اسے پتہ ہو گا کہ اس کی منزل لاہور نہیں‘ ڈھاکہ ہے اور جو شخص فوج میں جنرل کے منصب تک جا پہنچا ہو‘ کیسے یہ سوچ سکتا ہے کہ ڈھاکہ پر حملہ کر کے‘ وہ لاہور بند کر دے گا۔ مجھے یقین ہے وزیر اعظم‘ تاریخ اور اس کے کرداروں کو اچھی طرح جانتے ہیں لیکن وہ اپنے درباریوں کی دل آزاری نہیں کرتے۔ ورنہ خالص پنجابی انداز میں پوچھ لیتے ''اوئے! اروڑہ نے ڈھاکہ فتح کر کے‘ لاہور بند کرانا سی‘‘؟ وزیر موصوف نے تو اپنی طرف سے سوچا ہو گا کہ بادشاہ خوش ہو کر‘ مجھے وزیر دفاع بنا دیں گے۔ خواجہ آصف خوش قسمت نکلے۔ تاریخ ان کا ساتھ دے گئی۔
ایسے لوگوں کو دیکھ کر‘ مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ فوج میں کیپٹن بننے کے لئے بھی‘ امیدوار کو تاریخ پڑھنا پڑتی ہے۔ سول سروس میں گریڈ سترہ کے لئے امتحان دینے والے افسر کو حالیہ تاریخ تفصیل سے پڑھنا پڑتی ہے اور جو افسر سیکرٹری بن کر‘ وزیر کی ماتحتی کرتا ہے‘ وہ اچھا خاصا سکالر بن چکا ہوتا ہے۔ یہ کیسا سسٹم ہے؟ جس میں ایک وفاقی وزیر کو قومی تاریخ کی دو المناک جنگوں میں دشمن کے نمایاں کرداروںکا ہی پتہ نہیں؟ اگر وزیروں کا بھی چھوٹا سا امتحان لیا جاتا ہو تو وہ مدبرانہ چہرہ بنا کر‘ ٹی وی کیمروں کے سامنے‘ دیدہ دلیری سے جنرل چوہدری کا جملہ‘ جنرل اروڑہ کے نام نہ لگاتا۔ اس طرح کے جملے‘ وطن سے محبت کرنے والوں کے سینے میں‘ تیر کی طرح لگتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے سینے میں بھی خلش بن کر‘ رس بس جاتے ہیں اور یہی خلش وطن کے دفاع کو مستقبل میں ناقابل تسخیر بنانے کا عزم دیتی ہے۔ اپنی تاریخ کا ایسے کھلنڈرے انداز میں حوالہ‘ وہ بھی ایک وفاقی وزیر کے منہ سے‘ سن کر ہنسی نہیں‘ رونا آتا ہے۔ ایسے لوگ‘ عمران کی ٹیم میں ہوتے تو یہ نعرہ موزوں ہوتا کہ ''رو عمران رو‘‘ لیکن ایسا شخص تو وزیر اعظم کی ٹیم میں نکلا۔ آگے میں کیا لکھوں؟
عمران خان کو لاہور بند کرانے میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ یہ ان کا اپنا شہر ہے۔ اس کے شہریوں سے بھی‘ وہ عام پاکستانیوں کی طرح محبت کرتے ہیں‘ جو ہر اچھے لیڈر کی پہچان ہوتی ہے۔ پرانے زمانے میں‘ جب فیصلے جنگوں کے ذریعے ہوا کرتے تھے‘ تو بادشاہ کے خلاف لڑنے والا لیڈر‘ اپنے مخالف کے محلات کو ہدف بناتا۔ عمران خان کوئی شہر بند کرنے کا دعویٰ کرتے‘ تو وہ کہتے کہ ''میں رائیونڈ بند کرا دوں گا‘‘۔ لاہور بند کرنے سے انہیں کیا ملتا؟ عمران خان نے گزشتہ سو دنوں میں‘ سب سے اچھا کام یہ کیا ہے کہ اسمبلیوں میں جا کر‘ اپنی اپنی شناخت بھولنے والوں کو دوبارہ یاد دلا دیا ہے کہ کون حزب اختلاف میں ہے اور کون حزب اقتدار میں؟ ملک میں ایسی فضا پیدا ہو گئی کہ اب پارلیمنٹ میں بیٹھی ہر پارٹی‘ سڑکوں پر آ کر حزب اختلاف بننے کے چکر میں پڑ گئی ہے۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ اگلے چند روز میں مولانا فضل الرحمان‘ آصف زرداری اور وزیر اعظم نواز شریف کے حق میں تاریخی تقریر کرنے والے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ‘ سب کے سب عمران خان سے بڑھ چڑھ کر‘ نواز حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کریں گے کہ ''ہم نے اس آمرانہ طرز حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے‘ بڑھ چڑھ کر قربانیاں دی ہیں‘‘۔ اور رہ گئے جنرل اروڑہ فیم وزیر‘ تو ان کے پاس قربانیوں کی ایک بھاری بھرکم فائل موجود ہے۔ وہ دوبارہ اسے کھول کر‘ آنے والے وزیر اعظم کے سامنے رکھ دیں گے۔