جن لوگوں نے بروٹس کی قلابازی پرجشن منائے ‘اسے بنیاد بناتے ہوئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں‘ فوج کے خلاف جی بھر کے بھڑاس نکالی اور نعرے لگائے تھے کہ پارلیمنٹ نے متحد ہو کر جمہوریت کو بچا لیا ہے۔ جب ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنا دھرنا ختم کیا‘ تو حکمرانوں کے گٹھ جوڑ نے باقاعدہ جشن منائے کہ اب ''خطرہ‘‘ ٹل گیا ہے۔ جمہوریت بچ گئی ہے۔ اب چند روز میں معاملات ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔ ہم سب ڈٹ کر اپنی مرضی سے راج کریں گے۔ لیکن عمران خان نے نہ تو دھرنا ختم کیا اورنہ اپنی تحریک کوروکا۔ دھرنے کا تسلسل برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے‘ ملک کے دوسرے شہروں میں بھی جلسوں کا اعلان کر دیا۔ یہ جلسے دھرنوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوئے۔ سب حیران تھے کہ جس تحریک کو حکمران اپنی فہم کے مطابق سمجھ رہے تھے کہ ختم ہو گئی‘ وہ دھرنوں سے بھی زیادہ طاقتور ہو کر نکلی۔ عمران خان نے انتہائی قلیل وقت کے نوٹس پر‘ جلسے کا اعلان کیا اور جہاں بھی گئے‘ اس شہر کی تاریخ بدل کے رکھ دی۔ ہر جگہ سے ایک ہی آواز آئی کہ یہ اس شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم الشان جلسہ تھا۔ اپنی دانست میں تحریک ختم ہونے پر‘ جشن منانے والوں نے ملتان کے ضمنی الیکشن میں بزعم خود عمران کا غرور خاک میں ملانے کی ٹھانی۔ اپنے اس وقت کے ہیرو‘ جاوید ہاشمی کو درپردہ امیدوار بنا کر ساری سرکاری مشینری ان کی انتخابی مہم میں جھونک دی۔اس مہم کا کلائمیکس وہ جلسہ تھا‘ جو عمران نے ملتان میں منعقد کیا۔ جلسہ کیا تھا؟ ایک بے پایاں طوفان تھا۔ ملتان کے تاریخی شہر میں بڑے بڑے لیڈروں کے اجتماع دیکھے ہیں۔ لیکن عمران کے اس جلسے نے‘ سارے ریکارڈ توڑتاڑ کے ان کے پرزے اڑا دیئے۔ جلسے کا ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ سٹیڈیم کی وسعتیں کم پڑ گئیں اور جلسہ ختم ہونے کے قریب جب ہجوم نے سٹیڈیم سے باہر نکلنا شروع کیا‘ تو خلقت اس بری طرح سے لڑکھڑائی کہ سٹیڈیم کے ایک بڑے حصے میں کسی کو اپنا ہوش نہ رہا اور تبدیلی کی امیدوں میںسرشار‘ پرجوش عوام نے حکمرانوں کے اوسان خطا کر دیئے۔ کئی ایک جوانوں نے شہادتیں پیش کیں۔ عمران سارے شہیدوں کے گھر تعزیت کے لئے گئے۔ پہلے ہی گھر میں انہوں نے‘ شہید کے والد کوکچھ رقم دینے کی کوشش کی‘ تو اس نے عمران کا ہاتھ تھام کرکہا ''میرا بیٹا نہادھو کر ‘ اُجلے کپڑے پہن کے بڑے شوق سے نیا پاکستان بنانے گھر سے نکلا تھا۔ عمران خان! آپ سے مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ میرے بیٹے کو بھی آپ سے کچھ نہیں چاہیے تھا۔ اس کی صرف یہی تمنا تھی کہ وہ نیا پاکستان بنائے گا۔ آپ اس کے لئے نیا پاکستان بنا دیں۔ میں سمجھوں گا ‘ میرے بیٹے کی شہادت قبول ہو گئی۔‘‘ جس تحریک میں لوگ اپنے فرزندوں کا خون بہا کر بھی‘ قوم کی اجتماعی منزل سے نظریں نہ ہٹائیں‘ اس تحریک کو کون روک سکتا ہے؟ اور کوئی نہیں روک سکے گا۔ نہ پولیس‘ نہ سرکاری اہلکار‘ نہ غنڈے‘ نہ حکومت کی طاقت اور نہ مخالفین کے گٹھ جوڑ۔ ایسی تحریکیں آگے بڑھنے کے لئے ہوتی ہیں۔ عمران نے عوام کے ساتھ امید کا جو رشتہ جوڑ لیا ہے‘ وہ سب رشتوں سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہوتا ہے۔ اس رشتے میں لیڈر اور پبلک محبت اور نفرت کی انتہا پر چلے جاتے ہیں۔ لیڈر‘ اگر اپنے اعلان کردہ راستے پر قائم رہے‘ تو عوام اس کے لئے جان دے دیتے ہیں اور اگر راستہ بدل جائے‘ تو اس کی جان کے دشمن بھی بن جاتے ہیں۔ عمران نے بہت مہنگا سودا کیا ہے۔ خون کے نذرانے یونہی پیش نہیں کئے جاتے۔ بہت بڑی توقعات ہوتی ہیں۔ بہت بلند عزائم ہوتے ہیں۔ بہت بڑے خواب ہوتے ہیں۔ یہ خواب دکھانے والا لیڈر اگر اپنے بتائے ہوئے راستے پر‘ چلتا رہے تو اس کے پیچھے چلنے والے لاکھوں لوگ اپنی جانیں دینے کو تیار رہتے ہیں۔ جیسے وہ عمران کے لئے دے رہے ہیں۔ دوسری کسی چیز کے لئے وہ گنجائش نہیں چھوڑتے۔ عمران کو یا نیا پاکستان بنانا پڑے گایا عوام سے بڑھ چڑھ کر قربانی دینا ہو گی۔ ایسے رشتے میں سمجھوتوں کی گنجائش نہیں رہتی۔
جیسے جیسے عوام اور عمران کے رشتے میں‘ گہرائی آتی جا رہی ہے اور اس کے پیروکاروں کا خون اس میں شامل ہوتا جا رہا ہے‘ میں بار بار انتباہ کر رہا ہوں کہ جب عوام کی مایوسیاں اور امیدیں انتہائوں کو پہنچ جائیں‘ تو بچائو کا راستہ نہیں رہ جاتا۔ یا عوام‘ منزل پر پہنچ کر دم لیتے ہیں یا قربانیوں کا سلسلہ برقرار رکھتے ہیں۔ نہ وہ پیچھے ہٹتے ہیں‘ نہ اپنے لیڈر کو ہٹنے دیتے ہیں۔ تحریک میں شامل ہونے والے سب کے سب لیڈر‘ ایک جیسے مخلص نہیں ہوتے۔ بہت سے دودھ پینے والے مجنوں ہوتے ہیں‘ جو ہر قیمت پر جلدازجلد اقتدار حاصل کرنے یا اس میں حصہ لینے کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ کئی لیڈروں اور پارٹیوں کو چھوڑتے ہوئے عمران تک پہنچے تھے۔ جیسے ہی عمران نے انہیں اپنی پارٹی میں عزت دی‘ عوام نے انہیں عمران کا ساتھی سمجھ کر ان کی بھرپور پذیرائی کی۔ ان کا احترام کیا۔ ان سے محبت کی۔ لیکن جیسے ہی انہیں‘ حکمران طبقوں کی طرف سے کچھ ملنے کی امید ہوئی‘ انہوں نے چند لمحوں میں اپنا رخ بدل کے‘ اسی لیڈر کے خلاف زہرفشانی شروع کر دی‘ جس کی وہ ایک دن پہلے تعریفیں کر رہے تھے۔ عمران خان کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ جو صدمہ ان کے ساتھی نے پہنچایا تھا‘ اسے گہری چپ میں دفن کر کے بیٹھ گئے۔ اس کے بعد جو کچھ کیا‘ عوام نے کیا۔ وہ حکومتی وسائل اور اپنی ذاتی ساکھ (جو کبھی تھی) پہ بھروسہ کرتے ہوئے‘ اپنے شہر کے ضمنی انتخاب میں اترے اور عوام نے ان کی وہ درگت بنائی کہ وہ قصہ پارینہ بن کر رہ گئے۔ سیاسی تاریخ میں اس طرح کا انجام یا رفیق باجوہ کا دیکھا ہے یا جاویدہاشمی کا۔ لیکن عوامی تحریکوں میں صرف ایک رفیق باجوہ یا ایک جاوید ہاشمی نہیں ہوتے‘ کئی اور بھی ہیں اور عمران خان کے ساتھ بھی بہت سے ہیں۔ بہت سے جلد منزل مراد پانے کی خاطر آئیں گے بھی۔عمران نے عوام کے ذہنوں اور جذبوں میں جو تبدیلی برپا کر دی ہے‘ اس کی موجودگی میں ان کی پارٹی کا کوئی بھی لیڈر اس قابل نہیں کہ ان کی عوامی حمایت میں کوئی کمی لا سکے۔ جو جائے گا‘ آسمان سے گرے گا اور کھجور میں اٹک جائے گا۔ کسی میں یہ طاقت نہیں رہ گئی کہ وہ عمران کو بلیک میل کر سکے اور نہ ہی ان میں سے کسی کے پاس اپنے دم قدم پر‘ الیکشن جیتنے کی ہمت ہے۔ الیکشن وہی جیتے گا‘ جسے عمران کے ووٹ ملیں گے اور جو عمران کو دھوکہ دے کر انتخابی میدان میں اترے گا‘ اس کا حساب خود عوام کر کے دکھا دیں گے۔ عمران کے لئے مصلحت ‘ مراجعت اور سمجھوتے کی کو ئی گنجائش نہیں رہ گئی۔ لیڈرکے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عوام کو ازسرنو عام انتخابات کا موقع حاصل کر کے دے۔ عوام اپنی حسرتیں نکالنے کو بے تاب ہیں۔ اس مرتبہ ووٹ کا حق‘ عوام پوری طاقت سے استعمال کریں گے۔ اپنا ووٹ بیلٹ بکس میں ڈال کر وہ اسے لاوارث نہیں چھوڑیں گے۔ وہ اس کا پہرہ دیں گے۔ تعاقب کریں گے اور جب تک ان کا ووٹ نتائج کا حصہ نہیں بنتا‘ اسے چوراچکوں کے پاس لاوارث نہیں چھوڑیں گے۔ عوام اس حالت میں آ چکے ہیں۔ ان پر شک و شبہ مت کریں۔ بھروسہ صرف انہی پر کیا جاتا ہے‘ جو خون کے نذرانے پیش کرنے پرتیار رہتے ہیں۔ 1970ء میں بھٹو صاحب کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ اچھے بھلے لوگ بھی کہتے تھے کہ'' بھٹو کھمبے کو بھی ٹکٹ دے تو وہ کامیاب ہو جائے گا۔‘‘ ایسا ہوا بھی۔ بھٹو نے بے شمار ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیئے‘ جن کی حیثیت کھمبے ہی کی تھی‘ لیکن وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ لاہور میں ایک صاحب ڈاکٹر محمودعباس بخاری تھے۔ پارٹی ورکروں نے‘ ان کی دکان پر پیپلزپارٹی کا جھنڈا لہرا دیا۔ اتنی سی بات پر فیصلہ ہوا کہ انہیں لاہور سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جائے۔ آخری مرحلے پر پیپلزپارٹی کا ایک پرانا اور جانا پہچانا‘ ورکر ٹکٹ کی درخواست لے آیا۔ بات بھٹو صاحب تک پہنچی تو انہوں نے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ پرانے کارکن کو دے دیا اور ڈاکٹر صاحب کو قومی اسمبلی کا۔ڈاکٹر صاحب منہ بنا کر گھر بیٹھ گئے۔ کارکنوں نے زبردستی دستخط کرا کے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے۔ ڈاکٹر صاحب ایک دن ووٹ مانگنے نہیں نکلے۔ انتخابی نتائج کی رات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ میں‘ کئی دیگر امیدواروں کی طرح مولانا کوثرنیازی کے حلقے کی دیکھ بھال بھی کر رہا تھا۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ صبح کی اذان کے ساتھ ہی میں بھاگم بھاگ مولانا کی خوشی میں شریک ہونے کے لئے کوٹ لکھپت جیل جا پہنچا۔ خبر جیل میں بھی پہنچ چکی تھی۔ مولانا کوسپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں بلا کر بٹھا دیا گیا تھا۔ جیل میں مٹھائیاں چل رہی تھیں۔ میں انہیں مبارکباد دے کر بیٹھا ہی تھا کہ جیل کا سپاہی ایک وزٹنگ کارڈ لے کر آیا۔ کارڈ پر چھپا ہوا تھا ''ڈاکٹر محمود عباس بخاری۔ ایم این اے۔‘‘ مولانا کو جیل کے اندر بھی پتہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی انتخابی مہم ہی نہیں چلائی۔ انہوں نے تعجب سے دریافت کیا کہ ''یہ تو بھٹو صاحب اور ووٹروں سے ناراض تھے۔ انہوں نے سورج نکلنے سے پہلے یہ کارڈ کہاں سے چھپوا لیا؟‘‘ بھٹو صاحب نے جتنے آزمودہ اور بار بار اسمبلیوں میں ‘آنے والے امیدواروں کو دعوتیں دے کر پارٹی میں بلایا‘ وہ بھٹو صاحب کے ووٹوں پر جیت کر آ گئے۔ اس کے بعد وہ بھٹوصاحب کے نہیں رہے۔ پانچ سات کو چھوڑ کر‘سب نے ضرورتوں کی غلامی اختیار کر لی۔ بھٹو صاحب نے جیل کی کوٹھڑی میں بیٹھ کر جو کتاب لکھی‘ اس میں یہ بات مانے کہ ''میں استحصالی طبقے کے لوگوں پر بھروسہ کر کے‘ عوام کی امیدیں پوری نہ کر سکا۔‘‘ میں نہیں چاہتا کہ عمران خان کو بھی ایسے ہی المناک تجربے سے گزرنا پڑے۔ عمران خود کہتے ہیں کہ انہوں نے زندگی میں سب کچھ پا لیا۔ ہر خواہش پوری کر لی اور بطور کرکٹر تاریخ میں بھی ایک مقام بنا لیا۔ ایک ہی مقام باقی رہ گیا ہے کہ 20کروڑ عوام کی قیادت کر کے‘ انہیں. ایک باعزت اور طاقتور قوم میں بدل دیں یا اس کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملیں‘ لیکن عوام سے بے وفائی کا داغ نہ لگوائیں۔